"مسودہ:رؤیت فریقین کی نگاه میں" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(«'''رؤیت فریقین کی نگاه میں''':رؤیت، ظاهري آنكھ سے اللہ تعالى كو دىكھنا هے۔ متكلمىن ميں رؤيت كے وقوع اور عدم امکان قوع کے لحاظ سے اختلاف پائے جاتے ہىں،اہل سنت ،معتزلہ، اور إباضىہ کے علاوہ امكان كے قائل ہیں۔جبکہ مسلمانوں كے دىگر فرقے (معتزلہ...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''رؤیت فریقین کی نگاه میں''':رؤیت، ظاهري  آنكھ سے اللہ تعالى كو دىكھنا هے۔ متكلمىن ميں  رؤيت  كے وقوع  اور عدم امکان قوع  کے  لحاظ سے اختلاف پائے جاتے ہىں،اہل سنت ،معتزلہ، اور إباضىہ  کے علاوہ  امكان كے قائل ہیں۔جبکہ  مسلمانوں كے دىگر  فرقے (معتزلہ، امامىہ، زىدىہ اور إباضىہ)  بطور مطلق دنىا وآخرت دونوں ميں نفى رؤىت اور اس كے وقوع كے محال ہونے كا قائل ہىں۔
'''رؤیت فریقین کی نگاه میں''':رؤیت، ظاهري  آنكھ سے اللہ تعالى كو دىكھنا هے۔ متكلمىن ميں  رؤيت  كے وقوع  اور عدم امکان قوع  کے  لحاظ سے اختلاف پائے جاتے ہىں،اہل سنت ،معتزلہ، اور إباضىہ  کے علاوہ  امكان كے قائل ہیں۔جبکہ  مسلمانوں كے دىگر  فرقے (معتزلہ، امامىہ، زىدىہ اور إباضىہ)  بطور مطلق دنىا وآخرت دونوں ميں نفى رؤىت اور اس كے وقوع كے محال ہونے كا قائل ہىں۔
اشاعرہ نے رؤىت كے ثبوت پر عمدہ استدلال آىات وراىات سے كى ہے ىعنى دلىل نقلى سے كى ہے۔ ابو الحسن اشعرى نے مذكورہ نقلى ادلة  كے علاوہ  عقلى دلىل سے بھى استدلال كىا ہے۔
اشاعرہ نے رؤىت كے ثبوت پر عمدہ استدلال آيات وراىات سے كى ہے ىعنى دلىل نقلى سے كى ہے۔ ابو الحسن اشعرى نے مذكورہ نقلى ادلة  كے علاوہ  عقلى دلىل سے بھى استدلال كىا ہے۔
جبکہ معتزلہ نے  عدم امكان رؤىت  پر دليل عقلي  اور دلىل نقلى  دونوں سے كى ہے۔
جبکہ معتزلہ نے  عدم امكان رؤىت  پر دليل عقلي  اور دلىل نقلى  دونوں سے كى ہے۔
عقلى اعتبار سے ان كے دلیل كو اس بىان كے ساتھ خلاصہ كىا جاسكتا ہے:
عقلى اعتبار سے ان كے دلیل كو اس بىان كے ساتھ خلاصہ كىا جاسكتا ہے:
سطر 95: سطر 95:
چنانچه  آمدى نے اس طرح تعریف کی هے ((ىہ اىسا كمال ہےجس كے ساتھ نفس كو  -عقلى اعتبار سے خبر ىا دلىل كے سبب-  شئى معلوم سے  مزىد كشف حاصل ہوتا ہے)) <ref>آمدی، سیف الدین، غاىة المرام ۱۶۶</ref>۔   
چنانچه  آمدى نے اس طرح تعریف کی هے ((ىہ اىسا كمال ہےجس كے ساتھ نفس كو  -عقلى اعتبار سے خبر ىا دلىل كے سبب-  شئى معلوم سے  مزىد كشف حاصل ہوتا ہے)) <ref>آمدی، سیف الدین، غاىة المرام ۱۶۶</ref>۔   
اور غزالى نے اس طرح تعریف کی هے: ((رؤىت اىك نوع كشف اور علم ہے، لىكن ىہ علم سے زىادہ تام اور واضح تر ہے)) <ref>طوسي، قواعد العقائد، ص۱۷۱۔</ref>.   
اور غزالى نے اس طرح تعریف کی هے: ((رؤىت اىك نوع كشف اور علم ہے، لىكن ىہ علم سے زىادہ تام اور واضح تر ہے)) <ref>طوسي، قواعد العقائد، ص۱۷۱۔</ref>.   
پھر آمدى ادراك سے حاصل ہونے والے كشف كى یوں وضاحت كرتا ہے، اور كہتا ہے: ((حواس ظاہرى سے قطع نظر نفس كے ہاں حاصل صورت اور نفس كے نزدىك معلوم ہو لىكن حواس ظاہرى كے ساتھ ان دونوں ميں فرق پائے جاتے ہىں۔
پھر آمدى ادراك سے حاصل ہونے والے كشف كى یوں وضاحت كرتا ہے، اور كہتا ہے: ((حواس ظاہرى سے قطع نظر نفس كے ہاں حاصل صورت اور نفس كے نزدىك معلوم ہو لىكن حواس ظاہرى كے ساتھ ان دونوں ميں فرق پائے جاتے ہىں۔
پس ىہ جو نفس  كو حواس ميں سے ہر اىك سے  زائد كمال حاصل ہو  اس كو ادراك كها جاتا  ہے۔جىسا كہ پہلے بىان ہوا۔
پس ىہ جو نفس  كو حواس ميں سے ہر اىك سے  زائد كمال حاصل ہو  اس كو ادراك كها جاتا  ہے۔جىسا كہ پہلے بىان ہوا۔
سطر 103: سطر 102:
اور اس كا منكر عدل وانصاف سے خارج  ہے، كجى اور انحراف كى روش پر گامزن ہے۔
اور اس كا منكر عدل وانصاف سے خارج  ہے، كجى اور انحراف كى روش پر گامزن ہے۔
اور جو شخص اس كلام كے رموز سے آشنا ہوا وہ ابو الحسن كے اس قول كى گہرائى تك پہنچ سكتا ہے: ((ادراك علم كا اىك مخصوص قسم ہے لىكن ىہ موجودات كے علاوہ  كسي اور شئي  كے ساتھ تعلق پىدا نہيں كرتا))۔
اور جو شخص اس كلام كے رموز سے آشنا ہوا وہ ابو الحسن كے اس قول كى گہرائى تك پہنچ سكتا ہے: ((ادراك علم كا اىك مخصوص قسم ہے لىكن ىہ موجودات كے علاوہ  كسي اور شئي  كے ساتھ تعلق پىدا نہيں كرتا))۔
اور جب ىہ جان لىا تو لا محالہ اللہ تعالى كے ليے حواس باصرہ، بلكہ اس كے غىر ميں اپنى ذات اورصفات كے بارے ميں نقص وحدوث كے موجب كے بغىر  اپنے نفس ميں قائم علم كے ساتھ اس سے جو كچھ حاصل ہوا كشف زائد  خلق كرنا عقل جائز قرار ديتى ہے،اور اسى كو اہل حق ادراك كا نام دىتا ہے)) آمدی، یوسف، غاىة المرام: ۱۶۶- ۱۶۷۔   ۔
اور جب ىہ جان لىا تو لا محالہ اللہ تعالى كے ليے حواس باصرہ، بلكہ اس كے غىر ميں اپنى ذات اورصفات كے بارے ميں نقص وحدوث كے موجب كے بغىر  اپنے نفس ميں قائم علم كے ساتھ اس سے جو كچھ حاصل ہوا كشف زائد  خلق كرنا عقل جائز قرار ديتى ہے،اور اسى كو اہل حق ادراك كا نام دىتا ہے)) <ref>آمدی، یوسف، غاىة المرام: ۱۶۶- ۱۶۷۔</ref> ۔
اور انہوں نے اس علمى رؤىت ىا علمى ادراك کی اثبات  پر  ان احادىث سے استدلال كىا جو كہتى ہےكہ نبى پاك صلى اللہ علىہ وآلہ اپنے پىچھے وىسےدىكھتے تھے  جىسے آپ اپنے سامنے  كى چىزوں كو دىكھتے تھے۔
اور انہوں نے اس علمى رؤىت ىا علمى ادراك کی اثبات  پر  ان احادىث سے استدلال كىا جو كہتى ہےكہ نبى پاك صلى اللہ علىہ وآلہ اپنے پىچھے وىسےدىكھتے تھے  جىسے آپ اپنے سامنے  كى چىزوں كو دىكھتے تھے۔


سطر 127: سطر 126:
3:  رؤىت وہاں ممكن هے  جہاں مرئي  كے ليے جہت اور مكان ہو، اور مجرد نا  ہو كىونكہ ىہ چیزین  رؤىت  کے تحقق كى بنىاد ی شرط ہیں۔
3:  رؤىت وہاں ممكن هے  جہاں مرئي  كے ليے جہت اور مكان ہو، اور مجرد نا  ہو كىونكہ ىہ چیزین  رؤىت  کے تحقق كى بنىاد ی شرط ہیں۔
نتیجه: جب اللہ تعالى  زات  اقدس جہت اور مكان  سے  مجرد و منزّہ ہے تو اس کے لیے رؤىت واقع ہونا محال ہے۔
نتیجه: جب اللہ تعالى  زات  اقدس جہت اور مكان  سے  مجرد و منزّہ ہے تو اس کے لیے رؤىت واقع ہونا محال ہے۔
دليل كا خلاصة: نہاىت مختصر اور مفىد بىان كے ساتھ: وجوب كى دلىل اس كى رؤىت كى نفى كى دلىل ہے۔
دليل كا خلاصة: نہاىت مختصر اور مفىد بىان كے ساتھ: وجوب كى دلىل اس كى رؤىت كى نفى كى دلىل ہے۔


سطر 140: سطر 138:


==== قرآني آىات سے  استدلال ====   
==== قرآني آىات سے  استدلال ====   
پہلی آیتلَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَار وَ هُوَ اللَّطِيفُ الخْبِير <ref>سورۃ  الانعام: 103</ref>. (نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے)۔
===== پہلی آیت =====
لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَار وَ هُوَ اللَّطِيفُ الخْبِير <ref>سورۃ  الانعام: 103</ref>. (نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے)۔
دلىل نقلى ميں سے ىہ سب سے اہم دلىل ہے جس سے انہوں نے استدلال كىا۔
دلىل نقلى ميں سے ىہ سب سے اہم دلىل ہے جس سے انہوں نے استدلال كىا۔
قاضى  عبد الجبار معتزلى كہتا هے: ((لغت کی اعتبار  سے ادراك اور رؤىت  ميں کوئی  فرق نہيں ہے۔ تو ہم ىقىن سے كہہ سكتے ہىں كہ اللہ تعالى كو نگا ہىں دىكھ نہيں سكتى  ،یعنی رويت نهيں كرسكتيں)) <ref>المختصر فى اصول الدىن ۳۳۷</ref>۔
قاضى  عبد الجبار معتزلى كہتا هے: ((لغت کی اعتبار  سے ادراك اور رؤىت  ميں کوئی  فرق نہيں ہے۔ تو ہم ىقىن سے كہہ سكتے ہىں كہ اللہ تعالى كو نگا ہىں دىكھ نہيں سكتى  ،یعنی رويت نهيں كرسكتيں)) <ref>المختصر فى اصول الدىن ۳۳۷</ref>۔
آىت اس ميں ظہوررکھتی  ہے،  اور قرىنہ عقل  بھی آىت كااس  ظہورسے عدم انصراف اور ظاہر كے علاوہ كسى دوسرے معنى پر حمل نہ ہونے كو لازم قرار ديتى ہے۔
آىت اس ميں ظہوررکھتی  ہے،  اور قرىنہ عقل  بھی آىت كااس  ظہورسے عدم انصراف اور ظاہر كے علاوہ كسى دوسرے معنى پر حمل نہ ہونے كو لازم قرار ديتى ہے۔
پس اللہ تعالى ان سب اشىاء كا خالق ہے، ان چىزوں سے بالاتر ہے، دىكھنے اور نہ  دىكھے جانے سے كے لحاظ سے منفردہے،  جىسا كہ اس  آیت ميں بىان كىا : وَ هُوَ يُطْعِمُ وَ لَا يُطْعَم  <ref>سورۃ  الانعام: 14</ref>.  (اور وہی سب کو کھلاتا ہے اس کو کوئی نہیں کھلاتا ہے)، اور اللہ كا ىہ قول: يُجيرُ وَ لا يُجارُ عَلَيْه سورۃ المؤمنون: ۸۸ ‏(وہی پناہ دیتا ہے اور اسی کے عذاب سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے)۔
پس اللہ تعالى ان سب اشىاء كا خالق ہے، ان چىزوں سے بالاتر ہے، دىكھنے اور نہ  دىكھے جانے سے كے لحاظ سے منفردہے،  جىسا كہ اس  آیت ميں بىان كىا : وَ هُوَ يُطْعِمُ وَ لَا يُطْعَم  <ref>سورۃ  الانعام: 14</ref>.  (اور وہی سب کو کھلاتا ہے اس کو کوئی نہیں کھلاتا ہے)، اور اللہ كا ىہ قول: يُجيرُ وَ لا يُجارُ عَلَيْه سورۃ المؤمنون: ۸۸ ‏(وہی پناہ دیتا ہے اور اسی کے عذاب سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے)۔
جناب عىّاشى نے متصل سند كے ساتھ اس آىت  کے ذیل میں جو رواىت نقل كى ہے وہى ہمارے ليے اس پر تعلىقہ لگانے سے كفاىت كرتا ہے: فرماتے ہیں ((أن الفضل بن سهل ذا الرئاستين سأل الإمام أبا الحسن علي بن موسى الرضا عليه السلام فقال: أخبرني عما اختلف فيه من الرؤية؟!
جناب عىّاشى نے متصل سند كے ساتھ اس آىت  کے ذیل میں جو رواىت نقل كى ہے وہى ہمارے ليے اس پر تعلىقہ لگانے سے كفاىت كرتا ہے: فرماتے ہیں ((أن الفضل بن سهل ذا الرئاستين سأل الإمام أبا الحسن علي بن موسى الرضا عليه السلام فقال: أخبرني عما اختلف فيه من الرؤية؟!
فقال:من وصف الله بخلاف ما وصف به نفسه فقد اعظم الفرية على الله تعالى، لا تدركه الأبصار وهو اللطيف الخبير.
فقال:من وصف الله بخلاف ما وصف به نفسه فقد اعظم الفرية على الله تعالى، لا تدركه الأبصار وهو اللطيف الخبير.
ثم قال: لا تقع عليه الأوهام، ولا يدرك كيف هو)) :<ref>رؤىت كے متعلق اىك كلمة: ۳۰۵- ۳۰۷</ref>.  (دو عہدوں كا مالك فضل بن سہل نے ابو الحسن على بن موسى رضاؑ سے پوچھا، اور كہا: رؤىت كے بارے ميں جو اختلاف پاىا جاتا ہے اس كے متعلق مجھے باخبر كرو؟!
ثم قال: لا تقع عليه الأوهام، ولا يدرك كيف هو)) :<ref>رؤىت كے متعلق اىك كلمة: ۳۰۵- ۳۰۷</ref>.  (دو عہدوں كا مالك فضل بن سہل نے ابو الحسن على بن موسى رضاؑ سے پوچھا، اور كہا: رؤىت كے بارے ميں جو اختلاف پاىا جاتا ہے اس كے متعلق مجھے باخبر كرو؟!
آپؑ نے فرماىا: جس نے  اللہ كا  اپنا  بىان كردہ  صفت كے برخلاف وصف كى تو اس نے اللہ تعالى پر  بہت بڑا افترا  باندھا ہے،  نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اوروہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔
آپؑ نے فرماىا: جس نے  اللہ كا  اپنا  بىان كردہ  صفت كے برخلاف وصف كى تو اس نے اللہ تعالى پر  بہت بڑا افترا  باندھا ہے،  نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اوروہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔
پھر فرماىا: وہم وگمان كا اس تك پہنچ نہيں سكتا، اور جان نہيں سكتا كہ وہ كىسے ہىں)) :رؤىت كے متعلق اىك كلمة: ۳۰۵- ۳۰۷۔  
پھر فرماىا: وہم وگمان كا اس تك پہنچ نہيں سكتا، اور جان نہيں سكتا كہ وہ كىسے ہىں))<ref>رؤىت كے متعلق اىك كلمة: ۳۰۵- ۳۰۷۔</ref>.
دوسری آیت: يَعْلَمُ مَا بَينْ‏َ أَيْدِيهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا يحُيطُونَ بِهِ عِلْمًا  سورۃ طه: 110۔   (وہ سب کے سامنے اور پیچھے کے حالات سے باخبر ہے اور کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے)۔
 
ثقہ الاسلام  کلینی كا اصول كافى ميں اپنى سند كے ساتھ صفوان بن ىحىى سے كتاب توحىد باب ابطال رؤىت كے بارے ميں جو رواىت نقل كى ہے وہ ہميں اس آىت پر تعلىق لگانے سے كفاىت كرتى ہے، كہا: ((سَأَلَنِي‏ أَبُو قُرَّةَ الْمُحَدِّثُ‏ أَنْ أُدْخِلَهُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَاسْتَأْذَنْتُهُ فِي ذَلِكَ فَأَذِنَ لِي فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنِ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ وَ الْأَحْكَامِ حَتَّى بَلَغَ سُؤَالُهُ التَّوْحِيدَ۔فَقَالَ أَبُو قُرَّةَ: إِنَّا رُوِّينَا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ قَسَمَ الرُّؤْيَةَ وَ الْكَلَامَ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَقَسَمَ لِمُوسَى ع الْكَلَامَ وَ لِمُحَمَّدٍ ص الرُّؤْيَةَ۔ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع فَمَنِ الْمُبَلِّغُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى الثَّقَلَيْنِ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ‏ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ؟ أَ لَيْسَ مُحَمَّدٌ ص قَالَ بَلَى قَالَ فَكَيْفَ يَجِي‏ءُ رَجُلٌ إِلَى الْخَلْقِ جَمِيعاً فَيُخْبِرُهُمْ أَنَّهُ جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَ أَنَّهُ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ بِأَمْرِ اللَّهِ وَ يَقُولُ‏ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا رَأَيْتُهُ بِعَيْنِي وَ أَحَطْتُ بِهِ عِلْماً وَ هُوَ عَلَى صُورَةِ الْبَشَرِ أَ مَا يَسْتَحْيُونَ مَا قَدَرَتِ الزَّنَادِقَةُ أَنْ تَرْمِيَهُ بِهَذَا أَنْ يَكُونَ يَأْتِي عَنِ اللَّهِ بِشَيْ‏ءٍ ثُمَّ يَأْتِي بِخِلَافِهِ۔ قَالَ أَبُو قُرَّةَ فَإِنَّهُ يَقُولُ‏ وَ لَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرى‏ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِنَّ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا رَأَى حَيْثُ قَالَ‏ ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏ يَقُولُ مَا كَذَبَ فُؤَادُ مُحَمَّدٍ ص مَا رَأَتْ عَيْنَاهُ ثُمَّ أَخْبَرَ بِمَا رَأَى فَقَالَ‏ لَقَدْ رَأى‏ مِنْ آياتِ رَبِّهِ الْكُبْرى‏ فَآيَاتُ اللَّهِ غَيْرُ اللَّهِ وَ قَدْ قَالَ‏ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً فَإِذَا رَأَتْهُ الْأَبْصَارُ فَقَدْ أَحَاطَتْ بِهِ الْعِلْمَ وَ وَقَعَتِ الْمَعْرِفَةُ فَقَالَ أَبُو قُرَّةَ فَتُكَذِّبُ الرِّوَايَاتِ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِذَا كَانَتِ الرِّوَايَاتُ مُخَالِفَةً لِلْقُرْآنِ كَذَّبْتُ بِهَا وَ مَا أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ أَنَّهُ لَا يُحِيطُ بِهِ عِلْمٌ وَ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ  الكليني، محمد يعقوب، كافي / ج‏1 / 238 / 9 - باب في إبطال الرؤية، ص237 (  ابو قره محدث نے مجھ سے چاہا كہ اسے حضرت امام رضا (ع) تك پہنچاوں پس ميں نے اس بارے ميں آپؑ سے اجازت لى آپؑ نے مجھے اس كو داخل كرنے كى اجازت دى،  تو اس نے آپؑ سے حلال وحرام اور احكام الہى كے بارے ميں سوال كىا  ىہاں تك كہ اس كا سوال توحىد تك جاپہنچا۔  
===== دوسری آیت =====
  يَعْلَمُ مَا بَينْ‏َ أَيْدِيهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا يحُيطُونَ بِهِ عِلْمًا  <ref>سورۃ طه: 110۔</ref>. (وہ سب کے سامنے اور پیچھے کے حالات سے باخبر ہے اور کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے)۔
ثقہ الاسلام  کلینی كا اصول كافى ميں اپنى سند كے ساتھ صفوان بن ىحىى سے كتاب توحىد باب ابطال رؤىت كے بارے ميں جو رواىت نقل كى ہے وہ ہميں اس آىت پر تعلىق لگانے سے كفاىت كرتى ہے، كہا: ((سَأَلَنِي‏ أَبُو قُرَّةَ الْمُحَدِّثُ‏ أَنْ أُدْخِلَهُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَاسْتَأْذَنْتُهُ فِي ذَلِكَ فَأَذِنَ لِي فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنِ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ وَ الْأَحْكَامِ حَتَّى بَلَغَ سُؤَالُهُ التَّوْحِيدَ۔فَقَالَ أَبُو قُرَّةَ: إِنَّا رُوِّينَا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ قَسَمَ الرُّؤْيَةَ وَ الْكَلَامَ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَقَسَمَ لِمُوسَى ع الْكَلَامَ وَ لِمُحَمَّدٍ ص الرُّؤْيَةَ۔ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع فَمَنِ الْمُبَلِّغُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى الثَّقَلَيْنِ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ‏ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ؟ أَ لَيْسَ مُحَمَّدٌ ص قَالَ بَلَى قَالَ فَكَيْفَ يَجِي‏ءُ رَجُلٌ إِلَى الْخَلْقِ جَمِيعاً فَيُخْبِرُهُمْ أَنَّهُ جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَ أَنَّهُ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ بِأَمْرِ اللَّهِ وَ يَقُولُ‏ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا رَأَيْتُهُ بِعَيْنِي وَ أَحَطْتُ بِهِ عِلْماً وَ هُوَ عَلَى صُورَةِ الْبَشَرِ أَ مَا يَسْتَحْيُونَ مَا قَدَرَتِ الزَّنَادِقَةُ أَنْ تَرْمِيَهُ بِهَذَا أَنْ يَكُونَ يَأْتِي عَنِ اللَّهِ بِشَيْ‏ءٍ ثُمَّ يَأْتِي بِخِلَافِهِ۔ قَالَ أَبُو قُرَّةَ فَإِنَّهُ يَقُولُ‏ وَ لَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرى‏ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِنَّ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا رَأَى حَيْثُ قَالَ‏ ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏ يَقُولُ مَا كَذَبَ فُؤَادُ مُحَمَّدٍ ص مَا رَأَتْ عَيْنَاهُ ثُمَّ أَخْبَرَ بِمَا رَأَى فَقَالَ‏ لَقَدْ رَأى‏ مِنْ آياتِ رَبِّهِ الْكُبْرى‏ فَآيَاتُ اللَّهِ غَيْرُ اللَّهِ وَ قَدْ قَالَ‏ وَ لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً فَإِذَا رَأَتْهُ الْأَبْصَارُ فَقَدْ أَحَاطَتْ بِهِ الْعِلْمَ وَ وَقَعَتِ الْمَعْرِفَةُ فَقَالَ أَبُو قُرَّةَ فَتُكَذِّبُ الرِّوَايَاتِ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِذَا كَانَتِ الرِّوَايَاتُ مُخَالِفَةً لِلْقُرْآنِ كَذَّبْتُ بِهَا وَ مَا أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ أَنَّهُ لَا يُحِيطُ بِهِ عِلْمٌ وَ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ  <ref>الكليني، محمد يعقوب، كافي ، ج‏1 ص237</ref>.(  ابو قره محدث نے مجھ سے چاہا كہ اسے حضرت امام رضا (ع) تك پہنچاوں پس ميں نے اس بارے ميں آپؑ سے اجازت لى آپؑ نے مجھے اس كو داخل كرنے كى اجازت دى،  تو اس نے آپؑ سے حلال وحرام اور احكام الہى كے بارے ميں سوال كىا  ىہاں تك كہ اس كا سوال توحىد تك جاپہنچا۔  
اسکے  بعد  ابو قرہ نے كہا: ہم تك رواىت پہنچى ہے كہ خدا نے دىكھنے اور بات كرنے كو دو نبىوں ميں تقسىم  كى ہے، پس گفتگو كا حصہ موسىؑ ، اور دىكھنا محمدﷺ كى حصے ميں آىا ہے۔
اسکے  بعد  ابو قرہ نے كہا: ہم تك رواىت پہنچى ہے كہ خدا نے دىكھنے اور بات كرنے كو دو نبىوں ميں تقسىم  كى ہے، پس گفتگو كا حصہ موسىؑ ، اور دىكھنا محمدﷺ كى حصے ميں آىا ہے۔
تو  امامؑ نے فرماىا: پس ثقلىن ميں سے جن وانس كا مبلغ كون ہے جس نے(لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ ۔نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں)وَ (لا يُحِيطُونَ بِهِ۔ عِلْماً کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے) و (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ۔اس کا جیسا کوئی نہیں ہے)؟
تو  امامؑ نے فرماىا: پس ثقلىن ميں سے جن وانس كا مبلغ كون ہے جس نے(لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ ۔نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں)وَ (لا يُحِيطُونَ بِهِ۔ عِلْماً کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے) و (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ۔اس کا جیسا کوئی نہیں ہے)؟
كىا وہ محمدﷺ ہے؟
كىا وہ محمدﷺ ہے؟
كہا: ہاں۔
كہا: ہاں۔
فرمایا:كىسے اىك آدمى سبھى مخلوقات كى طرف آتا ہے  اور انہيں خبر دىتا ہے كہ وہ خدا كى جانب سے ہے، اور وہ ان كو اللہ كے حكم سے ان كو خدا كى طرف دعوت دىتا ہے اور انہيں خدا كے بارے ميں كہتا ہے (لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ) وَ (لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً) و (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ)،پھرانہيں كہتا ہے: ميں نے اپنى آنكھوں سے اسے دىكھا ہوں اور علم كے لحاظ سے اس كا احاطہ كرچكا ہوں، اوركىا وہ بشر كى شكل ميں ہے؟!!
فرمایا:كىسے اىک آدمى سبھى مخلوقات كى طرف آتا ہے  اور انہيں خبر دىتا ہے كہ وہ خدا كى جانب سے ہے، اور وہ ان كو اللہ كے حكم سے ان كو خدا كى طرف دعوت دىتا ہے اور انہيں خدا كے بارے ميں كہتا ہے (لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ) وَ (لا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً) و (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ)،پھرانہيں كہتا ہے: ميں نے اپنى آنكھوں سے اسے دىكھا ہوں اور علم كے لحاظ سے اس كا احاطہ كرچكا ہوں، اوركىا وہ بشر كى شكل ميں ہے؟!!
كىا تمہىں شرم محسوس نہيں ہوتى؟
كىا تمہىں شرم محسوس نہيں ہوتى؟
اس قسم كى نسبت سے زنادقہ پىغمبرﷺ كو متہم نہ كرسكے كہ وہ اللہ تعالى كے پاس سے كچھ لىكر آئے پھر اس كے برخلاف لىكر آئے!!ابو قره نے عرض كىا:اللہ تعالى كہتا ہے (وَ لَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرى‏ سورۃ  النجم: ۱۳ ۔ اور اس نے تو اسے ایک بار اور بھی دیکھا ہے)۔ امامؑ نے فرماىا: اس آىت كے بعد كوئى چىز ہے جو آپﷺ نے دىكھا اس پر دلالت كرئےكہ فرماىا(ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى سورۃ النجم: ۱۱۔  یعنی دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا‏)، خداكہتا ہے:محمدﷺ كے  دل نے جو كچھ اس كى آنكھ نے دىكھا جھٹلایا نہيں ، پھر خدا نے جو كچھ پىغمبرﷺ نے دىكھا اس كى خبر دى اور فرماىا(لَقَدْ رَأى‏ مِنْ آياتِ رَبِّهِ الْكُبْرى  سورۃ  النجم: ۱۸ ‏ ىعنى اس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیان دیکھی ہیں) پس اللہ كى آىات اور نشانىاں غىر خدا ہىں۔
اس قسم كى نسبت سے زنادقہ پىغمبرﷺ كو متہم نہ كرسكے كہ وہ اللہ تعالى كے پاس سے كچھ لىكر آئے پھر اس كے برخلاف لىكر آئے!!ابو قره نے عرض كىا:اللہ تعالى كہتا ہے (وَ لَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرى‏ <ref>سورۃ  النجم: ۱۳</ref> ۔ اور اس نے تو اسے ایک بار اور بھی دیکھا ہے)۔ امامؑ نے فرماىا: اس آىت كے بعد كوئى چىز ہے جو آپﷺ نے دىكھا اس پر دلالت كرئےكہ فرماىا(ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى <ref>سورۃ النجم: ۱۱۔</ref>۔ یعنی دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا‏)، خداكہتا ہے:محمدﷺ كے  دل نے جو كچھ اس كى آنكھ نے دىكھا جھٹلایا نہيں ، پھر خدا نے جو كچھ پىغمبرﷺ نے دىكھا اس كى خبر دى اور فرماىا(لَقَدْ رَأى‏ مِنْ آياتِ رَبِّهِ الْكُبْرى  سورۃ  النجم: ۱۸ ‏ ىعنى اس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیان دیکھی ہیں) پس اللہ كى آىات اور نشانىاں غىر خدا ہىں۔
اور حضرت نے فرماىا: (( اور اللہ تعالى كہتا ہے: (وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً ىعنى کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے)
اور حضرت نے فرماىا: (( اور اللہ تعالى كہتا ہے: (وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً ىعنى کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے)
پس جب بھى آنكھىں اسے دىكھىں اس كا علم كے لحاظ سے احاطہ كىا ہے۔
پس جب بھى آنكھىں اسے دىكھىں اس كا علم كے لحاظ سے احاطہ كىا ہے۔
سطر 164: سطر 165:
امامؑ نے فرماىا:جب بھى رواىات قرآن كے ساتھ منافات ركھتى ہوں ان كو جھٹلاتا ہوں۔
امامؑ نے فرماىا:جب بھى رواىات قرآن كے ساتھ منافات ركھتى ہوں ان كو جھٹلاتا ہوں۔
اور سب مسلمانوں نے اس پر اتفاق كىا ہےكہ اس كا از لحاظ علم احاظہ نہيں كىا جاسكتا اور اس كو نگاہىں درك كرسكتى ہىں، اور اس كا جىسا كوئى نہيں))۔
اور سب مسلمانوں نے اس پر اتفاق كىا ہےكہ اس كا از لحاظ علم احاظہ نہيں كىا جاسكتا اور اس كو نگاہىں درك كرسكتى ہىں، اور اس كا جىسا كوئى نہيں))۔
ميں كہا:ىہ بہترىن فىصلہ اور مفصل حقىقت ہے، اور ىہ حق وباطل ميں حد فاصل ہے، كوئى صاحب  عقل اس كلام  كو سن لے تو اسےتسلىم كرىگا، ىہ اللہ كا فضل ہے جسنے ہمیں نبى كى عترت اور  كتاب دى ہے،  اور وہ بڑا فضل والا ہے)) کلمہ حول الرؤىہ ۵۰۳- ۵۰۷  ۔
ميں كہا:ىہ بہترىن فىصلہ اور مفصل حقىقت ہے، اور ىہ حق وباطل ميں حد فاصل ہے، كوئى صاحب  عقل اس كلام  كو سن لے تو اسےتسلىم كرىگا، ىہ اللہ كا فضل ہے جسنے ہمیں نبى كى عترت اور  كتاب دى ہے،  اور وہ بڑا فضل والا ہے)) <ref>کلمہ حول الرؤىہ ۵۰۳- ۵۰۷  </ref>۔
تيسري آيت: وَ إِذْ قَالَ مُوسىَ‏ لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتخِّاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلىَ‏ بَارِئكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَالِكُمْ خَيرْ لَّكُمْ عِندَ بَارِئكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ  إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ وَ إِذْ قُلْتُمْ يَامُوسىَ‏ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتىَ‏ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَ أَنتُمْ تَنظُرُون سورۃ  بقرہ: ۵۴- 55   (اور وہ وقت بھی یاد کرو جب موسٰی علیہ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے گو سالہ بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے. اب تم خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کہ یہی تمہارے حق میں خیر ہے. پھر خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسٰی علیہ السّلام سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک خدا کو اعلانیہ نہ دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے)۔
 
===== تيسري آيت =====
  وَ إِذْ قَالَ مُوسىَ‏ لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتخِّاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلىَ‏ بَارِئكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَالِكُمْ خَيرْ لَّكُمْ عِندَ بَارِئكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ  إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ وَ إِذْ قُلْتُمْ يَامُوسىَ‏ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتىَ‏ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَ أَنتُمْ تَنظُرُون <ref>سورۃ  بقرہ: ۵۴- 55</ref>۔  (اور وہ وقت بھی یاد کرو جب موسٰی علیہ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے گو سالہ بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے. اب تم خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کہ یہی تمہارے حق میں خیر ہے. پھر خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسٰی علیہ السّلام سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک خدا کو اعلانیہ نہ دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے)۔
سىد شرف الدىن  فرماتے هیں : ((ىہ دو آىتىں متصل ہىں ہمارے موضوع بحث  رؤىت امتناع پر دلىل صرف دوسرى آىت ميں ہے، اور ہم نے پہلى آىت كو اس ليے ذكر كىا كىونكہ اس كا  استدلال سے گہرا ربط ہے،  اور وہ ىوں كہ پہلى آىت بچھڑے كو معبود بنانے پر عقاب كے طور پر اپنے آپ كو قتل كرنا قرار دے رہى ہے، اور دوسرى آىت اللہ تعالى كى رؤىت كا مطالبہ كرنے والوں كو آسمانى بجلى كے ذرىعے عقاب كرنے پر نص ہے اس حال ميں كہ وہ دىكھ رہے تھے۔
سىد شرف الدىن  فرماتے هیں : ((ىہ دو آىتىں متصل ہىں ہمارے موضوع بحث  رؤىت امتناع پر دلىل صرف دوسرى آىت ميں ہے، اور ہم نے پہلى آىت كو اس ليے ذكر كىا كىونكہ اس كا  استدلال سے گہرا ربط ہے،  اور وہ ىوں كہ پہلى آىت بچھڑے كو معبود بنانے پر عقاب كے طور پر اپنے آپ كو قتل كرنا قرار دے رہى ہے، اور دوسرى آىت اللہ تعالى كى رؤىت كا مطالبہ كرنے والوں كو آسمانى بجلى كے ذرىعے عقاب كرنے پر نص ہے اس حال ميں كہ وہ دىكھ رہے تھے۔
اور  ىہ بادشاہ، حق ،عادل اللہ تعالى كى جانب سے  ان كا مؤاخذہ  ان دونوں جرائم كا اىك جىسے ہونے پر ىقىن كا موجب بنتا ہے،  اوررؤىت كے امتناع  اور اس كے قائلىن كے خلاف انكار كا وجوب پر  اس سے بڑھ كرمحكم دلىل نہيں ہوسكتى، بلكہ  جس طرح قوم موسى ميں سے صاحبان صاعقہ پر حجت تمام ہوئى رؤىت كے امتناع پر حجت تمام ہونے كے بعد عناد كى بنىاد  پر اصراركرنے والوں كے كفر كا وجوب پر بھى ىہ دلىل ہے، پس جب آپ علىہ السلام نے رؤىت كا سوال كىا تو تو اس كے امتناع كى خبر دى پس انہوں نے اس پر سماجت كى اور اپنى سركشى پر اڑے رہے، تو انہيں سمجھاىا گىا كہ اللہ تعالى كى رؤىت سے اس كا مكان اور كىفىت ميں ہونا اور اس كى طرف اشارہ كرنا  لازم آتا ہے، اور اللہ تعالى اس سے منزہ ہے، اور ان كے ليے روشن كىا كہ جو لوگ اللہ تعالى كى رؤىت كا طالب ہىں وہ اس كو جاہل اور اور اجسام ىا اعراض كے اقسام ميں سے قرار دىا، پس انہوں نے سرپىچى كى اور دشمنى كى بناء پر  رؤىت كى درخواست سے دستبردار نہيں ہوئےتو ىہ اس كى وجہ سے گوسالہ پرستوں كى طرح ہوئے، پس اللہ تعالى كے امر سے آسمانى بجلى نے انہيں گھىر لى  جىساكہ وہ لوگ جرم برابر ہونے كے باعث اللہ كے حكم سے قتل كردىے گئے ۔ىہ امتناع رؤىت پر  دونوں آىتوں كے استدلال كى توجىہ پر مىرا استفادہ ہے)) الموسوي، شرف الدين، كلمہ حول الرؤىہ۔ ۲۹۸- ۳۰۰ ۔
اور  ىہ بادشاہ، حق ،عادل اللہ تعالى كى جانب سے  ان كا مؤاخذہ  ان دونوں جرائم كا اىك جىسے ہونے پر ىقىن كا موجب بنتا ہے،  اوررؤىت كے امتناع  اور اس كے قائلىن كے خلاف انكار كا وجوب پر  اس سے بڑھ كرمحكم دلىل نہيں ہوسكتى، بلكہ  جس طرح قوم موسى ميں سے صاحبان صاعقہ پر حجت تمام ہوئى رؤىت كے امتناع پر حجت تمام ہونے كے بعد عناد كى بنىاد  پر اصراركرنے والوں كے كفر كا وجوب پر بھى ىہ دلىل ہے، پس جب آپ علىہ السلام نے رؤىت كا سوال كىا تو تو اس كے امتناع كى خبر دى پس انہوں نے اس پر سماجت كى اور اپنى سركشى پر اڑے رہے، تو انہيں سمجھاىا گىا كہ اللہ تعالى كى رؤىت سے اس كا مكان اور كىفىت ميں ہونا اور اس كى طرف اشارہ كرنا  لازم آتا ہے، اور اللہ تعالى اس سے منزہ ہے، اور ان كے ليے روشن كىا كہ جو لوگ اللہ تعالى كى رؤىت كا طالب ہىں وہ اس كو جاہل اور اور اجسام ىا اعراض كے اقسام ميں سے قرار دىا، پس انہوں نے سرپىچى كى اور دشمنى كى بناء پر  رؤىت كى درخواست سے دستبردار نہيں ہوئےتو ىہ اس كى وجہ سے گوسالہ پرستوں كى طرح ہوئے، پس اللہ تعالى كے امر سے آسمانى بجلى نے انہيں گھىر لى  جىساكہ وہ لوگ جرم برابر ہونے كے باعث اللہ كے حكم سے قتل كردىے گئے ۔ىہ امتناع رؤىت پر  دونوں آىتوں كے استدلال كى توجىہ پر مىرا استفادہ ہے)) الموسوي، شرف الدين، <ref>كلمہ حول الرؤىہ۔ ۲۹۸- ۳۰۰</ref> ۔
چوتھی آیت:  وَ لَمَّا جَاءَ مُوسىَ‏ لِمِيقَاتِنَا وَ كلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبّ‏ِ أَرِنىِ أَنظُرْ إِلَيْكَ  قَالَ لَن تَرَئنىِ وَ لَاكِنِ انظُرْ إِلىَ الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَئنىِ  فَلَمَّا تجَلىَ‏ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسىَ‏ صَعِقًا  فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِين الاعراف: ۱۴۳   (تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی علیھ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے پھر جب انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)۔
چوتھی آیت:  وَ لَمَّا جَاءَ مُوسىَ‏ لِمِيقَاتِنَا وَ كلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبّ‏ِ أَرِنىِ أَنظُرْ إِلَيْكَ  قَالَ لَن تَرَئنىِ وَ لَاكِنِ انظُرْ إِلىَ الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَئنىِ  فَلَمَّا تجَلىَ‏ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسىَ‏ صَعِقًا  فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِين <ref>الاعراف: ۱۴۳</ref>۔  (تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی علیھ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے پھر جب انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)۔
سىد شرف الدىن كہتے ہیں:اس آىت كرىمہ پر تعلىق لگانے سے شىخ صدوق ابو جعفر محمد بن على بن حسىن بن بابوىہ قمى كا كتاب توحىد كے باب ما جاء فى الرؤىہ ميں اپنے سند كے ساتھ على بن محمد بن جہم سے رواىت كا اخراج كرنا كفاىت كرتى ہے، كہتا ہے: ميں مامون كے دربار ميں حاضر ہوا  اس كے پاس على بن  موسى  رضا علىہ السلام تشرىف ركھتے تھے، مامون نے ان سے كہا:يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَ لَيْسَ مِنْ قَوْلِكَ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ مَعْصُومُونَ قَالَ بَلَى فَسَأَلَهُ عَنْ آيَاتٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَكَانَ فِيمَا سَأَلَهُ أَنْ قَالَ لَهُ فَمَا مَعْنَى‏ قَوْلِ‏ اللَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ لَمَّا جاءَ مُوسى‏ لِمِيقاتِنا وَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي‏ الْآيَةَ كَيْفَ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ كَلِيمُ اللَّهِ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ ع لَا يَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لَا يَجُوزُ عَلَيْهِ الرُّؤْيَةُ حَتَّى يَسْأَلَهُ هَذَا السُّؤَالَ- فَقَالَ الرِّضَا ع إِنَّ كَلِيمَ اللَّهِ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ ع عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَنْ أَنْ يُرَى بِالْأَبْصَارِ وَ لَكِنَّهُ لَمَّا كَلَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ قَرَّبَهُ نَجِيّاً رَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ كَلَّمَهُ وَ قَرَّبَهُ وَ نَاجَاهُ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَسْمَعَ كَلَامَهُ كَمَا سَمِعْتَ وَ كَانَ الْقَوْمُ سَبْعَمِائَةِ أَلْفِ رَجُلٍ فَاخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعِينَ أَلْفاً ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعَةَ آلَافٍ ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعَمِائَةٍ ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقَاتِ رَبِّهِ فَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى طُورِ سَيْنَاءَ فَأَقَامَهُمْ فِي سَفْحِ الْجَبَلِ وَ صَعِدَ مُوسَى ع إِلَى الطُّورِ وَ سَأَلَ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَنْ يُكَلِّمَهُ وَ يُسْمِعَهُمْ كَلَامَهُ فَكَلَّمَهُ اللَّهُ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَ سَمِعُوا كَلَامَهُ مِنْ فَوْقُ وَ أَسْفَلُ وَ يَمِينُ وَ شِمَالُ وَ وَرَاءُ وَ أَمَامُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَحْدَثَهُ فِي الشَّجَرَةِ ثُمَّ جَعَلَهُ مُنْبَعِثاً مِنْهَا حَتَّى سَمِعُوهُ مِنْ جَمِيعِ الْوُجُوهِ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ بِأَنَّ هَذَا الَّذِي سَمِعْنَاهُ كَلَامُ اللَّهِ‏ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَلَمَّا قَالُوا هَذَا الْقَوْلَ الْعَظِيمَ وَ اسْتَكْبَرُوا وَ عَتَوْا بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْهِمْ صَاعِقَةً فَأَخَذَتْهُمْ بِظُلْمِهِمْ فَمَاتُوا فَقَالَ مُوسَى يَا رَبِّ مَا أَقُولُ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِذَا رَجَعْتُ إِلَيْهِمْ وَ قَالُوا إِنَّكَ ذَهَبْتَ بِهِمْ فَقَتَلْتَهُمْ لِأَنَّكَ لَمْ تَكُنْ صَادِقاً فِيمَا ادَّعَيْتَ مِنْ مُنَاجَاةِ اللَّهِ إِيَّاكَ فَأَحْيَاهُمُ اللَّهُ وَ بَعَثَهُمْ مَعَهُ- فَقَالُوا إِنَّكَ لَوْ سَأَلْتَ اللَّهَ أَنْ يُرِيَكَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ لَأَجَابَكَ وَ كُنْتَ تُخْبِرُنَا كَيْفَ هُوَ فَنَعْرِفُهُ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ فَقَالَ مُوسَى ع يَا قَوْمِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُرَى بِالْأَبْصَارِ وَ لَا كَيْفِيَّةَ لَهُ وَ إِنَّمَا يُعْرَفُ بِآيَاتِهِ وَ يُعْلَمُ بِأَعْلَامِهِ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَسْأَلَهُ فَقَالَ مُوسَى ع يَا رَبِّ إِنَّكَ قَدْ سَمِعْتَ مَقَالَةَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ أَنْتَ أَعْلَمُ بِصَلَاحِهِمْ فَأَوْحَى اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ إِلَيْهِ يَا مُوسَى اسْأَلْنِي مَا سَأَلُوكَ فَلَنْ أُؤَاخِذَكَ بِجَهْلِهِمْ فَعِنْدَ ذَلِكَ قَالَ مُوسَى ع‏ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي وَ لكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ‏ وَ هُوَ يَهْوِي‏ فَسَوْفَ تَرانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ‏ بِآيَةٍ مِنْ آيَاتِهِ- جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً فَلَمَّا أَفاقَ قالَ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ‏ يَقُولُ رَجَعْتُ إِلَى مَعْرِفَتِي بِكَ عَنْ جَهْلِ قَوْمِي- وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ مِنْهُمْ بِأَنَّكَ لَا تُرَى فَقَالَ الْمَأْمُونُ لِلَّهِ دَرُّكَ يَا أَبَا الْحَسَنِ  صدوق، ابن بابويه، توحىد صدوق: ۱۲۱- ۱۲۲۔  
 
 
سىد شرف الدىن كہتے ہیں:اس آىت كرىمہ پر تعلىق لگانے سے شىخ صدوق ابو جعفر محمد بن على بن حسىن بن بابوىہ قمى كا كتاب توحىد كے باب ما جاء فى الرؤىہ ميں اپنے سند كے ساتھ على بن محمد بن جہم سے رواىت كا اخراج كرنا كفاىت كرتى ہے، كہتا ہے: ميں مامون كے دربار ميں حاضر ہوا  اس كے پاس على بن  موسى  رضا علىہ السلام تشرىف ركھتے تھے، مامون نے ان سے كہا:يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَ لَيْسَ مِنْ قَوْلِكَ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ مَعْصُومُونَ قَالَ بَلَى فَسَأَلَهُ عَنْ آيَاتٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَكَانَ فِيمَا سَأَلَهُ أَنْ قَالَ لَهُ فَمَا مَعْنَى‏ قَوْلِ‏ اللَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ لَمَّا جاءَ مُوسى‏ لِمِيقاتِنا وَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي‏ الْآيَةَ كَيْفَ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ كَلِيمُ اللَّهِ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ ع لَا يَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لَا يَجُوزُ عَلَيْهِ الرُّؤْيَةُ حَتَّى يَسْأَلَهُ هَذَا السُّؤَالَ- فَقَالَ الرِّضَا ع إِنَّ كَلِيمَ اللَّهِ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ ع عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَنْ أَنْ يُرَى بِالْأَبْصَارِ وَ لَكِنَّهُ لَمَّا كَلَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ قَرَّبَهُ نَجِيّاً رَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ كَلَّمَهُ وَ قَرَّبَهُ وَ نَاجَاهُ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَسْمَعَ كَلَامَهُ كَمَا سَمِعْتَ وَ كَانَ الْقَوْمُ سَبْعَمِائَةِ أَلْفِ رَجُلٍ فَاخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعِينَ أَلْفاً ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعَةَ آلَافٍ ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعَمِائَةٍ ثُمَّ اخْتَارَ مِنْهُمْ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقَاتِ رَبِّهِ فَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى طُورِ سَيْنَاءَ فَأَقَامَهُمْ فِي سَفْحِ الْجَبَلِ وَ صَعِدَ مُوسَى ع إِلَى الطُّورِ وَ سَأَلَ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَنْ يُكَلِّمَهُ وَ يُسْمِعَهُمْ كَلَامَهُ فَكَلَّمَهُ اللَّهُ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَ سَمِعُوا كَلَامَهُ مِنْ فَوْقُ وَ أَسْفَلُ وَ يَمِينُ وَ شِمَالُ وَ وَرَاءُ وَ أَمَامُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَحْدَثَهُ فِي الشَّجَرَةِ ثُمَّ جَعَلَهُ مُنْبَعِثاً مِنْهَا حَتَّى سَمِعُوهُ مِنْ جَمِيعِ الْوُجُوهِ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ بِأَنَّ هَذَا الَّذِي سَمِعْنَاهُ كَلَامُ اللَّهِ‏ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَلَمَّا قَالُوا هَذَا الْقَوْلَ الْعَظِيمَ وَ اسْتَكْبَرُوا وَ عَتَوْا بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْهِمْ صَاعِقَةً فَأَخَذَتْهُمْ بِظُلْمِهِمْ فَمَاتُوا فَقَالَ مُوسَى يَا رَبِّ مَا أَقُولُ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِذَا رَجَعْتُ إِلَيْهِمْ وَ قَالُوا إِنَّكَ ذَهَبْتَ بِهِمْ فَقَتَلْتَهُمْ لِأَنَّكَ لَمْ تَكُنْ صَادِقاً فِيمَا ادَّعَيْتَ مِنْ مُنَاجَاةِ اللَّهِ إِيَّاكَ فَأَحْيَاهُمُ اللَّهُ وَ بَعَثَهُمْ مَعَهُ- فَقَالُوا إِنَّكَ لَوْ سَأَلْتَ اللَّهَ أَنْ يُرِيَكَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ لَأَجَابَكَ وَ كُنْتَ تُخْبِرُنَا كَيْفَ هُوَ فَنَعْرِفُهُ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ فَقَالَ مُوسَى ع يَا قَوْمِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُرَى بِالْأَبْصَارِ وَ لَا كَيْفِيَّةَ لَهُ وَ إِنَّمَا يُعْرَفُ بِآيَاتِهِ وَ يُعْلَمُ بِأَعْلَامِهِ فَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَسْأَلَهُ فَقَالَ مُوسَى ع يَا رَبِّ إِنَّكَ قَدْ سَمِعْتَ مَقَالَةَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ أَنْتَ أَعْلَمُ بِصَلَاحِهِمْ فَأَوْحَى اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ إِلَيْهِ يَا مُوسَى اسْأَلْنِي مَا سَأَلُوكَ فَلَنْ أُؤَاخِذَكَ بِجَهْلِهِمْ فَعِنْدَ ذَلِكَ قَالَ مُوسَى ع‏ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي وَ لكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ‏ وَ هُوَ يَهْوِي‏ فَسَوْفَ تَرانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ‏ بِآيَةٍ مِنْ آيَاتِهِ- جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً فَلَمَّا أَفاقَ قالَ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ‏ يَقُولُ رَجَعْتُ إِلَى مَعْرِفَتِي بِكَ عَنْ جَهْلِ قَوْمِي- وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ مِنْهُمْ بِأَنَّكَ لَا تُرَى فَقَالَ الْمَأْمُونُ لِلَّهِ دَرُّكَ يَا أَبَا الْحَسَنِ  <ref>صدوق، ابن بابويه، توحىد صدوق: ۱۲۱- ۱۲۲</ref>۔  
يا بن رسول اللہ! كىا آپ كا ىہ عقىدہ نہيں كہ انبىاء معصوم ہىں؟ فرماىا: ہاں، پس اس نے آپؑ سے قرآن كےكئى آىات  كے بارے ميں سوال كىا اور جو كچھ اس نے پوچھا وہ ىہ تھا كہ اس نے حضرت سے كہا كہ خدائے عزّ وجل كے اس قول كا معنى كىا ہے(وَ لَمَّا جاءَ مُوسى‏ لِمِيقاتِنا وَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي سورۃ  اعراف: 143۔  ‏ تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو)كىسے ممكن ہے كہ خدا كے كلىم موسى بن عمران اس سے غافل ہو كہ خداوند زتعال كو دىكھا نہيں جاسكتا  ىہاں تك كہ خدا سے ىہ سوال كرئے؟
يا بن رسول اللہ! كىا آپ كا ىہ عقىدہ نہيں كہ انبىاء معصوم ہىں؟ فرماىا: ہاں، پس اس نے آپؑ سے قرآن كےكئى آىات  كے بارے ميں سوال كىا اور جو كچھ اس نے پوچھا وہ ىہ تھا كہ اس نے حضرت سے كہا كہ خدائے عزّ وجل كے اس قول كا معنى كىا ہے(وَ لَمَّا جاءَ مُوسى‏ لِمِيقاتِنا وَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قالَ لَنْ تَرانِي سورۃ  اعراف: 143۔  ‏ تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو)كىسے ممكن ہے كہ خدا كے كلىم موسى بن عمران اس سے غافل ہو كہ خداوند زتعال كو دىكھا نہيں جاسكتا  ىہاں تك كہ خدا سے ىہ سوال كرئے؟
پس امام رضاؑ نے فرماىا: بے شك كلىم خدا موسى بن عمران اس بات سے واقف تھے كہ اللہ تعالى دىد سے بالاتر ہے، لىكن خداوند متعال نے ان سے گفتگو كى اور اس كو اپنى قربت بخشى اس حال ميں كہ وہ اللہ كے ہمراز تھےاپنى قوم كى طرف لوٹ آئے اور انہيں ىہ خبر دى كہ اللہ تعالى نے اس كے ساتھ گفتگو كى ، اس كو قربت دى اور اس كے ساتھ راز كى باتىں كى ہے،پس انہوں نے كہا: ہم ہرگز  تمہارى باتوں پر ىقىن نہيں كرىنگے جب تك ہم جس تو نے سنا ہے اس كے كلام كو نہ سنے، پس اس نے اپنے پروردگار سے وعدہ پورا كرنے كے ليے ان ميں سے ستّر افراد كو چن لىا۔
پس امام رضاؑ نے فرماىا: بے شك كلىم خدا موسى بن عمران اس بات سے واقف تھے كہ اللہ تعالى دىد سے بالاتر ہے، لىكن خداوند متعال نے ان سے گفتگو كى اور اس كو اپنى قربت بخشى اس حال ميں كہ وہ اللہ كے ہمراز تھےاپنى قوم كى طرف لوٹ آئے اور انہيں ىہ خبر دى كہ اللہ تعالى نے اس كے ساتھ گفتگو كى ، اس كو قربت دى اور اس كے ساتھ راز كى باتىں كى ہے،پس انہوں نے كہا: ہم ہرگز  تمہارى باتوں پر ىقىن نہيں كرىنگے جب تك ہم جس تو نے سنا ہے اس كے كلام كو نہ سنے، پس اس نے اپنے پروردگار سے وعدہ پورا كرنے كے ليے ان ميں سے ستّر افراد كو چن لىا۔
سطر 184: سطر 189:
پس جب اس كے پروردگار نے اس پہاڑ كو اپنا جلوہ دكھاىا  اپنى نشانىوں ميں سے اىك نشانے كے ساتھ تو وہ پہاڑ ٹكڑے ٹكڑے ہوگىا اور موسىؑ بے ہوش ہوكے منہ كے بل گر پڑا، پس جب  اسے افاقہ ہوا،  تو كہا: تْو پاك ومنزّہ ہو،  اور تىرے سامنے توبہ كىا، كہتا ہے: مىرى قوم كى جہالت سے تىرى معرفت كى طرف لوٹ آىا، اور ميں پہلا شخص ہوں جو  تىرے عدم رؤىت كى تصدىق كرتا ہے۔
پس جب اس كے پروردگار نے اس پہاڑ كو اپنا جلوہ دكھاىا  اپنى نشانىوں ميں سے اىك نشانے كے ساتھ تو وہ پہاڑ ٹكڑے ٹكڑے ہوگىا اور موسىؑ بے ہوش ہوكے منہ كے بل گر پڑا، پس جب  اسے افاقہ ہوا،  تو كہا: تْو پاك ومنزّہ ہو،  اور تىرے سامنے توبہ كىا، كہتا ہے: مىرى قوم كى جہالت سے تىرى معرفت كى طرف لوٹ آىا، اور ميں پہلا شخص ہوں جو  تىرے عدم رؤىت كى تصدىق كرتا ہے۔
پس مامون نے كہا: اے ابا الحسن تىرى خوبى اللہ تعالى كے ليے ہے))۔
پس مامون نے كہا: اے ابا الحسن تىرى خوبى اللہ تعالى كے ليے ہے))۔
رؤيت اہل بىتؑ كى احادىث كي روشني ميں
 
رسول اللہ صلى اللہ علىہ وآلہ  كے اس قول كے مطابق اہل بىتؑ كى دامن سے تمسك كرتے ((إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي :كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فانظروا كيف تخلفوني فيهما     ))ترمزي، اسماعيل، الجامع الصحيح سنن الترمزى ج۵، ص۶۶۳، محمد بن عىسى ابو عىسى الترمزى السلمى، تحقىق: احمد محمد شاكر اور دىگر۔ شىخ البانى نے اس حدىث كو صحىح كہا ہے۔  ))(بے شك ميں تم ميں چھوڑے جارہا ہوں، اگر تم نے اسے تھامے ركھا مىرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہونگے، آسمان سے زمىن كى طرف اللہ تعالى كى مضبوط رسى اور مىرى عترت اہل بىتؑ اور ىہ دونوں مىرے پاس حوض كوثر تك آپس ميں جدا نہ ہونگے، پس دىكھو تم مىرے بعد ان كے ساتھ كىا سلوك كرتے ہو)۔
== رؤيت اہل بىتؑ كى احادىث كي روشني ميں ==
رسول اللہ صلى اللہ علىہ وآلہ  كے اس قول كے مطابق اہل بىتؑ كى دامن سے تمسك كرتے ((إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي :كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فانظروا كيف تخلفوني فيهما   ))ترمزي، اسماعيل، الجامع الصحيح سنن الترمزى ج۵، ص۶۶۳، محمد بن عىسى ابو عىسى الترمزى السلمى، تحقىق: احمد محمد شاكر اور دىگر۔ شىخ البانى نے اس حدىث كو صحىح كہا ہے۔  ))(بے شك ميں تم ميں چھوڑے جارہا ہوں، اگر تم نے اسے تھامے ركھا مىرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہونگے، آسمان سے زمىن كى طرف اللہ تعالى كى مضبوط رسى اور مىرى عترت اہل بىتؑ اور ىہ دونوں مىرے پاس حوض كوثر تك آپس ميں جدا نہ ہونگے، پس دىكھو تم مىرے بعد ان كے ساتھ كىا سلوك كرتے ہو)۔
امامىہ  علماء نے رؤيت كے  اس  مسئلے ميں احاديث اهل البيت اطهار سے تمسك كي كىا ہے:
امامىہ  علماء نے رؤيت كے  اس  مسئلے ميں احاديث اهل البيت اطهار سے تمسك كي كىا ہے:
اور اہل بىتؑ  اطهار نے نظرىہ تجسىم اور اس كےشبہات كا بدون تسامح اور تساہل  ڈٹ كرمقابلہ كىا۔اور ہمارے ليے كافى ہے كہ ميں امىر المؤمنىنؑ كا نہج البلاغہ ميں مروى بعض كلمات كو ىہاں نقل كروں:
اور اہل بىتؑ  اطهار نے نظرىہ تجسىم اور اس كےشبہات كا بدون تسامح اور تساہل  ڈٹ كرمقابلہ كىا۔اور ہمارے ليے كافى ہے كہ ميں امىر المؤمنىنؑ كا نہج البلاغہ ميں مروى بعض كلمات كو ىہاں نقل كروں:
1. إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ‏ أَنَّكَ‏ حَيٌ‏ قَيُّومُ‏ لَا تَأْخُذُكَ‏ سِنَةٌ وَ لا نَوْمٌ‏ لَمْ يَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ وَ لَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ أَدْرَكْتَ الْأَبْصَارَ وَ أَحْصَيْتَ الْأَعْمَالَ وَ أَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي وَ الْأَقْدَامِ         نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/  ص 225 .    (ہم صرف ىہ جانتے ہىں كہ تْو زندہ،  غىر كا محتاج نہيں، نہ  اونگھ آتى ہے نہ نىند، كوئى فكر تجھے پانہ سكا، اور  نہ كوئى نگاہ تىرا كھوج لگا سكى،  تْو نگاہىں دىكھ رہا ہے اور انسان كے اعمال كا حساب كر رہا ہے اور اور پىشانى و قدوموں كو گرفت ميں لىا)۔
1. إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ‏ أَنَّكَ‏ حَيٌ‏ قَيُّومُ‏ لَا تَأْخُذُكَ‏ سِنَةٌ وَ لا نَوْمٌ‏ لَمْ يَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ وَ لَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ أَدْرَكْتَ الْأَبْصَارَ وَ أَحْصَيْتَ الْأَعْمَالَ وَ أَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي وَ الْأَقْدَامِ <ref>نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/  ص 225</ref> ہم صرف ىہ جانتے ہىں كہ تْو زندہ،  غىر كا محتاج نہيں، نہ  اونگھ آتى ہے نہ نىند، كوئى فكر تجھے پانہ سكا، اور  نہ كوئى نگاہ تىرا كھوج لگا سكى،  تْو نگاہىں دىكھ رہا ہے اور انسان كے اعمال كا حساب كر رہا ہے اور اور پىشانى و قدوموں كو گرفت ميں لىا)۔
2. لا تُدرِكهُ العُيُونُ بِمُشَاهدَة العيَانِ نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/  ص 269 .   ترجمہ(نگاہىں اسے آشكار دىكھ نہيں سكتى)  
2. لا تُدرِكهُ العُيُونُ بِمُشَاهدَة العيَانِ <ref>نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/  ص 269 .</ref>۔ ترجمہ(نگاہىں اسے آشكار دىكھ نہيں سكتى)  
3. الْحَمْدُ لِلَّهِ‏ الَّذِي‏ لَا تُدْرِكُهُ‏ الشَّوَاهِدُ وَ لَا تَحْوِيهِ الْمَشَاهِدُ وَ لَا تَرَاهُ النَّوَاظِرُ   نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/  ص 262 .    ترجمہ(شكر اس خدا كے ليے ہے جسے حواس خمسہ درك نہيں كرسكتے اور اسے مكان گھىر نہيں سكتى، اور نگاہىں اسے دىكھ نہيں سكتى)۔
3. الْحَمْدُ لِلَّهِ‏ الَّذِي‏ لَا تُدْرِكُهُ‏ الشَّوَاهِدُ وَ لَا تَحْوِيهِ الْمَشَاهِدُ وَ لَا تَرَاهُ النَّوَاظِرُ <ref>نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/  ص 262</ref>۔ ترجمہ(شكر اس خدا كے ليے ہے جسے حواس خمسہ درك نہيں كرسكتے اور اسے مكان گھىر نہيں سكتى، اور نگاہىں اسے دىكھ نہيں سكتى)۔
4. وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ‏ الْكَائِنِ‏ قَبْلَ‏ أَنْ يَكُونَ كُرْسِيٌّ أَوْ عَرْشٌ أَوْ سَمَاءٌ أَوْ أَرْضٌ أَوْ جَانٌّ أَوْ إِنْسٌ لَا يُدْرَكُ بِوَهْمٍ‏  وَ لَا يُقَدَّرُ بِفَهْمٍ وَ لَا يَشْغَلُهُ سَائِلٌ وَ لَا يَنْقُصُهُ نَائِلٌ‏ وَ لَا يَنْظُرُ بِعَيْنٍ نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/  ص 269 .   ترجمہ(شكر اس خدا كے ليے خاص ہے جو ہمىشہ سے ہے اس سے قبل كہ كرسى ىا  عرش ىا آسمان ىا زمىن ىا جن ىا انسان وجود ميں آئے، اور نہ فكر وعقل اس كى شناخت سے عاجز ہے، اور كوئى سوال كرنے والا اس كے بارے ميں اپنے آپ كو مشغول نہيں كرسكتا اور اس كى بخشش كى كثرت اس ميں نقص نہيں كرسكتى، اور نہ مادى آنكھ اسے دىكھ سكتى ہے)  
4. وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ‏ الْكَائِنِ‏ قَبْلَ‏ أَنْ يَكُونَ كُرْسِيٌّ أَوْ عَرْشٌ أَوْ سَمَاءٌ أَوْ أَرْضٌ أَوْ جَانٌّ أَوْ إِنْسٌ لَا يُدْرَكُ بِوَهْمٍ‏  وَ لَا يُقَدَّرُ بِفَهْمٍ وَ لَا يَشْغَلُهُ سَائِلٌ وَ لَا يَنْقُصُهُ نَائِلٌ‏ وَ لَا يَنْظُرُ بِعَيْنٍ <ref>نہج البلاغہ(للصبحي صالح)/  ص 269</ref>. ترجمہ(شكر اس خدا كے ليے خاص ہے جو ہمىشہ سے ہے اس سے قبل كہ كرسى ىا  عرش ىا آسمان ىا زمىن ىا جن ىا انسان وجود ميں آئے، اور نہ فكر وعقل اس كى شناخت سے عاجز ہے، اور كوئى سوال كرنے والا اس كے بارے ميں اپنے آپ كو مشغول نہيں كرسكتا اور اس كى بخشش كى كثرت اس ميں نقص نہيں كرسكتى، اور نہ مادى آنكھ اسے دىكھ سكتى ہے)  
5. لا يُشملُ بِحدٍّ، ولا يُحسَبُ بِعدٍّ، وإنّما تَحُدُّ الأدواتُ أَنفُسُها، وتُشِيرُ الآلاتُ إلى نَظائِرِها.مَنعَتها «مُنذ» القِدمَةَ، وَحَمَتها «قد» الأَزلِيّةَ، وجَنّبَتها «لولا» التَكمِلةَ، بِها تَجلّى صَانِعُها للعُقول، وبِها اِمتَنع‏ عَن‏ نَظرِ العُيونِ  الذريعة إلى حافظ الشريعة (شرح أصول الكافي جيلانى) / ج‏،1ص 417 ترجمہ(اىسا خدا جس كى كوئى حد نہيں، اور عدد سے اس كى شمارش نہيں ہوتى، اور ىہ اوزار صرف اپنى محدود ہونے پر دال ہىں، اور آلات اپنے مثل ہونے كى طرف اشارہ كرتى ہىں۔فلاں  زمان سے ہونے كو اس كى قدامت نے روك دىا، اور قطعا وجود ميں آىا كے قول كو اس كے ازلى ہونے نے رد كردىا،  اس كے كمال نے اگر اىسا كامل ہوتا كےقول سے بچالىا، خدا نے اپنے مخلوقات كے ساتھ عقول كے پاس جلوہ دكھاىا، اور چشم ظاہرى كى دىد سے اس امتناع كىا)
5. لا يُشملُ بِحدٍّ، ولا يُحسَبُ بِعدٍّ، وإنّما تَحُدُّ الأدواتُ أَنفُسُها، وتُشِيرُ الآلاتُ إلى نَظائِرِها.مَنعَتها «مُنذ» القِدمَةَ، وَحَمَتها «قد» الأَزلِيّةَ، وجَنّبَتها «لولا» التَكمِلةَ، بِها تَجلّى صَانِعُها للعُقول، وبِها اِمتَنع‏ عَن‏ نَظرِ العُيونِ  الذريعة إلى حافظ الشريعة <ref>شرح أصول الكافي جيلانى) / ج‏،1ص 417</ref>۔ ترجمہ(اىسا خدا جس كى كوئى حد نہيں، اور عدد سے اس كى شمارش نہيں ہوتى، اور ىہ اوزار صرف اپنى محدود ہونے پر دال ہىں، اور آلات اپنے مثل ہونے كى طرف اشارہ كرتى ہىں۔فلاں  زمان سے ہونے كو اس كى قدامت نے روك دىا، اور قطعا وجود ميں آىا كے قول كو اس كے ازلى ہونے نے رد كردىا،  اس كے كمال نے اگر اىسا كامل ہوتا كےقول سے بچالىا، خدا نے اپنے مخلوقات كے ساتھ عقول كے پاس جلوہ دكھاىا، اور چشم ظاہرى كى دىد سے اس امتناع كىا)
6. لا تَنالُه الأوهامُ فتقدرهُ، ولا تتهمه الفطن فتصوره، ولا تدركه الحواس فتحسبه ترجمہ(عقول اس رسائى نہيں ركھتے كہ اس كے ليے حدود كا تصور كرے، افكار ا اس تك پَر نہيں مارسكتے كہ اس تصور كرسكے، حواس اس كے احساس سے عاجز ہىں)   
6. لا تَنالُه الأوهامُ فتقدرهُ، ولا تتهمه الفطن فتصوره، ولا تدركه الحواس فتحسبه ترجمہ(عقول اس رسائى نہيں ركھتے كہ اس كے ليے حدود كا تصور كرے، افكار ا اس تك پَر نہيں مارسكتے كہ اس تصور كرسكے، حواس اس كے احساس سے عاجز ہىں)   
امامية كے نزديك  رؤىت كى حقىقت اور  كىفىت
امامية كے نزديك  رؤىت كى حقىقت اور  كىفىت
ان كے نزدىك رؤىت سے مراد وہى معروف طبعي  رؤىت ہے،اور اس كى كىفىت بھى معروف طبىعى كىفىت ہے۔اور ىہ حواس خمسہ ميں سے اىك  اور دىكھنے كا اىك عضو ہے كہ جس كے ساتھ رؤىت متحقق ہوتى ہے۔((جب آنكھ كے وسط ميں روشنى پڑتى ہے تو اس كے ذرىعے رؤىت روتى ہے، پس عدسہ اس روشنى كو وسط ميں مركوز كرتا ہے تو اس كى وجہ سے پردے پر شكل مجسم ہوتى ہے، پھر بصرى رگىں اسے معكوس انداز ميں پىچھے دماغ كى طرف منتقل كرتى ہے اوردماغ  پر اس كا انعكاس اىسے طرىقے سے ہوتا ہے كہ آج تك سائنس دان اس كے فہم سے عاجز ہىں)) المورد انسائىكلوپىڈىا۔  ۔
ان كے نزدىك رؤىت سے مراد وہى معروف طبعي  رؤىت ہے،اور اس كى كىفىت بھى معروف طبىعى كىفىت ہے۔اور ىہ حواس خمسہ ميں سے اىك  اور دىكھنے كا اىك عضو ہے كہ جس كے ساتھ رؤىت متحقق ہوتى ہے۔((جب آنكھ كے وسط ميں روشنى پڑتى ہے تو اس كے ذرىعے رؤىت روتى ہے، پس عدسہ اس روشنى كو وسط ميں مركوز كرتا ہے تو اس كى وجہ سے پردے پر شكل مجسم ہوتى ہے، پھر بصرى رگىں اسے معكوس انداز ميں پىچھے دماغ كى طرف منتقل كرتى ہے اوردماغ  پر اس كا انعكاس اىسے طرىقے سے ہوتا ہے كہ آج تك سائنس دان اس كے فہم سے عاجز ہىں)) المورد انسائىكلوپىڈىا۔  ۔


رؤيت كي تحقق كي شرائط
== رؤيت كي تحقق كي شرائط ==
قوت باصرہ كے درك كرنے والى چىزىں روشنى، رنگ اور شكلىں ہىں۔اور رؤىت كے تحقق كے واسطے ىہ شرائط ذكر كئے گئے ہىں:
قوت باصرہ كے درك كرنے والى چىزىں روشنى، رنگ اور شكلىں ہىں۔اور رؤىت كے تحقق كے واسطے ىہ شرائط ذكر كئے گئے ہىں:
1- دىكھنے والا اور دىكھى جانے والى چىز آمنے سامنے ہو۔
1- دىكھنے والا اور دىكھى جانے والى چىز آمنے سامنے ہو۔
سطر 204: سطر 210:
4- مرئى جسم كثىف ہو(بہت رقىق اور نازك نہ ہو)۔
4- مرئى جسم كثىف ہو(بہت رقىق اور نازك نہ ہو)۔
5- مرئى جسم ىا روشن كرنے والا ہو ىا روشنى پڑنے پر روشن ہونے والا ہو۔
5- مرئى جسم ىا روشن كرنے والا ہو ىا روشنى پڑنے پر روشن ہونے والا ہو۔
اشاعرة كے اشكالات  
 
== اشاعرة كے اشكالات ==
رؤىت كے حامى اور مخالف دونوں نے اىك دوسرے پر اشكال كىے ہىں، اور چونكہ ان ميں سے اىك حصہ موضوعى ، رنگِ علمى سے رنگا ہوا ہے  اس ليے مناسب سمجھا كہ ان ميں سے بعض كو ذكر كروں۔
رؤىت كے حامى اور مخالف دونوں نے اىك دوسرے پر اشكال كىے ہىں، اور چونكہ ان ميں سے اىك حصہ موضوعى ، رنگِ علمى سے رنگا ہوا ہے  اس ليے مناسب سمجھا كہ ان ميں سے بعض كو ذكر كروں۔
  اور اشكالات اور اس قسم كى دىگر چىزىں غالبا مناقشہ كرنے والے ہرفرىق اپنے منتخب روش كى تطبىق كے ليے لے آتے ہىں  مدّعىٰ ىا اس دليل مقابل  كى نفى  كے ليےنہيں هوتا بلكہ جدل براى جدل، مسلّمات ميں شكوك اىجاد كرنےاور طرف مقابل سے نتىجہ حاصل كرنے كے ليے لے آتے ہىں۔
  اور اشكالات اور اس قسم كى دىگر چىزىں غالبا مناقشہ كرنے والے ہرفرىق اپنے منتخب روش كى تطبىق كے ليے لے آتے ہىں  مدّعىٰ ىا اس دليل مقابل  كى نفى  كے ليےنہيں هوتا بلكہ جدل براى جدل، مسلّمات ميں شكوك اىجاد كرنےاور طرف مقابل سے نتىجہ حاصل كرنے كے ليے لے آتے ہىں۔
سطر 212: سطر 219:
اشعرى نے كہتا هے: اگر كو ئى قائل كہے: پس اللہ كا قول (لا تدركه الأبصَار)كا معنى كىا ہے؟
اشعرى نے كہتا هے: اگر كو ئى قائل كہے: پس اللہ كا قول (لا تدركه الأبصَار)كا معنى كىا ہے؟
اسے جواب دىا جائىگا: احتمال ہے: اسے دنىا ميں نہ دىكھ سكے، اور آخرت ميں دىكھ سكتا ہو، كىونكہ رؤىت خداوندى بہترىن ذات ہے، اور بہترىن ذات دونوں جگہوں ميں سے  بہترىن ميں ممكن ہے۔  
اسے جواب دىا جائىگا: احتمال ہے: اسے دنىا ميں نہ دىكھ سكے، اور آخرت ميں دىكھ سكتا ہو، كىونكہ رؤىت خداوندى بہترىن ذات ہے، اور بہترىن ذات دونوں جگہوں ميں سے  بہترىن ميں ممكن ہے۔  
اور احتمال ہے كہ اللہ تعالى نے اپنے اس قول كے ساتھ(لا تُدرِكهُ الأَبصَارُ)ارادہ كىا ہو كہ كافرجھوٹے لوگو،  كى نگاہىں اسے  نہ دىكھ سكتى ہوں، اور ىہ  اس ليے كىونكہ قرآن كا بعض دوسرے بعض كى تصدىق كرتا ہے، پس جب آىت ميں كہا(وُجُوهٌ يَومَئِذٍ نَاضِرَةٌ* إِلَى رَبِّها نَاظِرةٌ اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے*اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)اور دوسرى آىت ميں كہا: (لا تُدرِكهُ الأَبصَارُ)ہم جان چكے كہ اللہ تعالى نے اس ميں كفار كى نگاہ مراد لى ہے كہ وہ اسے نہيں سكے گى)) سورۃ  الإبانہ ۱۵ اشعری، ابو الحسن، ۔ اشعرى كے اس بات پر نظر ثانى اس طرىقے سے ممكن ہے:
اور احتمال ہے كہ اللہ تعالى نے اپنے اس قول كے ساتھ(لا تُدرِكهُ الأَبصَارُ)ارادہ كىا ہو كہ كافرجھوٹے لوگو،  كى نگاہىں اسے  نہ دىكھ سكتى ہوں، اور ىہ  اس ليے كىونكہ قرآن كا بعض دوسرے بعض كى تصدىق كرتا ہے، پس جب آىت ميں كہا(وُجُوهٌ يَومَئِذٍ نَاضِرَةٌ* إِلَى رَبِّها نَاظِرةٌ اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے*اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)اور دوسرى آىت ميں كہا: (لا تُدرِكهُ الأَبصَارُ)ہم جان چكے كہ اللہ تعالى نے اس ميں كفار كى نگاہ مراد لى ہے كہ وہ اسے نہيں سكے گى)) <ref>اشعری، ابو الحسن، الإبانہ ۱۵</ref>۔ اشعرى كے اس بات پر نظر ثانى اس طرىقے سے ممكن ہے:
اشعری کے اشکال پر نقد
 
== اشعری کے اشکال پر نقد ==
(لا تدركہ) كا ظہور اطلاق ميں ہونا واضح ہے۔
(لا تدركہ) كا ظہور اطلاق ميں ہونا واضح ہے۔
اور اسى طرىقے سے كلمہ (الأبصار) كا ظہور عموم ميں ہونا بھى۔
اور اسى طرىقے سے كلمہ (الأبصار) كا ظہور عموم ميں ہونا بھى۔
سطر 221: سطر 229:
پس اس نے نفى والى پہلى آىت اور اثبات والى دوسرى آىت كے تعارض كو رفع كرنا چاہا تو دو احتمال مطرح كىا۔
پس اس نے نفى والى پہلى آىت اور اثبات والى دوسرى آىت كے تعارض كو رفع كرنا چاہا تو دو احتمال مطرح كىا۔
اور ىہ فطرى سى بات ہے كہ اشكال كرنے ميں روش كے اعتبار سے جس چىز كى پىروى كرنى چاہىے وہ ىہ ہے: جس نے  آىت كى نفى رؤىت پر دلالت ميں اشكال كىا اس پر اشكال كىا جائے:
اور ىہ فطرى سى بات ہے كہ اشكال كرنے ميں روش كے اعتبار سے جس چىز كى پىروى كرنى چاہىے وہ ىہ ہے: جس نے  آىت كى نفى رؤىت پر دلالت ميں اشكال كىا اس پر اشكال كىا جائے:
1-   (لا تدركہ)كا ظہور اطلاق ميں ہے، اور ابصار كا ظہور عموم ميں ہے،  دلىل عقلى كہ جو ان دونوں كى تائىد اور تاكىد ميں هے  ۔
1-(لا تدركہ)كا ظہور اطلاق ميں ہے، اور ابصار كا ظہور عموم ميں ہے،  دلىل عقلى كہ جو ان دونوں كى تائىد اور تاكىد ميں هے  ۔
2- احتمال كے ساتھ اطلاق اور عموم سے رفع ىد نہيں كرسكتے، كىونكہ كوئى بھى ظہور اىسا نہيں كہ جس كے مقابلے ميں احتمال نہ هو،وگرنہ نص ہونا چاہىے تھا نا ظہور، بلكہ ظہور سے ہاتھ تب كھىنچا جاسكتا ہے كہ اس سے زىادہ قوى ظہور ہو ىعنى اس سے روشن تر ہو تو پہلے والے ظہور سے ہاتھ اٹھاىا جاسكتا ہے۔
2- احتمال كے ساتھ اطلاق اور عموم سے رفع ىد نہيں كرسكتے، كىونكہ كوئى بھى ظہور اىسا نہيں كہ جس كے مقابلے ميں احتمال نہ هو،وگرنہ نص ہونا چاہىے تھا نا ظہور، بلكہ ظہور سے ہاتھ تب كھىنچا جاسكتا ہے كہ اس سے زىادہ قوى ظہور ہو ىعنى اس سے روشن تر ہو تو پہلے والے ظہور سے ہاتھ اٹھاىا جاسكتا ہے۔
اور ىہ دونوں امور اس سے نہيں ہوا ۔
اور ىہ دونوں امور اس سے نہيں ہوا ۔
سطر 242: سطر 250:
5- اس نے اپنے منہج كے خلاف خبر واحد سے استدلال كىا، اور شاىد اس نے اپنے مخالف كے اخبار احاد سے استدلال سے معارضہ كرنے كى خاطر كىا ہو تاكہ انہيں مؤىد بناكے پىش كىاجاسكے۔
5- اس نے اپنے منہج كے خلاف خبر واحد سے استدلال كىا، اور شاىد اس نے اپنے مخالف كے اخبار احاد سے استدلال سے معارضہ كرنے كى خاطر كىا ہو تاكہ انہيں مؤىد بناكے پىش كىاجاسكے۔
ىا مرجح  كى عدم موجودگى ىا كسى اور سبب كى خاطر ان  سب رواىات سے ہاتھ كھىنچنے كے ليے اىسا كىا  ہو۔ لىكن اس نے سبب ذكر نہيں كىا۔
ىا مرجح  كى عدم موجودگى ىا كسى اور سبب كى خاطر ان  سب رواىات سے ہاتھ كھىنچنے كے ليے اىسا كىا  ہو۔ لىكن اس نے سبب ذكر نہيں كىا۔
مقاىسہ
 
== اختلاف کی اصلی وجه ==
جىسا كہ دىكھا كہ اس بحث ميں اختلاف كا اصلى سبب وہ منہج اور روش ہے جس كے ىہ پىروى كرتے ہىں۔لهذا  اس منہج پر روشنى ڈالنا ضرورى ہے،  سب سے پہلے تىن اہم نكات كى طرف متوجہ رہنا ضروری ہے
جىسا كہ دىكھا كہ اس بحث ميں اختلاف كا اصلى سبب وہ منہج اور روش ہے جس كے ىہ پىروى كرتے ہىں۔لهذا  اس منہج پر روشنى ڈالنا ضرورى ہے،  سب سے پہلے تىن اہم نكات كى طرف متوجہ رہنا ضروری ہے
1- اصول دىن كے اثبات ميں عقل كى حجىت۔
1- اصول دىن كے اثبات ميں عقل كى حجىت۔
سطر 248: سطر 257:
3- مفہوم رؤىت كى حد بندى ۔
3- مفہوم رؤىت كى حد بندى ۔
پہلے دونوں نكات کے بارے میں:
پہلے دونوں نكات کے بارے میں:
سلفى اور اہل حدىث خبر واحد كے مقابلے ميں عقل سے انكار ميں افراطى ہىں، امام احمد بن حنبل سے رواىت نقل ہوئى كہ اس نے كہا: ((ہم قرآن وحدىث سے تعدى نہيں كرتےہىں)) حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲ ۔
سلفى اور اہل حدىث خبر واحد كے مقابلے ميں عقل سے انكار ميں افراطى ہىں، امام احمد بن حنبل سے رواىت نقل ہوئى كہ اس نے كہا: ((ہم قرآن وحدىث سے تعدى نہيں كرتےہىں)) <ref>حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲ </ref>.
اور ابن قاضى جبل – اپنے زمانے ميں حنابلہ كا مفتى- كا کہنا ہے : ((مذہب حنابلہ كے ہاں قابل قبول اخبار واحد ميں ىہ صلاحىت ہوتى ہے كہ وہ دىنى امور كا اثبات كرئے)) حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲ ۔
اور ابن قاضى جبل – اپنے زمانے ميں حنابلہ كا مفتى- كا کہنا ہے : ((مذہب حنابلہ كے ہاں قابل قبول اخبار واحد ميں ىہ صلاحىت ہوتى ہے كہ وہ دىنى امور كا اثبات كرئے)) <ref>حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲ ۔</ref>.
اور ابن عبد البر مالكى نے اجماع كا دعوى كردىا ہے كہ اصول دىن  ميں خبر واحد پر عمل كرنا جائز ہے۔اور وہ اس ليے ہے كىونكہ خبر واحد كہ جسے تصدىق كرتے ہوئے امت نے  شرف قبولىت بخشى اور اس پرعمل كىا  ان كے نزدىك علم وىقىن كا فائدہ ديتى ہے۔
اور ابن عبد البر مالكى نے اجماع كا دعوى كردىا ہے كہ اصول دىن  ميں خبر واحد پر عمل كرنا جائز ہے۔اور وہ اس ليے ہے كىونكہ خبر واحد كہ جسے تصدىق كرتے ہوئے امت نے  شرف قبولىت بخشى اور اس پرعمل كىا  ان كے نزدىك علم وىقىن كا فائدہ ديتى ہے۔
تنبیہ: یہ مسئلہ اىسا نہيں ہے جس پر اجماع  ہو، بلکہ  اسکی فائدے كى كىفىت  كے بارے ميں علماء سنت كے ہاں عموما اختلاف پاىا جاتا ہے، اسی طرح اصول عقائد ميں خبر واحد پر جواز عمل كے بارےدوسرا اختلاف  پایا جاتاہے،  حتى حنابلہ كے ہاں بھى ىہ اختلاف پاىا جاتا ہے، صرف ابو الخطاب  حنبلى، ابن عقىل حنبلى ، غىر اصول دىن ميں اس پر عمل كے بارے ميں عدم جواز كا قائل ہىں حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲ ۔
تنبیہ: یہ مسئلہ اىسا نہيں ہے جس پر اجماع  ہو، بلکہ  اسکی فائدے كى كىفىت  كے بارے ميں علماء سنت كے ہاں عموما اختلاف پاىا جاتا ہے، اسی طرح اصول عقائد ميں خبر واحد پر جواز عمل كے بارےدوسرا اختلاف  پایا جاتاہے،  حتى حنابلہ كے ہاں بھى ىہ اختلاف پاىا جاتا ہے، صرف ابو الخطاب  حنبلى، ابن عقىل حنبلى ، غىر اصول دىن ميں اس پر عمل كے بارے ميں عدم جواز كا قائل ہىں <ref>حنفی، احمد بن محمد، شرح الكواكب المنىر ج۲، ص۳۵۲</ref>۔
اور اصول دىن ميں خبر واحد كى حجىت اور معتبر  ہونا  مفید یقیں ہونے یامحض سنت ىا حدىث ہونے كے لحاظ سے نہيں ہے۔بلکہ  امت نے اسے قبولىت بخشنے ىا كسى اور سبب كى وجہ سے ہے
اور اصول دىن ميں خبر واحد كى حجىت اور معتبر  ہونا  مفید یقیں ہونے یامحض سنت ىا حدىث ہونے كے لحاظ سے نہيں ہے۔بلکہ  امت نے اسے قبولىت بخشنے ىا كسى اور سبب كى وجہ سے ہے
جبکہ عقائد كے اثبات كے ليے  اس كا ملاك مفىد علم (ىقىن )ہونا ہے۔
جبکہ عقائد كے اثبات كے ليے  اس كا ملاك مفىد علم (ىقىن )ہونا ہے۔
سطر 265: سطر 274:
ىہاں قرآن كرىم كى ان آىات كو  بىان كركے بات طولانى نہيں كرونگا كہ جو اللہ تعالى كى ملكوت اور مخلوق ميں تفكر كى طرف دعوت ديتى ہے ، اور عقلى صلاحىت  اور اس كے قواعداستعمال كرنے كى طرف دعوت دى تاكہ اللہ تعالى كى معرفت حاصل ہوسكے كہ جو اصل دىن كا ركن اساسى اور بنىاد ہے۔
ىہاں قرآن كرىم كى ان آىات كو  بىان كركے بات طولانى نہيں كرونگا كہ جو اللہ تعالى كى ملكوت اور مخلوق ميں تفكر كى طرف دعوت ديتى ہے ، اور عقلى صلاحىت  اور اس كے قواعداستعمال كرنے كى طرف دعوت دى تاكہ اللہ تعالى كى معرفت حاصل ہوسكے كہ جو اصل دىن كا ركن اساسى اور بنىاد ہے۔


عقل اور نقل میں تعارض کی صورت میں
== عقل اور نقل میں تعارض کی صورت ==
عقل پر اعتماد اور اس كى طرف رجوع ميں كوئى اشكال نہيں ہے۔ لیکں اگر وہ چىزىں جنہيں عقل درك كرسكتى ہے اور جو اشىاء خبر واحد كے ظاہر سے كہ جو مفىد ىقىن ہے ان ميں تعارض ہو جائے تو كىا كرىں؟
عقل پر اعتماد اور اس كى طرف رجوع ميں كوئى اشكال نہيں ہے۔ لیکں اگر وہ چىزىں جنہيں عقل درك كرسكتى ہے اور جو اشىاء خبر واحد كے ظاہر سے كہ جو مفىد ىقىن ہے ان ميں تعارض ہو جائے تو كىا كرىں؟
جو چىز  واضح ہے  وہ ان دونوں كوجمع كرنے ميں ہے۔
جو چىز  واضح ہے  وہ ان دونوں كوجمع كرنے ميں ہے۔
سطر 273: سطر 282:
اور اسى طرح بظاہر دو متعارض آىتوں كى تفسىربھى اىسے كرتے ہىں جىسے آىت بصر ظاہر ا رؤىت كى نفى پر دال ہے اور آىت نظر كا ظاہر امكان رؤىت كو ثابت كرتى ہے، اس آىت كے ظاہر سےرفع ىد كرتے ہىں جو اصل توحىد كى نفى كرتى ہےكىونكہ اس كى دلالت ظنى ہے، اور اس آىت كے ظہور سے تمسك كرىنگے جو اصل توحىد كے ساتھ سازگار ہےكىونكہ اسكي دلىل عقلى كے قرىنے كے ساتھ دلالت قطعى ہے۔
اور اسى طرح بظاہر دو متعارض آىتوں كى تفسىربھى اىسے كرتے ہىں جىسے آىت بصر ظاہر ا رؤىت كى نفى پر دال ہے اور آىت نظر كا ظاہر امكان رؤىت كو ثابت كرتى ہے، اس آىت كے ظاہر سےرفع ىد كرتے ہىں جو اصل توحىد كى نفى كرتى ہےكىونكہ اس كى دلالت ظنى ہے، اور اس آىت كے ظہور سے تمسك كرىنگے جو اصل توحىد كے ساتھ سازگار ہےكىونكہ اسكي دلىل عقلى كے قرىنے كے ساتھ دلالت قطعى ہے۔


اب ان تين اصول  كى روشنى ميں:
== تين اصول  كى روشنى ميں ==
منكرىن رؤىت كا آىت بصر كو اس كے ظاہر ، اس كے اطلاق اور اس كے عموم پر حمل كرنا اور آىت نظر كى تاوىل كرنا منہج كے اعتبار سے  بلكل درست ہے۔لىكن خبر واحد كا اس ليے انكار كرنا كہ ىہ عقائد كے اثبات كى صلاحىت نہيں ركھتى- ان كے اپنى راى  كے مطابق -كىونكہ ىہ سند اور دلالت كے لحاظ سے ظنى ہےپس ىہ صرف گمان كا فائدہ ديتى ہے، اور عقىدے ميں مطلوب دلالت ىقىن كى حد تك پہنچنى چاہىے۔
منكرىن رؤىت كا آىت بصر كو اس كے ظاہر ، اس كے اطلاق اور اس كے عموم پر حمل كرنا اور آىت نظر كى تاوىل كرنا منہج كے اعتبار سے  بلكل درست ہے۔لىكن خبر واحد كا اس ليے انكار كرنا كہ ىہ عقائد كے اثبات كى صلاحىت نہيں ركھتى- ان كے اپنى راى  كے مطابق -كىونكہ ىہ سند اور دلالت كے لحاظ سے ظنى ہےپس ىہ صرف گمان كا فائدہ ديتى ہے، اور عقىدے ميں مطلوب دلالت ىقىن كى حد تك پہنچنى چاہىے۔
اسى طرح ىہ توحىد كى دلىل عقلى سے تعارض كرنے كى طاقت نہيں ركھتى كىونكہ اس كى دلالت ىقىنى ہے، اور خبر واحد كى دلالت ظنى ۔
اسى طرح ىہ توحىد كى دلىل عقلى سے تعارض كرنے كى طاقت نہيں ركھتى كىونكہ اس كى دلالت ىقىنى ہے، اور خبر واحد كى دلالت ظنى ۔
سطر 280: سطر 289:
1- اشاعرہ  متنازع فىہ موضوع سے خارج ہوگا ہے۔وہ اس طرح كہ ذات خداوندى كے تجرد اور اس كى بساطت كے اعتقاد كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے  تنازعہ كا موضوع چشم بينا كے ساتھ اللہ تعالى كى رؤىت اور وضعى طبىعى كے ساتھ رؤىت تھى۔
1- اشاعرہ  متنازع فىہ موضوع سے خارج ہوگا ہے۔وہ اس طرح كہ ذات خداوندى كے تجرد اور اس كى بساطت كے اعتقاد كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے  تنازعہ كا موضوع چشم بينا كے ساتھ اللہ تعالى كى رؤىت اور وضعى طبىعى كے ساتھ رؤىت تھى۔
جبکہ انہوں كہا:رؤىت ادراكى كے ساتھ دىكھنا ہے۔ چھٹے حس ىا خاص حس كے ساتھ دىكھنا ۔پس مؤمن اللہ تعالى كو ادراك اور علم كے ساتھ دىكھتا ہے نہ كہ ظاہرى آنكھ كے ساتھ مشاہدہ كرسكتا ہے۔
جبکہ انہوں كہا:رؤىت ادراكى كے ساتھ دىكھنا ہے۔ چھٹے حس ىا خاص حس كے ساتھ دىكھنا ۔پس مؤمن اللہ تعالى كو ادراك اور علم كے ساتھ دىكھتا ہے نہ كہ ظاہرى آنكھ كے ساتھ مشاہدہ كرسكتا ہے۔
2-   اشاعرہ نے اس كے ليے مثال پىش كى كہ اللہ تعالى كى رؤىت چودہوىں رات كے چاند كى مانند ہےرؤىت ادراك كے ساتھ منافات ركھتا ہے كىونكہ چاند كى رؤىت مشاہدہ حسى اور چشم ظاہرى كے ساتھ ہوتى ہے،جىسا كہ امام شافعى نے استفادہ كىا كہ ىہ حدىث رؤىت قمر ہے، پس اس نے ىہ ٹھان لى كہ – جىسا كہ پہلے گذر گىا- چشم ظاہرى كے ساتھ رؤىت  كى مثال دىنے كا معنى صرف اور صرف ىہ ہوگا كہ رؤىت آنكھ سے ہوتى ہے۔
2- اشاعرہ نے اس كے ليے مثال پىش كى كہ اللہ تعالى كى رؤىت چودہوىں رات كے چاند كى مانند ہےرؤىت ادراك كے ساتھ منافات ركھتا ہے كىونكہ چاند كى رؤىت مشاہدہ حسى اور چشم ظاہرى كے ساتھ ہوتى ہے،جىسا كہ امام شافعى نے استفادہ كىا كہ ىہ حدىث رؤىت قمر ہے، پس اس نے ىہ ٹھان لى كہ – جىسا كہ پہلے گذر گىا- چشم ظاہرى كے ساتھ رؤىت  كى مثال دىنے كا معنى صرف اور صرف ىہ ہوگا كہ رؤىت آنكھ سے ہوتى ہے۔
اور اس كا معنى ىہ ہوگا كہ وہ اللہ تعالى كو عىن باصرہ كے ساتھ دىكھ سكتا ہے، اور ىہ رؤىت علمى ىا ادراكى سے مختلف ہےكىونكہ ادراك رؤىت قلبى كا نام ہے۔
اور اس كا معنى ىہ ہوگا كہ وہ اللہ تعالى كو عىن باصرہ كے ساتھ دىكھ سكتا ہے، اور ىہ رؤىت علمى ىا ادراكى سے مختلف ہےكىونكہ ادراك رؤىت قلبى كا نام ہے۔
3- جس طرح تھوڑى دىر پہلے كہا گیا كہ رؤىت كا متفق علىہ مفہوم كى حدبندى ضرورى ہےتاكہ اس ميں نفى اور اثبات ميں بحث كرنا صحىح ہوجائے۔
3- جس طرح تھوڑى دىر پہلے كہا گیا كہ رؤىت كا متفق علىہ مفہوم كى حدبندى ضرورى ہےتاكہ اس ميں نفى اور اثبات ميں بحث كرنا صحىح ہوجائے۔
سطر 291: سطر 300:
* پس كونسى شئى ہے جس نے اشاعرہ كو اتنے انتشار ميں مبتلا كردى ہے؟
* پس كونسى شئى ہے جس نے اشاعرہ كو اتنے انتشار ميں مبتلا كردى ہے؟


رویت کے قایل هونے کی سب سے بڑ ی وجه
== رویت کے قایل هونے کی سب سے بڑ ی وجه ==
جو چىز روشن  ہے- خاص كر ان كا ذات الہى كا تجرد اور اس كى بساطت كے عقىدے كى حفاظت  پر اصرار- جس چىز نے ان كو اس كى طرف دعوت دى وہ ہے: رؤىت كى احادىث كتب صحاح ميں آئى ہے۔اگر ان كا انكار  كرے –یا اسى طرح اس كى تاوىل- تو سنّى احادىث كى صحت اور سلامت ميں شك كا دروازہ كھل جائے گا۔ اور وہ لوگ ىہ نہيں چاہتے۔
جو چىز روشن  ہے- خاص كر ان كا ذات الہى كا تجرد اور اس كى بساطت كے عقىدے كى حفاظت  پر اصرار- جس چىز نے ان كو اس كى طرف دعوت دى وہ ہے: رؤىت كى احادىث كتب صحاح ميں آئى ہے۔اگر ان كا انكار  كرے –یا اسى طرح اس كى تاوىل- تو سنّى احادىث كى صحت اور سلامت ميں شك كا دروازہ كھل جائے گا۔ اور وہ لوگ ىہ نہيں چاہتے۔
اسی لیے  انہوں نے تشدد كا راستہ اختىار كىا تاكہ ان كے صحاح كا قلعہ محفوظ رہ جائے۔
اسی لیے  انہوں نے تشدد كا راستہ اختىار كىا تاكہ ان كے صحاح كا قلعہ محفوظ رہ جائے۔
سطر 311: سطر 320:
6- اور مغالطے كے لحاظ سے دوسرى دلىل بھى اسى سے مربوط ہے،كىونكہ بارى تعالى كا اپنى ذات كى رؤىت  رؤىت بصرى نہيں ہے، اور جس چىز كے بارے ميں تنازعہ ہے وہ رؤىت بصرى ہے۔
6- اور مغالطے كے لحاظ سے دوسرى دلىل بھى اسى سے مربوط ہے،كىونكہ بارى تعالى كا اپنى ذات كى رؤىت  رؤىت بصرى نہيں ہے، اور جس چىز كے بارے ميں تنازعہ ہے وہ رؤىت بصرى ہے۔
كىونكہ اللہ تعالى كا اپنى رؤىت –اگر ىہ تعبىر صحىح ہو تو-  اپنى ذات كا علم ہے، اور وہ علم حضور ی ہے۔اور اشعرى ىہ نہيں كہتا ہے كہ مؤمن كا اپنے پروردگار كى رؤىت اىك قسم كا علم حضورى ہے، اس كے باوجود –اگر ہم نے تسلىم بھى كرلىا- ىہ رؤىت بصرى ہے، پس ىہ مورد بحث  سے خارج ہے۔
كىونكہ اللہ تعالى كا اپنى رؤىت –اگر ىہ تعبىر صحىح ہو تو-  اپنى ذات كا علم ہے، اور وہ علم حضور ی ہے۔اور اشعرى ىہ نہيں كہتا ہے كہ مؤمن كا اپنے پروردگار كى رؤىت اىك قسم كا علم حضورى ہے، اس كے باوجود –اگر ہم نے تسلىم بھى كرلىا- ىہ رؤىت بصرى ہے، پس ىہ مورد بحث  سے خارج ہے۔
خلاصہ
 
== تحقیق کا خلاصہ ==
جس چىز پر مفىد ىقىن  عقلى  دلائل  دلالت کرتی هے وہ : اللہ تعالى كے ليے وحدت مطلقہ كا اثبات ، اس آىت كرىمہ (لا تدركه الأبصارُ)  سے رؤىت بصرى كى مطلقا  دنىا آخرت دونوں ميں نفى  پر قرىنہ ہے اور اس كےتمام مخلوقات مبصرہ كى نسبت عام ہے۔
جس چىز پر مفىد ىقىن  عقلى  دلائل  دلالت کرتی هے وہ : اللہ تعالى كے ليے وحدت مطلقہ كا اثبات ، اس آىت كرىمہ (لا تدركه الأبصارُ)  سے رؤىت بصرى كى مطلقا  دنىا آخرت دونوں ميں نفى  پر قرىنہ ہے اور اس كےتمام مخلوقات مبصرہ كى نسبت عام ہے۔
===نظر کے اقسام===
اور اسى كى روشنى ميں آىت كرىمہ (إِلَى رَبِّها نَاظِرةٌ)كى تفسىر كى جائے گى كہ ىہ سابقہ آىت سے تعارض نہيں ركھتى، جىساكہ نفى رؤىت والوں نے اس كى تأوىل كى ہے  اور كہاہے : اس سے مراد مندرجہ ذىل ميں آنے والے معانى ميں سے اىك ہے:۔
اور اسى كى روشنى ميں آىت كرىمہ (إِلَى رَبِّها نَاظِرةٌ)كى تفسىر كى جائے گى كہ ىہ سابقہ آىت سے تعارض نہيں ركھتى، جىساكہ نفى رؤىت والوں نے اس كى تأوىل كى ہے  اور كہاہے : اس سے مراد مندرجہ ذىل ميں آنے والے معانى ميں سے اىك ہے:۔
1- نظر بصرى
 
=== نظر بصرى ===
لىكن ىہ معنى مضاف كو حذف  ماننے كى صورت ميں ہے جىسے: (إلى ثواب ربها)۔اور اس كى توجىہ كى جاتى ہے كہ اگرچہ ىہ خلاف اصل (كىونكہ اصل عدم تقدىر ہے)ہےاور وہ رؤىت بصرى كى نفى مسلّم ہے كىونكہ ىہ عقىدہ وحدانىت سے منافات ركھتا ہے۔
لىكن ىہ معنى مضاف كو حذف  ماننے كى صورت ميں ہے جىسے: (إلى ثواب ربها)۔اور اس كى توجىہ كى جاتى ہے كہ اگرچہ ىہ خلاف اصل (كىونكہ اصل عدم تقدىر ہے)ہےاور وہ رؤىت بصرى كى نفى مسلّم ہے كىونكہ ىہ عقىدہ وحدانىت سے منافات ركھتا ہے۔
 
2- نظر قلبى
=== نظر قلبى ===
سىد طباطبائى اس بات كا قائل ہے، آىت كى تفسىر ميں كہا: ((اوراللہ تعالى كى طرف نظر سے مراد نظر حسى كہ جو جسمانى آنكھ كے ساتھ ہوتا ہےنہيں ہے، كىونكہ رؤىت خدا وندمتعال محال ہونے پر برہان قطعى قائم ہے۔
سىد طباطبائى اس بات كا قائل ہے، آىت كى تفسىر ميں كہا: ((اوراللہ تعالى كى طرف نظر سے مراد نظر حسى كہ جو جسمانى آنكھ كے ساتھ ہوتا ہےنہيں ہے، كىونكہ رؤىت خدا وندمتعال محال ہونے پر برہان قطعى قائم ہے۔
بلكہ حقىقىت اىمان كے ساتھ قلبى نگاہ اور رؤىت قلبى مراد ہے، اسى طرح عقلى براہىں بھى ىہى كہتى ہے، اور اہل بىتؑ عصمت سے وارد رواىات  بھى اسى پر دال ہىں، اور ان  احادىث ميں سے كچھ رواىات  آىہ شرىفہ ‏"قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ اعراف: ۱۴۳" (انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)و آىت‏"ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" نجم: ۱۱ (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا) كى تفسىر ميں ذكر كى ہے۔
بلكہ حقىقىت اىمان كے ساتھ قلبى نگاہ اور رؤىت قلبى مراد ہے، اسى طرح عقلى براہىں بھى ىہى كہتى ہے، اور اہل بىتؑ عصمت سے وارد رواىات  بھى اسى پر دال ہىں، اور ان  احادىث ميں سے كچھ رواىات  آىہ شرىفہ ‏"قالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ <ref>اعراف: ۱۴۳</ref>۔ (انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)و آىت‏"ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" <ref>نجم: ۱۱</ref>۔ (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا) كى تفسىر ميں ذكر كى ہے۔
پس اس گروہ كا دل اپنے پروردگار كى طرف متوجہ ہے، اور كوئى سبب ان كے دلوں  كوىاد خدا سے مشغول كرتا، كىونكہ اس دن سارے اسباب ساقط ہونگے،اور روز كوئى موقف بھى استقامت نہيں دكھا سكتا، اور مراحل ميں سے كوئى  مرحلہ بھى طے نہيں مگراىنكہ رحمت الہى انہيں شامل حال ہوں"وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ‏ النمل:89۔" (اور وہ لوگ روزِ قیامت کے خوف سے محفوظ بھی رہیں گے)اور جنت كے مناظر ميں سے كچھ بھى دىكھ نہ پائىنگے،اور نعمات خدا ميں سے كوئى نعمت بھى حاصل نہ كرپائىں گے مگر ىہ كہ وہ اس حال ميں اپنے پروردگار كا مشاہدہ كرىنگے، چونكہ وہ كسى شئى پر نگاہ نہيں كرىنگے، اور كسى چىز كونہيں دىكھىں گے،مگر ىہ كہ اللہ تعالى كى نشاىانىوں كو دىكھتے ہىں، اورنشانىوں كو دىكھنا  اس لحاظ سے كہ وہ نشانى ہے اس نشانى كے مالك كى طرف نگاہ كرنا ہے)) محمد حسین،الميزان في تفسير القرآن، ج‏20 ،ص112 ، ۔
پس اس گروہ كا دل اپنے پروردگار كى طرف متوجہ ہے، اور كوئى سبب ان كے دلوں  كوىاد خدا سے مشغول كرتا، كىونكہ اس دن سارے اسباب ساقط ہونگے،اور روز كوئى موقف بھى استقامت نہيں دكھا سكتا، اور مراحل ميں سے كوئى  مرحلہ بھى طے نہيں مگراىنكہ رحمت الہى انہيں شامل حال ہوں"وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ‏ <ref>النمل:89۔</ref>۔ (اور وہ لوگ روزِ قیامت کے خوف سے محفوظ بھی رہیں گے)اور جنت كے مناظر ميں سے كچھ بھى دىكھ نہ پائىنگے،اور نعمات خدا ميں سے كوئى نعمت بھى حاصل نہ كرپائىں گے مگر ىہ كہ وہ اس حال ميں اپنے پروردگار كا مشاہدہ كرىنگے، چونكہ وہ كسى شئى پر نگاہ نہيں كرىنگے، اور كسى چىز كونہيں دىكھىں گے،مگر ىہ كہ اللہ تعالى كى نشاىانىوں كو دىكھتے ہىں، اورنشانىوں كو دىكھنا  اس لحاظ سے كہ وہ نشانى ہے اس نشانى كے مالك كى طرف نگاہ كرنا ہے)) <ref>محمد حسین،الميزان في تفسير القرآن، ج‏20 ،ص112</ref> ۔
اور جسے علامہ نے ذكركىا وہ فصىح عربى اسلوب ہے، اور اسى كو شاعر نے ىوں بىان كىا:
اور جسے علامہ نے ذكركىا وہ فصىح عربى اسلوب ہے، اور اسى كو شاعر نے ىوں بىان كىا:
ويوم بذي قار كأن وجوههم إلى الموت من وقع السيوف نواظرُ
ويوم بذي قار كأن وجوههم إلى الموت من وقع السيوف نواظرُ
ترجمہ:(ذى قار كے روز جس پر تلوار چلتى  تو اىسا لگتا كہ  گوىا وہ  موت  كى طرف دىكھ رہے ہوں اور اس كے انتظار ميں بىٹھے ہوں)۔
ترجمہ:(ذى قار كے روز جس پر تلوار چلتى  تو اىسا لگتا كہ  گوىا وہ  موت  كى طرف دىكھ رہے ہوں اور اس كے انتظار ميں بىٹھے ہوں)۔
بے شك موت نہ دىكھى جاسكتى ہے نہ اس كى طرف نگاہ كرنا ممكن ہے۔اور شاعر نے موت كى طرف نگاہ سے مراد ضربت ، نىزہ زنى، زخمى ہونا، شہسواروں كا ہجوم اور بڑھ بڑھ كے حملہ كرنا مراد لیا  ہے، اور ىہ سارے موت كے اسباب ہىں : ضوؤ السارى ص ۴۶- ۴۷ ۔
بے شك موت نہ دىكھى جاسكتى ہے نہ اس كى طرف نگاہ كرنا ممكن ہے۔اور شاعر نے موت كى طرف نگاہ سے مراد ضربت ، نىزہ زنى، زخمى ہونا، شہسواروں كا ہجوم اور بڑھ بڑھ كے حملہ كرنا مراد لیا  ہے، اور ىہ سارے موت كے اسباب ہىں <ref>ضوؤ السارى ص ۴۶- ۴۷</ref>۔
3- انتظار
 
=== نظر انتظار ===
ىہ كلمہ (نظر) كے معنى حقىقى ميں سے اىك ہے كہ جس معنى ميں قرآن نے استعمال كىا ہے۔ صاحب لسان العرب  كہتا ہے: ((نظر، ىعنى انتظار كو: كہا جاتا ہے: نظرتُ فلانا وانتظرتهُ ىعنى ميں نے اس كا انتظار كىا، دونوں كا اىك ہى معنى ہے۔ اور اسى معنى ميں عمرو بن كلثوم كا قول ہے:  
ىہ كلمہ (نظر) كے معنى حقىقى ميں سے اىك ہے كہ جس معنى ميں قرآن نے استعمال كىا ہے۔ صاحب لسان العرب  كہتا ہے: ((نظر، ىعنى انتظار كو: كہا جاتا ہے: نظرتُ فلانا وانتظرتهُ ىعنى ميں نے اس كا انتظار كىا، دونوں كا اىك ہى معنى ہے۔ اور اسى معنى ميں عمرو بن كلثوم كا قول ہے:  
أبا هند فلا تعجل علينا وانظرنا نخبّركَ اليقينا ماده: نظر   
أبا هند فلا تعجل علينا وانظرنا نخبّركَ اليقينا ماده: نظر   
سطر 332: سطر 346:
إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلىَ‏ طَعَامٍ غَيرْ ظِرِينَ إِنَئه  احزاب: ۵۳  (جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت  تك برتنوں كا انتظار نہ كرنا)
إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلىَ‏ طَعَامٍ غَيرْ ظِرِينَ إِنَئه  احزاب: ۵۳  (جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت  تك برتنوں كا انتظار نہ كرنا)
يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ حدید: ۱۳  (اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں صاحبان ایمان سے کہیں گے کہ ذرا ہمارا انتظار كرنا کہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کریں)
يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ حدید: ۱۳  (اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں صاحبان ایمان سے کہیں گے کہ ذرا ہمارا انتظار كرنا کہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کریں)
فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فاطر: ۴۳۔ ( یہ گزشتہ لوگوں کے بارے میں خدا کے طریقہ کار کے علاوہ کسی چیز کا انتظار نہیں کررہے ہیں)
فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ <ref>فاطر: ۴۳۔</ref>۔ ( یہ گزشتہ لوگوں کے بارے میں خدا کے طریقہ کار کے علاوہ کسی چیز کا انتظار نہیں کررہے ہیں)
مَا يَنظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَة  يس: ۴۹ (درحقیقت یہ صرف ایک چنگھاڑ کا انتظار کررہے ہیں)
مَا يَنظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَة  <ref>يس: ۴۹</ref> ۔ (درحقیقت یہ صرف ایک چنگھاڑ کا انتظار کررہے ہیں)
وَ إِنىّ‏ِ مُرْسِلَةٌ إِلَيهْم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةُ  بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُون نمل: ۳۵ (اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوں اور پھر انتظار كر رہی ہوں کہ میرے نمائندے کیا جواب لے کر آتے ہیں)۔
وَ إِنىّ‏ِ مُرْسِلَةٌ إِلَيهْم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةُ  بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُون <ref>نمل: ۳۵</ref> ۔ (اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوں اور پھر انتظار كر رہی ہوں کہ میرے نمائندے کیا جواب لے کر آتے ہیں)۔
آىت كرىمہ ميں كلمہ (ناظرہ) كى تفسىر(منتظرہ) كے ساتھ كرنے پر اشكال كىا كہ فعل(نظر) اگر بصر كے معنى ميں ہو تو حرف (إلى) كى طرف متعدى ہوتا ہے، اور اگر انتظار كے معنى ميں ہوتو خود متعدى ہےجىساكہ مذكورہ آىات ميں ہے سواى آخرى آىت كے كہ  جو حرف باء كے ساتھ متعدى ہے۔  
آىت كرىمہ ميں كلمہ (ناظرہ) كى تفسىر(منتظرہ) كے ساتھ كرنے پر اشكال كىا كہ فعل(نظر) اگر بصر كے معنى ميں ہو تو حرف (إلى) كى طرف متعدى ہوتا ہے، اور اگر انتظار كے معنى ميں ہوتو خود متعدى ہےجىساكہ مذكورہ آىات ميں ہے سواى آخرى آىت كے كہ  جو حرف باء كے ساتھ متعدى ہے۔  
اور اس كا جواب دىا گىا:
اور اس كا جواب دىا گىا:
سطر 352: سطر 366:
پس آىت مذكورہ ميں استعمال قرآنى كو اس پر حمل كرىنگے۔
پس آىت مذكورہ ميں استعمال قرآنى كو اس پر حمل كرىنگے۔
قرآن كرىم نے اسم فاعل (ناظرہ) كو اللہ تعالى كے اس قول ميں باء كى طرف متعدّى كىا ہے:  
قرآن كرىم نے اسم فاعل (ناظرہ) كو اللہ تعالى كے اس قول ميں باء كى طرف متعدّى كىا ہے:  
  فَنَاظِرَةُ  بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُون  نمل:35۔ ( پھر دىكھ  رہی ہوں کہ میرے نمائندے کیا جواب لے کر آتے ہیں)۔
  فَنَاظِرَةُ  بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُون  <ref>نمل:35۔</ref> ۔ ( پھر دىكھ  رہی ہوں کہ میرے نمائندے کیا جواب لے کر آتے ہیں)۔
اس كا ىہ معنى ہوا كہ ىہ كلمہ حرف كے ساتھ اور بلا اضافہ خود بھى متعدى ہوتا ہے۔
اس كا ىہ معنى ہوا كہ ىہ كلمہ حرف كے ساتھ اور بلا اضافہ خود بھى متعدى ہوتا ہے۔
لىكن از لحاظ منہج وروش ضرورى ہے: قرآن كرىم ميں رؤىت كے استعمالات كو جانجنا چاہىے، كىونكہ (ناظرہ) –ىہاں –جىسا كہ سىاق سے روشن ہے كہ رؤىت كا فائدہ دىتا ہے نہ انتظار كا۔
 
=== قلبى كا اثبات متحقق ہے ===
لىكن از لحاظ منہج وروش ضرورى ہے: قرآن كرىم ميں رؤىت كے استعمالات كو جانجنا چاہىے، كىونكہ (ناظرہ) –ىہاں –جىسا كہ سىاق سے روشن ہے كہ رؤىت كا فائدہ دىتا ہے نہ انتظار كا۔
اور (نضرہ)  كے قرىنے كى وجہ سے ہےجو بشارت دىنے اور ليے پر دلالت كرتا ہے، اس كے ساتھ اللہ تعالى دنىا ميں اطاعت كى جزاء كے عنوان سے اپنى نعمت دے عطا ہے ۔
اور (نضرہ)  كے قرىنے كى وجہ سے ہےجو بشارت دىنے اور ليے پر دلالت كرتا ہے، اس كے ساتھ اللہ تعالى دنىا ميں اطاعت كى جزاء كے عنوان سے اپنى نعمت دے عطا ہے ۔
اور قرىنہ (وَ وُجُوهٌ يَوْمَئذِ  بَاسِرَة  القیامہ: ۲۴ ۔اور بعض چہرے افسردہ ہوں گے)باسرہ ىعنى سكڑے پىشانى، افسردہ چہرہ ہے كىونكہ وہ ىہ عقىدہ ركھتے ہىں كہ ان كى نافرمانى اور عصىان كى سزا اىسى مصائب جو رىڑھ كى ہڈى  توڑ دے گى اور كرشكن ہونگے كا سامنا كرنا پڑے گا۔
اور قرىنہ (وَ وُجُوهٌ يَوْمَئذِ  بَاسِرَة  <ref>القیامہ: ۲۴</ref>۔ اور بعض چہرے افسردہ ہوں گے)باسرہ ىعنى سكڑے پىشانى، افسردہ چہرہ ہے كىونكہ وہ ىہ عقىدہ ركھتے ہىں كہ ان كى نافرمانى اور عصىان كى سزا اىسى مصائب جو رىڑھ كى ہڈى  توڑ دے گى اور كرشكن ہونگے كا سامنا كرنا پڑے گا۔
اور سىد طباطبائى  اس آیت (رَبِّ أَرِني‏ أَنْظُرْ إِلَيْك‏  پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)كى تفسىر مین  
 
==علامه طباطبائى کا رویت پر تحقیق==
اور سىد طباطبائى  اس آیت (رَبِّ أَرِني‏ أَنْظُرْ إِلَيْك‏  پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)كى تفسىر مین  
اپنى تحقىق سے اس نتىجے پہ پہنچا  ہےكہ دنىا اور آخرت دونوں ميں رؤىت بصرى ممكن نہيں، اور اس پر ىہ آىت كرىمہ دلالت كرتى ہے(لا تُدْرِكُهُ‏ الْأَبْصار)اور مؤمن كے ليے وہ بھى صرف آخرت ميں رؤىت قلبى كا اثبات متحقق ہے۔
اپنى تحقىق سے اس نتىجے پہ پہنچا  ہےكہ دنىا اور آخرت دونوں ميں رؤىت بصرى ممكن نہيں، اور اس پر ىہ آىت كرىمہ دلالت كرتى ہے(لا تُدْرِكُهُ‏ الْأَبْصار)اور مؤمن كے ليے وہ بھى صرف آخرت ميں رؤىت قلبى كا اثبات متحقق ہے۔
كہا: ((اللہ تعالى كا قول ہے: وَ لَمَّا جَاءَ مُوسىَ‏ لِمِيقَاتِنَا وَ كلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبّ‏ِ أَرِنىِ أَنظُرْ إِلَيْكَ  قَالَ لَن تَرَئنىِ وَ لَاكِنِ انظُرْ إِلىَ الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَئنىِ  فَلَمَّا تجَلىَ‏ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسىَ‏ صَعِقًا  فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِين اعراف: 143  (تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی علیہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے پھر جب انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)، اس آىت ميں جو قابل تدبر شئى نظر آتی ہے وه یہ ہے کہ اگر اسے عرفى عام فہم كے ليے  پىش كىا جائے تو وہ اسے آنكھ كے ساتھ دىكھنےاور چشم ظاہرى سےرؤىت كرنے پر حمل كرىنگے۔
كہا: ((اللہ تعالى كا قول ہے: وَ لَمَّا جَاءَ مُوسىَ‏ لِمِيقَاتِنَا وَ كلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبّ‏ِ أَرِنىِ أَنظُرْ إِلَيْكَ  قَالَ لَن تَرَئنىِ وَ لَاكِنِ انظُرْ إِلىَ الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَئنىِ  فَلَمَّا تجَلىَ‏ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسىَ‏ صَعِقًا  فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِين اعراف: 143  (تو اس کے بعد جب موسٰی علیہ السّلام ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی علیہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے پھر جب انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)، اس آىت ميں جو قابل تدبر شئى نظر آتی ہے وه یہ ہے کہ اگر اسے عرفى عام فہم كے ليے  پىش كىا جائے تو وہ اسے آنكھ كے ساتھ دىكھنےاور چشم ظاہرى سےرؤىت كرنے پر حمل كرىنگے۔
سطر 364: سطر 382:
اور قرآنى بدىہى طور پر كہتا ہےكہ اللہ تعالى كا  كسى صورت ميں  كوئى مثل نہيں، نہ وہ جسم ہے نہ جسمانى، نہ مكان اسے گھىر سكتا اور نہ زمان، نہ كوئى جهت اس پر طارى ہوسكتى ہے، اور كسى قسم كى اس كى مثل ىا مشابہت  نہ ذہن ميں اور نہ خارج ميں پائى جاتى ہے۔
اور قرآنى بدىہى طور پر كہتا ہےكہ اللہ تعالى كا  كسى صورت ميں  كوئى مثل نہيں، نہ وہ جسم ہے نہ جسمانى، نہ مكان اسے گھىر سكتا اور نہ زمان، نہ كوئى جهت اس پر طارى ہوسكتى ہے، اور كسى قسم كى اس كى مثل ىا مشابہت  نہ ذہن ميں اور نہ خارج ميں پائى جاتى ہے۔
اور كىا عظمت ہے اس كى كہ ابصار جس معنى ميں ہم اپنے ذات كے ليے قائل  ہىں اس سے متعلق نہيں  لیتی، اور نہ اس پر دنىا اور نہ آخرت ميں ذہنى شكل منطبق ہوتى ہے،اور نہ موسىؑ وہ  پانچ اولو العزم ميں سے اىك عظىم نبى اور انبىاء كےسردار كے بلند  منصب  كے ليے مناسب ہے كہ وہ اس چىز سے جاہل ہو،  نہ اس كى آرزو  ہےكہ خداوندمتعال اس حال ميں كہ وہ حركت، زمان، جہت، مكان جسم مادہ اور اس كے اعراض سے منزہ ہےانسان كى دىد كو تقوىت كرئے كہ وہ اسے دىكھے توىہ مسخرہ ہے، چہ جائىكہ جدى ہو۔
اور كىا عظمت ہے اس كى كہ ابصار جس معنى ميں ہم اپنے ذات كے ليے قائل  ہىں اس سے متعلق نہيں  لیتی، اور نہ اس پر دنىا اور نہ آخرت ميں ذہنى شكل منطبق ہوتى ہے،اور نہ موسىؑ وہ  پانچ اولو العزم ميں سے اىك عظىم نبى اور انبىاء كےسردار كے بلند  منصب  كے ليے مناسب ہے كہ وہ اس چىز سے جاہل ہو،  نہ اس كى آرزو  ہےكہ خداوندمتعال اس حال ميں كہ وہ حركت، زمان، جہت، مكان جسم مادہ اور اس كے اعراض سے منزہ ہےانسان كى دىد كو تقوىت كرئے كہ وہ اسے دىكھے توىہ مسخرہ ہے، چہ جائىكہ جدى ہو۔
سوال: كىا ىہ ممكن ہے كہ خداوند اسباب مادى ميں سے كسى سبب كى اس قدر تقوىت كرئے كہ وہ  اپنى حقىقت اور اثر كو محفوظ ركھتے ہوئے مادہ اور اس كے آثار سے خارج اور اس كى حد سے بىرون عمل كرئے اور اس كا اثر باقى رہ جائے؟


جواب: ىہ جوآنكھ ہمارے پاس ہے-اس كى خاصىت مادى ہے-محال ہے اس شئى سے متعلق ہو جو مادىت اور اس كے خواص  كے اثر سے عارى ہو، اس ليے ىہ مسلّم ہے كہ اگر موسىؑ نے خدا  كو دىكھنے کا تقاضا كىا تو عام بصرى دىد نہيں تھا اور  خدا نے  اپنے جواب ميں نفى رؤىت  كى ہے تو اس رؤىت كى نفى نہيں كى ،امّا ىہ رؤىت بدىہى ہے كہ اس سے متعلق سوال جواب نہيں ہوا۔
=== اهم سوال ===
كىا ىہ ممكن ہے كہ خداوند اسباب مادى ميں سے كسى سبب كى اس قدر تقوىت كرئے كہ وہ  اپنى حقىقت اور اثر كو محفوظ ركھتے ہوئے مادہ اور اس كے آثار سے خارج اور اس كى حد سے بىرون عمل كرئے اور اس كا اثر باقى رہ جائے؟
 
=== جواب ===
ىہ جوآنكھ ہمارے پاس ہے-اس كى خاصىت مادى ہے-محال ہے اس شئى سے متعلق ہو جو مادىت اور اس كے خواص  كے اثر سے عارى ہو، اس ليے ىہ مسلّم ہے كہ اگر موسىؑ نے خدا  كو دىكھنے کا تقاضا كىا تو عام بصرى دىد نہيں تھا اور  خدا نے  اپنے جواب ميں نفى رؤىت  كى ہے تو اس رؤىت كى نفى نہيں كى ،امّا ىہ رؤىت بدىہى ہے كہ اس سے متعلق سوال جواب نہيں ہوا۔
الله تعالی نے  اپنے كلام ميں رؤىت اور اس كے نزدىك  الفاظ  كا اطلاق  كئى موارد ميں  كىا اسے ثابت كىا:
الله تعالی نے  اپنے كلام ميں رؤىت اور اس كے نزدىك  الفاظ  كا اطلاق  كئى موارد ميں  كىا اسے ثابت كىا:
جىسے اللہ تعالى كا فرمان ہے: ‏" وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى‏ رَبِّها ناظِرَةٌ (اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے  
جىسے اللہ تعالى كا فرمان ہے: ‏" وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى‏ رَبِّها ناظِرَةٌ (اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)۔
(23) اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)۔
  اور آىہ ‏"ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا)
  اور آىہ ‏"ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا)
  اور آىہ "مَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ" (جو بھی اللہ کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے معلوم رہے کہ وہ مدّت یقینا آنے والی ہے)۔
  اور آىہ "مَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ" (جو بھی اللہ کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے معلوم رہے کہ وہ مدّت یقینا آنے والی ہے)۔
  اور آىہ‏" أَ وَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ شَهِيدٌ أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ أَلا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مُحِيطٌ" (اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے  آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ ہر شے پر احاطہ کئے ہوئے ہے)۔
  اور آىہ‏" أَ وَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ شَهِيدٌ أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ أَلا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مُحِيطٌ" (اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے  آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ ہر شے پر احاطہ کئے ہوئے ہے)۔
اور آىہ‏" فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صالِحاً وَ لا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً":كهف: 110۔ (لہذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے)۔
اور آىہ‏" فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صالِحاً وَ لا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً"<ref>كهف: 110</ref>۔ (لہذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے)۔
 
 
  اور دىگر بہت سى آيات جو رؤىت كو ثابت كرتى ہىں اور اس كے معنى ميں ہىں آىات نافىہ كے مقابلے  جىسے اس آىت ميں ہے" لن ترانى" اور آىت ‏" لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ" اس كے علاوہ بھى آىات ہىں كىسے ان دونوں آىات  كو جمع كرتے ہىں ؟۔ كىا رؤىت  سے مراد بدىہى علم كاحصول ہےكہ جسے مبالغہ كرتے ہوئے ظہور اور اس جىسے ناموں سے پكارتے ہىں؟جىسا كہ كہا گىا۔
  اور دىگر بہت سى آيات جو رؤىت كو ثابت كرتى ہىں اور اس كے معنى ميں ہىں آىات نافىہ كے مقابلے  جىسے اس آىت ميں ہے" لن ترانى" اور آىت ‏" لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ" اس كے علاوہ بھى آىات ہىں كىسے ان دونوں آىات  كو جمع كرتے ہىں ؟۔ كىا رؤىت  سے مراد بدىہى علم كاحصول ہےكہ جسے مبالغہ كرتے ہوئے ظہور اور اس جىسے ناموں سے پكارتے ہىں؟جىسا كہ كہا گىا۔
اس رؤىت سے مراد علم كے قطعى اور روشن مراحل ميں سے ہے، لىكن اس قطعى علم كى حقىقت كى تشخىص ضرورى ہے، كىونكہ ہم ہر قطعى علم كو رؤىت ىا اس كے ہم معنى  الفاظ جىسے لقاء كے نام سے ىاد نہيں كرتے، جىسا كہ ہم قطعى علم كے ساتھ جانتے ہىں كہ ابراہىم خلىل، سكندر اور كسرى كے افراد وجود ركھتے تھےلىكن ہم نے انہيں نہيں دىكھا۔  
اس رؤىت سے مراد علم كے قطعى اور روشن مراحل ميں سے ہے، لىكن اس قطعى علم كى حقىقت كى تشخىص ضرورى ہے، كىونكہ ہم ہر قطعى علم كو رؤىت ىا اس كے ہم معنى  الفاظ جىسے لقاء كے نام سے ىاد نہيں كرتے، جىسا كہ ہم قطعى علم كے ساتھ جانتے ہىں كہ ابراہىم خلىل، سكندر اور كسرى كے افراد وجود ركھتے تھےلىكن ہم نے انہيں نہيں دىكھا۔  
اور اسى طرح علم قطعى كے ساتھ جانتے ہىں كہ لندن، شكاگو اور ماسكو نامى شہر وجود ركھتے ہىں لىكن ہم نے انہيں نہيں دىكھا، اسے رؤىت نہيں كہتے اگرچہ مبالغہ كے عنوان سے ہى كىوں نہ ہو،  اگر ہم مبالغہ كرنا چاہىں تو كہىں گے:" ابراہيم و اسكندر و كسرى كا وجود اس قدر مىرے ليے روشن ہے كہ گوىا ميں انہيں دىكھا ہے " نہ ىہ كہ ہم كہىں :" ميں نے انہيں دىكھا ہے ىا دىكھ رہا ہوں"  اور اسى طرح لندن، شكاگو اور ماسكو كى مثالىں ہىں۔اور اس سے بھى واضح بدىہىات اولىہ كے متعلق ہماراعلم ہے كہ جو–اپنے كلّى ہونے كى وجہ سے-مادّى اور محسوس نہيں – ہے، جىسے ہمارا قول ہے: "عدد اىك دو كا نصف ہے"  يا" عدد چار جفت ہے"ىا كہ اضافت دو طرف كى وجہ سے برقرار ہے"كىونكہ ىہ محسوس نہيں  ان پر علم كا اطلاق صحىح جبكہ رؤىت درست نہيں ہے،اور اسى طرىقے سے سارے تصدىقات عقلى كہ جو قوہ عاقلہ ميں انجام پاتے ہىں ىا  وہ معانى جو وہم كے زىر ساىہ تحقق پاتے ہىں ان كو علم كہہ سكتے ہىں لىكن رؤىت نہيں كہہ سكتے۔
اور اسى طرح علم قطعى كے ساتھ جانتے ہىں كہ لندن، شكاگو اور ماسكو نامى شہر وجود ركھتے ہىں لىكن ہم نے انہيں نہيں دىكھا، اسے رؤىت نہيں كہتے اگرچہ مبالغہ كے عنوان سے ہى كىوں نہ ہو،  اگر ہم مبالغہ كرنا چاہىں تو كہىں گے:" ابراہيم و اسكندر و كسرى كا وجود اس قدر مىرے ليے روشن ہے كہ گوىا ميں انہيں دىكھا ہے " نہ ىہ كہ ہم كہىں :" ميں نے انہيں دىكھا ہے ىا دىكھ رہا ہوں"  اور اسى طرح لندن، شكاگو اور ماسكو كى مثالىں ہىں۔اور اس سے بھى واضح بدىہىات اولىہ كے متعلق ہماراعلم ہے كہ جو–اپنے كلّى ہونے كى وجہ سے-مادّى اور محسوس نہيں – ہے، جىسے ہمارا قول ہے: "عدد اىك دو كا نصف ہے"  يا" عدد چار جفت ہے"ىا كہ اضافت دو طرف كى وجہ سے برقرار ہے"كىونكہ ىہ محسوس نہيں  ان پر علم كا اطلاق صحىح جبكہ رؤىت درست نہيں ہے،اور اسى طرىقے سے سارے تصدىقات عقلى كہ جو قوہ عاقلہ ميں انجام پاتے ہىں ىا  وہ معانى جو وہم كے زىر ساىہ تحقق پاتے ہىں ان كو علم كہہ سكتے ہىں لىكن رؤىت نہيں كہہ سكتے۔
خلاصہ كلام: جن كو ہم علم حصولى كہتے ہىں ان پر رؤىت كا اطلاق نہيں كرسكتے اگرچہ ہم نے ان پر علم كا اطلاق كىا، پس ہم كہتے ہىں: ہم نے انہيں جان لىا، اور نہيں كہتے : ہم نے انہيں دىكھ لىا، مگر ىہ  كہ دىكھنے سے مراد حكم كرنا اور اظہار نظر كرنا ہے ہو نہ ىہ كہ مشاہدہ اور وجدان ہو۔ہاں، معلومات ميں سے اىسے معلومات ہىں كہ ان پر رؤىت كا اطلاق ہوتا ہےاور ىہ معلومات ہمارا علم حضورى ہے، مثلا ہم كہتے ہىں:
خلاصہ كلام: جن كو ہم علم حصولى كہتے ہىں ان پر رؤىت كا اطلاق نہيں كرسكتے اگرچہ ہم نے ان پر علم كا اطلاق كىا، پس ہم كہتے ہىں: ہم نے انہيں جان لىا، اور نہيں كہتے : ہم نے انہيں دىكھ لىا، مگر ىہ  كہ دىكھنے سے مراد حكم كرنا اور اظہار نظر كرنا ہے ہو نہ ىہ كہ مشاہدہ اور وجدان ہو۔ہاں، معلومات ميں سے اىسے معلومات ہىں كہ ان پر رؤىت كا اطلاق ہوتا ہےاور ىہ معلومات ہمارا علم حضورى ہے، مثلا ہم كہتے ہىں:
* أرى أني أنا(ميں اپنے آپ كو دىكھ رہا ہوں)
* أرى أني أنا(ميں اپنے آپ كو دىكھ رہا ہوں)
* أراني اريد كذا(ميں  خود كودىكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں چىز چاہ رہا ہوں)  
* أراني اريد كذا(ميں  خود كودىكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں چىز چاہ رہا ہوں)  
سطر 386: سطر 410:
* أراني أتمنى كذا(ميں  خود كودىكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں چىز كى آرزو كرتا ہوں)
* أراني أتمنى كذا(ميں  خود كودىكھ رہا ہوں كہ ميں فلاں چىز كى آرزو كرتا ہوں)
ىعنى ميں اپنى ذات كو پاتا ہوں اور اسے بغىر كسى پردے كے دىكھ رہاہوں، اور ميں اپنے باطنى ارادے كا مشاہدہ كر رہا ہوں لىكن محسوس اور فكر كے ساتھ نہيں، اور اسى طرح سے ميں اپنے اندر نفرت، محبت، عداوت، امىد اور آرزو كو پاتا ہوں۔ البتہ اشتباه نہ كہ ىہ تعبىر اس تعبىر كا غىر ہے كہ جس ميں (رأيتك تحب كذا وتبغض كذا ميں تمہىں دىكھ رہا ہوں كہ تْو فلاں چىز سے پىار كرتے ہو اور فلاں چىز سے نفرت)(أبصرتك في هيئة استدللتُ بها على أن فيك حبّا وبغضاميں نے اپنى آنكھوں  تجھے اس حالت ميں دىكھا  جو دلالت كر تى ہے كہ تىرے دل ميں فلاں كے ليے محبت ىا عداوت ركھتے ہو)اور اسى طرح سے دىگر مثالىں ہىں كہ انسان اپنے نفس كى حكاىت كرتا ہےكہ وہ دىكھتا ہے، چاہتا ہے، نفرت كرتا ہے ،محبت كرتا ہے اور عداوت كرتا ہے، تو ان سے وہ چاہتا ہے كہ ىہ چىزىں اس كے اندر اىك حقىقت اور واقعىت كے طور پر پائى جاتى ہىں، نہ ىہ كہ دوسرى شئى ان كے پىچھے ہے تاكہ ان پر استدلال كر رہى ہے،بلكہ بغىر كسى پردہ پوشى كے اپنے وجود كے اندر پائى جاتى ہے، اور كسى وسىلے كے بغىر كہ جو اس پر دلالت كرے اس تك پہنچ جاتا ہے۔
ىعنى ميں اپنى ذات كو پاتا ہوں اور اسے بغىر كسى پردے كے دىكھ رہاہوں، اور ميں اپنے باطنى ارادے كا مشاہدہ كر رہا ہوں لىكن محسوس اور فكر كے ساتھ نہيں، اور اسى طرح سے ميں اپنے اندر نفرت، محبت، عداوت، امىد اور آرزو كو پاتا ہوں۔ البتہ اشتباه نہ كہ ىہ تعبىر اس تعبىر كا غىر ہے كہ جس ميں (رأيتك تحب كذا وتبغض كذا ميں تمہىں دىكھ رہا ہوں كہ تْو فلاں چىز سے پىار كرتے ہو اور فلاں چىز سے نفرت)(أبصرتك في هيئة استدللتُ بها على أن فيك حبّا وبغضاميں نے اپنى آنكھوں  تجھے اس حالت ميں دىكھا  جو دلالت كر تى ہے كہ تىرے دل ميں فلاں كے ليے محبت ىا عداوت ركھتے ہو)اور اسى طرح سے دىگر مثالىں ہىں كہ انسان اپنے نفس كى حكاىت كرتا ہےكہ وہ دىكھتا ہے، چاہتا ہے، نفرت كرتا ہے ،محبت كرتا ہے اور عداوت كرتا ہے، تو ان سے وہ چاہتا ہے كہ ىہ چىزىں اس كے اندر اىك حقىقت اور واقعىت كے طور پر پائى جاتى ہىں، نہ ىہ كہ دوسرى شئى ان كے پىچھے ہے تاكہ ان پر استدلال كر رہى ہے،بلكہ بغىر كسى پردہ پوشى كے اپنے وجود كے اندر پائى جاتى ہے، اور كسى وسىلے كے بغىر كہ جو اس پر دلالت كرے اس تك پہنچ جاتا ہے۔
اس قسم كے علم كہ جسے انسان اپنے اندر خود معلوم  كو اس كے  خارجى واقعىت كے ساتھ پاتا ہے كو رؤىت كہنا  عام اور شاىع ہے، اور ىہ انسان كا اپنى ذات ، اس كے قواى باطنى، اس كے ذاتى صفات،اس كے اندرونى حالات كا علم ہے،اور اس ميں جہت، مكان، زمان ، ىا دىگرجسمانى حالت كا كوئى دخل نہيں ہوتاہے۔
اس قسم كے علم كہ جسے انسان اپنے اندر خود معلوم  كو اس كے  خارجى واقعىت كے ساتھ پاتا ہے كو رؤىت كہنا  عام اور شاىع ہے، اور ىہ انسان كا اپنى ذات ، اس كے قواى باطنى، اس كے ذاتى صفات،اس كے اندرونى حالات كا علم ہے،اور اس ميں جہت، مكان، زمان ، ىا دىگرجسمانى حالت كا كوئى دخل نہيں ہوتاہے۔
جان لو اورجب  ىہ معنى معلوم ہوا تو كہىں گے:جہاں كہىں خدا  نے اپنى رؤىت كى بات كى ہے وہں اىسى خصوصىات كا ذكر بھى كىا ہے جس كے سبب ہم سمجھ سكتے ہىں كہ خدا كى رؤىت سے مرادعلم كى وہ قسم ہے كہ جسے ہم بھى  رؤىت  كہتے ہىں، مثلا  اس آىت  ميں‏" أَ وَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ شَهِيدٌ أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ أَلا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مُحِيطٌ  حم سجدہ: ۵۴(اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے  آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ ہر شے پر احاطہ کئے ہوئے ہے)ىہ رؤىت ثابت كرنے والى آىات ميں سے اىك ہے، سب سے پہلے ثابت كىا كہ خدا ہر چىز كے پاس حاضر اور مشہود ہے،اور اس كا حضور كسى شئى، جہت ىا مكان كے ساتھ مختص نہيں بلكہ ہر چىز كے پاس حاضر ، گواہ اور ہر چىز پر احاطہ ركھتا ہے، اگر بفرض محال كوئى اسے دىكھ سكے تو بھى اپنے وجدان، نفس اور ہر چىز كے ظاہر اور اس كے باطن ميں دىكھے گا۔اور اس كے ساتھ ملاقات ان خصوصىات كے ہمراہ ہوتى ہے –بالفرض اگر ملاقات ہو-نہ كہ  وہ لقاء  اور رؤىت جو آنكھ ىا جسم كے ساتھ ہوتى ہے وہ صرف حسى ، جسمانى،  زمان ومكان ميں متعىن ہونےكے ساتھ ممكن ہوتى۔اور اللہ تعالى كا قول اسى معنى كى طرف اشارہ كرتا ہے‏" ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا)چونكہ رؤىت كى نسبت فؤاد كى طرف ہے  بلا تردىد اس سے مراد نفس انسانىت اور وہ حقىقت ہے جس كے ساتھ انسان تمام حىوانات سے متماىز ہوتا ہے، نہ كہ وہ صنوبرى  شكل كا گوشت جو سىنے كے  اندربائىں طرف لٹك رہا ہے۔
جان لو اورجب  ىہ معنى معلوم ہوا تو كہىں گے:جہاں كہىں خدا  نے اپنى رؤىت كى بات كى ہے وہں اىسى خصوصىات كا ذكر بھى كىا ہے جس كے سبب ہم سمجھ سكتے ہىں كہ خدا كى رؤىت سے مرادعلم كى وہ قسم ہے كہ جسے ہم بھى  رؤىت  كہتے ہىں، مثلا  اس آىت  ميں‏" أَ وَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ شَهِيدٌ أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ أَلا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مُحِيطٌ  <ref>حم سجدہ: ۵۴</ref>. (اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے  آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ ہر شے پر احاطہ کئے ہوئے ہے)ىہ رؤىت ثابت كرنے والى آىات ميں سے اىك ہے، سب سے پہلے ثابت كىا كہ خدا ہر چىز كے پاس حاضر اور مشہود ہے،اور اس كا حضور كسى شئى، جہت ىا مكان كے ساتھ مختص نہيں بلكہ ہر چىز كے پاس حاضر ، گواہ اور ہر چىز پر احاطہ ركھتا ہے، اگر بفرض محال كوئى اسے دىكھ سكے تو بھى اپنے وجدان، نفس اور ہر چىز كے ظاہر اور اس كے باطن ميں دىكھے گا۔اور اس كے ساتھ ملاقات ان خصوصىات كے ہمراہ ہوتى ہے –بالفرض اگر ملاقات ہو-نہ كہ  وہ لقاء  اور رؤىت جو آنكھ ىا جسم كے ساتھ ہوتى ہے وہ صرف حسى ، جسمانى،  زمان ومكان ميں متعىن ہونےكے ساتھ ممكن ہوتى۔اور اللہ تعالى كا قول اسى معنى كى طرف اشارہ كرتا ہے‏" ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏" (دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا)چونكہ رؤىت كى نسبت فؤاد كى طرف ہے  بلا تردىد اس سے مراد نفس انسانىت اور وہ حقىقت ہے جس كے ساتھ انسان تمام حىوانات سے متماىز ہوتا ہے، نہ كہ وہ صنوبرى  شكل كا گوشت جو سىنے كے  اندربائىں طرف لٹك رہا ہے۔
بالائى آىت كى نظىر ىہ آىت شرىفہ ہے‏" كَلَّا بَلْ رانَ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ ما كانُوا يَكْسِبُونَ، كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ" مطففىن: ۱۵  ( نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے، یاد رکھو انہیں روز قیامت پروردگار کی رحمت سے محجوب کردیا جائے گا)اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ جو مانع لوگوں اور خدا كے درمىان حائل ہوا وہ گناہوں كى وہ تىرگى ہے جس كا ىہ مرتكب ہوچكے ہىں كہ جو سبب بنے ہىں كہ دل كى آنكھ كو پردے ميں چھپاليے اور اپنے پروردگار كے مشاہدے كا موقعہ نہيں دىتے ہىں،پس اگر گناہ نہ  ہوتے تو وہ ىقىنا اپنے دلوں كے ساتھ خدا كو دىكھ لىتے ، ظاہرى آنكھوں كے ساتھ نہيں۔خدا وندكرىم نے قرآن مجىد ميں اىك اور قسم كى رؤىت كا اثبات كىا ہےكہ وہ رؤىت مورد بحث رؤىت كى طرح چشم دىد كا محتاج نہيں جىسے اللہ تعالى كا قول ہے‏" كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ" سوره تكاثر آيه 5- 7 ( دیکھو اگر تمہیں یقینی علم ہوجاتا  کہ تم جہنمّ کو ضرور دیکھو گے، پھر اسے اپنی آنکھوں دیکھے یقین کی طرح دیکھو گے) اور آىت ‏" وَ كَذلِكَ نُرِي إِبْراهِيمَ مَلَكُوتَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ لِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ سوره انعام آيه 75" ( اور اسی طرح ہم ابراہیم علیہ السّلام کو آسمان و زمین کے اختیارات دکھلاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں شامل ہوجائیں)،مذكورہ مطلب آىت دوم كى تفسىر جلد ہفتم ميں بىان كىا ، اور وہاں كہہ دىا كہ  " ملكوت"سے مراد باطن اشىاء ہىں نہ كہ ان كا محسوس ظاہر ہے۔پس مذكورہ صورتوں سے معلوم ہوا كہ خدا وندمتعال نے اپنے كلام ميں اىسى رؤىت كا اثبات كىا جو  كہ رؤىت بصرى اور حسى نہيں ہے، بلكہ درك اور شعور كى اىك اىسى نوع ہے كہ اس كے ساتھ ہر شئى كى حقىقت اور ذات كا ادراك ہوتا ہے، قطع نظر كہ آنكھ ىا فكر كا اس ميں دخل ہو،اىسے شعور كا اثبات كىا  كہ انسان تفكر اور دلىل كے استعمال كے بغىر ہى اس شعور كے ساتھ اپنے پروردگار كا معتقد ہوتا ہے بلكہ اپنے پروردگار كو وجدان كے ساتھ بغىر كسى ستر اور پردے كے درك كرتا ہے، اور اس كو غفلت كى  اپنى طرف كوئى  چىز نہيں  كھىنچ سكتى مگر اس گا گناہ كہ جسے اس نے خود كسب كىا ہے، اور ىہ درك نہ كرنا بھى اىك امر موجود ومشہود سے غفلت ہے نہ كہ اس كا علم كلّى طور پر ہاتھ سے چلا گىا ہے۔اور قرآن كى كسى آىت كا اس پر دلالت نہيں كہ علم زائل ہوگىا،بلكہ اس جہل كو غفلت سے تعبىر كى ہےكہ اس كا معنى ىہ ہے كہ وہ كسى اور علم ميں مشغول ہوا اور نتىجے ميں اس سے فراموش ہوگىا نہ ىہ كہ اس كا علم بطور كلّى چلا گىا، اور وہ شئى ہے جس كا ذكر خود خدا نے اپنے كلام ميں كىا ہے اور عقل بھى اپنے روشن دلىل كے ساتھ اس كى تائىد كرتى ہے اور اسى طرح  ائمہ اہل بيت (صلوات اللَّه علىہم  اجمعين) سے وارد احادىث بھى كہ جسے  ہم جلد ہى بحث اور نقل كرىنگے، البتہ جس طرىقے سے خدا كے كلام مجىد سے استفادہ ہوتا ہےكہ اس علم كہ جسے رؤىت اور لقاء كى تعبىر سے ىاد كىا ہےصرف اس صالح بندوں كے ليے بروز قىامت ممكن ہے ، جس طرح اس كے قول كا ظاہر اس پر دال ہے:" وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى‏ رَبِّها ناظِرَةٌ" قيامت آيه 23
 
(اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)۔پس وہ مقام ہے جہاں انسان نگاہ كرسكتا ہے، لىكن دنىا ميں انسان اپنے بدن سے متعلق اشىاء ميں منہمك ہوتا ہے، اور طبىعى احتىاجات كى برآورى كےليے  دنىا ميں غرق ہوتا ہے اور دنىا محل سلوك اور لقاء خدا كے ليے راہ طے كرنے اور اس كى نشانىوں كے علم ضرورى حاصل كرنے كى جگہ ہے،اور جب تك دوسرى دنىا ميں منتقل نہ ہو پروردگار سے ملاقات ممكن نہيں ہے، جىسا كہ فرماىا ہے:" يا أَيُّهَا الْإِنْسانُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلى‏ رَبِّكَ كَدْحاً فَمُلاقِيهِ انشقاق آيه 6." (اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کررہا ہے تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا)اور اسی معنی ميںكثرت سے دىگر آىات دلالت كر تى ہے كہ  سب كامرجع، بازگشت اور منتہى اللہ تعالى طرف ہے، اور اسى كى طرف سب پلٹتے اور لوٹتے ہىں۔ اور ىہى وہ علم ضرورى اور خاص ہے كہ جسے اللہ تعالى نے اسے اپنے ليے اثبات كىا، اور اسى كو رؤىت ولقاء  كا نام دىا ہے۔اور ہمارے نزدىك ىہ مہم نہيں كہ ىہ تعبىر حقىقت ہے ىا مجاز، ہم صرف ىہ جانتے ہىں كہ ان قرائن كى روشنى ميں كہ جسے ذكر كىا رؤىت سے مقصود وہ علم ضرورى اورؤ مخصوص ہے ، بہر حال اگر اس تعبىر حقىقى ہوتو بطور اجبارمذكورہ  قرائن  قرائن معىن ہوگا، اوراگر مجاز كے عنوان سے ہو تو ىہ قرائن صارفہ ہونگے۔
 
قرآن كرىم وہ پہلى كتاب ہے جس نے اس حقىقت سے نقاب اٹھا لى ہے ، اور بے سابقہ انداز ميں اس راز كو آشكار كىا ،كىونكہ  قرآن سے پہلے دىگر كسى آسمانى كتاب نے علم خدا كے بارے ميں اس كا ذكر نہيں كىا ہے، اور كتب فلاسفہ كہ جو ان مسائل كے بارے ميں بحث كرتى ہىں اس نكتہ اور حقىقت سے خالى ہىں،كىونكہ فلاسفہ  كے نزدىك علم حضورى منحصرہے ہر اس  شئى سے جو اپنے بارے ميں ہو، ىہاں تك كہ اسلام نے اس سے پردہ اٹھاىا)) حمد، حسین، المىزان ،ج ۸، ۲۳۶ طباطبایی،  ۔
 
بالائى آىت كى نظىر ىہ آىت شرىفہ ہے‏" كَلَّا بَلْ رانَ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ ما كانُوا يَكْسِبُونَ، كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ" <ref>مطففىن: ۱۵</ref>. ( نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے، یاد رکھو انہیں روز قیامت پروردگار کی رحمت سے محجوب کردیا جائے گا)اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ جو مانع لوگوں اور خدا كے درمىان حائل ہوا وہ گناہوں كى وہ تىرگى ہے جس كا ىہ مرتكب ہوچكے ہىں كہ جو سبب بنے ہىں كہ دل كى آنكھ كو پردے ميں چھپاليے اور اپنے پروردگار كے مشاہدے كا موقعہ نہيں دىتے ہىں،پس اگر گناہ نہ  ہوتے تو وہ ىقىنا اپنے دلوں كے ساتھ خدا كو دىكھ لىتے ، ظاہرى آنكھوں كے ساتھ نہيں۔خدا وندكرىم نے قرآن مجىد ميں اىك اور قسم كى رؤىت كا اثبات كىا ہےكہ وہ رؤىت مورد بحث رؤىت كى طرح چشم دىد كا محتاج نہيں جىسے اللہ تعالى كا قول ہے‏" كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ" <ref>سوره تكاثر آيه 5- 7</ref>. ( دیکھو اگر تمہیں یقینی علم ہوجاتا  کہ تم جہنمّ کو ضرور دیکھو گے، پھر اسے اپنی آنکھوں دیکھے یقین کی طرح دیکھو گے) اور آىت ‏" وَ كَذلِكَ نُرِي إِبْراهِيمَ مَلَكُوتَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ لِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ <ref>سوره انعام آيه 75</ref>.( اور اسی طرح ہم ابراہیم علیہ السّلام کو آسمان و زمین کے اختیارات دکھلاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں شامل ہوجائیں)،مذكورہ مطلب آىت دوم كى تفسىر جلد ہفتم ميں بىان كىا ، اور وہاں كہہ دىا كہ  " ملكوت"سے مراد باطن اشىاء ہىں نہ كہ ان كا محسوس ظاہر ہے۔پس مذكورہ صورتوں سے معلوم ہوا كہ خدا وندمتعال نے اپنے كلام ميں اىسى رؤىت كا اثبات كىا جو  كہ رؤىت بصرى اور حسى نہيں ہے، بلكہ درك اور شعور كى اىك اىسى نوع ہے كہ اس كے ساتھ ہر شئى كى حقىقت اور ذات كا ادراك ہوتا ہے، قطع نظر كہ آنكھ ىا فكر كا اس ميں دخل ہو،اىسے شعور كا اثبات كىا  كہ انسان تفكر اور دلىل كے استعمال كے بغىر ہى اس شعور كے ساتھ اپنے پروردگار كا معتقد ہوتا ہے بلكہ اپنے پروردگار كو وجدان كے ساتھ بغىر كسى ستر اور پردے كے درك كرتا ہے، اور اس كو غفلت كى  اپنى طرف كوئى  چىز نہيں  كھىنچ سكتى مگر اس گا گناہ كہ جسے اس نے خود كسب كىا ہے، اور ىہ درك نہ كرنا بھى اىك امر موجود ومشہود سے غفلت ہے نہ كہ اس كا علم كلّى طور پر ہاتھ سے چلا گىا ہے۔اور قرآن كى كسى آىت كا اس پر دلالت نہيں كہ علم زائل ہوگىا،بلكہ اس جہل كو غفلت سے تعبىر كى ہےكہ اس كا معنى ىہ ہے كہ وہ كسى اور علم ميں مشغول ہوا اور نتىجے ميں اس سے فراموش ہوگىا نہ ىہ كہ اس كا علم بطور كلّى چلا گىا، اور وہ شئى ہے جس كا ذكر خود خدا نے اپنے كلام ميں كىا ہے اور عقل بھى اپنے روشن دلىل كے ساتھ اس كى تائىد كرتى ہے اور اسى طرح  ائمہ اہل بيت (صلوات اللَّه علىہم  اجمعين) سے وارد احادىث بھى كہ جسے  ہم جلد ہى بحث اور نقل كرىنگے، البتہ جس طرىقے سے خدا كے كلام مجىد سے استفادہ ہوتا ہےكہ اس علم كہ جسے رؤىت اور لقاء كى تعبىر سے ىاد كىا ہےصرف اس صالح بندوں كے ليے بروز قىامت ممكن ہے ، جس طرح اس كے قول كا ظاہر اس پر دال ہے:" وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى‏ رَبِّها ناظِرَةٌ" <ref>قيامت آيه 23</ref>.(اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے)۔
 
پس وہ مقام ہے جہاں انسان نگاہ كرسكتا ہے، لىكن دنىا ميں انسان اپنے بدن سے متعلق اشىاء ميں منہمك ہوتا ہے، اور طبىعى احتىاجات كى برآورى كےليے  دنىا ميں غرق ہوتا ہے اور دنىا محل سلوك اور لقاء خدا كے ليے راہ طے كرنے اور اس كى نشانىوں كے علم ضرورى حاصل كرنے كى جگہ ہے،اور جب تك دوسرى دنىا ميں منتقل نہ ہو پروردگار سے ملاقات ممكن نہيں ہے، جىسا كہ فرماىا ہے:" يا أَيُّهَا الْإِنْسانُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلى‏ رَبِّكَ كَدْحاً فَمُلاقِيهِ <ref>انشقاق آيه 6.</ref>. (اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کررہا ہے تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا)اور اسی معنی ميںكثرت سے دىگر آىات دلالت كر تى ہے كہ  سب كامرجع، بازگشت اور منتہى اللہ تعالى طرف ہے، اور اسى كى طرف سب پلٹتے اور لوٹتے ہىں۔ اور ىہى وہ علم ضرورى اور خاص ہے كہ جسے اللہ تعالى نے اسے اپنے ليے اثبات كىا، اور اسى كو رؤىت ولقاء  كا نام دىا ہے۔اور ہمارے نزدىك ىہ مہم نہيں كہ ىہ تعبىر حقىقت ہے ىا مجاز، ہم صرف ىہ جانتے ہىں كہ ان قرائن كى روشنى ميں كہ جسے ذكر كىا رؤىت سے مقصود وہ علم ضرورى اورؤ مخصوص ہے ، بہر حال اگر اس تعبىر حقىقى ہوتو بطور اجبارمذكورہ  قرائن  قرائن معىن ہوگا، اوراگر مجاز كے عنوان سے ہو تو ىہ قرائن صارفہ ہونگے۔
قرآن كرىم وہ پہلى كتاب ہے جس نے اس حقىقت سے نقاب اٹھا لى ہے ، اور بے سابقہ انداز ميں اس راز كو آشكار كىا ،كىونكہ  قرآن سے پہلے دىگر كسى آسمانى كتاب نے علم خدا كے بارے ميں اس كا ذكر نہيں كىا ہے، اور كتب فلاسفہ كہ جو ان مسائل كے بارے ميں بحث كرتى ہىں اس نكتہ اور حقىقت سے خالى ہىں،كىونكہ فلاسفہ  كے نزدىك علم حضورى منحصرہے ہر اس  شئى سے جو اپنے بارے ميں ہو، ىہاں تك كہ اسلام نے اس سے پردہ اٹھاىا)) <ref>طباطبایی، محمد، حسین، المىزان ،ج ۸، ۲۳۶</ref>.
 
 
اور جن رواىات نے رؤىت كے بارے ميں وعدہ كىا  ان  ميں سےبعض كو جو آخرت ميں رؤىت قلبى سے متعلق ہے ذكر كرىنگے، اور وہ درج ذىل دو  رواىات ہىں:-  
اور جن رواىات نے رؤىت كے بارے ميں وعدہ كىا  ان  ميں سےبعض كو جو آخرت ميں رؤىت قلبى سے متعلق ہے ذكر كرىنگے، اور وہ درج ذىل دو  رواىات ہىں:-  
عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ: كُنْتُ‏ عِنْدَ الصَّادِقِ‏ جَعْفَرِ بْنِ‏ مُحَمَّدٍ ع إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ مُعَاوِيَةُ بْنُ وَهْبٍ وَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَعْيَنَ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ وَهْبٍ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مَا تَقُولُ فِي الْخَبَرِ الَّذِي رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص رَأَى رَبَّهُ عَلَى أَيِّ صُورَةٍ رَآهُ وَ عَنِ الْحَدِيثِ الَّذِي رَوَوْهُ أَنَّ الْمُؤْمِنِينَ يَرَوْنَ رَبَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ عَلَى أَيِّ صُورَةٍ يَرَوْنَهُ فَتَبَسَّمَ ع ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاوِيَةُ مَا أَقْبَحَ بِالرَّجُلِ يَأْتِي عَلَيْهِ سَبْعُونَ سَنَةً أَوْ ثَمَانُونَ سَنَةً يَعِيشُ فِي مُلْكِ اللَّهِ وَ يَأْكُلُ مِنْ نِعَمِهِ ثُمَ‏ لَا يَعْرِفُ اللَّهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ ثُمَّ قَالَ ع يَا مُعَاوِيَةُ إِنَّ مُحَمَّداً ص لَمْ يَرَ الرَّبَّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِمُشَاهَدَةِ الْعِيَانِ وَ إِنَّ الرُّؤْيَةَ عَلَى وَجْهَيْنِ رُؤْيَةُ الْقَلْبِ وَ رُؤْيَةُ الْبَصَرِ فَمَنْ عَنَى بِرُؤْيَةِ الْقَلْبِ فَهُوَ مُصِيبٌ وَ مَنْ عَنَى بِرُؤْيَةِ الْبَصَرِ فَقَدْ كَفَر باللهِ وَآيَاتِه لقولِ رسولِ الله : من شبّه الله بخلقه فقد كفر  بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏36 ؛ ص406: )ہشام بن سالم سے رواىت ہے، اس نے كہا: ميں جعفر بن محمد صادقؑ كے پاس تھا، اس وقت معاوىہ بن وہب اور عبد الملك بن اعىن آگئے، پس آپؑ نے معاوىہ بن وہب سے فرماىا، اے فرزند رسولؐ اس رواىت كے بارے ميں كىا كہو گے كہ رسول اللہ ؐ نے خدا كو دىكھا؟  تو كس  صورت پہ دىكھا؟ اور اس حدىث ميں كہ جسے ان سے نقل كى كہ مؤمنىن اپنے پروردگار كو بہشت ميں دىكھىں گے؟ تو كس شكل ميں دىكھىں گے؟
عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ: كُنْتُ‏ عِنْدَ الصَّادِقِ‏ جَعْفَرِ بْنِ‏ مُحَمَّدٍ ع إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ مُعَاوِيَةُ بْنُ وَهْبٍ وَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَعْيَنَ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ وَهْبٍ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مَا تَقُولُ فِي الْخَبَرِ الَّذِي رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص رَأَى رَبَّهُ عَلَى أَيِّ صُورَةٍ رَآهُ وَ عَنِ الْحَدِيثِ الَّذِي رَوَوْهُ أَنَّ الْمُؤْمِنِينَ يَرَوْنَ رَبَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ عَلَى أَيِّ صُورَةٍ يَرَوْنَهُ فَتَبَسَّمَ ع ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاوِيَةُ مَا أَقْبَحَ بِالرَّجُلِ يَأْتِي عَلَيْهِ سَبْعُونَ سَنَةً أَوْ ثَمَانُونَ سَنَةً يَعِيشُ فِي مُلْكِ اللَّهِ وَ يَأْكُلُ مِنْ نِعَمِهِ ثُمَ‏ لَا يَعْرِفُ اللَّهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ ثُمَّ قَالَ ع يَا مُعَاوِيَةُ إِنَّ مُحَمَّداً ص لَمْ يَرَ الرَّبَّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِمُشَاهَدَةِ الْعِيَانِ وَ إِنَّ الرُّؤْيَةَ عَلَى وَجْهَيْنِ رُؤْيَةُ الْقَلْبِ وَ رُؤْيَةُ الْبَصَرِ فَمَنْ عَنَى بِرُؤْيَةِ الْقَلْبِ فَهُوَ مُصِيبٌ وَ مَنْ عَنَى بِرُؤْيَةِ الْبَصَرِ فَقَدْ كَفَر باللهِ وَآيَاتِه لقولِ رسولِ الله : من شبّه الله بخلقه فقد كفر  بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏36 ؛ ص406: )ہشام بن سالم سے رواىت ہے، اس نے كہا: ميں جعفر بن محمد صادقؑ كے پاس تھا، اس وقت معاوىہ بن وہب اور عبد الملك بن اعىن آگئے، پس آپؑ نے معاوىہ بن وہب سے فرماىا، اے فرزند رسولؐ اس رواىت كے بارے ميں كىا كہو گے كہ رسول اللہ ؐ نے خدا كو دىكھا؟  تو كس  صورت پہ دىكھا؟ اور اس حدىث ميں كہ جسے ان سے نقل كى كہ مؤمنىن اپنے پروردگار كو بہشت ميں دىكھىں گے؟ تو كس شكل ميں دىكھىں گے؟
پس امامؑ نے تبسم كىا، پھر فرماىا:اے معاوىہ! كتنا برا ہے كہ جب انسان ستّر ىا اسّى سال كا ہوجائے اور اللہ تعالى كى سلطنت ميں زندگى گذارتا ہےاور اس كى نعمت سے كھاتا ہے، پھر اللہ تعالى كى جسطرح شناخت حاصل كرنا چاہىے وىسا نہيں كرسكتا۔پھر فرماىا: اے معاوىہ، بے شك محمدؐ نے ظاہرى آنكھوں سے اپنے پروردگار تعالى كو نہيں دىكھا۔اور بلا تردىد رؤىت كى دو نوع ہے:
پس امامؑ نے تبسم كىا، پھر فرماىا:اے معاوىہ! كتنا برا ہے كہ جب انسان ستّر ىا اسّى سال كا ہوجائے اور اللہ تعالى كى سلطنت ميں زندگى گذارتا ہےاور اس كى نعمت سے كھاتا ہے، پھر اللہ تعالى كى جسطرح شناخت حاصل كرنا چاہىے وىسا نہيں كرسكتا۔پھر فرماىا: اے معاوىہ، بے شك محمدؐ نے ظاہرى آنكھوں سے اپنے پروردگار تعالى كو نہيں دىكھا۔اور بلا تردىد رؤىت كى دو نوع ہے:
رؤىت قلبى اور رؤىت بصرى۔
 
پس جس نے رؤىت قلبى  کا دعوا کیا  وه درست هے ۔ اور جس نے رؤىت بصرى كا دعوى كىا اس نے جھوٹ بولا اور اس نے رسول اللہ كے قول كے مطابق اللہ اور اس كى نشانىوں كا انكار كىا: جس نے اللہ كو اپنے مخلوقات كے ساتھ تشبىہ دى اس نے كفر اختىار كىا۔  
== رؤىت قلبى اور بصرى میں فرق ==
و لقد حدّثني أبي عن أبيه عن الحسين بن عليّ قال: سئل‏ أمير المؤمنين‏ فقيل‏ له‏: يا أخا رسول‏ اللّه‏ هل رأيت ربّك؟ فقال: كيف أعبد من لم أره، لم تره العيون بمشاهدة العيان و لكن رأته القلوب بحقائق الإيمان، و إذا كان المؤمن يرى ربّه بمشاهدة البصر فإنّ كلّ من جاز عليه البصر و الرّؤية فهو مخلوق، و لا بدّ للمخلوق من خالق فقد جعلته إذا محدثا مخلوقا، و من شبّهه بخلقه فقد اتّخذ للّه شريكا، ويل لهم ألم يسمعوا قول اللّه تعالى: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُوَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ و قوله لموسى: لَنْ تَرانِي وَ لكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ فَسَوْفَ تَرانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً  اعراف: 143.  و إنّما طلع من نوره على الجبل كضوء يخرج من سمّ الخياط فدكدكت الأرض و ضعضعت الجبال‏ وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً أي ميّتا فَلَمَّا أَفاقَ‏ وردّ عليه روحه‏ قالَ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ‏ من قول من زعم أنّك ترى و رجعت إلى معرفتي بك، إنّ الأبصار لا تدركك‏ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ و أوّل المقرّين بأنّك ترى و لا ترى، و أنت بالمنظر الأعلى‏  بحرانى، سيد هاشم بن سليمان، الإنصاف. ۔
پس جس نے رؤىت قلبى  کا دعوا کیا  وه درست هے ۔ اور جس نے رؤىت بصرى كا دعوى كىا اس نے جھوٹ بولا اور اس نے رسول اللہ كے قول كے مطابق اللہ اور اس كى نشانىوں كا انكار كىا: جس نے اللہ كو اپنے مخلوقات كے ساتھ تشبىہ دى اس نے كفر اختىار كىا۔ و لقد حدّثني أبي عن أبيه عن الحسين بن عليّ قال: سئل‏ أمير المؤمنين‏ فقيل‏ له‏: يا أخا رسول‏ اللّه‏ هل رأيت ربّك؟ فقال: كيف أعبد من لم أره، لم تره العيون بمشاهدة العيان و لكن رأته القلوب بحقائق الإيمان، و إذا كان المؤمن يرى ربّه بمشاهدة البصر فإنّ كلّ من جاز عليه البصر و الرّؤية فهو مخلوق، و لا بدّ للمخلوق من خالق فقد جعلته إذا محدثا مخلوقا، و من شبّهه بخلقه فقد اتّخذ للّه شريكا، ويل لهم ألم يسمعوا قول اللّه تعالى: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُوَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ و قوله لموسى: لَنْ تَرانِي وَ لكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ فَسَوْفَ تَرانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً  اعراف: 143.  و إنّما طلع من نوره على الجبل كضوء يخرج من سمّ الخياط فدكدكت الأرض و ضعضعت الجبال‏ وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً أي ميّتا فَلَمَّا أَفاقَ‏ وردّ عليه روحه‏ قالَ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ‏ من قول من زعم أنّك ترى و رجعت إلى معرفتي بك، إنّ الأبصار لا تدركك‏ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ و أوّل المقرّين بأنّك ترى و لا ترى، و أنت بالمنظر الأعلى‏  بحرانى، سيد هاشم بن سليمان، الإنصاف. ۔
(مىرے والد نے مجھ سے كہا كہ اس نے اپنے باپ سے اس نے امام حسىنؑ بن علىؑ سے كہ آپؑ نے فرماىا: امىر المؤمنىن سے سوال كىا: اے رسول خدا كے بھائى! كىا تْو نے اپنے پروردگار كو دىكھا ہے؟
(مىرے والد نے مجھ سے كہا كہ اس نے اپنے باپ سے اس نے امام حسىنؑ بن علىؑ سے كہ آپؑ نے فرماىا: امىر المؤمنىن سے سوال كىا: اے رسول خدا كے بھائى! كىا تْو نے اپنے پروردگار كو دىكھا ہے؟
تو آپ نے فرمایا: جس پر وردگار كوميں نے دىكھا نہيں اس كى عبادت نہيں كرتا،اسے ظاہرى آنكھ نے نہيں دىكھتا ،  بلكہ اسے اىمان كى حقىقت سے پْر دل مشاہدہ كرتا ہے۔اور  اگر مؤمن اپنے پروردگار كو ظاہرى آنكھ سے دىكھ سکتا تو جو بھى شئى اس ظاهری انکھ سے دىكھى جاسكےوہ مخلوق ہے، اور ہر مخلوق كا اىك خالق ہونا ضرورى ہے، پس تم نے اللہ محدث ومخلوق قرار دىا ، اور جس نے اسے اپنے مخلوق كے ساتھ تشبىہ دى اس نے اللہ كا شرىك ٹھہراىا۔
تو آپ نے فرمایا: جس پر وردگار كوميں نے دىكھا نہيں اس كى عبادت نہيں كرتا،اسے ظاہرى آنكھ نے نہيں دىكھتا ،  بلكہ اسے اىمان كى حقىقت سے پْر دل مشاہدہ كرتا ہے۔اور  اگر مؤمن اپنے پروردگار كو ظاہرى آنكھ سے دىكھ سکتا تو جو بھى شئى اس ظاهری انکھ سے دىكھى جاسكےوہ مخلوق ہے، اور ہر مخلوق كا اىك خالق ہونا ضرورى ہے، پس تم نے اللہ محدث ومخلوق قرار دىا ، اور جس نے اسے اپنے مخلوق كے ساتھ تشبىہ دى اس نے اللہ كا شرىك ٹھہراىا۔
افسوس ہے ان پر ، كىا انہوں نے اللہ تعالى كے اس قول كو نہيں سنا: (نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے)، اور اس كا موسىؑ كو كہا ہوا قول ہے:( تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی علىہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے)، بلكہ  اس كے نور ميں سے پہاڑ پہ چمكا جىسے ماچس كى تلى سے روشنى نكلتى ہے پ جسےزمىن ہل گئى اور پہاڑ رىزہ ہوگىااور موسىؑ مدہوش گرپڑا ىعنى موت واقع ہوئى (پھر جب انہیں ہوش آیا)اس  كى طرف  روح  پلٹ آئى(تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں)، جس نے گمان كىا كہ تجھے دىكھا جاسكتا ہے، اور ميں تجھ سے متعلق شناخت كى طرف لوٹ آىا: كہ آنكھىں تجھے درك نہيں كرسكتى(اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں) كہ تو دىكھتا ہے اور تجھے دىكھا نہيں جاسكتا، اور تو نظروں كى پہنچ سے بالاتر ہو۔
افسوس ہے ان پر ، كىا انہوں نے اللہ تعالى كے اس قول كو نہيں سنا: (نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے)، اور اس كا موسىؑ كو كہا ہوا قول ہے:( تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو .اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسٰی علىہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے)، بلكہ  اس كے نور ميں سے پہاڑ پہ چمكا جىسے ماچس كى تلى سے روشنى نكلتى ہے پ جسےزمىن ہل گئى اور پہاڑ رىزہ ہوگىااور موسىؑ مدہوش گرپڑا ىعنى موت واقع ہوئى (پھر جب انہیں ہوش آیا)اس  كى طرف  روح  پلٹ آئى(تو کہنے لگے کہ پروردگار تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں)، جس نے گمان كىا كہ تجھے دىكھا جاسكتا ہے، اور ميں تجھ سے متعلق شناخت كى طرف لوٹ آىا: كہ آنكھىں تجھے درك نہيں كرسكتى(اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں) كہ تو دىكھتا ہے اور تجھے دىكھا نہيں جاسكتا، اور تو نظروں كى پہنچ سے بالاتر ہو۔
وَ قَدْ سَأَلَ مُوسَى ع وَ جَرَى عَلَى لِسَانِهِ مِنْ حَمْدِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ فَكَانَتْ مَسْأَلَتُهُ تِلْكَ أَمْراً عَظِيماً وَ سَأَلَ أَمْراً جَسِيماً فَعُوقِبَ فَ قالَ‏ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى- لَنْ تَرانِي‏ فِي الدُّنْيَا حَتَّى تَمُوتَ فَتَرَانِي فِي الْآخِرَةِ وَ لَكِنْ إِنْ أَرَدْتَ أَنْ تَرَانِي فِي الدُّنْيَا-فَي انْظُرْ إِلَى‏ الْجَبَلِ‏ فَإِنِ‏ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ‏ فَسَوْفَ‏ تَرانِي‏ فَأَبْدَى اللَّهُ سُبْحَانَهُ بَعْضَ آيَاتِهِ وَ تَجَلَّى رَبُّنَا لِلْجَبَلِ فَتَقَطَّعَ الْجَبَلُ فَصَارَ رَمِيماً- وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً يَعْنِي مَيِّتاً فَكَانَ عُقُوبَتُهُ الْمَوْتَ‏  ثُمَّ أَحْيَاهُ اللَّهُ وَ بَعَثَهُ وَ تَابَ عَلَيْهِ فَقَالَ‏ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ يَعْنِي أَوَّلُ مُؤْمِنٍ آمَنَ بِكَ مِنْهُمْ أَنَّهُ لَنْ يَرَاكَ ابن بابويه، محمد بن على، التوحيد (للصدوق) - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1398ق. (اىك حدىث ميں ہے : موسىؑ نے سوال كىا اور اس كى زبان پر اللہ تعالى كى حمد وثناء جارى ہوئى :( پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)پس اس كا ىہ سوال بہت بڑا كام تھا، اور اىك خطرناك امر كا سوال كىا تھا، پس وہ زىر عتاب آىا، اللہ تعالى نے كہا(تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو)اس دنىا ميں ىہاں تك كہ موت واقع ہوجائے اور آخرت ميں دىكھ سكو گے، لىكن اگر تو مجھے دىكھنا چاہتا ہے تو(البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو)پس اللہ تعالى نے اپنى بعض نشانىوں كو ظاہر كىااور جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا (اور موسٰی علیہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے)پھر اللہ تعالى نے اسے زندہ كىا دوبارہ اٹھاىا، پھر كہا(تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)ىعنى وہ پہلا شخص ہوں نے تىرے عدم رؤىت پر اىمان لاىا۔
 
علامہ طباطبائى کی تحقیق کا نتیجہ
وَ قَدْ سَأَلَ مُوسَى ع وَ جَرَى عَلَى لِسَانِهِ مِنْ حَمْدِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ فَكَانَتْ مَسْأَلَتُهُ تِلْكَ أَمْراً عَظِيماً وَ سَأَلَ أَمْراً جَسِيماً فَعُوقِبَ فَ قالَ‏ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى- لَنْ تَرانِي‏ فِي الدُّنْيَا حَتَّى تَمُوتَ فَتَرَانِي فِي الْآخِرَةِ وَ لَكِنْ إِنْ أَرَدْتَ أَنْ تَرَانِي فِي الدُّنْيَا-فَي انْظُرْ إِلَى‏ الْجَبَلِ‏ فَإِنِ‏ اسْتَقَرَّ مَكانَهُ‏ فَسَوْفَ‏ تَرانِي‏ فَأَبْدَى اللَّهُ سُبْحَانَهُ بَعْضَ آيَاتِهِ وَ تَجَلَّى رَبُّنَا لِلْجَبَلِ فَتَقَطَّعَ الْجَبَلُ فَصَارَ رَمِيماً- وَ خَرَّ مُوسى‏ صَعِقاً يَعْنِي مَيِّتاً فَكَانَ عُقُوبَتُهُ الْمَوْتَ‏  ثُمَّ أَحْيَاهُ اللَّهُ وَ بَعَثَهُ وَ تَابَ عَلَيْهِ فَقَالَ‏ سُبْحانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ‏ يَعْنِي أَوَّلُ مُؤْمِنٍ آمَنَ بِكَ مِنْهُمْ أَنَّهُ لَنْ يَرَاكَ <ref>ابن بابويه، محمد بن على، التوحيد۔ ص234</ref>-(اىك حدىث ميں ہے : موسىؑ نے سوال كىا اور اس كى زبان پر اللہ تعالى كى حمد وثناء جارى ہوئى :( پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے)پس اس كا ىہ سوال بہت بڑا كام تھا، اور اىك خطرناك امر كا سوال كىا تھا، پس وہ زىر عتاب آىا، اللہ تعالى نے كہا(تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو)اس دنىا ميں ىہاں تك كہ موت واقع ہوجائے اور آخرت ميں دىكھ سكو گے، لىكن اگر تو مجھے دىكھنا چاہتا ہے تو(البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو)پس اللہ تعالى نے اپنى بعض نشانىوں كو ظاہر كىااور جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا (اور موسٰی علیہ السّلام بیہوش ہوکر گر پڑے)پھر اللہ تعالى نے اسے زندہ كىا دوبارہ اٹھاىا، پھر كہا(تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں)ىعنى وہ پہلا شخص ہوں نے تىرے عدم رؤىت پر اىمان لاىا۔
 
 
== علامہ طباطبائى کی تحقیق کا نتیجہ ==
اور ہم ىہاں بحث كو سىد طباطبائى كا رؤىت كےبارے ميں ان كى رأى كے ساتھ  سمىٹتے ہىں جس ميں انہوں نے رؤىت قلبى مراد لى، اور مؤمن كے واسطے ان دو رواىات كى روشنى ميں ىہ روز قىامت متحقق ہے ، ان ميں سے پہلى رواىت رؤىت قلبى كے امكان اور رؤىت بصرى  كى نفى پر نص ہے، تو دوسرى رواىت آخرت ميں رؤىت پر دال ہے۔
اور ہم ىہاں بحث كو سىد طباطبائى كا رؤىت كےبارے ميں ان كى رأى كے ساتھ  سمىٹتے ہىں جس ميں انہوں نے رؤىت قلبى مراد لى، اور مؤمن كے واسطے ان دو رواىات كى روشنى ميں ىہ روز قىامت متحقق ہے ، ان ميں سے پہلى رواىت رؤىت قلبى كے امكان اور رؤىت بصرى  كى نفى پر نص ہے، تو دوسرى رواىت آخرت ميں رؤىت پر دال ہے۔


رؤيت كے قائليں كو همارا پیشنهاد
== رؤيت كے قائليں كو همارا پیشنهاد ==
اور اس تفسىرمذكور كى روشنى ميں  ہمارا  پىشنہاد ہے کہ:
اور اس تفسىرمذكور كى روشنى ميں  ہمارا  پىشنہاد ہے کہ:
1- اشاعرہ كو رؤىت بصرى پر دلالت كرنے والى احادىث سے رفع ىد كرنا چاہىے كىونكہ ىہ –بلا شك –ان اسرائىلىات ميں سے ہىں جو كہ تدوىن حدىث كے وقت ہمارى غفلت كے سبب ان ميں داخل ہوگئى ہىں كہ جو ہمارے جوامع احادىث ميں مذكور ہىں۔
1- اشاعرہ كو رؤىت بصرى پر دلالت كرنے والى احادىث سے رفع ىد كرنا چاہىے كىونكہ ىہ –بلا شك –ان اسرائىلىات ميں سے ہىں جو كہ تدوىن حدىث كے وقت ہمارى غفلت كے سبب ان ميں داخل ہوگئى ہىں كہ جو ہمارے جوامع احادىث ميں مذكور ہىں۔
55

ترامیم