"مسودہ:رؤیت فریقین کی نگاه میں" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 326: سطر 326:
پس موقف-ىہاں- حدىث سے انكاراور اسے اعتبار سے ساقط كرنےكا تقاضا كرتا ہےكىونكہ قرآن كرىم سے منافات ركھتى ہے كہ  اللہ تعالى فرماتا ہے: (لا تدركه الأبصار)۔
پس موقف-ىہاں- حدىث سے انكاراور اسے اعتبار سے ساقط كرنےكا تقاضا كرتا ہےكىونكہ قرآن كرىم سے منافات ركھتى ہے كہ  اللہ تعالى فرماتا ہے: (لا تدركه الأبصار)۔
اور اس سے انكار – جىسا كہ ميں نے كہا-بخارى كى رواىات ميں شك كا دروازہ كھل جاتا ہے، اور  وہ ان كے نزدىك صحاح ميں صحىح ترىں  ہے۔
اور اس سے انكار – جىسا كہ ميں نے كہا-بخارى كى رواىات ميں شك كا دروازہ كھل جاتا ہے، اور  وہ ان كے نزدىك صحاح ميں صحىح ترىں  ہے۔
بہر حال اس طرح كے موقعوں پر قطعى فىصلے كے ليے اىسے جرأتمند عالم كى ضرورت ہے جو حق بات كہنے ميں ملامت سے خوف نہ كھائے، امام على بن موسى رضاؑ ابى قرہ كے گذشتہ  جواب ميں  فرماتے ہىں: ((إذا كانت الروايات مخالفة للقرآن كذّبتها))ترجمہ:اگر رواىات قرآن كرىم كا مخالف ہوں تو اسے جھٹلائے۔
بہر حال اس طرح كے موقعوں پر قطعى فىصلے كے ليے اىسے جرأتمند عالم كى ضرورت ہے جو حق بات كہنے ميں ملامت سے خوف نہ كھائے، امام على بن موسى رضاؑ ابى قرہ كے گذشتہ  جواب ميں  فرماتے ہىں: ((إذا كانت الروايات مخالفة للقرآن كذّبتها))ترجمہ:اگر رواىات قرآن كرىم كا مخالف ہوں تو اسے جھٹلائے۔
كتنى حَسىن ہے كہ امىر المؤمنىنﷺ سے اہل بىتؑ  كےبارے  ميں جو رواىت نقل ہوئى: ((عقلوا الدين عقل وعاية ورعاية، لا عقل سماع ورواية، فإن رواة العلم كثير ورعاته قليل، انہوں نے دىن كو بىدار ى اور اس پر عمل حاصل كىا، نہ كہ  دىن كو صرف سننے اور رواىت سے حاصل كىا، بلا شك علم كے رواىت كرنے والے بہت اور اس پر كاربند رہنے والے كم ہىں))۔
كتنى حَسىن ہے كہ امىر المؤمنىنﷺ سے اہل بىتؑ  كےبارے  ميں جو رواىت نقل ہوئى: ((عقلوا الدين عقل وعاية ورعاية، لا عقل سماع ورواية، فإن رواة العلم كثير ورعاته قليل، انہوں نے دىن كو بىدار ى اور اس پر عمل حاصل كىا، نہ كہ  دىن كو صرف سننے اور رواىت سے حاصل كىا، بلا شك علم كے رواىت كرنے والے بہت اور اس پر كاربند رہنے والے كم ہىں))۔
4- انہوں نے بخارى كى احادىث  كہ جو كہتى ہے كہ رسول خدا ﷺجس  طرح اپنے روبرو دىكھتے تھے اسى طرح اپنے پىچھے كى طرف  بھى نگاہ ركھتے تھے- فرضا اگر صحىح ہوتو-سے ادراكى رؤىت پر استدلال كىا ہے روز قىامت رؤىت ادراكى كے اثبات كا فائدہ نہيں ديتى، كىونكہ ممكن ہے ىہ رؤىت آپؐ  كى نبوت ىا كسى اور سبب كے ساتھ خاص ہو، جىسا كہ حدىث ميں تخصىص سے مراد واضح ہے، اور ورود احادىث  صرف ان كے  ساتھ  خاص ہونا ثابت ہے۔
4- انہوں نے بخارى كى احادىث  كہ جو كہتى ہے كہ رسول خدا ﷺجس  طرح اپنے روبرو دىكھتے تھے اسى طرح اپنے پىچھے كى طرف  بھى نگاہ ركھتے تھے- فرضا اگر صحىح ہوتو-سے ادراكى رؤىت پر استدلال كىا ہے روز قىامت رؤىت ادراكى كے اثبات كا فائدہ نہيں ديتى، كىونكہ ممكن ہے ىہ رؤىت آپؐ  كى نبوت ىا كسى اور سبب كے ساتھ خاص ہو، جىسا كہ حدىث ميں تخصىص سے مراد واضح ہے، اور ورود احادىث  صرف ان كے  ساتھ  خاص ہونا ثابت ہے۔
5- اشعرى كى پہلى دلىل عقلى كى بنىاد اللہ تعالى كا اپنے مخلوقات كے ساتھ مقاىسے پر قائم ہے۔
5- اشعرى كى پہلى دلىل عقلى كى بنىاد اللہ تعالى كا اپنے مخلوقات كے ساتھ مقاىسے پر قائم ہے۔
اور وہ قىاس مع الفارق ہے،كىونكہ اللہ تعالى كا وجود  وجود صرف بسىط مجرد ہے، اور اس كے مخلوقات كا وجود اىسا نہيں ہے۔
اور وہ قىاس مع الفارق ہے،كىونكہ اللہ تعالى كا وجود  وجود صرف بسىط مجرد ہے، اور اس كے مخلوقات كا وجود اىسا نہيں ہے۔
اس كے علاوہ:
اس كے علاوہ:
ہر موجود كا مرئى ہونا ضرورى نہيں كىونكہ موجودات ميں سے بعض كى رؤىت كے ليے شرائط پورى نہيں  ہےجىسے مجردات اور موجودات بدون كثىف ۔
ہر موجود كا مرئى ہونا ضرورى نہيں كىونكہ موجودات ميں سے بعض كى رؤىت كے ليے شرائط پورى نہيں  ہےجىسے مجردات اور موجودات بدون كثىف ۔
اور  ىہ فاعل كے عجز كی وجہ سے نہيں، بلكہ قبول كرنے والے كے نقص كی وجہ سے ہے،  لہذا  اس دلىل ميں اىك قسم كا مغالطہ پاىا جاتا ہے۔   
اور  ىہ فاعل كے عجز كی وجہ سے نہيں، بلكہ قبول كرنے والے كے نقص كی وجہ سے ہے،  لہذا  اس دلىل ميں اىك قسم كا مغالطہ پاىا جاتا ہے۔  
   
6- اور مغالطے كے لحاظ سے دوسرى دلىل بھى اسى سے مربوط ہے،كىونكہ بارى تعالى كا اپنى ذات كى رؤىت  رؤىت بصرى نہيں ہے، اور جس چىز كے بارے ميں تنازعہ ہے وہ رؤىت بصرى ہے۔
6- اور مغالطے كے لحاظ سے دوسرى دلىل بھى اسى سے مربوط ہے،كىونكہ بارى تعالى كا اپنى ذات كى رؤىت  رؤىت بصرى نہيں ہے، اور جس چىز كے بارے ميں تنازعہ ہے وہ رؤىت بصرى ہے۔
كىونكہ اللہ تعالى كا اپنى رؤىت –اگر ىہ تعبىر صحىح ہو تو-  اپنى ذات كا علم ہے، اور وہ علم حضور ی ہے۔اور اشعرى ىہ نہيں كہتا ہے كہ مؤمن كا اپنے پروردگار كى رؤىت اىك قسم كا علم حضورى ہے، اس كے باوجود –اگر ہم نے تسلىم بھى كرلىا- ىہ رؤىت بصرى ہے، پس ىہ مورد بحث  سے خارج ہے۔
كىونكہ اللہ تعالى كا اپنى رؤىت –اگر ىہ تعبىر صحىح ہو تو-  اپنى ذات كا علم ہے، اور وہ علم حضور ی ہے۔اور اشعرى ىہ نہيں كہتا ہے كہ مؤمن كا اپنے پروردگار كى رؤىت اىك قسم كا علم حضورى ہے، اس كے باوجود –اگر ہم نے تسلىم بھى كرلىا- ىہ رؤىت بصرى ہے، پس ىہ مورد بحث  سے خارج ہے۔
55

ترامیم