"محمد ضیاء الحق" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 96: سطر 96:
اگرچہ بظاہر صرف آزادانہ انتخابات کے انعقاد تک عہدے پر فائز رہے، لیکن جنرل ضیاء نے سابقہ ​​فوجی حکومتوں کی طرح نظم و ضبط اور نظم و ضبط کی کمی کو ناپسند کیا جو اکثر کثیر الجماعتی "پارلیمانی جمہوریت" کے ساتھ ہوتا ہے۔ انہوں نے حکومت کی "صدارتی" شکل اور تکنیکی ماہرین کے ذریعے فیصلہ سازی کے نظام، یا "ٹیکنو کریسی" کو ترجیح دی۔ پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی کے لیے ان کا پہلا متبادل مجلس شوریٰ یا "مشاورتی کونسل" تھا۔ 1979 میں تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کے بعد اس نے پارلیمنٹ کو توڑ دیا اور 1981 کے آخر میں مجلس قائم کی، جو صدر کے مشیروں کے بورڈ کے طور پر کام کرتی تھی اور اسلامائزیشن کے عمل میں مدد کرتی تھی۔ شوریٰ کے 350 ارکان کو صدر نے نامزد کیا تھا اور ان کے پاس صرف اس سے مشورہ کرنے کا اختیار تھا، اور حقیقت میں حکومت کی طرف سے پہلے سے کیے گئے فیصلوں کی توثیق کے لیے کام کیا جاتا تھا۔ شوریٰ کے زیادہ تر ارکان دانشور، علماء، علمائے کرام، صحافی، ماہر اقتصادیات اور مختلف شعبوں کے پیشہ ور افراد تھے۔<br>
اگرچہ بظاہر صرف آزادانہ انتخابات کے انعقاد تک عہدے پر فائز رہے، لیکن جنرل ضیاء نے سابقہ ​​فوجی حکومتوں کی طرح نظم و ضبط اور نظم و ضبط کی کمی کو ناپسند کیا جو اکثر کثیر الجماعتی "پارلیمانی جمہوریت" کے ساتھ ہوتا ہے۔ انہوں نے حکومت کی "صدارتی" شکل اور تکنیکی ماہرین کے ذریعے فیصلہ سازی کے نظام، یا "ٹیکنو کریسی" کو ترجیح دی۔ پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی کے لیے ان کا پہلا متبادل مجلس شوریٰ یا "مشاورتی کونسل" تھا۔ 1979 میں تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کے بعد اس نے پارلیمنٹ کو توڑ دیا اور 1981 کے آخر میں مجلس قائم کی، جو صدر کے مشیروں کے بورڈ کے طور پر کام کرتی تھی اور اسلامائزیشن کے عمل میں مدد کرتی تھی۔ شوریٰ کے 350 ارکان کو صدر نے نامزد کیا تھا اور ان کے پاس صرف اس سے مشورہ کرنے کا اختیار تھا، اور حقیقت میں حکومت کی طرف سے پہلے سے کیے گئے فیصلوں کی توثیق کے لیے کام کیا جاتا تھا۔ شوریٰ کے زیادہ تر ارکان دانشور، علماء، علمائے کرام، صحافی، ماہر اقتصادیات اور مختلف شعبوں کے پیشہ ور افراد تھے۔<br>
ضیاء کی پارلیمنٹ اور اس کی فوجی حکومت "ملٹری بیوروکریٹک ٹیکنو کریسی" (MBT) کے خیال کی عکاسی کرتی ہے جہاں پیشہ ور افراد، انجینئرز اور اعلیٰ سطح کے فوجی افسران ابتدائی طور پر اس کی فوجی حکومت کا حصہ تھے۔ سیاست دانوں کے لیے ان کی عداوت نے بیوروکریٹک ٹیکنو کریسی کو فروغ دیا جسے سیاست دانوں اور ان کے سیاسی گڑھوں کا مقابلہ کرنے کا ایک مضبوط ہتھیار سمجھا جاتا تھا۔ سینئر سیاستدان اور ٹیکنوکریٹس میں ماہر طبیعات سے سفارت کار بنے آغا شاہی، فقیہہ شریف الدین پیرزادہ، کارپوریٹ لیڈر نواز شریف، ماہر اقتصادیات محبوب الحق، اور سینئر سیاستدان آفتاب قاضی، روئیداد خان، اور کیمسٹ سے سفارت کار بنے غلام اسحاق خان شامل تھے۔ اس کی فوجی حکومت میں ٹیکنوکریٹک شخصیات۔
ضیاء کی پارلیمنٹ اور اس کی فوجی حکومت "ملٹری بیوروکریٹک ٹیکنو کریسی" (MBT) کے خیال کی عکاسی کرتی ہے جہاں پیشہ ور افراد، انجینئرز اور اعلیٰ سطح کے فوجی افسران ابتدائی طور پر اس کی فوجی حکومت کا حصہ تھے۔ سیاست دانوں کے لیے ان کی عداوت نے بیوروکریٹک ٹیکنو کریسی کو فروغ دیا جسے سیاست دانوں اور ان کے سیاسی گڑھوں کا مقابلہ کرنے کا ایک مضبوط ہتھیار سمجھا جاتا تھا۔ سینئر سیاستدان اور ٹیکنوکریٹس میں ماہر طبیعات سے سفارت کار بنے آغا شاہی، فقیہہ شریف الدین پیرزادہ، کارپوریٹ لیڈر نواز شریف، ماہر اقتصادیات محبوب الحق، اور سینئر سیاستدان آفتاب قاضی، روئیداد خان، اور کیمسٹ سے سفارت کار بنے غلام اسحاق خان شامل تھے۔ اس کی فوجی حکومت میں ٹیکنوکریٹک شخصیات۔
== 1984 کا ریفرنڈم ==
بھٹو کی پھانسی کے بعد، بین الاقوامی اور پاکستان کے اندر انتخابات کے انعقاد کی رفتار بڑھنے لگی۔ لیکن منتخب نمائندوں کو اقتدار سونپنے سے پہلے ضیاء الحق نے سربراہ مملکت کے طور پر اپنی پوزیشن کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ 19 دسمبر 1984 کو ایک ریفرنڈم ہوا جس میں جنرل کو مستقبل کے صدر کے طور پر منتخب کرنے یا مسترد کرنے کا آپشن تھا، ریفرنڈم کے الفاظ سے ضیاء کے خلاف ووٹ دینا اسلام کے خلاف ووٹ لگتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضیاء کے حق میں 97.8 فیصد ووٹ ڈالے گئے تاہم رائے شماری میں صرف 20 فیصد ووٹروں نے حصہ لیا۔
== 1985 کے انتخابات اور آئینی ترامیم ==
1984 کے ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد، ضیاء نے بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھک کر الیکشن کمیشن کو قومی سطح پر عام انتخابات کرانے کی اجازت دے دی لیکن فروری 1985 میں سیاسی جماعتوں کے بغیر۔ زیادہ تر بڑی مخالف سیاسی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انتخابی نتائج نے ظاہر کیا کہ بہت سے فاتح کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ ناقدین نے شکایت کی کہ نسلی اور فرقہ وارانہ تحریک نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر (یا انتخابات کو "غیر جانبدارانہ" بنا کر) خالی جگہ کو پُر کیا، جس سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا۔<br>
جنرل نے خود کو وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا اختیار قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے، صوبائی گورنروں اور مسلح افواج کے سربراہ کی تقرری کے لیے کام کیا۔ ان کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو ایک غیر مہذب اور نرم بولنے والے سندھی کے طور پر جانے جاتے تھے۔


= حوالہ جات =
= حوالہ جات =