شیخ محسن علی نجفی شیخ محسن علی نجفی شیعہ عالم دین، اتحاد بین المسلمین کے داعی، مفسر، مؤلف اور مترجم قرآن کریم، مدارس اہل بیت(ع) اور جامعۂ الکوثر کے بانی اور سرپرست اعلی ہیں۔ آپ نے تعلیمی پسماندگی کی خاتمہ کے لئے اسوہ پبلک سکول اینڈ کالج کی بنیاد رکھی جس کے شعبہ جات ملک کے مختلف مقامات پر فعال ہیں۔ شیخ محسن علی نجفی نے فقراء اور مساکین کی مشکلات کے حل کے لیے ایک ادارہ بنایا ہے اور اسی طرح آپ سیاسی میدان میں بھی فعال ہیں، اتحاد بین المسلمین اور شیعوں کے سیاسی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔ آپ آیت اللہ سیستانی کے وکیل اور شہید صدر کے شاگردوں میں سے ہیں۔

سوانح عمری

آپ اسکردو بلتستان کی ضلع کھرمنگ کے گاؤں منٹھوکھا میں 1938 کو پیدا ہوئے۔ منٹوکھا مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی کی جائے ولادت ہے۔ خاندانی ریکارڈ کے مطابق آپ کا سنِ ولادت 1943ء ہے۔ آپ کے پر دادا جان کا اسم گرامی حسین حلیم، دادا جان کا نام عبد الحلیم اور والد صاحب کا نام نامی مولانا حسین جان ہے [1]۔

زندگی کے اہم واقعات

قیام پاکستان کے وقت آپ کی عمر مبارک پانچ سال جبکہ آزادی بلتستان کے وقت آپ کی عمر چھ سال تھی تاہم کم عمری کے باوجود اس وقت کے اہم واقعات آج بھی آپ کے ذہن پر پوری طرح نقش ہیں چنانچہ انھیں یاد ہے کہ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح کا نام زبانِ زد عام تھا اور علاقے کے مکینوں کی پاکستان میں شمولیت کے لیے رائے شماری کا شور و غوغا بھی ان کے کانوں میں پڑتا تھا اس کے علاوہ بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے بلتستان کی آزادی کے لیے جو عظیم جدوجہد کی اس حوالے سے بھی انھیں یاد ہے کہ جنگ آزادی بلتستان میں شرکت کرنے والے مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے گاؤں میں ایک تقریب ہوئی تھی اور اس تقریب میں ان کے والد صاحب نے مجاہدین کی جدوجہد کے حوالے سے اشعار پڑھ کر لوگوں سے زبردست داد پائی تھی۔ تقریب کے اختتام پر صدرِ محفل نے انکے والد صاحب کو دس روپے کا ہندوستانی سکہ بطور انعام دیا تھا (اسوقت تک پاکستانی کرنسی گردش میں نہ آئی تھی) دس روپے کا وہ سکہ ایک عرصے تک ان کے خاندان کے پاس بطور یادگار محفوظ رہا [2]۔

تعلیم

آپ کی عمر ابھی 14 سال تھی کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور شفقت پدری سے محرومی کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا ایسے میں ان کے گاؤں سے متصل ایک گاؤں تھا جو اب بھی آخوند گاؤں کہلاتا ہے۔ آخوند گاؤں قدیم شیعہ بستی تھی جبکہ ان کا سارا علاقہ نور بخشی تھا اور اس کے برعکس اس وقت وہ سارا گاؤں شیعہ تھا اس گاؤں کے ایک عالم دین مولانا حسین کے پاس انھوں نے دوبارہ تعلیم شروع کی اور صرف میر وغیرہ بھی وہیں پڑھی [3]۔ ان کے استاد اخوند حسین نے مقامی طور تعلیم حاصل کی تھی اس کے بعد علامہ سید احمد موسوی (جو کہ نجف کے فارغ التحصیل تھے) کے پاس وہ پڑھتے رہے اور ان سے خاطر خواہ تعلیم حاصل کی یہ مولانا صاحب ان کے گاؤں کی دوسری جانب واقع قریبی گاؤں میں رہتے تھے چنانچہ شرح لمعہ تک تعلیم انھوں نے علامہ سید احمد موسوی رحمۃ اللہ علیہ ہی سے حاصل کی [4]۔

عالم مسافرت اور حصول علم

بلتستان سے باہر جانے اور مزید تعلیم کے لیے اداروں کی تلاش آپ کا ذاتی فیصلہ تھا اور کسی نے انھیں یہ سوچ نہیں دی تھی کہ انھیں تعلیم کے لیے بلتستان سے باہر جانا چاہیے چنانچہ وہ از خود حصول علم کا شوق لیئے 1960ء میں بلتستان سے چلے تاہم تعلیمی اداروں کی بابت ضروری معلومات نہ ہونے کے باعث کراچی کا چکر لگا کر واپس بلتستان آ گئے اور حصول تعلیم کے لیے کوئی راہ نہ نکال سکے یہاں تک کہ پھر تین سال بعد یعنی 1963ء میں دوبارہ کراچی آئے اور حیدر آباد سندھ کے مدرسہ مشارع العلوم میں داخلہ لیا۔ اس وقت وہاں مولانا ثمر حسن زیدی صاحب مدرسے کے پرنسپل تھے اور مولانا منظور حسین صاحب ان کے ادبیات کے استاد تھے مولانا ثمر حسن زیدی اور مولانا منظور حسین رحمۃ اللہ علیہم دونوں ہی ان کے پسندیدہ استاد تھے۔ مدرسہ مشارع العلوم حیدر آباد سندھ میں علامہ صاحب نے ایک سال گذارا۔ ابتدا میں انھیں اردو اچھی طرح نہیں آتی تھی لیکن جب وہ حیدر آباد میں رہے تو وہاں کیونکہ اردو بولنے کا رواج تھا اور مولانا ثمر حسن زیدی و مولانا منظور حسین، ان دونوں کی مادری زبان بھی اردو تھی اگرچہ وہاں سندھی طالب علم بھی تھے تاہم اردو کا غلبہ تھا اس لیے وہاں رہ کر انھوں نے بھی اردو سیکھ لی۔ مدرسہ مشارع العلوم سندھ میں شرح لمعہ سے نیچے تک تعلیم دی جاتی تھی چنانچہ انھیں بھی وہاں ایک سال تک شرح لمعہ سے نیچے تعلیم دی جاتی رہی لہٰذا انھیں مزید تعلیم کے حصول کی خاطر ایک سال بعد ہی یہ مدرسہ چھوڑنا پڑا البتہ عربی ادب میں وہاں پڑھائی جانے والی کتب اور اردو لکھنے بولنے کی مشق نے انھیں آئندہ زندگی میں بہت فائدہ پہنچایا۔[5]۔

نجف اشرف روانگی

آپ پوری یکسوئی کے ساتھ لاہور میں زیر تعلیم تھے کہ یکایک ان کے دل میں ایک روشنی سی اتری اور چشم تصور میں انھیں حوزہ علمیہ نجف اشرف جگمگاتا دکھائی دینے لگا۔ علامہ صاحب کے والد صاحب تو اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے ایسے میں انہیں حصول علم کے لئے بہتر تعلیمی ادارے بتانے اور بہتر مستقبل کی جانب راہنمائی کرنے والا کوئی بھی نہ تھا یہاں تک کہ کسی نے نہ شوق دلایا اور نہ ہی کسی نے کوئی وسائل فراہم کئے بس بے سرو سامانی کے عالم میں وہ جگہ جگہ خود قیام کرتے تھے اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنا ہر فیصلہ خود کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کا اس وقت نجف اشرف جانے کا فیصلہ بروقت تھا چنانچہ انھوں نے جب لاہور سے نجف جانے کا ارادہ کیا تو ایک بار پھر کراچی میں اپنے چچا کے پاس پہنچے اس وقت ان کے چچا کے مالی حالات پورا کرایہ دینے کے تو نہ تھے البتہ انہوں نے تھوڑا سا کرایہ دے دیا جسے لے کر خدا کے سہارے علامہ صاحب اور ان کی اہلیہ کسی نہ کسی طرح نجف اشرف پہنچ ہی گئے [6]۔

نجف اشرف میں قیام

نجف پہنچنے کے بعد حوزہ میں داخلے کا مسئلہ درپیش آیا وہاں ان دنوں لاہور کے مولانا صادق علی مرحوم، آیت اللہ حکیم رحمۃ اللہ علیہ کے دفتر میں کام کرتے تھے وہ ان کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان سے آئے ہیں اگرچہ وہاں امتحان لے کر شہریہ دیا جاتا تھا تاہم کیونکہ آپ مکاسب پڑھتے تھے اس لیے ان کا دو دینار یعنی (تقریباً) چالیس روپے شہریہ لگا دیا گیا۔

حوزہ علمیہ نجف میں ان دنوں زیادہ تر ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران کے طلباء ہوتے تھے جن میں ایرانی طلباء کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی اور زیادہ تر اساتذہ بھی ایرانی تھے، صرف آیت اللہ حکیم عراقی مجتہد تھے اور وہی مرجع تقلید تھے وگرنہ تمام اساتذہ بھی عموماً ایرانی ہی تھے جو فارسی میں پڑھاتے تھے۔ جب علامہ صاحب نے درسی کتب ختم کرلیں تو اس کے بعد آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں شرکت کرنے لگے آیت اللہ خوئی عربی میں درس خارج دیتے تھے، جبکہ وہاں عرب طلباء بھی ہوتے تھے اور ایرانی بھی اور اردو بولنے والے بھی، پھر آیت اللہ سید باقر الصدر نے بھی درس خارج شروع کیا تو ان کے درس میں بھی علامہ صاحب جاتے تھے ان دنوں آیت اللہ خوئی کا فقہ کا درس ہوتا تھا اور آیت اللہ باقر الصدر کا اصول کا درس ہوتا تھا [7]۔

عربی کتاب کی تصنیف

دوران تعلیم آپ نے بعنوان النہج السوی فی معنی مولیٰ والولی عربی زبان میں ایک اہم کتاب لکھی۔ اس کتاب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی تقریظ نامور عالم دین جناب بزرگ طہرانی نے لکھی جبکہ نجف اشرف کے اساتذہ و اہل فکر عربی دان طبقے میں اس کو بے حد پذیرائی ملی۔ اس کا کتاب فارسی میں بھی پژوهشی پیرامون معنی مولا و ولی کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے جس کا مترجم سید مرتضی موسوی ہے [8]۔

نجف اشرف سے واپسی

آپ نجف اشرف میں پوری یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ خرمن علم سے خوشہ چینی کر رہے تھے کہ یکایک عراق کے اندرونی حالات نے پلٹا کھایا اور صدام نے دینی مراکز پر شب خون مارنا روز کا معمول بنا لیا ایسے میں سلسلہ درس و تدریس رک گیا اور حوزہ علمیہ میں معمولات زندگی اجیرن بنا دیے گئے۔ چنانچہ بادل نخواستہ علامہ صاحب کو حوزہ علمیہ نجف اشرف کو خیرباد کہہ کر اسلام آباد آنا پڑا [9]۔

اسلام آباد میں دینی مدرسے کا قیام

جب وہ پاکستان تشریف لائے تو انھیں اسلام آباد میں ایک مؤثر دینی ادارے کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی۔ اس وقت ایسا کوئی دینی ادارہ بطور آئیڈئل ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ اسے سامنے رکھ کر کام کر سکتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی حالت دوسروں سے بالکل مختلف تھی۔ مثلاً مولانا صفدر حسین صاحب نے لاہور میں کام کیا تو جامعۃ المنتظر میں وہ برسوں سے پڑھا رہے تھے اور جامعۃ المنتظر ایک مضبوط ادارے کے طور پر پہلے سے قائم تھا یعنی اس کے لیے وسائل موجود تھے اور وہاں پڑھنے والے خود بھی مدرس بنے اور وہ آگے بڑھے وہاں ان کی جان پہچان کا ماحول تھا جبکہ آپ کا حال ایسا نہیں تھا۔ وہ یہاں پر قطعی اجنبی تھے اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ وہ اس علاقے کے بھی نہیں ہیں اور ان کے علاقے کے جو لوگ انھیں جاننے والے تھے وہ مالی اعتبار سے آسودہ نہ تھے لہذا سوائے خدا کے انھیں کسی کا کوئی آسرا نہ تھا پس ان کی یہ حالت لمبے عرصے تک رہی یہاں تک کہ خدا کے فضل و کرم سے وہ اسلام آباد میں دینی ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

عالم بے سرو سامانی میں آغاز کارِ خیر

آپ کو وہ دن نہیں بھولے کہ جب اسلام آباد میں مدرسے کے لیے جگہ تو الاٹ ہو گئی تھی لیکن اس خالی جگہ پر اس وقت کوئی قابل ذکر عمارت وغیرہ نہیں تھی، ایسے میں آپ نے اسی ویرانے میں ایک چھپر ڈالا اور چند طالب علموں کو لے کر بیٹھ گئے یوں سمجھئے کہ انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں انھوں نے طلباء کو پڑھانا شروع کیا ایسے میں عراق سے ایک صاحب ان کا پتہ پوچھتے پوچھتے ان تک پہنچ گئے جبکہ وہ انہیں پہچانتے تک نہ تھے وہ اس وقت ان کا حال دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ بھلا اس بے سروسامانی کے عالم میں مدرسہ بنانے کی کیا پڑی تھی؟ علامہ صاحب نے کہا کہ یقیناً یہ بے سرو سامانی باعث ندامت ہے لیکن ہمیں اسی ندامت کے ساتھ کام کرنا ہے اس لیے کہ ہمیں یہ کام تو بہرحال کرنا ہے چاہے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ آج بھی آپ اپنے ارادت مندوں سے اکثر یہی فرماتے ہیں کہ جب انسان کرنے پر آتا ہے تو اس کے لیے سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے البتہ ان کا قطعاً دعویٰ نہیں کہ اب بھی انھوں نے کچھ کیا ہے بلکہ ان کی یہ حسرت ہے کہ کاش انھوں نے کچھ کیا ہوتا [10]۔

حوالہ جات

  1. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  2. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  3. شیخ محسن علی نجفی کے حالات زندگی اور دینی خدمات، ص26۔
  4. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  5. شیخ محسن علی نجفی کے حالات زندگی اور دینی خدمات، ص26۔
  6. سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔
  7. سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔
  8. gisoom.com
  9. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام عزہ، mohsinalinajafi.com
  10. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام عزہ، mohsinalinajafi.com