مباہلہ اسلام کے موجودہ مطالعات کے مباحث کے سلسلے کا ایک اندراج ہے جو مباہلہ کی ایک جامع تعریف کے علاوہ اس واقعہ اور بہاؤ کی نوعیت کی وضاحت کرتا ہے، عیسائیوں اور پیغمبر اسلام کے درمیان ہونے والی بحث و مباحثہ کو بیان کرتا ہے۔ اور اسلام اور اہل بیت علیہم السلام کی حقیقت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔

مباهله با آیه تطهیر.jpg

مباہلہ کی تعریف

"مباہلہ" کا لغوی معنی ہے باہمی لعنت [1] اور اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد یا دو گروہ ایک دوسرے کے خلاف دعا کریں۔ لہٰذا جو کوئی ظالم ہو، اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرے اور اس پر اپنا انتقام اور عذاب نازل کرے، اور اس کی اولاد کو مایوس اور ہلاک کرے [2]۔ اسلامی تاریخ میں اس لفظ سے مراد پیغمبر اسلام ﷺ اور نجران کے عیسائیوں کی تحریک ہے۔

اصل مباہلہ کا لفظ اھل کے وزن پر مادہ "بہل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے، اسے "باھل" کہتے ہیں اور دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔

ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ ایمان نہ لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کا مشورہ دیا اور انہوں نے قبول کر لیا، لیکن وہ وعدے کے دن "مباہلہ" میں نہیں آئے۔ شیعوں کے نزدیک اس واقعہ سے پیغمبر کی دعوت کی صداقت اور ان کے اصحاب کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 کے مطابق جو مباہلہ کا قصہ بیان کرتی ہے، علی بن ابی طالب علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان و جان سمجھا جاتا ہے۔

اہل سنت اس واقعہ میں پیغمبر کے خاندان کے بارے میں یہ کہتے ہیں:

سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت: نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ اور (مباہلے کے لیے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔ [3] نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لا أھلي اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں [4].

ابتہل کے معنی

ابتہل کے معنی میں دو قول ہیں:

  1. ایک دوسرے پر لعنت کریں، جو دو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔
  2. لعنت ہے اس شخص پر جو روح کو تباہ کرتا ہے.

ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہواور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے، اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔ مباہلے کا عمومی مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے۔ دو مد مقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پو ہو تو اللہ تعالی تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔ [5]

اس آیت میں مباہلہ سے مراد دو لوگوں کو ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہے۔ اس طرح جب منطقی دلائل کارآمد نہیں ہوتے تو وہ لوگ جو ایک اہم مذہبی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں، ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کرے اور سزا دے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خداتعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ مباہلہ کے بعد، باطل کے گروہ پر عذاب نازل ہو گا اور حق کو باطل سے ممتاز کر دے گا" [6]۔ اسلامی مآخذ میں نقل شدہ روایات سے یہ مستعمل ہے کہ مباہلہ پیغمبر کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے اور ہر زمانے میں قابل اطلاق ہے۔

جعفر بن محمد علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: اگر تمہارے مخالفین تمہاری صحیح بات کو قبول نہ کریں تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو [7].

مباہلہ واقعہ

دسویں ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے علاقے نجران میں کچھ لوگوں کو تبلیغ اسلام کے لیے مامور کیا تھا۔ نجران کے عیسائیوں نے بھی اپنی طرف سے سید، عاقب اور ابوحارثہ جیسے لوگوں کو مدینہ میں پیغمبر اسلام سے بات کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ نجران کا گروہ مدینہ میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا: اے محمد، کیا آپ ہمارے رب اور مالک کو جانتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا آقا کون ہے؟

انہوں نے کہا: عیسیٰ ابن مریم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ کا بندہ اور رسول ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں کوئی ایسا شخص دکھاؤ جسے اللہ تعالیٰ نے اس جیسا پیدا کیا ہو جو تم نے دیکھا اور سنا ہے... جبرائیل نے یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی۔ خدا کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم (علیہ السلام) کی سی ہے جنہوں نے انہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا: حاضر رہو۔ وہ فوراً دستیاب تھا۔ لہٰذا، بغیر باپ کے مسیح کی پیدائش کبھی بھی اس کی الوہیت کا ثبوت نہیں ہے۔ انہوں نے سچائی کو ماننے سے انکار کر دیا اور ضد پر اڑے رہے۔ [8]

حواله جات

  1. ابن منظور؛ لسان العرب؛ ج ۱۱ ، ص ۷۲
  2. احمد بن یحیی بلاذری؛ فتوح البلدان ص 95
  3. اٰل عمران: 61
  4. صحیح مسلم: 32/2404 وترقیم دارالسلام: 6220
  5. تفسیر صراط الجنان فے تفسیر القران جلد 1، صفحہ 491 پر مفتی [[محمد قاسم قادری]
  6. احمد بن محمد بن نعمان؛ الارشاد؛ ج ۱، ص ۱۶۷
  7. ناصرمکارم شیرازی؛ تفسیر نمونه؛ ج ۲، ص ۵۸۹
  8. حاکم حسکانی، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل؛ ج ۱، ص ۱۵۶ - ۱۵۵