قاضی نور اللہ شوشتری

نظرثانی بتاریخ 07:43، 12 فروری 2024ء از Mosavisajad (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏سوانح عمری)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

قاضی نور اللہ شوشتری (سید نور اللہ شوشتری حسینی مرعشی بن شریف الدین) شہید ثالث کے نام سے مشہور، صفویہ عہد کے شیعہ فقیہ، اصولی، متکلم، محدث اور شاعر تھے۔ احقاق الحق اور مجالس المؤمنین سمیت بہت سی تالیفات کے مالک ہیں۔ قاضی القضات کے عہدے پر فائز رہے اور چاروں فقہ کی اساس پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ جہانگیر کے دور میں بعض درباری علما اور مقربین کے مذہبی عناد کے نتیجے میں بادشاہ نے انکی موت کا حکم صادر کیا۔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں مدفون ہیں۔

قاضی نور اللہ شوشتری
پورا نامقاضی نور اللہ شوشتری
دوسرے نامشہید ثالث
ذاتی معلومات
پیدائش956 ق، 1549 ء، 928 ش
پیدائش کی جگہشوشتر ایران
وفات1019 ق، 1610 ء، 989 ش
وفات کی جگہہندوستان
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • احقاق الحق، مجالس المؤمنین

سوانح عمری

سید نور اللہ حسینی مرعشی ۹۵۶ ہجری قمری میں ایران کے صوبے خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسب امام زین العابدین(ع) تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید شریف الدین اپنے زمانے کے بزرگ علما میں سے تھے جو علوم نقلیہ اور عقلیہ میں صاحب آثار تھے۔ آپکے اجداد میں سے نجم الدین محمود حسینی مرعشی آملی نے آمل سے شوشتر ہجرت کی۔ قاضی نور اللہ ہمیشہ اس نسبت پر فخر کرتےتھے جو انکے آثار سے واضح ہے [1]۔

تعلیم

سید نور اللہ نے شوشتر میں تعلیم حاصل کی۔ عقلی اور نقلی علوم اپنے والد کے پاس پڑھے اور طب کی تعلیم حکیم مولانا عماد الدین سے حاصل کی۔ میر صفی الدین محمد اور میر جلال الدین محمد صدر بھی ان کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ ۹۷۹ (ه‍.ق) میں جب ان کی عمر ۲۳ برس تھی، اپنے چھوٹے بھائی سید وجیہ الدین محسن کے ساتھ حصول علم کیلئے مشہد آئے۔مشہد میں قاضی نور اللہ نے مولا عبدالواحد شوشتری کے درس میں شرکت کی اور ان سے فقہ، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر جیسے علوم حاصل کئے۔ مولا محمد ادیب قاری تستری سے ادبیات عرب و تجوید قرآن کریم حاصل کئے۔ نیز عبد الرشید شوشتری مؤلف کتاب مجالس الامامیہ (اعتقادات) اور مولا عبدالوحید تستری جیسے علما سے اجازه روایت لیا [2]۔

برصغیر آمد

سید نوراللہ ۹۹۲ یا ۹۹۳ (ه‍.ق) میں مشہد چھوڑ کر برصغیر جانے پر مجبور ہوئے۔ مشہد میں مسلسل حالات کی خرابی، ابر بار کی شورشیں اور ناگوار واقعات اس ہجرت کے اسباب میں سے ہیں۔ یہیں ازبکوں کے حملوں میں ان کا بھائی مارا گیا۔ اس وقت ابھی شاه عباس صفوی تخت نشین نہیں ہوا تھا۔ بہرحال خراسان کے غیر مستحکم سیاسی حالات نے سید نوراللہ کو برصغیر ہجرت پر مجبور کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان سب سےزیادہ پر امن علاقہ تھاجس کا سہرا اکبر بادشاه کوجاتا ہے جو اس وقت یہاں کا حاکم تھا۔ اکبر بادشاه تیمور کی نسل میں ہمایوں کا بیٹا تھا جو ۱۴ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ اپنی استعداد کی بدولت گجرات، بنگال، کشمیر اور سندھ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ایک وسیع و عرض خطے پر اپنی بادشاہت قائم کی۔ نیز بہت سے شہر اور آبادیوں کا سنگ بنیاد رکھا [3]۔ اکبر بادشاه عمرانیات کے علاوہ فلسفی مسائل سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتا تھا۔ لیکن دین کی نسبت کوئی زیادہ خوش گمان نہیں تھا۔ اسی فکر کی بدولت اس نے مختلف ادیان کو ملاکر ایک دین بنانے کی کوشش کی۔

قاضی نوراللہ شوشتری آگره میں اکبر بادشاہ کے پاس آنے سے پہلے فتح پور سیکری میں ایرانی حاذق طبیب اور بڑے شاعر ابوالفتح مسیح الدین گیلانی کے پاس گئے۔ابو الفتح گیلانی مختلف علوم و فنون حاصل کرنے کے بعد 983 ھ میں ہندوستان وارد ہوئے اور اپنی قابلیت اور استعداد کی بدولت جلد ہی اکبر بادشاه کے مقربین میں شامل ہو گئے۔ابو الفتح گیلانی نے قاضی نور اللہ شوشتری کا اکبر بادشاه سے تعارف کروایا۔ سید نوراللہ شوشتری نے حضرت علی(ع) کے بارے میں لکھی ہوئی اپنی ایک کتاب اکبر بادشاہ کو ہدیہ کی۔

قاضی القضات

سید دو ماه آگرہ میں رہے۔ اسکے بعد اکبر بادشاه کے ہمراہ لاہور آئے۔ لاہور کا قاضی شیخ معین نامی ایک سن رسیدہ شخص تھا ۔ بادشاہ نے اسکی جگہ سید نوراللہ کو قاضی بنایا۔نور اللہ شوشتری نے قاضی القضات کے منصب پر بیٹھنے سے پہلے اکبر بادشاہ سے کہا: ہو سکتا ہے :میں دینی مسائل کی اصلی مصادر کے مطابق تحقیق کر سکتا ہوں اور اس تحقیق و جستجو کے نتیجے میں مجبور نہیں ہوں گا کہ ہمیشہ کسی ایک فقہی مسلک کی پیروی کروں اور ایک ہی مذہب کے مطابق فتوے صادر کروں بلکہ اپنے اجتہاد کو بروئے کار لا کر فتوا صادر کروں گا لیکن اس فتوے کے بیان میں رائج سنتی فقہ سے باہر نہیں جاؤں گا اور اہل سنت کی چار فقہوں (شافعی، حنبلی، مالکی یا حنفی) میں سے کسی ایک فقہ کے مطابق فتوا صادر کروں گا۔

اکبر بادشاه نے قاضی کے شیعہ ہونے کے باوجودان کی صلاحیتوں اور استعداد کی بنا پر قاضی کی اس شرط کو قبول کر لیا اور قاضی کے عہدے پر منصوب کیا۔ قاضی نوراللہ اہل سنت کی تمام فقہوں اور انکے باہمی اختلافات سے واقفیت کی بدولت ایسے فتوے صادر کر سکتے تھے جو عوام کے لئے زیادہ مفید ہوں اور شیعہ فقہ سے نزدیک تر ہوں۔ اسی وجہ سے عبدالقادر بدایونی اپنے سخت مذہبی تعصب اور اکبر بادشاہ کی سیاسی پالیسیوں سے مخالفت کے باوجود قاضی نور اللہ کی عدالت، شرافت اور علم کی تعریف کرتا تھا۔

علمی فعالیت اور آثار

صاحب کتاب ریاض العلماء ان کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں:

«مرحوم شوشتری فاضل، عالم، متدین، صالح، علامہ، فقیہ، محدث، سیرت و تاریخ سے آگاہ،جامع فضائل اور تمام علوم میں نقد و نظر کی صلاحیت سے مالا مال شخصیت کے مالک تھے نیز فارسی و عربی زبان میں شعر کہتے تھے۔ مدح آئمہ طاہرین میں ان کے قصیدے مشہور ہیں۔

قاضی نوراللہ نے تقیہ کی حالت میں رہتے ہوئے نہ صرف منصب قضاوت تک رسائی حاصل کی بلکہ شیعہ معاشرے کو بہت ہی گرانقدر کتب دیں۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: فقیر نے قربت خدا اور مخالفین کے سامنے تقیّہ کرتے ہوئے اپنی تصانیف میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اسی وجہ سے انکی تصنیف شدہ کتب کی تعداد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ آیت اللہ مرعشی نجفی کتاب احقاق الحق و ازھاق الباطل کے مقدمے میں ان کی تالیفات کی تعداد ۱۴۰ ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے اسما حسب ذیل ہیں:

  • احقاق الحق: یہ کتاب تین مرتبہ چھپی ہے۔
  • أجوبۃ مسائل السید حسن الغزنوی۔
  • الزام النواصب فی الردّ علی میرزا مخدوم الشریفی: یہ کتاب استاد میرزا محمد علی چہاردہی گیلانی نے فارسی میں ترجمہ کی اور مرتضی مدرسی نے اسے چاپ کیا۔
  • «القام الحجر» در رد ابن حجر۔
  • بحر الغزیر فی تقدیر ماء الکثیر: قاضی نے اس کتاب میں آب کر کے وزن و حجم پر تحقیق کی ہے۔
  • بحر الغدیر فی اثبات تواتر حدیث الغدیر سنداً و مؤلفاً و دلالۃً۔
  • «تفسیر القرآن»: کئی جلدوں میں۔
  • تفسیر آیت رؤیا: احتمال ہے کہ اس سے مراد سوره اسراء کی ۶۰ویں آیت ہے جو رسول اللہ کے خواب کے متعلق ہے۔
  • تحفة العقول۔
  • حلّ العقول۔
  • علم نحو میں جامی کی «شرح الکافیہ» پر حاشیہ ۔
  • شرح التجرید اصفہانی کے «حاشیہ چلپی» پر حاشیہ۔
  • «مطّول» تفتازانی پر حاشیہ۔
  • «رجال کشی» پر حاشیہ جو علم رجال میں مفید معلومات پر مشتمل ہے۔
  • شیخ طوسی کی «تہذیب الاحکام» پر حاشیہ جو نا مکمل رہا۔
  • آیات الاحکام کے موضوع پر فاضل مقداد کی کتاب «کنز العرفان» پر حاشیہ۔
  • دوانی کے «تہذیب المنطق» کے حاشیے پر حاشیہ۔
  • شرح «قواعد العقائد» کی بحث «عذاب القبر» پر حاشیہ۔
  • علم کلام کی «شرح مواقف» پر حاشیہ۔
  • «رسالۃ الاجوبۃ الفاخره» پر حاشیہ۔
  • «شرح تہذیب الاصول پر حاشیہ۔
  • علامہ حلی کی شرح تجرید الاعتقاد کی بحث "الجواہر" پر حاشیہ۔
  • «تفسیر بیضاوی» پر حاشیہ۔
  • «الہیات» شرح تجرید پر حاشیہ ۔
  • «حاشیہ القدیمیہ» پر حاشیہ۔
  • علم فصاحت و بلاغت میں "حاشیہ الخطایی" پر حاشیہ۔
  • «تفسیر بیضاوی» پر دوسرا حاشیہ۔
  • حکمت میں «شرح الہدایہ» پر حاشیہ۔
  • علم منطق میں قطب الدین رازی کی «شرح الشمسیہ» پر حاشیہ۔
  • فقہ میں علامہ حلی کی «قواعد» پر حاشیہ۔
  • شیخ طوسی کی «تہذیب» پر حاشیہ۔
  • محقق حلی کی «خطبۃ الشرائع» پر حاشیہ۔
  • فقہ حنفی میں «ہدایہ» پر حاشیہ۔
  • فقہ حنفی کی «شرح الوقایہ» پر حاشیہ۔
  • شرح «رسالہ آداب المطالعہ» پر حاشیہ۔
  • شرح «تلخیص المفتاح» (معروف مختصر المعانی تفتازانی) پر حاشیہ۔
  • علم ہیئت میں «شرح چغمینی » پر حاشیہ۔
  • فقہ میں علامہ حلی کی«مختلف» پر حاشیہ۔
  • علامہ دوانی کی «اثبات الواجب الجدید» پر حاشیہ۔
  • علم ہندسہ میں «تحریر اقلیدس» پر حاشیہ۔

اہم‌ ترین آثار

قاضی نوراللہ شوشتری کے آثار میں سے ۴ کتابیں مخصوص حیثیت رکھتی ہیں جنکے متعلق علما کے اقوال نقل کرتے ہیں:

  • احقاق الحق و ازہاق الباطل: اس کتاب کے کلمات آپ کے تبحر علمی پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ کتاب قاضی فضل بن روز بہان کی کتاب ابطال الباطل کا جواب ہے۔ قاضی فضل بن روزبہان کی کتاب علامہ حلی کی نہج الحق و کشف الصدق کے جواب میں لکھی گئی۔ قاضی نوراللہ نے اس کتاب میں منطقی، زیبا اور بلیغ انداز میں فضل بن روزبہان کی کتاب کا جواب دیا ہے۔ نیز اس کے نظریات کا جواب اہل سنت کی کتابوں سے دیا ہے [4].
  • مجالس المؤمنین: اس کتاب میں آپ نے علما کی ایک جماعت ، حکما، ادبا، عرفا، شعرا، رجال اور وہ راوی جو ان کے عقیدے کے مطابق شیعہ تھے، کے احوال بیان کئے ہیں۔ نیز اس کتاب میں حکایات و قصص اور روایات سمیت شہروں کے حالات بھی مذکور ہیں [5].
  • الصوارم المھرقہ: یہ کتاب «الصواعق المحرقہ» کے جواب میں لکھی گئی۔
  • کتاب مصائب النواصب:شیخ حر عاملی (متوفی ۱۱۱۰) اپنی کتاب امل الآمل میں ان دو کتابوں کے ساتھ احقاق الحق کا ذکر کرتے ہیں جس سےپتہ چلتا ہے کہ قاضی کی یہ اہم کتب [6] صفویہ دور میں عالمی شہرت رکھتی تھیں۔
  • النور الانور و النور الازہر فی تنویر خفایا القضا و القدر: قضا و قدر کے متعلق رسالہ ہے۔ علامہ حلی نے "استقصاء النظر فی بحث القضاء و القدر "کے نام سے رسالہ لکھا تھا۔ اسکے جواب میں اہل سنت کی طرف سے شبہات پر مشتمل ایک کتاب لکھی گئی۔ قاضی نے اس جوابی کتاب کے جواب میں ان شبہات کا جواب دیا ہے۔ اس کے اختتام کی تاریخ جمادی الثانیہ 1018 ھ ق ہے [7].

مناظرات علمی

قاضی نوراللہ کے مناظروں میں اہل سنت عالم دین عبد القادر بن ملکوک شاه بدایونی کے ساتھ ان کے مناظرے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔عبد القادر بدایونی نے اپنی کتاب منتخب التواریخ میں اس مناظرہ کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح سید قزوینی کے ساتھ آپ کا مناظرہ جس کا خود قاضی نور اللہ نے اپنی تالیف مجالس المؤمنین میں ذکر کیا ہے [8].

شاگرد

قاضی نوراللہ ہر مذہب کے طلاب کو مذاہب پنجگانہ شیعہ، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی فقہ کی بنیاد پر فقہ کا درس دیا کرتے تھے اور آخر میں خاتمے کے عنوان سے بیان اقوال میں بڑی ظرافت کے ساتھ شیعہ نظریہ کی تائید کرتے تھے ۔ شیعہ مخالف فضا، شیعہ مذہب شاگردوں کے ساتھ مخفیانہ رابطہ اور اسی طرح تقیہ کی وجہ سے چند شاگردوں کے ناموں کے علاوہ دیگر کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔

  • شیخ محمد ہروی خراسانی
  • مولا محمد علی کشمیری
  • سید جمال الدین عبداللہ مشہدی.

اولاد

قاضی نوراللہ شوشتری کے ۵ بیٹے تھے جو اپنے وقت کے عالم، شاعر اور صاحب تالیف تھے :

  • سید محمد یوسف
  • شریف الدین (۹۹۲ـ ۱۰۲۰ ق)
  • علاء الملک
  • سید ابوالمعالی (۱۰۰۴ـ ۱۰۴۶ق)
  • سید علاء الدولہ (۱۰۱۲ ـ؟)

شہادت

اکبر شاہ کے بیٹے جہانگیر شاه کے تخت نشین ہونے کے بعد ۱۰۱۹ ہجری قمری میں اس کے حکم سے کوڑے کھاتے ہوئے شہید ہوئے۔ شہادت کا سبب "احقاق الحق و ازہاق الباطل" کی تالیف تھی۔ ایک قول کے مطابق مجالس المؤمنین تھی۔ برصغیر میں آپ شہید ثالث کے لقب سے معروف ہیں۔

محدث قمی نے انکی شہادت کی درج ذیل تفصیل بیان کی ہے:

قاضی نوراللہ قضاوت اور مخفیانہ تالیف میں مشغول تھے کہ اکبر بادشاہ کے مرنے کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا۔ درباری علما اور مقربین نے نور اللہ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ قاضی شیعہ ہے، اپنے آپ کو چار فقہوں کا پابند نہیں سمجھتا ہے اور اپنے فتوے مذہب امامیہ کے مطابق دیتا ہے۔ جہانگیر شاه نے ان کے بیانات کو ان کے شیعہ ہونے کیلئے کافی نہیں سمجھا اور کہا: انہوں نے قضاوت کے عہدے کو اپنے اجتہاد کی شرط کے ساتھ قبول کیا تھا [9].

ان لوگوں نے اس سے مایوس ہو کر قاضی کیلئے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ ایک شخص کو شیعہ ظاہر کر کے قاضی کے پاس شاگردی کیلئے بھیجا۔ اس شخص نے کچھ مدت کی آمد و رفت سے قاضی کا اعتماد حاصل کیا اور قاضی کی مجالس المؤمنین سمیت دیگر کتب سے آگاہ ہو گیا اور ان سے مجالس المؤمنین لے کر درباری علما اور مقربین کیلئے اس سے نسخہ برداری کی۔ درباری علما نے اس کتاب کو ان کے تشیع کی دلیل کے طور پر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور کہا: انہوں نے اس کتاب میں ایسے ایسے لکھا ہے۔ لہٰذا اس پر حد جاری ہونی چاہئے۔ جہانگیر نے پوچھا اسکی حد کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اسکی سزا کوڑے ہے۔ بادشاہ نے یہ کام ان کے سپرد کیا اور انہوں نے بلا فاصلہ ان پر حد جاری کرتے ہوئے کوڑے مارے۔ کہتے ہیں: خاردار لکڑی کے تختے پر 70 سال کی عمر میں اس حد تک کوڑے مارے گئے کہ ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

قاضی نور اللہ کا مزار ہندوستان کے شہر آگرہ میں موجود ہے اور لوگوں کیلئے ایک زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے [10]۔

حوالہ جات

  1. مجالس المؤمنین، ج۱، ص۷۱
  2. مقدمہ احقاق الحق، ج۱، ص۸۲.
  3. سید حسین عارف نقوی، تذکره علمائے امامیہ پاکستان، ص۱۵
  4. ریحانۃ الادب، ج۳، ص۳۸۵.
  5. روضات الجنات، ج۸، ص۱۶۰
  6. الامل الآمل، ج۲، ص۳۳۷
  7. سید اعجاز حسین ،کشف الحجب و الاستارص591 ش3337۔
  8. قاضی نور الله شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۲ و ۵۷۳
  9. محدث قمی، فوائدالرضویہ، ص۶۹۷
  10. شہید ثالث قاضی سید نور اللہ شوشتری، maablib.org