"قاضی نور اللہ شوشتری" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 7 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 4: سطر 4:
| name = قاضی نور اللہ شوشتری
| name = قاضی نور اللہ شوشتری
| other names = شہید ثالث
| other names = شہید ثالث
| brith year = 956ھ ق
| brith year =   956 ق
| brith date =
| brith date =
| birth place = شوشتر ایران
| birth place = شوشتر ایران
| death year =1019ھ ق  
| death year =1019 ق
| death date =
| death date =  
| death place = ہندوستان
| death place = ہندوستان
| teachers =  
| teachers =  
سطر 15: سطر 15:
| faith = [[شیعہ]]
| faith = [[شیعہ]]
| works =  
| works =  
| known for = {{افقی باکس کی فہرست| احقاق الحق، مجالس المؤمنین}}
| known for = {{hlist| احقاق الحق، مجالس المؤمنین}}
}}
}}
'''سید نور اللہ شوشتری حسینی مرعشی بن شریف الدین شہید ثالث'''
'''قاضی نور اللہ شوشتری''' (سید نور اللہ شوشتری حسینی مرعشی بن شریف الدین) شہید ثالث کے نام سے مشہور، صفویہ عہد کے [[شیعہ]] فقیہ، اصولی، متکلم، محدث اور شاعر تھے۔ احقاق الحق اور مجالس المؤمنین سمیت بہت سی تالیفات کے مالک ہیں۔ قاضی القضات کے عہدے پر فائز رہے اور چاروں فقہ کی اساس پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ جہانگیر کے دور میں  بعض درباری علما اور مقربین کے مذہبی عناد کے نتیجے میں بادشاہ نے انکی موت کا حکم صادر کیا۔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں مدفون ہیں۔
شہید ثالث کے نام سے مشہور، صفویہ عہد کے شیعہ فقیہ، اصولی، متکلم، محدث اور شاعر تھے۔ احقاق الحق اور مجالس المؤمنین سمیت بہت سی تالیفات کے مالک ہیں۔ قاضی القضات کے عہدے پر فائز رہے اور چاروں فقہ کی اساس پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ جہانگیر دور کے بعض درباری علما اور مقربین کے مذہبی عناد کے نتیجے میں بادشاہ نے انکی موت کا حکم صادر کیا۔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں مدفون ہیں۔
== سوانح عمری ==
== سوانح عمری ==
سید نور اللہ حسینی مرعشی ۹۵۶ ہجری قمری کو [[ایران]] کے صوبے خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسب [[علی بن حسین|امام زین العابدین(ع)]] تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید شریف الدین اپنے زمانے کے بزرگ علما میں سے تھے جو علوم نقلیہ اور عقلیہ میں صاحب آثار تھے۔ آپکے اجداد میں سے نجم الدین محمود حسینی مرعشی آملی نے آمل سے شوشتر ہجرت کی۔۔ قاضی نور اللہ ہمیشہ اس نسبت پر فخر کرتے جو انکے آثار سے واضح ہے <ref>مجالس المؤمنین، ج۱، ص۷۱</ref>۔
سید نور اللہ حسینی مرعشی ۹۵۶ ہجری قمری میں [[ایران]] کے صوبے خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسب [[علی بن حسین|امام زین العابدین(ع)]] تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید شریف الدین اپنے زمانے کے بزرگ علما میں سے تھے جو علوم نقلیہ اور عقلیہ میں صاحب آثار تھے۔ آپکے اجداد میں سے نجم الدین محمود حسینی مرعشی آملی نے آمل سے شوشتر ہجرت کی۔ قاضی نور اللہ ہمیشہ اس نسبت پر فخر کرتےتھے جو انکے آثار سے واضح ہے <ref>مجالس المؤمنین، ج۱، ص۷۱</ref>۔
سید نور اللہ شوشتری (۹۵۶ -۱۰۱۹ ھ) یا مرعشی، قاضی نور اللہ شوشتری یا شہید ثالث کے نام سے مشہور، صفویہ عہد کے شیعہ فقیہ، اصولی، متکلم، محدث اور شاعر تھے۔ احقاق الحق اور مجالس المؤمنین سمیت بہت سی تالیفات کے مالک ہیں۔ قاضی القضات کے عہدے پر فائز رہے اور چاروں فقہ کی اساس پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ جہانگیر دور کے بعض درباری علما اور مقربین کے مذہبی عناد کے نتیجے میں بادشاہ نے انکی موت کا حکم صادر کیا۔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں مدفون ہیں۔
== تعلیم ==
== تعلیم ==
سید نور اللہ نے شوشتر میں تحصیل علم کیا۔ عقلی اور نقلی علوم اپنے والد کے پاس پڑھے اور طب حکیم مولانا عماد الدین کے پاس پڑھا۔ نیز میر صفی الدین محمد اور میر جلال الدین محمد صدر بھی ان کے اساتذہ میں ہیں۔ ۲۳ سال کی عمر میں ۹۷۹ (ه‍.ق) کو اپنے چھوٹے بھائی سید وجیہ الدین محسن کے ساتھ حصول علم کیلئے مشہد آئے۔
سید نور اللہ نے شوشتر میں تعلیم حاصل کی۔ عقلی اور نقلی علوم اپنے والد کے پاس پڑھے اور طب کی تعلیم حکیم مولانا عماد الدین سے حاصل کی۔  میر صفی الدین محمد اور میر جلال الدین محمد صدر بھی ان کے اساتذہ میں شامل  ہیں۔ ۹۷۹ (ه‍.ق) میں جب ان کی عمر ۲۳  برس تھی، اپنے چھوٹے بھائی سید وجیہ الدین محسن کے ساتھ حصول علم کیلئے مشہد آئے۔مشہد میں قاضی نور اللہ نے مولا عبدالواحد شوشتری کے درس میں شرکت کی اور ان سے [[فقہ]]، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر جیسے علوم حاصل کئے۔ مولا محمد ادیب قاری تستری سے ادبیات عرب و تجوید [[قرآن|قرآن کریم]] حاصل کئے۔ نیز عبد الرشید شوشتری مؤلف کتاب مجالس الامامیہ (اعتقادات) اور مولا عبدالوحید تستری جیسے علما سے اجازه روایت لیا <ref>مقدمہ احقاق الحق، ج۱، ص۸۲.</ref>۔
مشہد میں قاضی نور اللہ نے مولا عبدالواحد شوشتری کے درس میں شرکت کی اور [[فقہ]]، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر جیسے علوم اسی استاد سے حاصل کئے۔ مولا محمد ادیب قاری تستری سے ادبیات عرب و تجوید [[قرآن|قرآن کریم]] حاصل کئے۔ نیز عبد الرشید شوشتری (مؤلف کتاب مجالس الامامیہ (اعتقادات) اور مولا عبدالوحید تستری جیسے علما سے اجازه روایت لیا <ref>مقدمہ احقاق الحق، ج۱، ص۸۲.</ref>۔
== برصغیر آمد ==
== برصغیر آمد ==
سید نوراللہ ۹۹۲ یا ۹۹۳ (ه‍.ق) مشہد چھوڑ کر برصغیر جانے پر مجبور ہوئے۔ مشہد میں مسلسل حالات کی خرابی، ابر بار کی شورشیں اور ناگوار واقعات اس ہجرت کے اسباب میں سے ہیں۔ یہیں ازبکوں کے حملوں میں ان کا بھائی مارا گیا۔ اس وقت ابھی شاه عباس صفوی تخت نشین نہیں ہوا تھا۔ بہرحال خراسان کے غیر مستحکم سیاسی حالات نے سید نوراللہ کو برصغیر ہجرت پر مجبور کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان پرامن ترین علاقہ تھا۔
سید نوراللہ ۹۹۲ یا ۹۹۳ (ه‍.ق) میں  مشہد چھوڑ کر برصغیر جانے پر مجبور ہوئے۔ مشہد میں مسلسل حالات کی خرابی، ابر بار کی شورشیں اور ناگوار واقعات اس ہجرت کے اسباب میں سے ہیں۔ یہیں ازبکوں کے حملوں میں ان کا بھائی مارا گیا۔ اس وقت ابھی شاه عباس صفوی تخت نشین نہیں ہوا تھا۔ بہرحال خراسان کے غیر مستحکم سیاسی حالات نے سید نوراللہ کو برصغیر ہجرت پر مجبور کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان سب سےزیادہ پر امن علاقہ تھاجس کا سہرا اکبر بادشاه کوجاتا ہے جو اس وقت یہاں کا حاکم تھا۔ اکبر بادشاه تیمور کی نسل میں ہمایوں کا بیٹا تھا جو ۱۴ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ اپنی استعداد کی بدولت گجرات، بنگال، کشمیر اور سندھ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ایک وسیع و عرض خطے پر اپنی بادشاہت قائم کی۔ نیز بہت سے شہر اور آبادیوں کا سنگ بنیاد رکھا <ref>سید حسین عارف نقوی، تذکره علمائے امامیہ پاکستان،  ص۱۵</ref>۔
برصغیر پر امن حالات اکبر بادشاه کی طرف لوٹتا ہے جو اس وقت یہاں کا حاکم تھا۔ اکبر بادشاه تیمور کی نسل میں ہمایوں کا بیٹا تھا جو ۱۴ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ اپنی استعداد کی بدولت گجرات، بنگال، کشمیر اور سندھ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ایک وسیع و عرض خطے پر اپنی بادشاہت قائم کی۔ نیز بہت سے شہر اور آبادیوں کی سنگ بنیاد رکھی <ref>سید حسین عارف نقوی، تذکره علمائے امامیہ پاکستان،  ص۱۵</ref>۔
اکبر بادشاه عمرانیات کے علاوہ فلسفی مسائل سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتا تھا۔ لیکن دین کی نسبت کوئی زیادہ خوش گمان نہیں تھا۔ اسی فکر کی بدولت اس نے مختلف ادیان کو ملاکر  ایک دین بنانے کی کوشش کی۔
اکبر بادشاه عمرانیات کے علاوہ فلسفی مسائل سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتا تھا۔ لیکن دین کی نسبت کوئی زیادہ دیندار نہیں تھا۔ اسی فکر کی بدولت اس نے مختلف ادیان سے ایک دین بنانے کی کوشش کی۔


قاضی نوراللہ شوشتری آگره میں اکبر بادشاہ پاس آنے سے پہلے فتح پور سیکری میں ابوالفتح مسیح الدین گیلانی ایرانی طبیب حاذق اور بڑے شاعر کے پاس گئے۔ جہاں مختلف علوم و فنون حاصل کرنے کے بعد ۹۸۳ میں وارد ہندوستان ہوئے۔ اپنی قابلیت اور استعداد کی بدولت جلد ہی اکبر بادشاه کے مقربین میں ہو گئے مسیح الدین شوشتری نے اکبر بادشاه سے اس کا تعارف کروایا۔ سید نوراللہ شوشتری حضرت علی(ع) کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب اکبر بادشاہ کو ہدیہ کی۔
قاضی نوراللہ شوشتری آگره میں اکبر بادشاہ کے پاس آنے سے پہلے فتح پور سیکری میں ایرانی حاذق  طبیب اور بڑے شاعر ابوالفتح مسیح الدین گیلانی کے پاس گئے۔ابو الفتح گیلانی مختلف علوم و فنون حاصل کرنے کے بعد 983 ھ میں ہندوستان وارد ہوئے  اور اپنی قابلیت اور استعداد کی بدولت جلد ہی اکبر بادشاه کے مقربین میں شامل  ہو گئے۔ابو الفتح گیلانی نے  قاضی نور اللہ شوشتری کا  اکبر بادشاه سے تعارف کروایا۔ سید نوراللہ شوشتری نے حضرت علی(ع) کے بارے میں لکھی ہوئی اپنی ایک  کتاب اکبر بادشاہ کو ہدیہ کی۔
== قاضی القضات ==
== قاضی القضات ==
سید دو ماه آگرے میں رہے اسکے بعد اکبر بادشاه کے ہمراہ لاہور آئے۔ لاہور کا قاضی ایک سن رسیدہ شخص بنام «شیہ معین» تھا۔ بادشاہ نے اسکی جگہ سید نوراللہ کو قاضی بنایا۔
سید دو ماه آگرہ میں رہے۔ اسکے بعد اکبر بادشاه کے ہمراہ لاہور آئے۔ لاہور کا قاضی شیخ معین نامی ایک سن رسیدہ شخص تھا ۔ بادشاہ نے اسکی جگہ سید نوراللہ کو قاضی بنایا۔نور اللہ شوشتری نے قاضی القضات کے منصب پر بیٹھنے سے پہلے اکبر بادشاہ سے کہا: ہو سکتا ہے :میں  دینی مسائل کی اصلی مصادر کے مطابق تحقیق کر سکتا ہوں اور اس تحقیق و جستجو کے نتیجے میں مجبور نہیں ہوں گا  کہ ہمیشہ کسی ایک فقہی مسلک کی پیروی کروں اور ایک ہی مذہب کے مطابق فتوے صادر کروں  بلکہ اپنے اجتہاد کو بروئے کار لا کر فتوا صادر کروں گا لیکن اس فتوے کے بیان میں رائج سنتی فقہ سے باہر نہیں جاؤں گا اور اہل سنت کی چار فقہوں (شافعی، حنبلی، مالکی یا حنفی) میں سے کسی ایک فقہ کے مطابق فتوا صادر کروں گا۔
نور اللہ شوشتری نے قاضی القضات کے منصب پر بیٹھنے سے پہلے اکبر بادشاہ سے کہا: ہو سکتا ہے کہ وہ دینی مسائل کی اصلی مصادر کے مطابق تحقیق کرے، اسکی بدولت فقہی حکم بیان کرے اور اس تحقیق و جستجو کے نتیجے میں مجبور نہیں ہوگا کہ وہ کسی ایک مسلک کی پیروی کرے اور ایک ہی مذہب کے مطابق فتوے صادر کرے بلکہ وہ اپنے اجتہاد کو بروئے کار لا کر فتوا صادر کرے گا لیکن اس فتوے کے بیان میں رائج سنتی فقہ سے باہر نہیں جائے گا اور اہل سنت کی چار فقہوں (شافعی، حنبلی، مالکی یا حنفی) میں سے کسی ایک فقہ کے مطابق فتوا صادر کرے گا۔


اکبر بادشاه نے قاضی شیعہ ہونے کے باوجود اس میں موجود صلاحیتوں اور استعداد کی بنا پر قاضی کی اس شرط کو قبول کیا اور قاضی کے عہدے پر منصوب کیا۔ قاضی نوراللہ [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] کی تمام فقہوں اور انکے باہمی اختلافات کی بدولت عوام کے زیادہ نفع میں اور شیعوں کے نزدیک تر فتوا صادر کر سکتا تھا۔ اسی وجہ سے عبدالقادر بدایونی اپنے سخت مذہبی تعصب کی وجہ سے اکبر بادشاہ کی سیاسی پالیسیوں سے مخالفت کے باوجود قاضی نور اللہ کی عدالت، شرافت و علم کی تعریف کرتا تھا۔
اکبر بادشاه نے قاضی کے شیعہ ہونے کے باوجودان کی  صلاحیتوں اور استعداد کی بنا پر قاضی کی اس شرط کو قبول کر لیا اور قاضی کے عہدے پر منصوب کیا۔ قاضی نوراللہ [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] کی تمام فقہوں اور انکے باہمی اختلافات سے واقفیت کی بدولت ایسے فتوے صادر کر سکتے تھے جو عوام کے لئے زیادہ مفید ہوں اور شیعہ فقہ سے نزدیک تر ہوں۔ اسی وجہ سے عبدالقادر بدایونی اپنے سخت مذہبی تعصب اور اکبر بادشاہ کی سیاسی پالیسیوں سے مخالفت کے باوجود قاضی نور اللہ کی عدالت، شرافت اور علم کی تعریف کرتا تھا۔
علمی فعالیت اور آثار صاحب کتاب ریاض العلماء ان کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں:


«مرحوم شوشتری فاضل، عالم، متدین، صالح، علامہ، فقیہ، محدث، سیرت و تاریخ سے آگاہ، فضیلتوں کی جامع ترین اور تمام علوم میں نقد و نظر کی صلاحیت سے مالا مال شخصیت کے مالک تھے نیز فارسی و عربی زبان میں شعر کہتے اور مدح آئمہ طاہرین میں انکے قصیدے مشہور ہیں۔
== علمی فعالیت اور آثار ==
قاضی نوراللہ نے تقیہ کے زیر سایہ رہتے ہوئے نہ صرف منصب قضاوت تک رسائی حاصل کی بلکہ شیعہ معاشرے کو بہت ہی ارزشمند کتب دیں۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: فقیر نے قربت خدا اور مخالفین کے سامنے تقیّہ کرتے ہوئے اپنی تصانیف میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اسی وجہ سے انکی تصنیف شدہ کتب کی تعداد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ آیت اللہ مرعشی نجفی کتاب احقاق الحق و ازہاق الباطل کے مقدمے میں انکی تالیفات کی تعداد ۱۴۰ ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے اسما درج ذیل ذکر کرتے ہیں:
صاحب کتاب ریاض العلماء ان کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں:
 
«مرحوم شوشتری فاضل، عالم، متدین، صالح، علامہ، فقیہ، محدث، سیرت و تاریخ سے آگاہ،جامع  فضائل اور تمام علوم میں نقد و نظر کی صلاحیت سے مالا مال شخصیت کے مالک تھے نیز فارسی و عربی زبان میں شعر کہتے تھے۔ مدح آئمہ طاہرین میں ان کے قصیدے مشہور ہیں۔
 
قاضی نوراللہ نے تقیہ کی حالت میں  رہتے ہوئے نہ صرف منصب قضاوت تک رسائی حاصل کی بلکہ شیعہ معاشرے کو بہت ہی گرانقدر  کتب دیں۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: فقیر نے قربت خدا اور مخالفین کے سامنے تقیّہ کرتے ہوئے اپنی تصانیف میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اسی وجہ سے انکی تصنیف شدہ کتب کی تعداد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ آیت اللہ مرعشی نجفی کتاب احقاق الحق و ازھاق الباطل کے مقدمے میں ان کی تالیفات کی تعداد ۱۴۰ ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے اسما حسب  ذیل ہیں:
* احقاق الحق: یہ کتاب تین مرتبہ چھپی ہے۔
* احقاق الحق: یہ کتاب تین مرتبہ چھپی ہے۔
* أجوبۃ مسائل السید حسن الغزنوی۔
* أجوبۃ مسائل السید حسن الغزنوی۔
سطر 45: سطر 43:
* «القام الحجر» در رد ابن حجر۔
* «القام الحجر» در رد ابن حجر۔
* بحر الغزیر فی تقدیر ماء الکثیر: قاضی نے اس کتاب میں آب کر کے وزن و حجم پر تحقیق کی ہے۔
* بحر الغزیر فی تقدیر ماء الکثیر: قاضی نے اس کتاب میں آب کر کے وزن و حجم پر تحقیق کی ہے۔
* بحر الغدیر فی اثبات تواتر حدیث الغدیر سنداً و مؤلفا و دلالہ۔
* بحر الغدیر فی اثبات تواتر حدیث الغدیر سنداً و مؤلفاً و دلالۃً۔
* «تفسیر القرآن»: کئی جلدوں میں۔
* «تفسیر القرآن»: کئی جلدوں میں۔
* تفسیر آیت رؤیا: احتمال ہے اس سے مراد سوره اسراء کی ۶۰ویں آیت ہے جو رسول اللہ کے خواب کے متعلق ہے۔
* تفسیر آیت رؤیا: احتمال ہے کہ اس سے مراد سوره اسراء کی ۶۰ویں آیت ہے جو رسول اللہ کے خواب کے متعلق ہے۔
* تحفة العقول۔
* تحفة العقول۔
* حلّ العقول۔
* حلّ العقول۔
سطر 53: سطر 51:
* شرح التجرید اصفہانی کے «حاشیہ چلپی» پر حاشیہ۔
* شرح التجرید اصفہانی کے «حاشیہ چلپی» پر حاشیہ۔
* «مطّول» تفتازانی پر حاشیہ۔
* «مطّول» تفتازانی پر حاشیہ۔
* «رجال» کشی پر حاشیہ کہ جو علم رجال میں مفید معلومات پر مشتمل ہے۔
* «رجال کشی» پر حاشیہ جو علم رجال میں مفید معلومات پر مشتمل ہے۔
* شیخ طوسی کی «تہذیب الاحکام» پر حاشیہ جو نا مکمل رہا۔
* شیخ طوسی کی «تہذیب الاحکام» پر حاشیہ جو نا مکمل رہا۔
* فاضل مقداد کی آیات الاحکام میں «کنز العرفان» پر حاشیہ۔
* آیات الاحکام  کے موضوع پر فاضل مقداد کی کتاب  «کنز العرفان» پر حاشیہ۔
* دوانی کے «تہذیب المنطق» کے حاشیے پر حاشیہ۔
* دوانی کے «تہذیب المنطق» کے حاشیے پر حاشیہ۔
* شرح «قواعد العقائد» کی بحث «عذاب القبر» پر حاشیہ۔
* شرح «قواعد العقائد» کی بحث «عذاب القبر» پر حاشیہ۔
سطر 61: سطر 59:
* «رسالۃ الاجوبۃ الفاخره» پر حاشیہ۔
* «رسالۃ الاجوبۃ الفاخره» پر حاشیہ۔
* «شرح تہذیب الاصول پر حاشیہ۔
* «شرح تہذیب الاصول پر حاشیہ۔
* علامہ کی شرح تجرید بحث جواہر پر حاشیہ۔
* علامہ حلی  کی شرح تجرید الاعتقاد کی بحث "الجواہر" پر حاشیہ۔
* «تفسیر بیضاوی» پر حاشیہ۔
* «تفسیر بیضاوی» پر حاشیہ۔
* «الہیات» شرح تجرید۔
* «الہیات» شرح تجرید پر حاشیہ ۔
* «حاشیہ القدیمیہ» پر حاشیہ۔
* «حاشیہ القدیمیہ» پر حاشیہ۔
* علم فصاحت و بلاغت میں حاشیہ الخطایی۔
* علم فصاحت و بلاغت میں "حاشیہ الخطایی" پر حاشیہ۔
* «تفسیر بیضاوی» پر دوسرا حاشیہ۔
* «تفسیر بیضاوی» پر دوسرا حاشیہ۔
* حکمت میں «شرح الہدایہ» پر حاشیہ۔
* حکمت میں «شرح الہدایہ» پر حاشیہ۔
* علم منطق میں قطب الدین کی «شرح الشمسیہ» پر حاشیہ۔
* علم منطق میں قطب الدین رازی  کی «شرح الشمسیہ» پر حاشیہ۔
* علامہ کی فقہ میں «قواعد» پر حاشیہ۔
* فقہ میں علامہ حلی کی «قواعد» پر حاشیہ۔
* شیخ طوسی «تہذیب» پر حاشیہ۔
* شیخ طوسی کی  «تہذیب» پر حاشیہ۔
* محقق حلی «خطبۂ الشرائع» پر حاشیہ۔
* محقق حلی کی «خطبۃ الشرائع» پر حاشیہ۔
* فقہ حنفی میں «ہدایہ» پر حاشیہ۔
* فقہ حنفی میں «ہدایہ» پر حاشیہ۔
* فقہ حنفی کی «شرح الوقایہ» پر حاشیہ۔
* فقہ حنفی کی «شرح الوقایہ» پر حاشیہ۔
سطر 77: سطر 75:
* شرح «تلخیص المفتاح» (معروف مختصر المعانی تفتازانی) پر حاشیہ۔
* شرح «تلخیص المفتاح» (معروف مختصر المعانی تفتازانی) پر حاشیہ۔
* علم ہیئت میں «شرح چغمینی » پر حاشیہ۔
* علم ہیئت میں «شرح چغمینی » پر حاشیہ۔
* علامہ کی فقہ میں «مختلف» پر حاشیہ۔
* فقہ میں علامہ حلی  کی«مختلف» پر حاشیہ۔
* علامہ دوانی کی «اثبات الواجب الجدید» پر حاشیہ۔
* علامہ دوانی کی «اثبات الواجب الجدید» پر حاشیہ۔
* علم ہندسہ میں «تحریر اقلیدس» پر حاشیہ۔
* علم ہندسہ میں «تحریر اقلیدس» پر حاشیہ۔
== اہم‌ ترین آثار ==
== اہم‌ ترین آثار ==
قاضی نوراللہ شوشتری کے آثار میں سے ۴ کتابیں مخصوص حیثیت رکھتی ہیں جنکے متعلق علما کے اقوال نقل کرتے ہیں:
قاضی نوراللہ شوشتری کے آثار میں سے ۴ کتابیں مخصوص حیثیت رکھتی ہیں جنکے متعلق علما کے اقوال نقل کرتے ہیں:
تفصیلی مضمون: احقاق الحق و ازہاق الباطل
 
احقاق الحق: اس کتاب کے کلمات اس کی تبحر علمی پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ کتاب قاضی فضل بن روز بہان کے کتاب ابطال الباطل کا جواب ہے۔ قاضی فضل بن روزبہان کی کتاب علامہ حلی کی نہج الحق و کشف الصدق کے جواب میں لکھی گئی۔ قاضی نوراللہ نے اس کتاب میں منطقی، زیبا اور رسا انداز میں فضل بن روزبہان کی کتاب کا جواب دیا ہے نیز اسکے نظریات کا جواب اہل سنت کی کتابوں سے دیا ہے <ref>ریحانۃ الادب، ج۳، ص۳۸۵.</ref>.
* احقاق الحق و ازہاق الباطل: اس کتاب کے کلمات آپ کے تبحر علمی پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ کتاب قاضی فضل بن روز بہان کی  کتاب ابطال الباطل کا جواب ہے۔ قاضی فضل بن روزبہان کی کتاب علامہ حلی کی نہج الحق و کشف الصدق کے جواب میں لکھی گئی۔ قاضی نوراللہ نے اس کتاب میں منطقی، زیبا اور بلیغ  انداز میں فضل بن روزبہان کی کتاب کا جواب دیا ہے۔ نیز اس کے نظریات کا جواب اہل سنت کی کتابوں سے دیا ہے <ref>ریحانۃ الادب، ج۳، ص۳۸۵.</ref>.
تفصیلی مضمون: مجالس المؤمنین
 
مجالس المؤمنین: اس کتاب میں علما کی ایک جماعت ، حکما، ادبا، عرفا، شعرا، رجال متقدم اور وہ راوی جو اسکے عقیدے کے مطابق شیعہ تھے، کے احوال بیان ہیں۔ نیز اس کتاب میں حکایات و قصص اور روایات سمیت شہروں کے حالات بھی مذکور ہیں <ref>روضات الجنات، ج۸، ص۱۶۰</ref>.
* مجالس المؤمنین: اس کتاب میں آپ نے علما کی ایک جماعت ، حکما، ادبا، عرفا، شعرا، رجال اور وہ راوی جو ان کے عقیدے کے مطابق شیعہ تھے، کے احوال بیان کئے ہیں۔ نیز اس کتاب میں حکایات و قصص اور روایات سمیت شہروں کے حالات بھی مذکور ہیں <ref>روضات الجنات، ج۸، ص۱۶۰</ref>.
تفصیلی مضمون: الصوارم المہرقہ
* الصوارم المھرقہ: یہ کتاب  «الصواعق المحرقہ» کے جواب میں لکھی گئی۔
الصوارم المہرقہ جو «الصواعق المحرقہ» کے جواب میں لکھی گئی۔
* کتاب مصائب النواصب:شیخ حر عاملی (متوفی ۱۱۱۰) اپنی کتاب امل الآمل میں ان دو کتابوں کے ساتھ احقاق الحق کا ذکر کرتے ہیں جس سےپتہ چلتا ہے کہ قاضی کی یہ اہم کتب  <ref>الامل الآمل، ج۲، ص۳۳۷</ref> صفویہ دور میں عالمی شہرت رکھتی تھیں۔
کتاب مصائب النواصب
* النور الانور و النور الازہر فی تنویر خفایا القضا و القدر: قضا و قدر کے متعلق رسالہ ہے۔ علامہ حلی نے "استقصاء النظر فی بحث القضاء و القدر "کے نام سے رسالہ لکھا تھا۔ اسکے جواب میں اہل سنت کی طرف سے   شبہات پر مشتمل ایک کتاب لکھی گئی۔ قاضی نے اس جوابی کتاب کے جواب میں ان شبہات کا جواب دیا ہے۔ اس کے اختتام کی تاریخ جمادی الثانیہ 1018 ھ ق ہے <ref>سید اعجاز حسین ،کشف الحجب و الاستارص591 ش3337۔</ref>.
شیخ حر عاملی (متوفی ۱۱۱۰) اپنی کتاب امل الآمل میں ان دو کتابوں کے ساتھ احقاق الحق کو ذکر کرتے ہیں یہ اس بات کی بیان گر ہے کہ قاضی کی یہ اہم کتب  <ref>الامل الآمل، ج۲، ص۳۳۷</ref>. صفویہ دور میں جہانی شہرت رکھتی تھیں۔
النور الانور و النور الازہر فی تنویر خفایا: قضا و قدر کے متعلق رسالہ ہے۔ علامہ حلی نے استقصاء النظر فی بحث القضاء و القدر کے نام سے رسالہ لکھا تھا۔ اسکے جواب میں اہل سنت کی طرف سے شبہات لکھے گئے۔ قاضی نے اس جوابی کتاب کے جواب میں ان شبہات کا جواب دیا ہے۔ اس کی اختتامی تاریخ جمادی الثانیہ 1018 ھ ق ہے <ref>سید اعجاز حسین ،کشف الحجب و الاستارص591 ش3337۔</ref>.
== مناظرات علمی ==
== مناظرات علمی ==
قاضی نوراللہ کے مناظروں میں سے اہل سنت عالم دین عبد القادر بن ملکوک شاه بدایونی سے مناظرے کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ اس نے اپنی کتاب منتخب التواریخ میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح قاضی شوشتری کا سید قزوینی کے ساتھ مناظرہ جسے قاضی نے اپنی تالیف مجالس المؤمنین میں ذکر کیا ہے <ref>قاضی نور الله شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۲ و ۵۷۳</ref>.
قاضی نوراللہ کے مناظروں میں اہل سنت عالم دین عبد القادر بن ملکوک شاه بدایونی کے ساتھ ان کے مناظرے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔عبد القادر بدایونی نے اپنی کتاب منتخب التواریخ میں اس مناظرہ کا  ذکر کیا ہے۔ اسی طرح سید قزوینی کے ساتھ آپ کا مناظرہ جس کا خود قاضی نور اللہ نے اپنی تالیف مجالس المؤمنین میں ذکر کیا ہے <ref>قاضی نور الله شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۲ و ۵۷۳</ref>.
== شاگرد ==
== شاگرد ==
قاضی نوراللہ مذاہب پنجگانہ کی بنیاد پر شیعہ، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی کی فقہ طلاب کیلئے تدریس کرتا اور آخر میں خاتمے کے عنوان سے بیان اقوال میں بڑی ظرافت کے ساتھ شیعہ نظر بھی بیان کر دیتا ۔ شیعیت کے مخالف فضا، شیعہ مذہب کے شاگردوں مخفیانہ رابطہ اور اسی طرح تقیہ کی وجہ سے چند شاگردوں کے ناموں کے علاوہ دیگر کوئی معلومات نہیں ہے
قاضی نوراللہ ہر مذہب  کے طلاب کو مذاہب   پنجگانہ شیعہ، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی فقہ کی بنیاد پر  فقہ کا درس دیا کرتے تھے اور آخر میں خاتمے کے عنوان سے بیان اقوال میں بڑی ظرافت کے ساتھ شیعہ نظریہ کی تائید کرتے تھے ۔ شیعہ مخالف فضا، شیعہ مذہب شاگردوں  کے ساتھ مخفیانہ رابطہ اور اسی طرح تقیہ کی وجہ سے چند شاگردوں کے ناموں کے علاوہ دیگر کوئی معلومات دستیاب  نہیں ہے۔
* شیخ محمد ہروی خراسانی
* شیخ محمد ہروی خراسانی
* مولا محمد علی کشمیری
* مولا محمد علی کشمیری
* سید جمال الدین عبداللہ مشہدی.
* سید جمال الدین عبداللہ مشہدی.
== اولاد ==
== اولاد ==
قاضی نوراللہ شوشتری کے ۵ بیٹے تھے جو اپنے زمانے کے عالم، شاعر اور صاحب تالیف تھے :
قاضی نوراللہ شوشتری کے ۵ بیٹے تھے جو اپنے وقت  کے عالم، شاعر اور صاحب تالیف تھے :
* سید محمد یوسف
* سید محمد یوسف
* شریف الدین (۹۹۲ـ ۱۰۲۰ ق)
* شریف الدین (۹۹۲ـ ۱۰۲۰ ق)
سطر 106: سطر 102:
* سید علاء الدولہ (۱۰۱۲ ـ؟)
* سید علاء الدولہ (۱۰۱۲ ـ؟)
== شہادت ==
== شہادت ==
اکبر شاہ کے بیٹے جہانگیر شاه کے تخت نشین ہونے کے بعد ۱۰۱۹ ہجری قمری میں اس کے حکم سے کوڑے کھاتے ہوئے شہید ہوئے۔ شہادت کا سبب احقاق الحق و ازہاق الباطل کی تالیف تھی۔ ایک قول کے مطابق مجالس المؤمنین تھی۔ برصغیر میں آپ شہید ثالث کے لقب سے معروف ہیں۔
اکبر شاہ کے بیٹے جہانگیر شاه کے تخت نشین ہونے کے بعد ۱۰۱۹ ہجری قمری میں اس کے حکم سے کوڑے کھاتے ہوئے شہید ہوئے۔ شہادت کا سبب "احقاق الحق و ازہاق الباطل" کی تالیف تھی۔ ایک قول کے مطابق مجالس المؤمنین تھی۔ برصغیر میں آپ شہید ثالث کے لقب سے معروف ہیں۔
 
محدث قمی نے انکی شہادت کی درج ذیل تفصیل بیان کی ہے:
محدث قمی نے انکی شہادت کی درج ذیل تفصیل بیان کی ہے:
قاضی نوراللہ قضاوت اور مخفیانہ تالیف میں مشغول تھے کہ اکبر بادشاہ کے مرنے کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا۔ درباری علما اور مقربین نے نور اللہ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ قاضی شیعہ ہے، اپنے آپ کو چار فقہوں کا پابند نہیں سمجھتا ہے اور اپنے فتوے مذہب امامیہ کے مطابق دیتا ہے۔ جہانگیر شاه نے انکے بیانات کو اسکے شیعہ ہونے کیلئے کافی نہیں سمجھا اور کہا: اس نے قضاوت کے عہدے کو اپنے اجتہاد کی شرط کے ساتھ قبول کیا تھا <ref>محدث قمی، فوائدالرضویہ،  ص۶۹۷</ref>.
 
ان لوگوں نے اس سے مایوس ہو کر قاضی کیلئے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ ایک شخص کو شیعہ ظاہر کر کے قاضی کے پاس شاگردی کیلئے بھیجا۔ اس شخص نے کچھ مدت کی آمد و رفت سے قاضی کا اعتماد حاصل کیا اور وہ قاضی کی مجالس المؤمنین سمیت دیگر کتب سے آگاہ ہوا اور اس نے مجالس المؤمنین ان سے لی اور درباری علما اور مقربین کیلئے اس سے نسخہ برداری کی۔ انہوں نے اس کتاب کو ان کی تشیع کی دلیل کے طور پر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور بادشاہ سے کہا: انہوں نے اس کتاب میں ایسے ایسے لکھا ہے لہذا اس پر حد جاری ہونی چاہئے۔ جہانگیر نے پوچھا اسکی حد کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اسکی سزا کوڑے ہے۔ بادشاہ نے یہ کام انکے سپرد کیا اور انہوں نے بلا فاصلہ ان پر حد جاری کرتے ہوئے کوڑے مارے۔ کہتے ہیں: خاردار لکڑی کے تختے پر 70 سال کی عمر میں اس حد تک کوڑے مارے گئے کہ ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا
قاضی نوراللہ قضاوت اور مخفیانہ تالیف میں مشغول تھے کہ اکبر بادشاہ کے مرنے کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا۔ درباری علما اور مقربین نے نور اللہ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ قاضی شیعہ ہے، اپنے آپ کو چار فقہوں کا پابند نہیں سمجھتا ہے اور اپنے فتوے مذہب امامیہ کے مطابق دیتا ہے۔ جہانگیر شاه نے ان کے بیانات کو ان کے شیعہ ہونے کیلئے کافی نہیں سمجھا اور کہا: انہوں نے قضاوت کے عہدے کو اپنے اجتہاد کی شرط کے ساتھ قبول کیا تھا <ref>محدث قمی، فوائدالرضویہ،  ص۶۹۷</ref>.
قاضی نور اللہ کا مزار ہندوستان کے شہر آگرا میں موجود ہے اور لوگوں کیلئے ایک زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے <ref>شہید ثالث قاضی سید نور اللہ شوشتری، [http://www.maablib.org/scholar/qazi-syed-noor-ullah-shoshtari/ maablib.org]</ref>۔
 
ان لوگوں نے اس سے مایوس ہو کر قاضی کیلئے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ ایک شخص کو شیعہ ظاہر کر کے قاضی کے پاس شاگردی کیلئے بھیجا۔ اس شخص نے کچھ مدت کی آمد و رفت سے قاضی کا اعتماد حاصل کیا اور قاضی کی مجالس المؤمنین سمیت دیگر کتب سے آگاہ ہو گیا اور ان سے مجالس المؤمنین لے کر  درباری علما اور مقربین کیلئے اس سے نسخہ برداری کی۔ درباری علما نے اس کتاب کو ان کے تشیع کی دلیل کے طور پر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور کہا: انہوں نے اس کتاب میں ایسے ایسے لکھا ہے۔ لہٰذا اس پر حد جاری ہونی چاہئے۔ جہانگیر نے پوچھا اسکی حد کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اسکی سزا کوڑے ہے۔ بادشاہ نے یہ کام ان کے سپرد کیا اور انہوں نے بلا فاصلہ ان پر حد جاری کرتے ہوئے کوڑے مارے۔ کہتے ہیں: خاردار لکڑی کے تختے پر 70 سال کی عمر میں اس حد تک کوڑے مارے گئے کہ ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
 
قاضی نور اللہ کا مزار ہندوستان کے شہر آگرہ میں موجود ہے اور لوگوں کیلئے ایک زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے <ref>شہید ثالث قاضی سید نور اللہ شوشتری، [http://www.maablib.org/scholar/qazi-syed-noor-ullah-shoshtari/ maablib.org]</ref>۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
confirmed
821

ترامیم