"قاضی نور اللہ شوشتری" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 19: سطر 19:
'''قاضی نور اللہ شوشتری''' (سید نور اللہ شوشتری حسینی مرعشی بن شریف الدین) شہید ثالث کے نام سے مشہور، صفویہ عہد کے [[شیعہ]] فقیہ، اصولی، متکلم، محدث اور شاعر تھے۔ احقاق الحق اور مجالس المؤمنین سمیت بہت سی تالیفات کے مالک ہیں۔ قاضی القضات کے عہدے پر فائز رہے اور چاروں فقہ کی اساس پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ جہانگیر کے دور میں  بعض درباری علما اور مقربین کے مذہبی عناد کے نتیجے میں بادشاہ نے انکی موت کا حکم صادر کیا۔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں مدفون ہیں۔
'''قاضی نور اللہ شوشتری''' (سید نور اللہ شوشتری حسینی مرعشی بن شریف الدین) شہید ثالث کے نام سے مشہور، صفویہ عہد کے [[شیعہ]] فقیہ، اصولی، متکلم، محدث اور شاعر تھے۔ احقاق الحق اور مجالس المؤمنین سمیت بہت سی تالیفات کے مالک ہیں۔ قاضی القضات کے عہدے پر فائز رہے اور چاروں فقہ کی اساس پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ جہانگیر کے دور میں  بعض درباری علما اور مقربین کے مذہبی عناد کے نتیجے میں بادشاہ نے انکی موت کا حکم صادر کیا۔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں مدفون ہیں۔
== سوانح عمری ==
== سوانح عمری ==
سید نور اللہ حسینی مرعشی ۹۵۶ ہجری قمری کو [[ایران]] کے صوبے خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسب [[علی بن حسین|امام زین العابدین(ع)]] تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید شریف الدین اپنے زمانے کے بزرگ علما میں سے تھے جو علوم نقلیہ اور عقلیہ میں صاحب آثار تھے۔ آپکے اجداد میں سے نجم الدین محمود حسینی مرعشی آملی نے آمل سے شوشتر ہجرت کی۔ قاضی نور اللہ ہمیشہ اس نسبت پر فخر کرتےتھے جو انکے آثار سے واضح ہے <ref>مجالس المؤمنین، ج۱، ص۷۱</ref>۔
سید نور اللہ حسینی مرعشی ۹۵۶ ہجری قمری میں [[ایران]] کے صوبے خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسب [[علی بن حسین|امام زین العابدین(ع)]] تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید شریف الدین اپنے زمانے کے بزرگ علما میں سے تھے جو علوم نقلیہ اور عقلیہ میں صاحب آثار تھے۔ آپکے اجداد میں سے نجم الدین محمود حسینی مرعشی آملی نے آمل سے شوشتر ہجرت کی۔ قاضی نور اللہ ہمیشہ اس نسبت پر فخر کرتےتھے جو انکے آثار سے واضح ہے <ref>مجالس المؤمنین، ج۱، ص۷۱</ref>۔
== تعلیم ==
== تعلیم ==
سید نور اللہ نے شوشتر میں تعلیم حاصل کی۔ عقلی اور نقلی علوم اپنے والد کے پاس پڑھے اور طب کی تعلیم حکیم مولانا عماد الدین سے حاصل کی۔  میر صفی الدین محمد اور میر جلال الدین محمد صدر بھی ان کے اساتذہ میں ہیں۔  ۹۷۹ (ه‍.ق) میں جب ان کی عمر ۲۳  برس تھی، اپنے چھوٹے بھائی سید وجیہ الدین محسن کے ساتھ حصول علم کیلئے مشہد آئے۔مشہد میں قاضی نور اللہ نے مولا عبدالواحد شوشتری کے درس میں شرکت کی اور ان سے [[فقہ]]، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر جیسے علوم  حاصل کئے۔ مولا محمد ادیب قاری تستری سے ادبیات عرب و تجوید [[قرآن|قرآن کریم]] حاصل کئے۔ نیز عبد الرشید شوشتری مؤلف کتاب مجالس الامامیہ (اعتقادات) اور مولا عبدالوحید تستری جیسے علما سے اجازه روایت لیا <ref>مقدمہ احقاق الحق، ج۱، ص۸۲.</ref>۔
سید نور اللہ نے شوشتر میں تعلیم حاصل کی۔ عقلی اور نقلی علوم اپنے والد کے پاس پڑھے اور طب کی تعلیم حکیم مولانا عماد الدین سے حاصل کی۔  میر صفی الدین محمد اور میر جلال الدین محمد صدر بھی ان کے اساتذہ میں شامل  ہیں۔  ۹۷۹ (ه‍.ق) میں جب ان کی عمر ۲۳  برس تھی، اپنے چھوٹے بھائی سید وجیہ الدین محسن کے ساتھ حصول علم کیلئے مشہد آئے۔مشہد میں قاضی نور اللہ نے مولا عبدالواحد شوشتری کے درس میں شرکت کی اور ان سے [[فقہ]]، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر جیسے علوم  حاصل کئے۔ مولا محمد ادیب قاری تستری سے ادبیات عرب و تجوید [[قرآن|قرآن کریم]] حاصل کئے۔ نیز عبد الرشید شوشتری مؤلف کتاب مجالس الامامیہ (اعتقادات) اور مولا عبدالوحید تستری جیسے علما سے اجازه روایت لیا <ref>مقدمہ احقاق الحق، ج۱، ص۸۲.</ref>۔
== برصغیر آمد ==
== برصغیر آمد ==
سید نوراللہ ۹۹۲ یا ۹۹۳ (ه‍.ق) میں  مشہد چھوڑ کر برصغیر جانے پر مجبور ہوئے۔ مشہد میں مسلسل حالات کی خرابی، ابر بار کی شورشیں اور ناگوار واقعات اس ہجرت کے اسباب میں سے ہیں۔ یہیں ازبکوں کے حملوں میں ان کا بھائی مارا گیا۔ اس وقت ابھی شاه عباس صفوی تخت نشین نہیں ہوا تھا۔ بہرحال خراسان کے غیر مستحکم سیاسی حالات نے سید نوراللہ کو برصغیر ہجرت پر مجبور کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان  سب سےزیادہ پر امن  علاقہ تھاجس کا سہرا اکبر بادشاه کوجاتا ہے جو اس وقت یہاں کا حاکم تھا۔ اکبر بادشاه تیمور کی نسل میں ہمایوں کا بیٹا تھا جو ۱۴ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ اپنی استعداد کی بدولت گجرات، بنگال، کشمیر اور سندھ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ایک وسیع و عرض خطے پر اپنی بادشاہت قائم کی۔ نیز بہت سے شہر اور آبادیوں کا سنگ بنیاد رکھا <ref>سید حسین عارف نقوی، تذکره علمائے امامیہ پاکستان،  ص۱۵</ref>۔
سید نوراللہ ۹۹۲ یا ۹۹۳ (ه‍.ق) میں  مشہد چھوڑ کر برصغیر جانے پر مجبور ہوئے۔ مشہد میں مسلسل حالات کی خرابی، ابر بار کی شورشیں اور ناگوار واقعات اس ہجرت کے اسباب میں سے ہیں۔ یہیں ازبکوں کے حملوں میں ان کا بھائی مارا گیا۔ اس وقت ابھی شاه عباس صفوی تخت نشین نہیں ہوا تھا۔ بہرحال خراسان کے غیر مستحکم سیاسی حالات نے سید نوراللہ کو برصغیر ہجرت پر مجبور کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان  سب سےزیادہ پر امن  علاقہ تھاجس کا سہرا اکبر بادشاه کوجاتا ہے جو اس وقت یہاں کا حاکم تھا۔ اکبر بادشاه تیمور کی نسل میں ہمایوں کا بیٹا تھا جو ۱۴ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ اپنی استعداد کی بدولت گجرات، بنگال، کشمیر اور سندھ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ایک وسیع و عرض خطے پر اپنی بادشاہت قائم کی۔ نیز بہت سے شہر اور آبادیوں کا سنگ بنیاد رکھا <ref>سید حسین عارف نقوی، تذکره علمائے امامیہ پاکستان،  ص۱۵</ref>۔
confirmed
821

ترامیم