غدیر خم 2.jpg

واقعہ غدیرخم تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے۔ جس میں پیغمبر اسلام نے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم نامی جگہ پر ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ کے دن حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ جس کے بعد تمام بزرگ صحابہ سمیت حاضرین نے حضرت علی کی بیعت کی۔

یہ تقرری خدا کے حکم سے ہوئی جسے خداوند عالم نے آیت تبلیغ میں بیان فرمایا ہے۔ یہ آیت ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ سے کچھ مدت قبل نازل ہوئی جس میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا تھا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ اس کے بعد آیت اکمال نازل ہوئی جس میں خدا نے دین کی تکمیل اور نعمات کی تمامیت کا اعلان کرتے ہوئے دین اسلام کو خدا کا پسندیدہ دین قرار دیا

معصومین نے حدیث غدیر کے ساتھ استناد کیا ہے۔ اسی طرح امام علی کے دور سے لے کر موجودہ دور تک کے بہت سے شعراء نے غدیر کے بارے میں اشعار لکھے ہیں۔ اس واقعہ اور حدیث غدیر کے سب سے اہم مستندات میں علامہ امینی کی کتاب الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب شامل ہے۔ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین نے اس دن کو عید قرار دیئے ہیں اسی لئے تمام مسلمان بطور خاص، شیعہ اس دن جشن مناتے ہیں۔

غدیر کا واقعہ

حجۃ الوداع

رسول خدا ہجرت کے دسویں سال، 24 یا 25 ذیقعدہ کو ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے ساتھ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہؐ کا یہ حج حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام اور حجۃ ‌البلاغ کہلاتا ہے۔

اس وقت امام علی تبلیغ کے لئے یمن گئے ہوئے تھے، جب آپ کو رسول خدا کے حج پر جانے خبر ملی تو یمنی مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور اعمال حج کے آغاز سے قبل ہی رسول الله سے جا ملے۔ حج کے اختتام پر رسول خدا مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے [1]

آیت تبلیغ

فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو پیغمبر اکرم کی معیت میں غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ جہاں سے شام، مصر اور عراق وغیرہ سے آنے والے حجاج اس عظیم کاروان سے جدا ہو کر اپنے اپنے مقرره راستوں سے اپنے ملکوں کی طرف جانا تھا اتنے میں جبرائیل آیت تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول خدا کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا کہ علی کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں.

آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹنے اور پیچھے رہ جانے والوں کو جلدی جلدی غدیر خم کے مقام پر آپؐ تک پہنچنے کا حکم دیا

حواله جات

  1. طبرسی، احتجاج، ج1، ص56، مفید، ارشاد، ص91، حلبی، السیرہ، ج3، ص308۔