"عید قربان" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(ایک ہی صارف کا 17 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 16: سطر 16:
حضرت ابراہیم خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی پر مامور ہوئے اور عید قربان کے دن آپ نے خدا کے حکم کی بجا آوری کی خاطر اسماعیل کو سرزمین منا میں قربانی کیلئے لے گئے۔ جب منا میں جمرہ اول کے مقام پر پہنچا تو شیطان ان کے سامنے ظاہر ہوا اور حضرت ابراہیم کو ورغلانے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم نے سات پتھر مار کر اسے بھگایا اسی طرح جمرہ دوم اور سوم کے مقام پر یہ عمل تکرار ہوا یوں حضرت ابراہیم کا یہ عمل حج کے اعمال میں شامل ہوا اور آج ہر جاجی پر واجب ہے کہ حج کے دوران اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے شیطان کو کنکریاں ماریں۔
حضرت ابراہیم خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی پر مامور ہوئے اور عید قربان کے دن آپ نے خدا کے حکم کی بجا آوری کی خاطر اسماعیل کو سرزمین منا میں قربانی کیلئے لے گئے۔ جب منا میں جمرہ اول کے مقام پر پہنچا تو شیطان ان کے سامنے ظاہر ہوا اور حضرت ابراہیم کو ورغلانے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم نے سات پتھر مار کر اسے بھگایا اسی طرح جمرہ دوم اور سوم کے مقام پر یہ عمل تکرار ہوا یوں حضرت ابراہیم کا یہ عمل حج کے اعمال میں شامل ہوا اور آج ہر جاجی پر واجب ہے کہ حج کے دوران اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے شیطان کو کنکریاں ماریں۔


حضرت ابراہیم، اسماعیل کو لے کر قربان گاہ میں پہنچے اور اپنے لخت جگر کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کا مصمم ارادہ کیا اور قربانی کرتے وقت اسماعیل کی پیشانی کو زمین پر رکھا اور تیز چاقو کے ذریعے اسماعیل کا گلا کاٹنے کیلئے اس کی گردن پر چھری پھیری لیکن چھری نے گردن کو نہیں کاٹی۔ جب خدا نے باپ بیٹے کی اخلاص کو دیکھا تو ان کی قربانی کو قبول کیا اور جبرائیل کے ساتھ ایک مینڈھے کو اسماعیل کے بدلے قربانی کیلئے بھیجا یوں حضرت ابراہیم نے اس حیوان کی قربانی خدا کی راہ میں پیش کی یہاں سے قربانی کی سنت مرسوم ہوئی اور آج قربانی کرنا حج کے واجب ارکان میں سے ہے اور دنیا بھر میں مسلمان اپنی بساط کے مطابق اس سنت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں یوں ہر سال اس دن ہزااروں لاکھوں کی تعداد میں حیوانات ذبح کرکے غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں <ref>صافات، آیہ۱۰۴-۱۰۵</ref>.
== عید قربان کی شب و روز کے اعمال شیعہ کتب میں ==
[[امام صادق علیہ السلام|امام صادق]] اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں: امام علی سال میں چار راتوں میں شب بیداری کرنا پسند فرماتے تھے، ماہ رجب کی پہلی رات، ماہ [[شعبان]] کی پندرہویں رات، عید فطر کی رات اور عید قربان کی رات اور یہاں شب بیداری سے مراد عبادات میں مشغول رہنا ہے۔ اسی طرح عید کے دن اور رات میں [[امام حسین]] کی زیارت بھی مستحب ہے۔
* غسل کرنا: علامہ مجلسی کے بقول اس دن غسل کرنا سنّت مؤكّدہ ہے یہاں تک کہ بعض علماء اس دن غسل کرنے کو واجب سمجھتے تھے۔
* نماز عید
* دعائے ندبہ: دعائے ندبہ کا اس دن اور دوسرے اعیاد میں پڑھنا مستحب ہے
* اس دن کی مشہور تکبیریں : موسم حج میں منا میں تشریف رکھنے والے حاجیوں کیلئے مستحب ہے کہ 15 یومیہ نمازوں کے بعد این تکبیروں کو پڑھیں؛ یعنی عید کے دن نماز ظہر سے شروع کرے اور تیرہویں دن کی نماز صبح تک پڑھتے رہیں۔ لیکن وہ لوگ جو حج پر نہیں ہیں ان کیلئے دس نمازوں کے بعد این تکبیروں کا پڑھنا مستحب ہے یعنی عید کے دن ظہر کی نماز سے شروع کرکے بارہویں روز نماز صبح تک پڑھیں۔ وہ تکبیریں کتاب كافی کے مطابق اسطرح ہیں: اَللهُ اَكْبَرُ اَللهُ اَكْبَرُ، لا اِلـهَ اِلاَّ اللهُ وَ اللهُ اَكْبَر اَللهُ اَكْبَرُ، و للهِ الْحَمْدُ اَللهُ اَكْبَرُ عَلی ما هَدانا ااَللهُ اَكْبَرُ عَلی ما رَزَقَنا مِنْ بَهیمَةِ الانعامِ وَ الْحَمْدُ لِلّهِ عَلی ما أبْلانا
== نمازعید قربان ==
=== شیعہ نقطہ نظر سے عید الاضحی کی نماز ===
یہ نماز امام معصوم کے زمانے میں واجب ہے لیکن امام زمانہ(عج) کی غيبت کے دوران مشہور شیعہ فقہاء کے فتوا کی مطابق مستحب مؤكّد ہے۔ (خواہ جماعت کے ساتھ پڑھی جائے یا فرادا ادا کی جائے)۔
* نماز عید سے پہلے اور بعد میں ماثور دعاوں کا پڑھنا مستحب ہے جن میں سے بہترين دعا صحیفہ سجادیہ کی 48ویں دعا ہے جو ان جملوں سے شروع ہوتا ہے:أللّهُمَّ هذا يَومٌ مُبارَك اسی طرح اسی کتاب کی 46ویں دعا کا پڑھنا بھی مستحب ہے۔ <ref>مجلسی، زادالمعاد، ص ۴۲۶-۴۲۷</ref>
== سنی نقطہ نظر سے عید الاضحی کی نماز ==
فقہ مالکی <ref>مواهب الجليل في شرح مختصر الشيخ خليل". مکتبۃ الاسلامیہ. 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019</ref> اور فقہ شافعی میں یہ سنت مؤکدہ ہے <ref>المبدع في شرح المقنع. مکتبۃ الاسلامیہ. 25 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019</ref>۔
فقہ حنبلی میں یہ فرض کفایہ ہے۔
فقہ حنفی میں ہر مسلمان پر واجب ہے، لہذا ہر مرد پر واجب ہے اور بغیر کسی عذر کے ترک کرنے پر گناہ گار ہوگا، اس متعلق احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ہے، غیر مقلد عالم ابن تیمیہ اور شوکانی نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ <ref>[https://3rabica.org/%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%A9_%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%8A%D8%AF%D9%8A%D9%86#%D8%B5%D9%81%D8%A9_%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%A9_%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%8A%D8%AF%D9%8A%D9%86 صلاة العيدين]</ref>
بعض علما جن مین حنفیہ اور حنابلہ شامل ہیں نے نماز عیدین کے وجوب کے وجہ سے اقامت اور جماعت شرط رکھی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس میں نماز جمعہ والی شروط ہی ہیں صرف خطبہ نہیں، لہذا خطبہ میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔ جمہور علما کہتے ہیں کہ نماز عیدین کا وقت دیکھنے کے اعتبار سے سورج ایک نیزہ اونچا ہوجانے پر شروع ہوجاتا ہے اور زوال کے ابتدا تک وقت رہتا ہے۔
== طریقہ نماز ==
=== شیعہ ===
اہل تشیع کے اثنا عشریہ میں نماز دو رکعت ہے جس کی پہلی رکعت میں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد پانچ تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیر کے درمیان میں ایک قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے اور پھر دو سجدے کرے اور اٹھ کھڑا ہو اور دوسری رکعت چار تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیر کے درمیان میں قنوت پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور سلام کہہ کر نماز کو ختم کر دے۔
=== سنی ===
اور ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ عید الفطر اور عید الاضحی عیدگاہ جاتے تو سب سے پہلے نماز ادا کرتے۔
احناف کے ہاں نماز عید کی پہلی رکعت میں تین زائد تکبیریں اور دوسری رکعت میں بھی تین زائد تکبیریں ہیں اور پہلی رکعت میں تکبیروں کے بعد جبکہ دوسری رکعت میں تکبیروں سے پہلے قرات ہے۔ [[عید الفطر]] اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ وغیرہ) دیگر نمازوں کی طرح ادا کرے۔
پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام دو خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ <ref>رواہ البخاري 956</ref>
== اسلامی ممالک میں عید قربان کی حیثیت ==
عید قربان کے دن تمام اسلامی ممالک میں سرکاری طور پر چھٹی اور تمام ادارے بند رہتے ہیں۔ عید کی چھٹیاں معمولا ایک دن سے ایک ہفتے تک ہوتی ہیں۔ اس دن کے حوالے سے مختلف ممالک میں مختلف جشن اور محافل منعقد ہوتے ہیں۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:عید قربان]]
[[fa:عید قربان]]
[[زمرہ: اسلامی عیدیں]]
[[زمرہ: اسلامی عیدیں]]