"عمر بن خطاب" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(ایک ہی صارف کا 43 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 48: سطر 48:
اس نے ان مہمات میں کیسے حصہ لیا اس بارے میں کوئی رپورٹ نہیں ہے۔ وہ موٹے جنگ کے صحرائیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مدینہ میں ان پر سخت الزام لگایا گیا تھا۔ وہ فتح مکہ کے موقع پر موجود تھے اور انہوں نے بتایا کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور بتوں کو توڑنے میں آپ کی کارکردگی  <ref>البدایة و النهایه، ج۴، ص۳۳۶، ۳۴۷</ref>۔
اس نے ان مہمات میں کیسے حصہ لیا اس بارے میں کوئی رپورٹ نہیں ہے۔ وہ موٹے جنگ کے صحرائیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مدینہ میں ان پر سخت الزام لگایا گیا تھا۔ وہ فتح مکہ کے موقع پر موجود تھے اور انہوں نے بتایا کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور بتوں کو توڑنے میں آپ کی کارکردگی  <ref>البدایة و النهایه، ج۴، ص۳۳۶، ۳۴۷</ref>۔
=== نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ===
=== نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ===
ابوبکر کے زمانے میں، آپ نے رداح کی جنگوں میں حصہ لیا، اور مسیلمہ کزاب کیسے 11 ہجری میں مارا گیا۔ رپورٹ کیا ہے
اسی جنگ میں ان کے چچا زید بن خطاب کو ساتھیوں نے مسیلمہ کے ہاتھوں قتل کر دیا اور عمر نے عبداللہ کو قلیل مزاج سمجھ کر اس کی سرزنش کرنے کی کوشش کی  <ref>تاریخ طبری، ج۲، ص۲۸۰؛ الکامل، ج۲، ص۳۶۶</ref>۔ اپنے والد کے دور خلافت میں وہ بعض فتوحات اور مہمات میں پیش پیش رہے۔ تاریخی اطلاعات کے مطابق اس نے سعید بن العاص کی کمان میں خراسان اور جرجان کی فتح میں حصہ لیا <ref>تاریخ طبری، ج۲، ص۶۰۷</ref>۔
== قلم اور کاغذ کی کہانی ==
یہ درخواست حاضرین میں سے ایک کی مخالفت کے ساتھ پوری ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ادھوری رہ گئی۔ وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے کہا: نبی وہم ہے اور ہمارے لیے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔ پھر صحابہ کے درمیان جھگڑا ہوا۔ صحابہ کے اختلاف کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑنے کو کہا۔ اکثر ذرائع نے پیغمبر کی مخالفت کرنے والے کو خلیفہ ثانی کے طور پر شناخت کیا ہے لیکن بعض ذرائع نے اس کا نام نہیں بتایا ہے <ref>ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۴۵</ref>۔
شیعہ علماء کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) حدیث کی دعوت سے امام علی علیہ السلام کی جانشینی پر زور دینا چاہتے تھے۔ لیکن وہاں موجود لوگوں میں سے کچھ نے اس کو بھانپ لیا اور اسے روک دیا۔
ان کے اور ابن عباس کے درمیان ہونے والی گفتگو میں وہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیماری کے دوران اپنے بعد خلافت کے لیے [[علی علیہ السلام]] کا نام لینا چاہتے تھے، لیکن میں نے ایسا کیا۔ اسلام اور اس کے تحفظ کے لیے ہمدردی کی وجہ سے میں راستے میں آ گیا  <ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نهج‌البلاغه، ۱۳۷۸ق، ج۱۲، ص ۲۰-۲۱</ref>۔
ابن عباس کی روایت کے مطابق جو کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے، یہ واقعہ جمعرات کے دن پیش آیا اور اسی وجہ سے اسے '''رزیه یوم الخمیس''' یا جمعرات کی آفت کہا جاتا ہے <ref>بخاری، صحیح بخاری، ج4، ص69، حدیث 3053</ref>۔
== عمر بن خطاب کا دور حکومت ==
عمر بن خطاب [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کے بعد اور ان کی وصیت سے 13 ہجری میں خلافت پر فائز ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو '''امیر المومنین''' کہا  <ref>الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۵۱</ref> ۔
لوگوں کے ساتھ متشدد رویے کے باوجود عمر نے اس دور میں سادہ زندگی گزاری۔ وہ کاروبار میں مصروف تھا اور عیش و عشرت اور خزانے کے ذاتی استعمال سے نفرت کرتا تھا۔ اس لیے اس نے عیش و عشرت کی وجہ سے اپنے ایجنٹوں کو کئی بار برخاست یا سرزنش کی اور جرمانہ کیا۔ لیکن اس نے [[معاویہ]] کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا <ref>الطبقات‌الکبری، ج۳، صص ۲۷۵ - ۲۷۸</ref>۔
=== فتوحات کی توسیع ===
اپنی خلافت کے دس سال کے دوران، عمر نے فتوحات کی توسیع کی پالیسی پر عمل کیا اور شام، [[عراق]] اور [[ایران]] کے دیگر علاقوں پر قبضہ جاری رکھا۔ ایک طرف ان خطوں کے لوگوں کو اپنی مرکزی حکومت کی کمزوری اور مسلمانوں کے عزم کا سامنا تھا تو دوسری طرف وہ قدیم بادشاہوں کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے۔ اس وجہ سے، انہوں نے جلدی اسلام قبول کیا یا امن کے لئے کہا. شام، عراق اور ایران کے کچھ فتح شدہ شہر اور علاقے یہ ہیں: اردن، فلسطین، مصر، اسکندریہ، حمص، قنسرین حلب، ، قادسیہ، بصرہ، حیرہ، نہووند، آذربائیجان، اہواز، ہمدان اور اصفہان <ref>تاریخ الیعقوبی، ج۲، صص ۱۴۱-۱۵۷</ref> ۔
ان علاقوں کو فتح کر کے مسلمانوں نے دنیا میں اسلام پھیلانے میں مدد کی۔ لیکن ان فتوحات میں عربوں کی نمایاں موجودگی کا ایک اہم محرک مال غنیمت حاصل کرنا اور خراج وصول کرنا تھا۔  اس کی وجہ سے عیش و عشرت اور دنیا پرستی کے کلچر نے اسلامی معاشرے میں بتدریج پرستی کے ماحول پر قابو پا لیا اور خاص طور پر تیسرے خلیفہ کے زمانے میں مشکلات پیدا کر دیں  <ref>مروج‌الذّهب، ج۱، ص۳۰۵</ref>۔
عمر  کے دور میں فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور بہت سی زمینیں اسلام کے قبضے میں آگئیں۔ اس وجہ سے اس نے اپنے طرز حکمرانی کی بنیاد مرکزی حکومت کے اختیار پر رکھی اور خلافت کے علاقے کو تقسیم کرنے کے بعد ہر علاقے کے لیے ایک امیر مقرر کیا۔ دوسرا خلیفہ گورنر کے انتخاب میں بہت سخت تھا۔ اس لیے اس نے کئی گورنروں کو برطرف کر کے ان کی جگہ نئے گورنر مقرر کر دیے۔ ممتاز اور مشہور صحابہ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی اور چند معاملات کے علاوہ انہیں حکم نہیں دیا۔ ان میں سے بعض کے اعتراض کے خلاف جیسے کہ ابی ابن کعب نے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو حکومتی امور سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
=== حکومتی اقدامات ===
اسلامی معاشرے کی فتوحات اور جغرافیائی ترقی کو جاری رکھنے کے علاوہ دیگر اقدامات بھی کئے۔ ان میں سے سولہویں قمری سال میں واقعات کی ریکارڈنگ کی سہولت کے لیے حضرت علی کے مشورے پر انہوں نے رسول خدا کی ہجرت کو تاریخ کا ماخذ قرار دیا۔ نیز خلافت کو ملنے والی بے پناہ دولت کی وجہ سے اس نے شام کے بادشاہوں کی تقلید میں ایک دربار قائم کرنے کی تجویز پیش کی اور لوگوں کے لیے اسلام میں ان کی تاریخ کے مطابق کوٹہ مقرر کیا۔ اس نے مدینہ، مصر، جزیرہ، کوفہ، بصرہ، شام، فلسطین، موصل اور قنسرین جیسے علاقوں کو بھی شہر اور اضلاع کا نام دیا۔
اس نے خیبر کے یہودیوں کو حجاز سے نکال باہر کیا اور عربوں کو مفتوحہ علاقوں میں منتقل کیا۔ اس کے بعض اقدامات کو اس کی پہل قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے کوڑا استعمال کیا تھا۔ اس نے کتاب کے مختلف طبقوں کے لیے زمین اور جزیہ کے لیے ٹیکسوں کی نشاندہی کی۔ اس نے ہر شہر کا فیصلہ ایک فرد کے سپرد کیا۔ اس نے مسجد النبی کو تباہ کر دیا اور اسے عباس بن عبدالمطلب کے گھر کی سمت تیار کیا۔ مدینہ کے مردوں اور عورتوں کے لیے امام الگ الگ جماعت سمجھتے تھے <ref>تاریخ الامم و الملوک، ج۲، ص۱۱۰</ref>۔
== بدعت ==
عمر نے اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر بدعتیں اور بدعات بھی پیدا کیں۔ بشمول:
* متعہ نے حج کی ممانعت کی۔
* متعہ نے نکاح کو ممنوع قرار دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حلال اور عام تھا۔
* نماز تراویح جو باجماعت پڑھی جاتی ہے۔
* آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز میں رکوع کرنے اور اپنے سینوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا۔
* اس نے لوگوں کو نماز عشاء کے بعد مستحب نماز پڑھنے سے منع کیا اور اس وجہ سے بعض لوگوں کو کوڑے بھی مارے <ref>ابن اثیر جزری، جامع الاصول، 6/30 صحیح مسلم، صحیح بخاری، 1/122/592</ref>۔
== حدیث بیان کرنے سے گریز کریں ==
ایک اہم واقعہ جو ابوبکر کے دور خلافت میں پیش آیا اور عمر نے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کی پیروی کی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور اقوال کی ترسیل کو روکنے کا مسئلہ تھا۔ ذرائع نے بیان کیا ہے کہ آپ نے اس دلیل کے ساتھ حدیث لکھنے یا سنانے سے منع کیا کہ احادیث کو استعمال کرنے یا بیان کرنے سے ان کے الفاظ بہت کم یا زیادہ ہو جائیں گے اور خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اس نے لوگوں کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ خلیفہ کے پاس اپنی حکایات کے مجموعے جمع کریں اور پھر انہیں جلا دیا۔
یہاں تک کہ عمر نے عبداللہ بن مسعود، ابو درداء اور ابو مسعود انصاری جیسے لوگوں کو دھمکیاں دیں اور انہیں بہت سی حدیثیں نقل کرنے سے خبردار کیا اور انہیں مدینہ چھوڑنے کی اجازت نہ دی۔ اس نے ابوہریرہ اور کعب الاحبار سے بھی کہا کہ وہ حدیث بیان کرنا چھوڑ دیں <ref>الطبقات‌الکبری، ج۳، ص۲۸۷</ref>۔
== خلافت کونسل کی تشکیل ==
عمر بن خطاب نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لیے سابقہ ​​دو خلفاء کے انتخاب کے خلاف طریقہ اختیار کیا اور یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ابوبکر کا انتخاب مسلمانوں کی رائے کے مطابق نہیں تھا اور اب یہ ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ مشاورت اس نے علی علیہ السلام، عثمان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر، طلحہ اور سعد بن ابی وقاص پر مشتمل ایک چھ رکنی کونسل مقرر کی جو اگلے خلیفہ کے انتخاب اور اس کے لیے شرائط طے کرے۔
اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر چار افراد کسی شخص کے حق میں ہوں اور دو افراد اختلاف کریں تو ان کا سر قلم کریں یا تین افراد کے دو گروہ کسی شخص کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہوں تو اس گروہ کا ووٹ قبول کریں جس میں عبدالرحمٰن شامل ہو اور قتل کر دیں۔ تین مخالفین. اور اگر کونسل کے ارکان تین دن کے بعد کسی کو منتخب نہ کر سکے تو ان سب کے سر قلم کر دیں۔اس کونسل کا نتیجہ [[عثمان بن عفان]] کا تیسرا خلیفہ منتخب ہونا تھا۔ تاہم، کونسل کے نتیجے کی یقین دہانی کے لیے ثبوت مل سکتے ہیں۔
== وفات ==
عمر بن خطاب دس سال چھ ماہ کی خلافت کے بعد 20 ذی الحجہ 23 ہجری کو 60 یا 63 سال کی عمر میں ابو لولو کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور اس چوٹ کے نتیجے میں تین دن بعد 23 ہجری کو انتقال کر گئے۔ [[ذی الحجہ]]۔ صہیب بن سنان نے ان پر نماز پڑھی اور [[عائشہ]] سے اجازت لینے کے بعد انہیں ابوبکر کی قبر کے پاس دفن کیا گیا <ref>الزهد و الرقائق، ص۷۹-۸۰ و ۱۴۵-۱۴۶۔</ref>. اس کے بعد حفصہ نے عبداللہ کو اور اپنے بیٹے عبداللہ کو وہی امور وصیت کی جس کا ان کے والد نے حکم دیا تھا <ref>الطبقات، ج۴، ص۱۸۴۔
</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==