علی عبد الرازق

ویکی‌وحدت سے
علی عبد الرزاق
علی عبد الرازق.jpg
دوسرے نامشیخ علی
ذاتی معلومات
پیدائش1188 ء، 566 ش، 583 ق
پیدائش کی جگہمصر
وفات1966 ء، 1344 ش، 1385 ق
یوم وفات23ستمبر
وفات کی جگہمصر
اساتذہ
  • شيخ أبو خطوۂ
  • عبدالفتاح ابوغده
  • شيخ أبو عليان
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • الاسلام وأصول الحكم
  • الإجماع في الشريعة الإسلامية
  • آثار الشيخ مصطفى عبد الرازق
مناصب
  • وزات اوقات کا وزیر
  • الازہر یونیورسٹی کی صدارت
  • ایوان نمائندگان اور سینیٹ کا رکن
  • عربی زبان اکیڈمی کا رکن مقرر کیا گیا

علی عبد الرزاق جن کا پورا نام علی حسن احمد عبد الرزاق اور اسلام اور اصول حکمرانی نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ آپ منیا صوبے کے گاؤں ابو جرج میں ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گاؤں میں قرآن حفظ کیا، اس کے بعد الازہر چلے گئے، جہاں سے انہوں نے بین الاقوامی ڈگری حاصل کی۔ پھر آپ آکسفورڈ یونیورسٹی گئے۔ واپسی پر انہیں شرعی جج مقرر کر دیا گیا۔

سوانح عمری

شیخ علی عبد الرازق 1888ء میں مصر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حسن عبد الرزاق امہ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے اور مجلس قانون ساز کے رکن بھی تھے اور مفتی محمد عبدہ، کے ہم عصروں میں سے تھے۔

تعلیم

شیخ علی دس سال کی عمر میں جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجے گئے اور خوش قسمتی سے انہیں مفتی محمد عبدہ جیسا قابل استاد میسر آیا۔ شیخ علی نے کچھ عرصہ قدیم مصری یونیورٹی میں بھی (جو اب ختم ہو چکی ہے اور جس کی جگہ امریکن یونیورسٹی لے چکی ہے) تعلیم حاصل کی اور یورپ کے مشہور مستشرقین مثلا پروفیسر نالینو وغیرہ سے استفادہ کیا۔ جامعہ ازہر سے انہیں پہلی سند 1911ء میں 22 سال کی عمر میں ملی اور وہیں آپ نے علم بیان پر لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دوران میں آپ نے اس موضوع پر ایک کتاب امالی عبد الرزاق فی علم البیان و تاریخہتحریر کی۔

کچھ عرصہ بعد آپ تعلیم حاصل کرنے آکسفورڈ روانہ ہوئے۔ لیکن جلد ہی پہلی جنگ عظیم کے چھڑ جانے کے باعث واپس آگئے ۔ 1915ء میں آپ کو محاکم شرعیہ (شرعی عدالتوں) کا قاضی مقرر کیا گیا اس عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اسکندریہ میں ادب عربی میں لیچکر بھی دیتے رہے۔ فلسفہ و تاریخ قانون سے بھی آپ کو دل چسپی رہی، اور اسی دلچسپی نے آپ کو خلافت کی ماہیت کی تحقیق پر اکسایا اپنی تحقیقات کو آپ نے 1925ء میں الاسلام و اصول الحکم کے نام سے شائع کیا۔

اسلام اور حکمرانی کے اصول

1925 میں، آپ نے اسلام اور حکمرانی کے اصول نامی کتاب شائع کی، جس میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کتاب مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جب کہ بعض کا خیال ہے کہ آپ نے قانون اور مذہب کی صداقت کو ثابت کر دیا، کہ کسی مخصوص شکل کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اسلام میں ریاست کی بجائے، خدا نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کو ریاست کا ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا تھا، اور اس کتاب نے اسلام میں خلافت کے موقف کے بارے میں ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ جیسا کہ یہ کتاب خلافت عثمانیہ کے زوال اور اتاترک ریاست کے آغاز کے اسی دور میں شائع ہوئی تھی، جب کہ عرب بادشاہ خلیفہ کے عنوان کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

بہت سے علماء اور محقیقن نے اس کا جواب دیا، جن میں سے سب سے اہم شیخ محمد الخضر حسین تھے، جنہوں نے نقد کتاب الاسلام واصول الحکم لکھ کر اسلام اور اصول حکمرانی پر تنقید کی تھی، پھر جامعۂ الازہر نے ان سے ڈگری واپس لے لی۔ جسے بہت سے مفکرین نے شاہ فواد اول (اس وقت کے مصر کے بادشاہ) کی طرف سے سیاسی ردعمل قرار دے دیا تھا اور اس کی رائے کے خلاف مہم چلائی۔ امام محمد الغزالی کے کہنے کے مطابق شیخ علی عبدالرزاق اپنے آخری ایام میں اپنی رائے سے مکر گئے تھے۔

اسلام اور اصول حکمرانی کے پس منظر

کتاب اسلام اور حکمرانی کے اصولوں کو ایک فکری آزادی کے عمل کا تسلسل سمجھا جاتا ہے جس کا آغاز امام محمد عبدہ نے اپنی کتاب لاسلام والنصرانیہ بین العلم و المدنیہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان علم اور تہذیب میں کیا ہے، قاسم امین اور شیخ عبدالرحمن کوکیبی نے اپنی کتاب طبائع الاستبداداستبداد کی فطرت اس کے بعد عبد الوہاب المسیری نے اپنی کتاب العلمانیۂ الجزئیۂ و العلمانیۂ الشاملۂ (جزوی سیکولرازم اور جامع سیکولرازم) میں اور آخر میں راشد غنوشی نے اپنی تصانیف جیسے مقاربات فی العلمانیۂ والمجتمع المدنی (اپروچز ان سیکولرازم اور سول سوسائٹی میں) شامل ہیں۔

عہدے

اپنے بھائی شیخ مصطفیٰ عبدالرزاق پاشا کے بعد 1945ء میں الازہر کی صدارت سنبھالی۔ اس کے بعد آپ 28 دسمبر 1948ء سے 25 جولائی 1949ء کے درمیان وزارت اوقاف کے وزیر کے طور پرمنتخب ہوا ابراہیم عبدالہادی پاشا کی سربراہی میں 1316ء تا 1401ھ ایوان نمائندگان اور سینیٹ کا رکن عربی زبان اکیڈمی کا رکن مقرر کیا گیا۔

اسلام اور اصول حکمرانی پر تبصرے

دین اسلام ایک کامل دین اورمکمل دستور حیات ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے، دین اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فرد کی اصلاح پر زوردیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتاہے، اسلامی نظامِ حیات میں، جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاشرت، معاملات اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کاجس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہے، دین اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔

دین اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے، یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے انسان کو آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے طریقے بھی سکھاتا ہے، عیسائیت کی طرح اسلام کلیسا اور ریاست کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا، بقول ڈاکٹرمحمود احمدغازی کے:"اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناں چہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کم زورپڑتاہے تو حکومت بھی کم زورپڑجاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہو تی ہے تودین بھی کم زورپڑجاتاہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔“ [1]۔

کتاب کا محتوا

مولف نے اس کتاب میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصول وتصورات بیان فرمائے ہیں۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ایک ایسے موضوع پر لکھی گئی تھی جو مسلمانان عالم کے نزدیک صدیوں تک ناقابل تردید رہا اور جسے امر خداوندی سمجھا گیا، اہس سے بیشتر کسی مسلمان مصنف نے خلافت کے وجود پر اعتراض نہ کیا تھا اور نہ کسی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ خلافت کا منصب سرے سے ختم کر دینا چاہے۔ حالانکہ اس کا اعتراف اکثر مصنفین کو تھا کہ خلافت کا مقصد وہ نہیں رہا جو خلفائے راشدین کے مد نظرتھا، خلافت کی ضرورت اور اس سے محبت کا اندازہ س بات سے بخوبی ہوسکتا ہے جب 3مارچ 1924ء کو مصطفی کمال اتاترک نے بنو عثمان کی خلافت کا خاتمہ کرکے جمہوریہ ترکی کی بنا ڈالی تو ہر طرف سے مسلمانوں نے اس اقدام کی شدید مخالف کی، دنیا بھر کے مسلمان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اب خود اسلام کی عمارت متزلزل ہوجائے گی۔

ہندوستان متحدہ کے مسلمان بھی اتاترک کی مخالفت میں کسی سےس پیچھے نہ رہے اور تحریک خلافتان کے انہیں جذبات کا اظہار تھا ہر مسلمان کی یہ خواہش تھی کہ خلافت کا احیاء کیا جائے اور اگر یہ ادارہ مٹ گیا تو مسلمانوں کی جمعیت پریشان ہوجائے گی اور اسلام کا استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ شریف حسین شاہ نے حجاز میں کچھ دیر کے لیے خلافت کا منصب سنبھالنے پر آمادہ ہو گئے لیکن جلدی ہی دست بردار بھی ہوگئے۔ ان کے بعد مصر میں فواد اول نے علماء اسلام کی ایک کانفرنس بلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ خلافت کا احیاء کیا جائے۔

مصر کے مفتی اعظم شیخ علی نے شیخ علی کی کتاب کے جواب میں ایک کتاب حقیقۂ الاسلام و اصول الحکمکے نام سے 1926ء میں لکھی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ خلافت اسلام کا رکن اول ہے اور اس کے مخالے اسلام کے مخالف ہیں، شیخ علی کے مخالفوں میں مفتی محمد عبدہ کے شاگرد شیخ رشید رضا بھی شامل ہیں جو خلافت کے حامی تھے شیخ رشید رضا کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت ایک ایسا ادارہ ہے جس سے منکر مسلمان نہیں ہوسکتے، ترکی میں خلافت کے خاتمے پر رشید رضا نے خلافت کے احیاء کے لیے پوری جد و جہد کی اور جب مملکت نجد و حجاز میں وہابی خاندان برسر اقتدار آیا تو رشید رضا کو بھی ایک نئی امید پیدا ہوچلی کہ شاید اب خلافت کی تجدید ہوجائے لیکن بد قسمتی سے شاہ ابن سعود نے اس منصب کی ذمہ داری اٹھانے کی ہامی نہ بھری۔

اسلام اور اصول حکومت کے اجزاء

اس کتاب کے تین اجزاء ہیں: (1) خلافت اور اسلام جس کے تین باب ہیں:

  • خلافت اور اس کا مفہوم
  • خلافت کی قانونی حیثيت
  • خلافت، اجماعیت کے نقطہ نظر سے۔

(2) حکومت اور اسلام اس کے بھی تین باب ہیں:

  • عہد نبوی میں نظام حکومت
  • رسالت اور حکومت
  • نبوت نہ کہ حکومت، دین نہ کہ دولت۔

(3) خلافت اور حکومت تاریخ میں، اس کے بھی تین باب ہیں:

  • وحدت دینی اور عرب
  • دولا عربیہ
  • خلافت اسلامی [2]۔

علمی آثار

  • الإسلام وأصول الحكم
  • الإجماع في الشريعة الإسلامية
  • آثار الشيخ مصطفى عبد الرازق
  • تاريخ البيان[3]۔

حوالہ جات

  1. محاضراتِ شریعت :ص287
  2. شیخ علی عبد الرزاق، اسلام اور اصول حکومت، ترجمہ، راجا محمد فخر ماجد، بزم اقبال لاہور، 1995ء،ص9۔
  3. شارع على عبد الرازق(شاہراہ علی عبد الرازق)- streetstory.gov.eg-اخذ شدہ بہ تاریخ: 24اپریل 2024ء۔