علی جمعہ

ویکی‌وحدت سے
علی جمعہ
علی جمعہ.jpg
ذاتی معلومات
پیدائش1953 ء، 1331 ش، 1372 ق
پیدائش کی جگہمصر
وفات2017 ء، 1395 ش، 1437 ق
یوم وفات3مارچ
اساتذہ
  • عبدالله بن صدق غمارى
  • عبدالفتاح ابوغده
  • احمد مرسى
  • عبدالعزیز غمارى
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • النبي صلى الله عليه وسلم
  • النبراس في تفسير القرآن الكريم
  • الحج والعمرة أسرار وأحكام
مناصب
  • مصر کے مفتی
  • الازہر یونیورسٹی میں اصول فقہ کے پروفیسر
  • ہندوستان میں اسلامی فقہ کانفرنس کے رکن
ویب سائٹhttps://www.draligomaa.com

علی جمعہ، ایک اسلامی اسکالر، فقیہ، عالم اور مصر کے سابق مفتی ہیں۔۔ انہوں نے 2003ء سے 2013ء مصر کے اٹھارویں مفتیِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 2008ء میں "یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ" اور "دی نیشنل" کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ قابل احترام اسلامی فقہا میں سے ایک قرار دیا گیا اور دی نیویارکر کے مطابق ایک انتہائی جدید اعتدال پسند مسلمان راہنما، صنفی مساوات اور "شدت پسندوں کے لیے نفرت کی علامت: اور اتحاد کے علمبردار قرار دیا گیا۔

سوانح عمری اور تعلیم

علی جمعہ 3 مارچ 1952 کو صوبہ بنی سیف میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1969ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعد قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1973 میں بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے قرآن حفظ کیا اور فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں اپنے فارغ وقت میں حدیث اور فقہ شافعی کا مطالعہ کرتے تھے۔ 1973ء میں جامعہ عین شمس سے بی کام پاس کرنے کے بعد انہوں نے دنیا میں اعلیٰ اسلامی تعلیم کے قدیم ترین فعال اسلامی ادارے جامعہ الازہر، قاہرہ میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے انہوں نے اسلامی علوم میں بی اے کی دوسری ڈگری حاصل کی، پھر ایم اے اور آخر کار 1988ء اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی۔[10] تب تک علی جمعہ نے جامعہ الازہر کے ہائی اسکول کا نصاب نہیں پڑھا تھا پھر ان بنیادی متون کو حفظ کرنے کے لیے انہوں نے خود سے وہ نصاب پڑھایا جس کو دیگر طلبہ وہاں پہلے سالوں میں پڑھتے تھے [1]۔

تدریس

انہوں نے ایم پاس کرنے کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم کی فیکلٹی میں پہلے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، پھر ایک مکمل پروفیسر کے طور پر تدریس کی۔ جب آپ مفتی اعظم مقرر ہو گئے تو علی جمعہ عقیدہ، تفسیر، حدیث، فقہ اور اسلامی تاریخ کے استاد ہونے کے ساتھ ایک صوفی کے طور پر ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔

اتحاد المسلمین کے بارے میں ان کا نظریہ

جنہوں نے اسلامی صفوں کے اتحاد کی دعوت دینے اور اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔۔آپ تاریخ، سیرت اور فقہ کے مطالعہ کے ذریعے، اتحاد بین المسلمین اور تقریب کے مضبوط بنیادیں ہونے کا قا‏ئل ہیں۔ ان کے بہت سارے نظریات ہیں جن میں سے بعض سے ہم اختلاف اور بعض سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کے مسئلے کو سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ اور اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی۔

اتحاد اور تقریب مذاہب اسلامی کے بہت سے مسائل پر ان کی آراء ہمارے نظریات سے ہم آہنگ اور متفق ہیں کہ جیسے غزہ پر حملے کے بارے میں ان کا مؤقف، نیز تہذیبوں کے یس ڈائیلاگ اور گقتگو۔ جب ان سے ابل سنت اور شیعوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا کہ شیعہ اور سنیوں ک درمیاں کیسے دیکھتے ہیں تو ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا: بہت سارے عوامل کے ایسے ہیں جن کے ذریعے سنیوں اور شیعوں کو ایک دوسرے قریب لاتے سکتے ہیں اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرسکتے ہیں۔ اور ان کے درمیان متنازعہ مسائل بہت کم ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان علماء کی سطح پر بات چیت کبھی نہیں رکی، اور یہ زیادہ تر معاملات میں کھلے دل اور نیک نیتی کے ساتھ انتظام کیا جاتا ہے۔ جمعہ نے اسلامی میدان کو کمزور کرنے کے لیے متعدد عالمی کوششوں کے وجود کی تصدیق کی، ایک عملی میکانزم کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جسے علماء اور بزرگان دین استعمال کرے گے اور کام کرے گے تاکہ اتحاد کی کوششوں اور باہمی ربط کے مسائل کو عملی میدان میں تبدیل کیا جا سکے [2]۔

ابن تیمیہ الازہر کے ہاں کوئی معتبر سند نہیں اگر وہ داعش کو دیکھتا تو اپنے جوتے سے مارتا دبئی، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ مصر کے سابق مفتی اعظم ڈاکٹر علی گوما نے کہا ہے کہ ابن تیمیہ ایک بہت ہی باشعور عالم تھے، لیکن ان کے پاس کوئی معتبر شحص نہیں تھا، اور ان میں کئی چیزیں موجود تھیں، جن میں وہ ایک تیز ذہانت اور مزاج کا حامل تھا لیکن اس نے عقیدہ کے میدان کافی غلطیاں کی ہے۔

جمعہ نے سی بی سی سیٹلائٹ پر نشر ہونے والے پروگرام واللہ اعلم میں انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابن تیمیہ عجیب و غریب باتیں لے کر آئے ہیں جو لوگوں کے فہم کے خلاف ہیں، انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ الازہر ان کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا اور انہیں ماخذ نہیں مانتا۔ علی جمعہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ابن تیمیہ کے فتوے میں بہت سی غلطیاں شامل ہیں کہا: داعش نے ان حصوں میں سے کچھ حصہ لیا جن سے ہم متفق نہیں ہیں اور ان کی کچھ باتوں کا سہارا لیا ہے تاکہ مسلمانوں پر کفر فتوی کا جاری کیا جائے اور پھر دنیا کے ساتھ ٹکراؤ اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا جائے کیونکہ وہ تقریب اور اتحاد کے دشمن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ابن تیمیہ دیکھ لیتے کہ داعش کیا کر رہی ہے تو وہ انہیں جوتے مارتا کیونکہ ان کا مذہب، دنیا یا کسی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے [3]۔

عہدے

  • 28 ستمبر 2003 سے 2013 تک عرب جمہوریہ مصر کے مفتی؛
  • 2004 سے الازہر اسلامک ریسرچ گروپ کا رکن؛
  • فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربی اسٹڈیز کا سربراہ،
  • الازہر یونیورسٹی میں اصول فقہ کے پروفیسر؛
  • ہندوستان میں اسلامی فقہ کانفرنس کے رکن؛
  • الازہر سینئر علماء کونسل کے رکن؛
  • جدہ میں اسلامی عالمی کانفرنس آرگنائزیشن کی فقہ اکیڈمی کے رکن؛
  • 1995 سے 1997 تک الازہر فتویٰ کمیٹی کے رکن رہے [4]۔

تعلیمی سرگرمیاں

  • اکیڈمی کی طرف سے جاری کردہ بنیادی اصطلاحات کے انسائیکلوپیڈیا کی تیاری میں عربی زبان اکیڈمی میں ماہر کی حیثیت سے حصہ لیا۔
  • مذکورہ کالج کے کھلنے تک سلطنت عمان میں کالج آف شریعہ کے نصاب کو تیار کرنے میں حصہ لیا اور بانی رکن کی حیثیت سے افتتاح میں حصہ لیا۔
  • واشنگٹن میں یونیورسٹی آف اسلامک اینڈ سوشل سائنسز (SISS) کے نصاب کو تیار کرنے میں حصہ لیا۔
  • 1994 میں مراکش کے بادشاہ حسن دوم کی موجودگی میں درس دیا اور ہر سال اس درس میں مدعو کیا جاتا ہے۔
  • مصر کی ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ اورینٹل اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ سپروائزر مقرر ہوئے۔
  • آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی اور عربی علوم میں مشرق وسطیٰ کے لیے ایسوسی ایٹ سپروائزر مقرر کیا گیا۔
  • ملائیشیا میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی نمائندگی کی اور اس کے ثقافتی لیکچرز اور ان کی پروموشن کمیٹیوں میں اسسٹنٹ پروفیسرز اور اساتذہ کی تشخیص میں حصہ لیا۔
  • انہیں جمعہ کا خطبہ دیا گیا اور 1998 سے اب تک سلطان حسن مسجد میں شافعی فقہ کا مطالعہ کیا۔
  • روزانہ فجر کی نماز کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم میں ورثے کی کتابیں پڑھ کر تقریباً دوپہر تک پڑھاتے رہے، اس طرح آزادانہ علوم کی بنیادیں ڈالیں۔
  • دنیا بھر کی کئی یونیورسٹیوں کے لیے پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی کے لیے علمی پیداوار کی جانچ میں حصہ لیا۔

علمی آثار

کتاب

  • قضيۂ المصطلح، 1991م.
  • شرح تعريف القياس، 1991م.
  • المصطلح الأصولي والتطبيق على تعريف القياس، 1993م.
  • أثر ذهاب المحل في الحكم،1993م
  • قضية تجديد أصول الفقه، 1993م.
  • الحكم الشرعی عند الأصوليين، 1993م ، 2002م.
  • الإجماع عند الأصوليين. 1995م ، 2002م
  • علاقة أصول الفقه بالفلسفة.1996م ، 2002م
  • المصطلح الأصولی ومشكلة المفاهيم. 1996م ، 2004م.
  • المدخل لدراسة المذاهب الفقهية الإسلامية. 1996م ، 2004م، 2010م.
  • الأوامر والنواھی عند الأصوليين. 1997م.
  • آليات الاجتهاد. 1997م ، 2004م
  • مدى حجية الرؤيا.1997م، 2002م ، 2004م
  • القياس عند الأصوليين. 1997م ، 2006م.
  • المكاييل والموازين الشرعية. 1998م ، 2001م ، 2002م.
  • النسخ عند الأصوليين. 1998م ، 2005م
  • بناء المفاهيم دراسة معرفية ونماذج تطبيقية،1998، 2008م.
  • لإمام الشافعی ومدرسته الفقهية. 2000م ، 2004م.
  • قول الصحابی عند الأصوليين. 2001، 2004م.
  • شبهات وإجابات حول الجهاد فی الإسلام، 2002م ، 2005م.
  • حقائق الإسلام في مواجهة شبهات المشككين، 2002م.
  • الإمام البخاری وصحيحه. 2002م ، 2007م
  • ضوابط التجديد الفقهی، 2003م.
  • تعارض الأقيسة عند الأصوليين والترجيح بينها 2004.
  • الدين والحياة .. فتاوى معاصرة. 2004م ، 2004م ط2، 2005 ط3، 2006م ط4.
  • الطريق إلى التراث، 2004م، 2007م ط3.
  • خصائص الثقافة العربية والإسلامية۔ 2005م.
  • موسوعة الحضارة الإسلامية، 2005م
  • الكلم الطيب .. فتاوى عصرية. الجزء الأول. 2005م، 2006م ط2.
  • البيان لما يشغل الأذهان. الجزء الأول. 2005م، 2006م، 2010م۔
  • محاضرات فی فقه التصوف
  • تيسير النهج في شرح مناسك الحج. 2006م.
  • المرأة في الحضارة الإسلامية. 2006م.
  • سمات العصر .. رؤية مهتم. 2006م.
  • سيدنا محمد رسول الله للعالمين. 2006م.
  • الكامن في الحضارة الإسلامية. 2006م.
  • المرأة بين إنصاف الإسلام وشبهات الآخر. 2006م.
  • حقيقة الإسلام وما حوله من شبهات،2006م.
  • سبيل المبتدئين في شرح البدايات من منازل السائرين، 2007م.
  • الكلم الطيب .. فتاوى عصرية. الجزء الثاني 2007م
  • الفتاوى العصرية لمفتی الديار المصرية. 2007م.
  • الإفتاء بين الفقه والواقع. 2007م.
  • الوحي والقرآن الكريم. 2007م.
  • التربية والسلوك. 2007م.
  • الطريق إلى الله. 2007م.
  • ختان الإناث ليس من شعائر الإسلام،(2007).
  • النبي صلى الله عليه وسلم. 2007م.
  • النبراس في تفسير القرآن الكريم 2008م.
  • الحج والعمرة أسرار وأحكام. 2008م.
  • خطوات الخروج من المعاصی. 2008م.
  • الفتاوى الرمضانية. 2008م.
  • مجالس الصالحين الرمضانية. 2008م.
  • الدعاء والذكر. 2008م.
  • التجربة المصرية. 2008م.
  • صناعة الإفتاء. 2008م.
  • قضايا المرأة في الفقه الإسلامی، 2008م.
  • النقاب عادة وليس عبادة، الرأي الشرعی في النقاب بأقلام كبار العلماء، (2008).
  • البيان لما يشغل الأذهان، 2009م.
  • فتاوى البيت المسلم. 2009م.
  • البيئة والحفاظ عليها من منظور إسلامی، 2009م.
  • فتاوى النساء. 2010م.
  • من نبيك! هو سيدنا محمد المصطفى صلى الله عليه وسلم. 2010م.
  • حاكموا الحب! 2010م.
  • المنهجية الإسلامية (بالاشتراك) 2010
  • إعداد برنامج التربية الأخلاقية في السنة النبوية 2010م۔
  • فتاوى المرأة المسلمة 2010
  • أعرف نبيك المصطفى صلى الله عليه وسلم، 2011۔
  • المتشددون 2011.
  • ترتيب مقاصد الشريعة الإسلامية 2011.
  • عقيدة أهل السنة والجماعة 2011.
  • النماذج الأربعة من هدي النبي في التعايش مع الآخر(2013) [5]۔

مقالات

  • الوقف فقها وواقعا.
  • الرقابة الشرعية مشكلاتها وطرق تطويرها۔
  • الزكاة
  • حقوق الإنسان من خلال حقوق الأكوان فی الإسلام۔
  • النموذج المعرفی الإسلامی۔
  • الإمام محمد عبده مفتيا.
  • التسامح الإسلامی.
  • الإسلام بين أعدائه وأدعيائه.
  • الإسلام يتفق ولا يصطدم ومبادئ السلام والعدل الدوليين.
  • النفس ومراتبها.
  • اقتراح عقد تمويل من خلال تكييف العملة الورقية كالفلوس في الفقه الإسلامی.
  • ضوابط التجديد الفقهی.
  • الإفتاء حقيقته - وآدابه – ومراحله
  • النقاب عادة وليس عبادة
  • ختان الإناث

کتابوں کی تحقیق اور جائزہ

  • ریاض الصالحین، امام النووی، دار الکتاب اللبانی(تحقیق و تفسیر) 1991ء۔
  • مجمل، المبین، النسخ، سنت اور الاجماع، ڈاکٹر عبداللہ ربیع کی طرف سے شائع کردہ دارا النہار (پیشکش اور جائزہ)۔
  • قانون سازی کا موازنہ: دیوانی اور فوجداری قانون کا اطلاق امام مالک کے نظریے پر، مخلوف بن محمد البداوی المناوی (دو جلدیں دارالسلام نے جاری کیا) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ طور پر)
  • حج و عمرہ، احکام و دعائیں از عصام انس، جاری کردہ دارالسلام (جائزہ شدہ)۔
  • ابن نجیم کے معاشی مقالے، جسے حنفی مکتبہ فکر (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) میں 1999ء۔
  • الفارق از القرافی، شائع شدہ دارالسلام (4 جلدیں) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2001ء۔
  • الاموال از ابو جعفر احمد بن نصر الداؤدی (دارالسلام) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2001ء۔
  • شرح الدرر السنية في نظم السيرة النبوية، از الاجوری از علی بن محمد الاجوری المالکی، سپریم کونسل برائے اسلامی امور کی طرف سے جاری کردہ (2 حصے) (جائزہ) 2001-2009ء۔
  • ينابيع الأحكام في معرفة الحلال والحرام، از ابو عبداللہ محمد بن زنکی الاصفرینی (سپریم کونسل برائے اسلامی امور کی طرف سے جاری کردہ) (تین حصے) 2001-2010 عیسوی۔
  • اصولیین کے مطابق استدلال، از ڈاکٹر اسد الکفراوی (پیش کردہ اور زیر نگرانی) 2002 AD۔
  • جامع المناسک، حج و عمرہ کے احکام، از عصام انس، شائع شدہ از زاد اکنامک گروپ (نگرانی اور جائزہ)، 2003ء۔
  • جامع المناسك شرح حجة النبي صلى الله عليه وسلم،عصام انس، شائع شدہ از زاد اکنامک گروپ (نگرانی اور جائزہ)، 2003ء۔
  • لسر الحقي الامتناني الواصل إلى ذاكر الراتب الكتاني، از عبد الحی بن عبد الکبیر الکطانی، 2003ء۔
  • تیرہویں اور چودھویں صدی ہجری میں الازہر الشریف میں شرعی نصاب کی تاریخ بذریعہ پروفیسر عصام انس (نگرانی)
  • بیان المختصر، جو ابن الحجیب کے اصول فقہ (مطالعہ اور تحقیقات) کے خلاصہ کی وضاحت ہے، 2004ء۔
  • امام محمد عبدہ کے فتاویٰ، (تیار شدہ اور تصدیق شدہ) 2005ء۔
  • اسلامی تجربے میں علماء کا سیاسی کام، پروفیسر حنا عبدالرحمٰن البیدانی، مصری نہدہ لائبریری (نگرانی) نے 2005ء میں شائع کیا۔
  • محمد قادری پاشا (4 جلدیں، دارالسلام) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2005ء۔
  • قرآن پاک میں قوموں اور افراد کے بارے میں الہی قوانین، اصول اور کنٹرول، ڈاکٹر مجدی اشور کی طرف سے، دارالسلام، 2006ء۔
  • يوسف عليه السلام بين القرآن الكريم وكتب السابقين، لائبریری آف فیتھ (ان کے سامنے پیش کردہ) 2006ء میں شائع ہوئی۔
  • لكتاب الذهبي الفتوى الكبرى للفقهاء العالمين الأزهر- قاہرہ (ان کی طرف سے پیش کردہ) 2006ء۔

تحقیقاتی امور کی نگرانی

  • کمپیوٹر میں سنت کی کتابیں داخل کرنا، بازیافت کے پروگرام بنانا، اور اسلامک تھیسورس سوسائٹی کی سات کتابوں کو چھاپنا (19 جلدوں میں)۔
  • اسلامک اکنامکس پروجیکٹ (38 حصے)، قاہرہ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ نے چھاپا۔
  • بین الاقوامی تعلقات پروجیکٹ (12 حصے) ایک ہی پبلشر۔
  • اسلامی بینکوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے معیارات کی تیاری۔ وہی پبلشر۔
  • اسلامک اکنامک ہیریٹیج پروجیکٹ (125 جلدیں)، مرکز برائے فقہی مطالعات۔
  • اسلامک اکنامکس تھیسورس کی تیاری۔
  • ویتی وزارت اوقاف 2004 کے جنرل سیکرٹریٹ کے جاری کردہ تھیسورس آف اینڈومنٹ سائنسز کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے۔
  • صالح عبداللہ کامل سینٹر میں اسلامی معاشیات کے تعارف کی تیاری۔
  • الراجحی بینکنگ کمپنی کے فتووں کے مطالعہ (3 جلدوں) کی تیاری میں شرکت۔
  • فقہی اصطلاحات کی لغت کی تیاری کی نگرانی، 2003۔

علمی جرائد اور مقالوں کی تدوین میں شرکت

  • جرنل آف اسلامک اکنامکس، صالح کامل سنٹر
  • جامعہ الازہر کی طرف سے جاری کردہ ایسوسی ایشن آف عرب یونیورسٹیز (شریعہ) کا جریدہ۔
  • معاصر مسلم میگزین۔
  • تجدید رسالہ۔
  • اسلامی علمی رسالہ۔
  • کالج آف اسلامک اینڈ عرب اسٹڈیز کا جریدہ۔
  • دار الافتاء خصوصی سہ ماہی رسالہ۔
  • انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے جاری کردہ یونیورسٹی کے مقالوں کی سیریز۔
  • اسلامی معاشیات میں مطالعہ کا سلسلہ
  • بین الاقوامی تعلقات پروجیکٹ سیریز
  • اسلامی طریقہ کار کا سلسلہ
  • علمی- تحقیقی سلسلہ
  • ورثہ کی سہولت کا سلسلہ
  • اسلامی فکر کے مسائل پر سلسلہ
  • تصورات اور اصطلاحات کا سلسلہ
  • اسلامی فکر کے مسائل پر سلسلہ

حوالہ جات

  1. فضيلة الأستاذ الدكتور علي جمعة(جناب ڈاکٹر علی جمعہ)-ifta-learning.net(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔
  2. ما یجمعنا الکثیر، والحوار والتواصل لم یتوقفا قط (الحوار) (اتحاد کے راہیں بہت ہیں اور گفتگو اور مذاکرے کبھی نہیں رکے)-sid.ir(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:23اپریل 2024ء۔
  3. شاهد.. علي جمعة: ابن تيمية ليس مصدراً للأزهر.. ولو رأى الدواعش كان "حيضربهم بالجزمة"(علی جمعہ کو مشاہدہ کرو۔۔۔ابن تمیمیہ الازہر کا معتبر ماخذ نہیں ہے اگر وہ داعش کو دیکھتا تو انہیں جوتوں سے مارتا)-arabic.cnn.com(عربی زبان)-شائع شدہ از: 28نومبر 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔
  4. السيرة الذاتية(یعنی سوانح عمری)-draligomaa.com(عربی زبان)-شا‏ئع شدہ از:4جنوری2014ء-اخذ شدہ بہ تاریخ 22اپریل 2024ء۔
  5. قائمة مؤلفات أ.د علي جمعة(ڈاکٹر علی جمعہ کی کتابوں کی فہرست)-draligomaa.com(عربی زبان)-شائ‏ع شدہ از:19دسمبر 2014ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:23اپریل 2024ء۔