"علی جمعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م (Mahdipor نے صفحہ مسودہ:علی جمعہ کو علی جمعہ کی جانب بدون رجوع مکرر منتقل کیا)
 
(ایک ہی صارف کا 6 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 18: سطر 18:
| website =  https://www.draligomaa.com
| website =  https://www.draligomaa.com
}}
}}
'''علی جمعہ،''' ایک اسلامی اسکالر، فقیہ، عالم اور [[مصر]] کے سابق مفتی ہیں۔۔ انہوں نے 2003ء سے 2013ء مصر کے اٹھارویں مفتیِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 2008ء میں "یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ" اور "دی نیشنل" کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ قابل احترام اسلامی فقہا میں سے ایک قرار دیا گیا اور دی نیویارکر کے مطابق ایک انتہائی جدید اعتدال پسند مسلمان راہنما، صنفی مساوات اور "شدت پسندوں کے لیے نفرت کی علامت: اور اتحاد کے علمبردار قرار دیا گیا۔
'''علی جمعہ،''' اسلامی اسکالر، فقیہ، عالم اور [[مصر]] کے سابق مفتی ہیں۔۔ انہوں نے 2003ء سے 2013ء مصر کے اٹھارویں مفتیِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 2008ء میں "یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ" اور "دی نیشنل" کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ قابل احترام اسلامی فقہا میں سے ایک قرار دیا گیا اور دی نیویارک کے مطابق ایک انتہائی جدید اعتدال پسند مسلمان راہنما، منصف، شدت پسندوں کے لیے نفرت کی علامت اور اتحاد کے علمبردار قرار دیا گیا۔
== سوانح عمری اور تعلیم ==
== سوانح عمری اور تعلیم ==
علی جمعہ 3 مارچ 1952 کو صوبہ بنی سیف میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1969ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعد قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1973 میں بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے [[قرآن]] حفظ کیا اور فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی۔
علی جمعہ 3 مارچ 1952 کو صوبہ بنی سیف میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1969ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعد قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1973 میں بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے [[قرآن]] حفظ کیا اور فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی۔
آپ اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں اپنے فارغ وقت میں [[حدیث]] اور [[فقہ]] شافعی کا مطالعہ کرتے تھے۔ 1973ء میں جامعہ عین شمس سے بی کام پاس کرنے کے بعد انہوں  نے دنیا میں اعلیٰ اسلامی تعلیم کے قدیم ترین فعال اسلامی ادارے جامعہ الازہر، قاہرہ میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے انہوں نے اسلامی علوم میں بی اے کی دوسری ڈگری حاصل کی، پھر ایم اے اور آخر کار 1988ء اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی۔[10] تب تک علی جمعہ نے جامعہ الازہر کے ہائی اسکول کا نصاب نہیں پڑھا تھا پھر ان بنیادی متون کو حفظ کرنے کے لیے انہوں نے خود سے وہ نصاب پڑھایا جس کو دیگر طلبہ وہاں پہلے سالوں میں پڑھتے تھے
آپ اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں اپنے فارغ وقت میں [[حدیث]] اور [[فقہ]] شافعی کا مطالعہ کرتے تھے۔
1973ء میں جامعہ عین شمس سے بی کام پاس کرنے کے بعد انہوں  نے دنیا میں اعلیٰ اسلامی تعلیم کے قدیم ترین فعال اسلامی ادارے جامعہ الازہر، قاہرہ میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے انہوں نے اسلامی علوم میں بی اے کی دوسری ڈگری حاصل کی، پھر ایم اے اور آخر کار 1988ء اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی۔ تب تک علی جمعہ نے جامعہ الازہر کے ہائی اسکول کا نصاب نہیں پڑھا تھا پھر ان بنیادی متون کو حفظ کرنے کے لیے انہوں نے خود سے وہ نصاب پڑھایا جس کو دیگر طلبہ وہاں پہلے سالوں میں پڑھتے تھے
<ref>[https://ifta-learning.net/node/60 فضيلة الأستاذ الدكتور علي جمعة](جناب ڈاکٹر علی جمعہ)-ifta-learning.net(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔
<ref>[https://ifta-learning.net/node/60 فضيلة الأستاذ الدكتور علي جمعة](جناب ڈاکٹر علی جمعہ)-ifta-learning.net(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔


== تدریس ==
== تدریس ==
انہوں نے ایم پاس کرنے کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم کی فیکلٹی میں پہلے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، پھر ایک مکمل پروفیسر کے طور پر تدریس کی۔ جب آپ مفتی اعظم مقرر ہو گئے تو علی جمعہ عقیدہ، تفسیر، حدیث، فقہ اور [[اسلامی تاریخ]] کے استاد ہونے کے ساتھ ایک صوفی کے طور پر ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔
انہوں نے ایم پاس کرنے کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم کی فیکلٹی میں پہلے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، پھر ایک مکمل پروفیسر کے طور پر تدریس کی۔ جب آپ مفتی اعظم مقرر ہو گئے تو علی جمعہ عقائد، تفسیر، حدیث، فقہ اور [[اسلامی تاریخ]] کے استاد ہونے کے ساتھ ایک صوفی کے طور پر ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔
 
== اتحاد المسلمین کے بارے میں ان کا نظریہ ==
== اتحاد المسلمین کے بارے میں ان کا نظریہ ==
جنہوں نے اسلامی صفوں کے اتحاد کی دعوت دینے اور اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔۔آپ تاریخ، سیرت اور فقہ کے مطالعہ کے ذریعے، اتحاد بین المسلمین اور تقریب کے مضبوط بنیادیں ہونے کا قا‏ئل ہیں۔ ان کے بہت سارے نظریات ہیں جن میں سے بعض سے ہم اختلاف اور بعض سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کے مسئلے کو سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ اور اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی۔
انہوں نے اسلامی صفوں کے اتحاد کی دعوت دینے اور اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آپ تاریخ، سیرت اور فقہ کے مطالعہ کو اتحاد بین المسلمین اور تقریب کے مضبوط بنیادیں ہونے کا قا‏ئل ہیں۔ ان کے بہت سارے نظریات ہیں جن میں سے بعض سے ہم اختلاف اور بعض سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کے مسئلے کو سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ اور اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی۔


اتحاد اور تقریب مذاہب اسلامی کے بہت سے مسائل پر ان کی آراء ہمارے نظریات سے ہم آہنگ اور متفق ہیں کہ جیسے غزہ پر حملے کے بارے میں ان کا مؤقف، نیز تہذیبوں کے یس ڈائیلاگ اور  گقتگو۔ جب ان سے ابل سنت اور شیعوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا کہ شیعہ اور سنیوں ک درمیاں کیسے دیکھتے ہیں تو ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا: بہت سارے عوامل کے ایسے ہیں جن کے ذریعے سنیوں اور شیعوں کو ایک دوسرے قریب لاتے سکتے ہیں اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرسکتے ہیں۔ اور ان کے درمیان متنازعہ مسائل بہت کم ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان علماء کی سطح پر بات چیت کبھی نہیں رکی، اور یہ زیادہ تر معاملات میں کھلے دل اور نیک نیتی کے ساتھ انتظام کیا جاتا ہے۔ جمعہ نے اسلامی میدان کو کمزور کرنے کے لیے متعدد عالمی کوششوں کے وجود کی تصدیق کی، ایک عملی میکانزم کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جسے علماء اور بزرگان دین استعمال کرے گے اور کام کرے گے  تاکہ اتحاد کی کوششوں اور باہمی ربط کے مسائل کو عملی میدان میں تبدیل کیا جا سکے
اتحاد اور تقریب مذاہب اسلامی کے بہت سے مسائل پر ان کی آراء ہمارے نظریات سے ہم آہنگ اور متفق ہیں کہ جیسے [[غزہ]] پر حملے کے بارے میں ان کا مؤقف، نیز تہذیبوں کے آپس ڈائیلاگ اور  گقتگو۔ جب ان سے [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] اور [[شیعہ|شیعوں]] کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا کہ شیعہ اور سنیوں کے درمیاں اتحاد کو کیسے دیکھتے ہیں تو ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا: بہت سارے عوامل ایسے ہیں جن کے ذریعے سنیوں اور شیعوں کو ایک دوسرے سے قریب لاتے سکتے ہیں اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرسکتے ہیں۔ اور ان کے درمیان متنازعہ مسائل بہت کم ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان علماء کی سطح پر بات چیت کبھی نہیں رکی، اور یہ زیادہ تر معاملات میں کھلے دل اور نیک نیتی کے ساتھ انتظام کیا جاتا ہے۔ جمعہ نے اسلامی میدان کو کمزور کرنے کے لیے متعدد عالمی کوششوں کے وجود کی تصدیق کی، ایک عملی میکانزم کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جسے علماء اور بزرگان دین استعمال کرے اور کام کرے تاکہ اتحاد کی کوششوں اور باہمی رابط کے مسائل کو عملی میدان میں تبدیل کیا جا سکے
<ref>[https://www.sid.ir/paper/449813/fa ما یجمعنا الکثیر، والحوار والتواصل لم یتوقفا قط (الحوار)] (اتحاد کے راہیں بہت ہیں اور گفتگو اور مذاکرے کبھی نہیں رکے)-sid.ir(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:23اپریل 2024ء۔</ref>۔
<ref>[https://www.sid.ir/paper/449813/fa ما یجمعنا الکثیر، والحوار والتواصل لم یتوقفا قط (الحوار)] (اتحاد کے راہیں بہت ہیں اور گفتگو اور مذاکرے کبھی نہیں رکے)-sid.ir(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:23اپریل 2024ء۔</ref>۔


ابن تیمیہ الازہر کے ہاں کوئی معتبر سند نہیں اگر وہ داعش کو دیکھتا تو اپنے جوتے سے مارتا
ابن تیمیہ الازہر کے ہاں کوئی معتبر سند نہیں اگر وہ داعش کو دیکھتا تو اپنے جوتے سے مارتا
دبئی، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ مصر کے سابق مفتی اعظم ڈاکٹر علی گوما نے کہا ہے کہ ابن تیمیہ ایک بہت ہی باشعور عالم تھے، لیکن ان کے پاس کوئی معتبر شحص نہیں تھا، اور ان میں کئی چیزیں موجود تھیں، جن میں وہ ایک تیز ذہانت اور مزاج کا حامل تھا لیکن اس نے عقیدہ کے میدان کافی غلطیاں کی ہے۔
دبئی، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ مصر کے سابق مفتی اعظم ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا ہے کہ ابن تیمیہ ایک بہت ہی باشعور عالم تھے، لیکن ہمارے نزدیک وہ کوئی معتبر شحص نہیں تھا، اور ان میں کئی چیزیں موجود تھیں، جن میں وہ ایک تیز ذہانت اور مزاج کا حامل تھا لیکن اس نے عقیدہ کے میدان کافی غلطیاں کی ہے۔


جمعہ نے سی بی سی سیٹلائٹ پر نشر ہونے والے پروگرام '''واللہ اعلم''' میں انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابن تیمیہ عجیب و غریب باتیں لے کر آئے ہیں جو لوگوں کے فہم کے خلاف ہیں، انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ الازہر ان کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا اور انہیں ماخذ نہیں مانتا۔
جمعہ نے سی بی سی سیٹلائٹ پر نشر ہونے والے پروگرام '''واللہ اعلم''' میں انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابن تیمیہ عجیب و غریب باتیں لے کر آئے ہے جو لوگوں کے فہم کے خلاف ہیں، انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ الازہر ان کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا اور انہیں ماخذ نہیں مانتا۔
علی جمعہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ابن تیمیہ کے فتوے میں بہت سی غلطیاں شامل ہیں کہا: داعش نے ان حصوں میں سے کچھ حصہ لیا جن سے ہم متفق نہیں ہیں اور ان کی کچھ باتوں کا سہارا لیا ہے تاکہ مسلمانوں پر کفر فتوی کا جاری کیا جائے اور پھر دنیا کے ساتھ ٹکراؤ اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا جائے کیونکہ وہ تقریب اور اتحاد کے دشمن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ابن تیمیہ دیکھ لیتے کہ داعش کیا کر رہی ہے تو وہ انہیں جوتے مارتا کیونکہ ان کا مذہب، دنیا یا کسی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے
علی جمعہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ابن تیمیہ کے فتوے میں بہت سی غلطیاں شامل ہیں کہا: داعش نے ان حصوں میں سے کچھ حصہ لیا جن سے ہم متفق نہیں ہیں اور ان کی کچھ باتوں کا سہارا لیا ہے تاکہ مسلمانوں پر کفر فتوی کا جاری کیا جائے اور پھر دنیا کے ساتھ ٹکراؤ اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا جائے کیونکہ وہ تقریب اور اتحاد کے دشمن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ابن تیمیہ دیکھ لیتے کہ داعش کیا کر رہی ہے تو وہ انہیں جوتے مارتا کیونکہ ان کا مذہب، دنیا یا کسی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے
<ref>[https://arabic.cnn.com/entertainment/2017/11/28/ali-gomaa-ibn-taymiyyah-isnt-source-alazhar شاهد.. علي جمعة: ابن تيمية ليس مصدراً للأزهر.. ولو رأى الدواعش كان "حيضربهم بالجزمة"](علی جمعہ کو مشاہدہ کرو۔۔۔ابن تمیمیہ الازہر کا معتبر ماخذ نہیں ہے اگر وہ داعش کو دیکھتا تو انہیں جوتوں سے مارتا)-arabic.cnn.com(عربی زبان)-شائع شدہ از: 28نومبر 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔
<ref>[https://arabic.cnn.com/entertainment/2017/11/28/ali-gomaa-ibn-taymiyyah-isnt-source-alazhar شاهد.. علي جمعة: ابن تيمية ليس مصدراً للأزهر.. ولو رأى الدواعش كان "حيضربهم بالجزمة"](علی جمعہ کو مشاہدہ کرو۔۔۔ابن تمیمیہ الازہر کا معتبر ماخذ نہیں ہے اگر وہ داعش کو دیکھتا تو انہیں جوتوں سے مارتا)-arabic.cnn.com(عربی زبان)-شائع شدہ از: 28نومبر 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔


== عہدے ==
== عہدے ==
* 28 ستمبر 2003 سے 2013 تک عرب جمہوریہ مصر کے مفتی؛  
* 28 ستمبر 2003 سے 2013 تک مصر کے مفتی؛  
* 2004 سے الازہر اسلامک ریسرچ گروپ کا رکن؛  
* 2004 سے الازہر اسلامک ریسرچ گروپ کا رکن؛  
* فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربی اسٹڈیز کا سربراہ،  
* فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربی اسٹڈیز کا سربراہ،  
سطر 66: سطر 69:
* قضيۂ المصطلح، 1991م.
* قضيۂ المصطلح، 1991م.
* شرح تعريف القياس، 1991م.
* شرح تعريف القياس، 1991م.
* المصطلح الأصولي والتطبيق على تعريف القياس، 1993م.       
* المصطلح الأصولی والتطبيق على تعريف القياس، 1993م.       
* أثر ذهاب المحل في الحكم،1993م
* أثر ذهاب المحل في الحكم،1993م
* قضية تجديد أصول الفقه، 1993م.
* قضية تجديد أصول الفقه، 1993م.
confirmed
2,364

ترامیم