علی الخفیف

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 16:41، 30 اپريل 2024ء از Mahdipor (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏اساتذہ)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
علی الخفیف
علی الخفیف.jpg
دوسرے نامشیخ علی
ذاتی معلومات
پیدائش1918 ء، 1296 ش، 1335 ق
پیدائش کی جگہمصر
وفات1978 ء، 1356 ش، 1397 ق
یوم وفات23جولائی
وفات کی جگہمصر
اساتذہ
  • شيخ أحمد إبراهيم
  • شيخ فرج السنهوری
  • شیخ علي قراعة
  • شيخ محمد الخضری
شاگرد
  • محمد أحمد أبو زهرہ
  • عبد الوهاب عزام
  • ابراهيم مدكور
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • أحكام المعاملات الشَّرعية
  • أحكام الوصية
  • أسباب اختلاف الفقهاء
  • الإرادة المنفردة فی الفقه الإسلامي
مناصب
  • وزات اوقات کا وکیل
  • یونیورسٹی کا استاد
  • مساجد کے مسوول

علی الخفیفمشہور علماء دین میں سے ہیں جو عدلیہ، قانون، انتظامی کام، قانون سازی، اور یونیورسٹی انتظامیہ کے شعبوں میں خدمات انجام دیے۔ آپ قاہرہ یونیورسٹی میں فیکلٹی آف لا کی شریعہ جوڈیشل اسکول، شرعی عدلیہ، شرعی عدالتوں، وزارت اوقاف، مساجد، لاء کالجز، اور انسٹی ٹیوٹ آف عرب اسٹڈیز میں یکے بعد دیگرے نمایاں عہدوں پر فائز رہے۔ آپ سخت محنت، اسلامی قانون کے لیے پرعزم کارکردگی، اچھے اخلاق، ثقافتی نفاست اور فکر میں ابھرتی ہوئی برتری کی ایک مثال تھے۔ انہوں نے اپنی پوری تعلیمی زندگی میں ان بہترین قانون سازوں میں سے ایک تھے جن سے لاتعداد لوگ متاثر ہوئے۔

سوانح عمری

ان کی پرورش اچھی ہوئی، کیونکہ آپ ایک مہذب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اسے بچپن سے ہی میں قرآن حفظ کرایا اور ان کے لیے اپنے دور کا اچھا مدرسہ کا انتخاب کیا۔ اور ان کے دور کے بہتریں علمی اداروں اور بہترین اساتذہ فراہم کیا گیا تاکہ آپ اپنے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر تعلیمی کامیابی حاصل کر سکے۔ اور انہوں نے اچھی اور اعلیٰ ترین تعلیمی ڈگریاں حاصل کیے۔

شیخ علی محمد الخفیف 1918ء) میں منوفیہ کے الشہداء گاؤں میں پیدا ہوئے۔ جو کہ مصر کے سب سے زیادہ زرخیز اور گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے، جو اس کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ گا‎‎‎ؤں دو ڈیلٹا دمیاط اور راشد کے درمیان واقع ہے اور جس گاؤں میں وہ پیدا ہوا تھا اس کا نام شہداء گاؤں سے مشہور ہے کیونکہ 65 ہجری میں مروان بن حکم اور اس کے سپاہی جو شام سے آئے تھے اور عبدالرحمٰن بن جحدم القرشی کے درمیان جنگیں ہوئیں ابن الزبیر کے پیروکاروں میں سے ایک اور دونوں گروہوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی اور انہیں اسی جگہ دفن کیا گیا۔ تب سے یہ اس نام سے مشہور ہے۔

تعلیم

الازہر

شیخ علی الخفیف نے حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، 1904ء میں الازہر میں داخلہ لیا۔ الازہر میں درس تدریسی حلقوں سے ہوتا تھا، جہاں سب بیٹھتے تھے۔ ایک استاد مسجد الازہر کے ستونوں میں سے ایک پر جاتا ہے اور جو بھی موجود ہوتا ہے اسے طلباء اس سے تعلیم حاصل کرلیتے تھے۔ عین ممکن ہے کہ مسجد میں ایک شیخ کسی ایک ستون پر ایک مضمون پڑھا رہا ہو اور دوسرا شیخ اسی مضمون کو دوسرے ستون پر بیٹھ کر پڑھا رہا ہو۔ استاد کے انتخاب کے حوالے سے انتخاب طالب علم پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔۔

مضامین عربی زبان اور شرعی علوم تک محدود تھے۔ دوسرے علوم، جیسے ریاضی، جغرافیہ، فلسفہ، قانون اور انتطامی علوم یہاں نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ اس وجہ سے الازہر اور اس سے منسلک مذہبی اداروں کا تعلیمی نظام، اصلاح، تبدیلی اور ترقی کی جگہ تھی۔ جیسا کہ شیخ علی الخفیف کہتے ہیں:" دینی ادارے اور ان کا نصاب! اس دور میں اس کی اصلاح اور تجدید کے لیے غور و فکر کا مرکز تھا۔

شیخ علی الخفیف کا الازہر الشریف میں قیام زیادہ دن نہیں رہا آپ وہ وہاں صرف تین سال یا اس سے کم رہے اور سال کے آخر 1906ء میں وہاں سے چلے گئے۔

اسکندریہ

شیخ علی الخفیف نے ایک ایسے علمی ادارے کی تلاش کی جو اپنی تدریس میں قدیم اور تعلیم کو یکجا کرے۔ آپ نے اس وقت صرف اسکندریہ مذہبی ادارہ پایا اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا تعلیمی ادارہ ایسا نہیں تھا۔ اس وقت مصر یونیورسٹی ابھی قائم ہوکے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اس لیے انھوں نے اسکندریہ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔ 1907ء کے اوائل میں شیخ محمد عبدہ نے یہ ادارہ قائم کیا تھا۔

شریعہ جوڈیشری سکول میں داخلہ

جب شیخ علی الخفف کو معلوم ہوا کہ شریعہ جوڈیشری سکول 1907ء کو قائم ہوا ہے، آّپ وہاں چلے گئے اور اسکندریہ انسٹی ٹیوٹ کو چھوڑ دیا، کیونکہ یہ اسکول ایک یونیورسٹی کے طور پر کام کرتا تھا۔ یہ اپنے وقت میں خوبصورت اور شاندار سکولوں میں سے تھا اور اپنے نصاب اور نظام کے اعتبار سے اسکندریہ مذہبی ادارے سے بہتر تھا۔ اس سکول کے قیام کی سوچ پرانی ہے جو مرحوم علی پاشا کی سوچ تھی۔

مبارک نے 1888ء میں جہاں انہوں نے دار میں عدلیہ اور فتویٰ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ایک خصوصی نظام تیار کیا۔ لیکن یہ تخصص جلد ہی سال (5918ء) میں منسوخ کر دیا گیا، اور پھر اسے بحال کر دیا گیا۔ شیخ محمد عبدو کا خیال اس رپورٹ میں جو انہوں نے مصر کی شرعی عدلیہ پر تیار کی ہے، انہوں نے قابل شرعی ججوں کو فارغ التحصیل کرنے کے لیے ایک اسکول قائم کرنے کی تجویز پیش کی، اور ریاست نے اس پر اتفاق کیا۔ سکول کے قیام کا فیصلہ فروری میں جاری کیا گیا، بشرطیکہ یہ الازہر کا ایک شعبہ ہو۔ اس کا ایک خاص مقام ہوگا، اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا: پہلا: عدالتوں کے لیے کتاب تیار کرنا۔ اور دوسرا حصہ: شرعی ججوں کو تربیت دے کر فارغ کرنا۔ ریاست نے مصر کے مفتی اعظم شیخ محمد عبدو پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی۔

اساتذہ

  • شيخ أحمد إبراهيم
  • شيخ فرج السنهوري
  • شیخ علي قراعة
  • شيخ محمد الخضري
  • شيخ محمد عبد المطلب
  • محمد عاطف بركات
  • شیخ محمد زید العبیانی۔

شاگرد

  • محمد أحمد أبو زهرہ
  • عبد الوهاب عزام
  • ابراهيم مدكور[1]

عہدے

شیخ علی الخفیف کئی باوقار عہدوں پر فائز رہے، جن میں شامل ہیں:

  • یونیورسٹی استاد،
  • شرعی عدلیہ اور شرعی قانون میں ذمہ دار
  • مسجد کا منتظم۔
  • وزات اوقات کا وکیل

اسلامی قانون کی معاشرتی بنیادوں کے بارے میں ان کا نظریہ

شیخ الخفیف اپنی پوری قوت کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ اسلامی قانون اپنے تمام احکام میں کوئی جدید اور اختراعی قانون نہیں ہے، بلکہ اس نے اس قانون کی منظوری دے دی جو اس سے پہلے عربوں میں رائج تھے۔ کیونکہ عرب معاشرہ بھی ایک قوم کی حیثیت سے جس میں سیاسی اور معاشی تعلقات اور شہری معاہدوں اور مالی لین دین رائج تھا۔ یہاں تک کہ ان کی سماجی حالت اس طلبکار ہوتی تھی اسی کے مطابق قوانین بنتے تھے۔

ان میں سے بہت سے رسوم و رواج جن کو شریعت نے جائز اور حلال قرار دیا گیا ہے اور جو چیز معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے اسے حرام قرار دیا ہے اور شیخ الخفیف شریعت کے معنی میں بیان کرتے تھے :" کہ شریعت نے اس لین دین کو حرام قرار دیا ہے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے لیکن شریعت ایسے معاملات کو جائز اور حلال قرار دیا ہے جو سماجی مفاد کی حدود کے اندر، ناانصافی کو ختم کرنے، حقوق کا تحفظ، اور دوسروں کو نقصان نہ پہنچائےاورفریب اور دھوکہ دہی سے دور ہو۔

اہم ترین کانفرسیں جن میں انہوں نے شرکت کی

  • اسلامی فقہ کا ہفتہ اور امام ابن تیمیہ فیسٹیول، جو 1961 میں دمشق میں منعقد ہوا تھا اور وہ اس علمی تہوار کے سب سے نمایاں تعاون کرنے والوں میں سے ایک تھے۔
  • اسلامی معاشیات پر پہلی عالمی کانفرنس، مکہ میں 1967 میں منعقد ہوئی۔
  • لیبیا یونیورسٹی میں اسلامی قانون سازی کا سمپوزیم 1972 میں منعقد ہوا۔

فقہ مقارن میں ان کا کردار

ڈاکٹر حسین خلف نے شیخ الخفیف کے بارے میں اپنی گفتگو میں جب آپ عربی لینگویج اکیڈمی میں ان کے بعد اپنی کرسی پر فائز ہوئے تو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کہ شیخ نے حقوق کے شعبہ میں جو مدت گزارای، اس میں تقریبی فقہ کی مطالعات کی تحریک کی سرگرمی سے نمایاں تھا۔ کیونکہ شیخ علی الخفیف اس میدان کے سب سے نمایاں شہسواروں میں سے ایک تھے، اور ڈاکٹر خلف نے ان کی بعض کتابیں جو فقہ مقارن کے موضوع پرلکھی گئی ہیں اشارہ کیا: التصرف الانفرادي والإرادة المنفردة 1964ء، الملكية في الشريعة الإسلامية مع مقارنتها بالقوانين العربية، 1969ء، المقارن بين المذاهب الإسلامية في فرق الزواج 1958ء۔

جہاں تک خود شیخ الخفیف کا تعلق ہے، آپ اسلامی فقہ اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے درمیان توازن کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ عام طور پر توازن ایک قرآنی روش اور طریقہ ہے جو یہ ظاہر کر کے قائل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ ایک معاملے کا دوسرے کے ساتھ کیا فرق ہے۔ قانون سازی کے میدان میں اس طریقہ کو استعمال کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے، خاص طور پر چونکہ اکثر عرب اور اسلامی ممالک استعمار کے اثرات سے دوچار ہیں کہ اس نے ہر میدان میں اپنے قوانین و ضوابط مسلط کیے ہیں، فقہ اور قانون کے درمیان توازن پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ہمارے قانون کی مخصوص برتری کو ظاہر کرنے کے لیے شیخ علی الخفیف کا یہ بھی عقیدہ اور نظریہ تھا کہ مکاتب فکر کے درمیان فقہی تقابل کے لیے مختلف فقہی آراء کی تحقیق اور ان کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے شواہد، اور ان میں سے بعض کو ترجیح دیتے ہوئے، یہ توازن فقہ کو اس کے پوشیدہ جوہر، اس کے بنیادوں کے توازن، اس کے اصولوں کی مضبوطی، اور اجتہاد کے شاہکاروں کو ظاہر کرنے کے لحاظ سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ شیخ علی الخفیف کے مطالعہ اور تحقیق، جو انہوں نے قانون کی فیکلٹی میں اپنے وقت کے دوران تیار کیں، تقابلی مطالعہ اور اسلامی قانون اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے درمیان مماثلت اور فرق کی نشاندہی کرنے میں بہت دلچسپی کی خصوصیات تھیں۔

فقہی مطالعہ کی دعوت

علی الخفیف نے اپنی پڑھائی اور اپنی تحریروں دونوں میں شریعت کے احکام کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور اس کے مطالعہ کو منظم کرنے، وسیع کتابوں اور وسیع تصریحات کی گہرائی سے عظیم فقہا کی آراء کے نتائج نکالنے اور سہولت فراہم کرنے سے متعلق تھے۔ ان میں موجود چیزوں تک رسائی اور انہیں آسان طریقے سے پیش کرنا جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، شیخ علی الخفیف ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اسلامی فقہ کو ایک نئی شکل میں وضع کرنے پر زور دیا کیونکہ اس زمانے کے نےحالات نے فقہ کے طلباء کو بہترین بنانے سے محروم کر دیا۔

قدیم فقہ کی کتابوں کا استعمال، بلکہ اسلامی فقہ کی صحیح تفہیم کو متاثر کیا۔ انہوں نے فقہ کے جزوی احکام، اس کی مختلف شاخوں اور اس کے مختلف ابواب میں بکھرے ہوئے مسائل کو عمومی نظریات کی صورت میں ترتیب دے کر اس بات کا خیال رکھا جسے اسلامی فقہ کا نظریہ کہا جاتا ہے، جن سے جامع اصول بنتے ہیں۔ اس کی شاخیں ابھرتی ہیں، اور اس کے متعدد حصے اور متنوع ایپلی کیشنز سامنے آتی ہیں۔

اسلامی فقہ کی تجدید کی دعوت

شیخ علی الخفیف نے فقہ کی تجدید کے لیے اپنے مطالبے میں، اسلام کے بارے میں ان کے عمومی تصور کو ایک جامع طرز زندگی، بشمول عقیدہ، عبادات اور قانون سازی کے طور پر پیش کیا، اور ایک شخص کی مذہبیت صرف اسی پر یقین کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اگر عقائد اپنے اندر ایسی سچائیاں ہیں جو تبدیلی، رد و بدل یا تنسیخ کو قبول نہیں کرتے ہیں، اور اگر عبادت اور اعمال خدا تعالی کی تخلیق کردہ الہی مخلوق ہیں، اور اس نے ان کی حدود کا تعین کیا ہے، انہیں خاص شکلوں میں تیار کیا ہے، اور اپنے بندوں سے کہا ہے کہ ان کے ساتھ اس کی عبادت کرو، پھر لین دین تبدیلی کو قبول کرتا ہے اور دوسرے لفظوں میں، یہ شیخ علی الخفیف جدید خطوط کے ساتھ ترتیب دی گئی قانونی مضامین کی شکل میں فقہ کی تشکیل کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے۔ دیوانی، فوجداری اور تجارتی قوانین، جج کے لیے جائز فیصلے کو سامنے لانا اور اس کے سامنے کیس کو ڈھالنا آسان بناتے ہیں۔ شیخ علی الخفیف نے مختلف فقہی آراء کو جمع کرکے، ان میں توازن پیدا کرکے اور ایک کو دوسرے پر ترجیح دے کر اپنے فکر و عمل کے ذریعے اس میدان میں حصہ لیا۔

ان کا علمی مقام

شیخ علی الخفیف، علمی اور سرکاری حلقوں میں کافی مشہور اور معروف تھے۔ آپ ایک ممتاز علمی مقام کا حامل، اصولی، محقق، صاحب رائے اور کامیاب افراد میں سے تھے۔ آپ صاحب فکر و فراست، فقیہ، جو فقہ میں مہارت رکھتے تھے۔ علی الخفیف موجودہ مسائل پر کڑی نظر رکھتے تھے، اور وہ ایک ماہر لسانیات اور فصیح و بلیغ مبلغ تھے۔

ان کے پاس بے پناہ فقہی استعداد تھا یہاں تک کہ وہ فقیہ بن گئے اور علمی اور عملی اسلامی فقہ پر کافی زور دیتے تھے۔ بہت سارے طلباء ان کے تشریعی افکار سے متاثر ہوئے۔

آثار علمی

کتاب

  • أحكام المعاملات الشَّرعية (مختصر المعاملات الشَّرعية).
  • أحكام الوصية.
  • أسباب اختلاف الفقهاء.
  • الإرادة المنفردة فی الفقه الإسلامي.
  • البيع فی الكتاب والسنة.
  • التَّأمين وحكمه على هدي الشَّريعة۔
  • التركات فی الفقه الإسلامي (التركة والحقوق المتعلقة بها).
  • التصرف الانفرادي والإرادة المنفردة(1964)۔
  • الحقُّ والذِّمة.
  • الخلافة.
  • الضَّمان فی الفقه الإسلامي۔
  • الملكية فی الشريعة الإسلامية مع مقارنتها بالقوانين العربية (1969)۔
  • المواريث.
  • النيابة عن الغير في التَّصرف (نظرية النيابة عن الغير).
  • فرق الزواج فی المذاهب الإسلامية. 1958.
  • مكانة السُّنة فی بيان الأحكام الإسلامية.
  • نظام الحكم.

مقالات

  • الاستصحاب.
  • الاسس التی قام عليها التَّشريع.
  • التأمين فی الشريعة الإسلامية.
  • الحسبة.
  • الحكومة الإسلامية الأولى.
  • الشُّفعة.
  • الفكر التَّشريعی واختلافه باختلاف الشَّرائع.
  • المنافع فی الشريعة الإسلامية.
  • الوقف الأهلي: نشأته، مشروعيته، عيوبه، إصلاحه۔
  • تأثير الموت فی حقوق الإنسان والتزاماته۔
  • رعاية المصلحة في الشَّريعة (رعاية المصلحة الشرعية)
  • مدى تعلُّق الحقوق بالتَّركة.
  • الإيجاز بالحذف في القرآن الكريم.

فقہ اسلامی دائرۂ المعارف کے لیے لکھے مقالات

  • إجارة.
  • ارتفاق.
  • إرث.
  • استبدال.
  • استنابة.
  • استيلاء.
  • استناد.
  • إسلام.
  • إقطاع.
  • التزام.
  • انقراض.
  • إيمان.
  • أمير وإمارة.
  • اقتصار.
  • اعتقال.
  • اعتصار.
  • أهل الحل والعقد

وفات

آپ ایک عظیم علمی خدمات انجام دینے کے کے بعد 6 شعبان 1398ھ \جولائی 1978ء کو 89 سال کی عمر میں وفات پائی [2]۔

حوالہ جات

  1. الدکتور محمد عثمان، الشیخ علی الخفیف، دار القلم دمشق، 2002ء،ص68۔
  2. د۔محمد الجوادی، العلامة "علي الخفيف" الذي أفتى بأن معظم عقود التأمين حلال(ڈاکٹر محمد جوادی، علامہ علی الخفیف نے فتوی دیا کہ تامین کے اکثر عقود حلال ہیں-aljazeera.net(عربی زبان)-شائع شدہ از:15جون 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:29اپریل 2024ء۔