"عثمان بن عفان" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(ایک ہی صارف کا 33 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 50: سطر 50:
== عثمان کی فتوحات ==
== عثمان کی فتوحات ==
عثمان کے زمانے میں مسلمانوں کی مفتوحہ زمینیں شامل کی گئیں۔ مثال کے طور پر خطہ فارس کے کچھ شہر عربوں کے ہاتھ میں آگئے اور اس فتح کا کمانڈر عثمان بن ابی العاص تھا۔ نیز 29 ہجری میں عبداللہ بن ابی سرح کی کمان میں شمالی افریقہ کے علاقے اور معاویہ بن ابی سفیان کی کمان میں قبرص کا جزیرہ فتح ہوا۔
عثمان کے زمانے میں مسلمانوں کی مفتوحہ زمینیں شامل کی گئیں۔ مثال کے طور پر خطہ فارس کے کچھ شہر عربوں کے ہاتھ میں آگئے اور اس فتح کا کمانڈر عثمان بن ابی العاص تھا۔ نیز 29 ہجری میں عبداللہ بن ابی سرح کی کمان میں شمالی افریقہ کے علاقے اور معاویہ بن ابی سفیان کی کمان میں قبرص کا جزیرہ فتح ہوا۔
کچھ علاقوں، جیسے ایران کے فارس علاقے کے شہروں نے بھی اس دور میں بغاوت کی اور اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن انہیں دبا دیا گیا۔ یزدگرد سوم، آخری ساسانی بادشاہ، عثمان کے دور میں مارا گیا۔ ذرائع کے مطابق یزدگرد کا پول میں آخری بار عرب فوج سے مقابلہ ہوا اور عثمان بن ابی العاص اور عبداللہ بن عاص جو اس علاقے کے عرب کمانڈر تھے، نے اس کا سامنا کیا۔ یزدگرد کو شکست ہوئی اور وہ مرو کی طرف بھاگ گیا، جہاں اسے مرو کے ایک ملر نے نیند میں مار ڈالا۔ <ref>دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹ و ۱۴۰</ref>
== تاریخ اسلام میں قتل عثمان کی اہمیت ==
[[مسلمان|مسلمانوں]] کے تیسرے خلیفہ کے طور پر عثمان بن عفان کے قتل کے واقعات پیغمبر اسلام کے بعد اس دور کے اہم ترین واقعات میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ تقریباً بارہ سال تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے <ref>شیخ مفید، الإختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۰</ref>۔ ایک معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق، عثمان نے خلافت کے ابتدائی چھ سالوں میں بہت خاموشی سے کام لیا اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دوسرے چھ سالوں میں اس نے [[بنی امیہ]] کو اقتدار پر فائز کیا، انہیں اہم حکومتی عہدے سونپے اور عملاً تمام تر اقتدار بنی امیہ کے ہاتھ میں چلا گیا <ref>جعفریان، تاریخ خلفاء، 1380، ص 144۔</ref>
اس کے طرز حکمرانی نے احتجاج کو بھڑکا دیا جس کی وجہ سے اس کے گھر کا محاصرہ کیا گیا اور اس کا قتل ہوا۔ سنی مورخ ابن حجر عسقلانی کا خیال ہے کہ عثمان کا قتل عالم اسلام میں فتنہ و فساد کا آغاز تھا  <ref>ابن‌حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۷۹</ref>۔
اس نے بنی امیہ اور بنی ہاشم اور ان کے پیروکاروں کے درمیان اختلافات کو دوبارہ زندہ کیا۔ امویوں نے اپنے آپ کو عثمان کا خونخوار سمجھا اور ان کے قتل کا ذمہ دار علی  کو ٹھہرایا جو اگلے خلیفہ تھے۔ امویوں نے عثمان کے قتل کو عربوں میں اپنی بالادستی اور طاقت بحال کرنے کے لیے استعمال کیا۔ عثمان کی شہادت کے بعد اسلامی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ ان کی موت امام علی علیہ السلام کے دور میں خانہ جنگیوں کی بنیاد بنی، جن میں سے ایک میں طلحہ، زبیر اور [[عائشہ]] جیسے مشہور لوگ آپ کے خلاف تھے، اور دوسرا [[خوارج]] کے نام سے ایک گروہ کی تشکیل کا باعث بنا <ref>غریب، خلافة عثمان بن عفان، قاهره، ص۱۵۹</ref>.
== عثمان کا قتل ==
باغی آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عثمان کا عہدہ چھوڑنے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کا ارادہ نہیں تھا، اس لیے انہوں نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بعض عذر، جیسے [[حسن بن علی]] کے محافظ اور باغیوں کی ان سے اور بنی ہاشم کے ساتھ لڑنے کی خواہش نے انہیں عثمان کے گھر پر حملہ کرنے سے روک دیا۔ بالآخر باغیوں نے دور سے عثمان کے گھر پر گولی چلائی اور اسی دوران امام حسن زخمی ہوگئے۔
ایک تیر مروان کو بھی لگا اور محمد بن طلحہ بھی لہولہان ہوگیا اور قنبر غلام امام علی کا سر اور چہرہ ٹوٹ گیا۔ محمد بن ابی بکر کو ڈر تھا کہ امام حسن زخمی ہو جائیں، کہیں بنی ہاشم آپس میں نہ پڑ جائیں اور فتنہ پھیل جائے۔
امام حسن کے زخمی ہونے کی وجہ سے دو آدمی انہیں عثمان کے گھر سے باہر لے گئے۔ محاصرہ کرنے والوں نے کہا کہ اگر بنی ہاشم نے حسن کے سر اور چہرے پر خون دیکھا تو وہ لوگوں کو عثمان سے دور کر دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے عثمان کو بغیر کسی کے دھیان میں قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ لوگ انصار میں سے ایک کے گھر سے گزرے اور عثمان کے گھر میں داخل ہوئے تو عثمان کے آس پاس کے لوگوں میں سے کسی کو ان کے داخل ہونے کی خبر نہ ہوئی۔
اس وقت ان کے ساتھ صرف عثمان کی بیوی تھی۔ باغیوں نے عثمان کو قتل کر دیا اور اس کی بیوی نے لڑائی شروع کر دی۔ جب امام حسن اور [[امام حسین]] علیہ السلام دار المرہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور ان کی لاش کو مسخ کیا گیا ہے۔ امام علی، طلحہ، زبیر اور سعد کو اس بات کا علم ہوا اور انہوں نے آیت ان اللہ و انا الیہ راجعون کی تلاوت شروع کی۔ دینوری نے بیان کیا ہے کہ علی جیسے کچھ لوگ عثمان کی موت پر روتے رہے یہاں تک کہ وہ ہوش میں آگئے <ref>دینوری، امامت اور سیاست، ترجمہ، صفحہ 67-70</ref>۔
عثمان کا قتل 35 ہجری میں ہوا۔ اس وقت اس کی عمر متنازعہ ہے۔ واقدی سے روایت ہے کہ عثمان کی عمر 82 سال تھی۔ بعض ذرائع نے عثمان کے قاتل کا نام سوڈان بن حمران لکھا ہے۔
مدینہ والوں نے عثمان کو بقیع قبرستان میں دفن ہونے سے روک دیا۔ نتیجے کے طور پر، وہ ایک باغ میں دفن ہوا جو حش کوکب کے نام سے جانا جاتا تھا اور بقیع کے باہر یا دوسرے لفظوں میں بقیع کے پیچھے واقع تھا۔ معاویہ کے اقتدار میں آنے کے بعد اور مروان ابن حکیم نے مدینہ شہر پر حکومت کی تو مروان نے عثمان کی قبر کے اردگرد کا علاقہ خرید لیا اور یہ بھی حکم دیا کہ مسلمان اپنے میت کو بقیع میں اسی طرف سے دفن کریں جہاں عثمان کو دفن کیا گیا تھا تاکہ ان کی تدفین کی جائے۔ زمین بقیع سے منسلک ہو گی۔
== عثمان کے قتل پر امام علی کا موقف ==
اسلامی تاریخ کے ذرائع کے مطابق امام علی علیہ السلام قتل عثمان کے خلاف تھے اور اس کے قتل کو روکنے کے لیے آپ نے اپنے دو بیٹوں حسن اور حسین علیہما السلام اور کئی دوسرے لوگوں کو اپنے گھر کی حفاظت پر مامور کیا۔
بعض ذرائع کے مطابق عثمان کے قتل کا علم ہونے کے بعد وہ رو پڑے اور اپنے گھر کے محافظوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عثمان کے قتل کا کوئی جواز نہیں۔  <ref>دینوری، امامت اور سیاست، ترجمہ، صفحہ ص69</ref>.
ایک اور اقتباس میں امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ عثمان نے اپنے آپ کو، حسن اور حسین علیہما السلام کو، جو ان کی حفاظت کر رہے تھے، کو اپنے گھر کے حملہ آوروں سے لڑنے سے روک دیا۔ عثمان کے قتل سے پہلے امام علی علیہ السلام نے کئی بار شفاعت کی اور انہیں مدد فراہم کی۔ مثال کے طور پر جب مظاہرین نے اسے گھیر لیا اور پانی بند کر دیا تو امام علی علیہ السلام نے اسے پانی اور کھانا دیا۔
عثمان کے قتل سے پہلے امام علی علیہ السلام نے کئی بار شفاعت کی اور انہیں مدد فراہم کی۔ مثال کے طور پر جب مظاہرین نے اسے گھیر لیا اور پانی بند کر دیا تو امام علی علیہ السلام نے اسے پانی اور کھانا دیا۔ <ref>دینوری، امامت اور سیاست، ترجمہ، صفحہ ص61</ref>.
امام علی علیہ السلام کے سنی ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگر عثمان اپنے دفاع کے لیے مجھ سے مدد مانگتے تو میں ان کی جان کو نقصان نہ پہنچاتا، میں حسن و حسین کی موت پر رضامند ہوتا، میں نے خبردار کیا لوگ عثمان کو قتل نہ کریں۔
کہا گیا ہے کہ جب مصری مظاہرین نے عثمان کا محاصرہ کر کے قتل کرنے کی کوشش کی تو وہ علی علیہ السلام کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا: اٹھو اور ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم اس کے پاس جائیں، اللہ نے اس کا خون حلال کیا ہے۔
امام علی نے فرمایا: خدا کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا اور تمہارے ساتھ نہیں آؤں گا۔ اہل مصر نے کہا: پھر آپ نے ہمیں کیوں لکھا؟ علی نے کہا: خدا کی قسم میں نے آپ کو کبھی خط نہیں لکھا۔ یہاں انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
== عثمان کے قتل کے نتائج ==
باغیوں کے ہاتھوں عثمان بن عفان کے مارے جانے کے بعد مسلمانوں نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے خلیفہ کے طور پر بیعت کی۔ [[معاویہ]] نے جو شام کے گورنر تھے خلافت کا دعویٰ کیا تھا لیکن چونکہ اس میں اتنی اہلیت نہیں تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاشرے میں علی بن ابی طالب علیہ السلام کی حیثیت کے خلاف یہ دعویٰ کر سکے۔ اس نے عثمان کے قتل کو عذر کے طور پر استعمال کیا اور دعویٰ کیا کہ علی (ع) نے عثمان کے قتل میں کردار ادا کیا اور اپنے آپ کو عثمان کا بیٹا کہا اور شامیوں کو اپنے خلاف جنگ پر اکسایا۔
ان لوگوں کے جواب میں جنہوں نے ان سے علی بن ابی طالب کی جائز خلافت کی پیروی کرنے کا کہا، معاویہ نے کہا کہ علی عثمان کو قتل کرنے میں بے قصور نہیں ہیں اور اگر وہ مجرم نہیں ہیں تو انہیں ان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کرنا چاہئے تاکہ ہم ان سے نمٹ سکیں۔ اگلا مسئلہ جو مسلمانوں کی خلافت کا ہے، آئیے اس پر غور کریں۔
دوسری طرف عثمان کی بیوی نے خون آلود قمیض اور اپنی داڑھی کا ایک ٹکڑا معاویہ کے پاس بھیج کر خون کا مطالبہ کیا۔ معاویہ نے اس خط اور عثمان کی قمیض کو اپنے فائدے کے لیے لوگوں سے بیعت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور اس نے عثمان کے قتل کا الزام امام علی علیہ السلام پر لگایا۔ اس کے علاوہ عثمان کی قمیص پہن کر شام کے لوگوں کو امام علی کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی۔ اس طرح عثمان کا خون آلود لباس اور خونخوار علی کی خلافت اور معاویہ کی خلافت کے جواز کو ناحق ظاہر کرنے کا بہانہ بن گیا۔
عثمان کے قتل اور اس کے بعد معاویہ کی خلافت کے دعوے نے مسلمانوں کو جنگ صفین جیسی بڑی جنگوں کا سامنا کرنے پر مجبور کیا اور ہزاروں افراد بشمول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ جیسے عمار بن یاسر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان جنگوں میں. امام علی علیہ السلام کی شہادت اور معاویہ کا اقتدار میں آنا اور اسلامی خلافت کا موروثی حکومت کی طرف تبدیل ہونا عثمان بن عفان کے قتل کے اہم ترین نتائج ہیں۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==