"شام" کے نسخوں کے درمیان فرق

289 بائٹ کا ازالہ ،  10 دسمبر 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 14: سطر 14:
'''شام''' (عربی سوریہ) مغربی ایشیا کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ شام اسلامی ممالک میں سے ایک ہے اور اس کے شمال میں ترکی، مشرق اور جنوب مشرق میں عراق ، جنوب میں اردن ، جنوب مغرب میں [[فلسطین]] اور مغرب میں [[لبنان]] واقع ہے۔ یہ ملک دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا شام (سوریہ) 1946ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہو گیا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جس میں اکثریت عربوں کی ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں سریانی، کرد، ترک اور دروز بھی اس ملک میں رہتے ہیں۔ شام کا دار الحکومت دمشق ہے، دیگر اہم شہروں میں حلب، حمص، حماہ اور لاذقیہ ہیں۔ اس ملک کا موجودہ صدر بشار الاسد ہے۔
'''شام''' (عربی سوریہ) مغربی ایشیا کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ شام اسلامی ممالک میں سے ایک ہے اور اس کے شمال میں ترکی، مشرق اور جنوب مشرق میں عراق ، جنوب میں اردن ، جنوب مغرب میں [[فلسطین]] اور مغرب میں [[لبنان]] واقع ہے۔ یہ ملک دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا شام (سوریہ) 1946ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہو گیا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جس میں اکثریت عربوں کی ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں سریانی، کرد، ترک اور دروز بھی اس ملک میں رہتے ہیں۔ شام کا دار الحکومت دمشق ہے، دیگر اہم شہروں میں حلب، حمص، حماہ اور لاذقیہ ہیں۔ اس ملک کا موجودہ صدر بشار الاسد ہے۔
== جغرافیائی اور قدرتی محل وقوع ==
== جغرافیائی اور قدرتی محل وقوع ==
شام ایک مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ دنیا کا 87 واں بڑا ملک ہے، موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین اسرائیل، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔  اس کی آب و ہوا اطراف اور جنوب مغربی علاقوں میں معتدل اور مرطوب (بحیرہ روم) اور دیگر حصوں میں گرم اور خشک ہے۔ سمندر سے اس کا بلند ترین مقام جبل شیخ ہے جس کی اونچائی ایک میٹر ہے۔ اس کے اہم دریاؤں میں فرات ، خبور، عاصی، عفرین، قوین اور دجلہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ دریائے فرات ان میں سب سے طویل ہے اور اس کا تقریباً نصف ترکی اور عراق میں بہتا ہے۔ شام کی اہم بندرگاہیں لطاکیہ، طرطوس اور بنیاس ہیں جو بحیرہ روم کے قریب واقع ہیں۔
شام 185180 مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ دنیا کا 87 واں بڑا ملک ہے، موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین (اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔  اس کی آب و ہوا اطراف اور جنوب مغربی علاقوں میں معتدل اور مرطوب (بحیرہ روم) اور دیگر حصوں میں گرم اور خشک ہے۔ سمندر سے اس کا بلند ترین مقام جبل شیخ ہے جس کی اونچائی 2814 میٹر ہے۔ اس کے اہم دریاؤں میں فرات ، خابور، عاصی، عفرین، قوینو اور دجلہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ دریائے فرات ان میں سب سے طویل ہے اور اس کا تقریباً نصف حصہ ترکی اور عراق میں بہتا ہے۔ شام کی اہم بندرگاہیں لاذقیہ، طرطوس اور بنیاس ہیں جو بحیرہ روم کے قریب واقع ہیں۔


== سوریہ اور شام کا دور ==
== سوریہ اور شام کا دور ==
شام کی تاریخ کو، اس نام کے جغرافیائی مفہوم کے ساتھ ایک لحاظ سے چھوٹے پیمانے پر پوری مہذب دنیا کی تاریخ سمجھنا چاہے۔ یہ ملک تہذیب کے گہوارے اور ہماری روحانی و ذہنی میراث کے ایک نہایت اہم حصے کی تاریخ ہے <ref>فلپ کے حتی، تاریخ شام، مترجم، غلام رسول مہر، غلام علی اینڈ سنز ایجوکیشنہ پبلیشرز لاہور، 1963ء، ص5</ref>۔ موجودہ سوریہ،  شام  کا ایک بڑا حصہ ہوا کرتا تھا۔ شام کی سرزمین میں شام، لبنان، فلسطین اور اردن کے موجودہ ممالک شامل ہیں اور درحقیقت '''الشام''' وہ نام تھا جو عرب جغرافیہ دانوں نے اس خطے کو دیا تھا جو ایک طرف ایلہ سے فرات تک پھیلا ہوا ہے۔ بحیرہ روم اور دوسری طرف صحرا تک فرات روم کی سرحد تک محدود ہے۔ شام کے بارے میں بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور بعض مورخین نے اس کے فضائل کے بارے میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم]] سے احادیث بھی پیش کی ہیں جن سے لگتا ہے کہ اموی رشتہ داروں اور علماء نے کسی طرح شام کی سرزمین کو شہر کے سامنے پھیلانے کے لیے تیار کیا تھا۔ پیغمبر اسلام، مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ یہ سرزمین بنی امیہ کی حکومت کا گڑھ تھی ۔ شام کا موجودہ نام فرانسیسیوں نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے اور دنیا کے اس حصے کی قدیم تاریخ اور قدیم اشوریوں کی بنیاد پر اس ملک کی نوآبادیات کے بعد دیا تھا۔
شام کی تاریخ کو، اس نام کے جغرافیائی مفہوم کے ساتھ ایک لحاظ سے چھوٹے پیمانے پر پوری مہذب دنیا کی تاریخ سمجھنا چاہے۔ یہ ملک تہذیب کے گہوارے اور ہماری روحانی و ذہنی میراث کے ایک نہایت اہم حصے کی تاریخ ہے <ref>فلپ کے حتی، تاریخ شام، مترجم، غلام رسول مہر، غلام علی اینڈ سنز ایجوکیشنہ پبلیشرز لاہور، 1963ء، ص5</ref>۔ موجودہ سوریہ،  شام  کا ایک بڑا حصہ ہوا کرتا تھا۔ شام کی سرزمین میں شام، لبنان، فلسطین اور اردن کے موجودہ ممالک شامل ہیں اور درحقیقت '''الشام''' وہ نام تھا جو عرب جغرافیہ دانوں نے اس خطے کو دیا تھا جو ایک طرف ایلہ سے فرات تک پھیلا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف صحرا تک فرات روم کی سرحد تک محدود ہے۔ شام کے بارے میں بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور بعض مورخین نے اس کے فضائل کے بارے میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] سے احادیث بھی نقل کی ہیں جن سے لگتا ہے کہ اموی رشتہ داروں اور علماء نے کسی طرح شام کی سرزمین کو شہر مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ  و سلم کے سامنے پھیلانے کے لیے تیار کیا تھا۔ کیونکہ یہ سرزمین بنی امیہ کی حکومت کا گڑھ تھی ۔ شام کا موجودہ نام فرانسیسیوں نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کےبعد، دنیا کے اس حصے کی قدیم تاریخ اور قدیم اشوریوں کی بنیاد پر اس ملک کی نوآبادیات کے بعد دیا تھا۔


== شام کی تاریخ ==
== شام کی تاریخ ==
بلاد شام چارممالک پر مشتمل ہےوہ سوریہ ،لبنان،فلسطین اور اردن ہیں۔ پہلی عالمی جنگ عظیم تک یہ چاروں ممالک ملک شام سے شامل تھا۔ انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا اور 1920موجودہ شام بنام سوریا وجود میں آیا۔ انگریزی میں سوریا کو سیریااور عربی میں عرب جمہوریہ سوریا کہاجاتا ہے اور اسے اردو میں شام کہا جاتا ہے <ref>مقبول احمد سلفی، بلاد شام –تاریخ وفضیلت اور موجودہ شام (سوریا)​، [https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%AF-%D8%B4%D8%A7%D9%85-%E2%80%93%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D9%81%D8%B6%DB%8C%D9%84%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AC%D9%88%D8%AF%DB%81-%D8%B4%D8%A7%D9%85-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C mohaddis.com]</ref>۔ یہ ملک تاریخی لحاظ سے میں ایک طویل تاریخ رکھتا ہے جسے مورخین تقریباً پانچ ہزار سال پہلے کا بتاتے ہیں۔ چونکہ اس سرزمین پر متذکرہ دور میں ایک شاندار ثقافت اور تہذیب رہی ہے ، اس لیے اس تہذیب کے آثار باقی رہ گئے ہیں۔ اس ملک میں [[مسلمان|مسلمانوں]] کے تسلط سے قبل سامی، اموری، آرامی، مصری، اسوری، بابلی، یونانی، رومی اور ایرانی قبائل سمیت مختلف قبائل نے وقتاً فوقتاً اس ملک کو اپنا مسکن بنایا یا اس پر حملہ کیا، انہوں نے اپنی تہذیب کے آثار چھوڑے ہیں۔
بلاد شام چارممالک پر مشتمل ہے جوکہ  سوریہ ،لبنان،فلسطین اور اردن ہیں۔ پہلی عالمی جنگ تک یہ چاروں ممالک ملک شام میں شامل تھے۔ انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا اور 1920 میں موجودہ شام بنام سوریا وجود میں آیا۔ انگریزی میں سوریا کو سیریااور عربی میں عرب جمہوریہ سوریا کہاجاتا ہے اور اسے اردو میں شام کہا جاتا ہے <ref>مقبول احمد سلفی، بلاد شام –تاریخ وفضیلت اور موجودہ شام (سوریا)​، [https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%AF-%D8%B4%D8%A7%D9%85-%E2%80%93%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D9%81%D8%B6%DB%8C%D9%84%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AC%D9%88%D8%AF%DB%81-%D8%B4%D8%A7%D9%85-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C mohaddis.com]</ref>۔ یہ ملک ایک طویل تاریخ رکھتا ہے جسے مورخین تقریباً پانچ ہزار سال پہلے کا بتاتے ہیں۔ چونکہ اس سرزمین پر متذکرہ دور میں ایک شاندار ثقافت اور تہذیب رہی ہے ، اس لیے اس تہذیب کے آثار باقی رہ گئے ہیں۔ اس ملک پر [[مسلمان|مسلمانوں]] کے تسلط سے قبل سامی، اموری، آرامی، مصری، اسوری، بابلی، یونانی، رومی اور ایرانی قبائل سمیت مختلف قبائل نے وقتاً فوقتاً اس ملک کو اپنا مسکن بنایا یا اس پر حملہ کی۔ انہوں نے اپنی تہذیب کے آثار چھوڑے ہیں۔


== اسلامی دور ==
== اسلامی دور ==
13 یا 16 ہجری میں [[اسلام]] کی فوج کی شام پر فتح کے بعد ، اس نئے مذہب کی ثقافت نے کئی صدیوں تک مذکورہ قبائل کی تہذیبوں پر غالب آ گیا ۔ 5ویں اور 6ویں صدی ہجری میں جو کہ صلیبی جنگوں کے متوازی تھی ، اس ملک میں بہت طاقتور اور مذہبی حکمران تخت پر بیٹھے اور صلیبیوں اور رومیوں کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کیا۔ نورالدین محمود زنگی شاہد ، سلطان صلاح الدین ایوبی ، ملک عادل ایوبی، ملک ظاہر بیبرس البنداغداری، سیف الدولہ ہمدانی وغیرہ جیسے لوگ جنہوں نے نہ صرف جنگ اور عسکری امور کو اپنے اعمال میں سرفہرست رکھا اور فوجی اڈے بنائے ، قلعوں کی تعمیر، گڑھے کھودنے، وغیرہ اور اس دور کی سینکڑوں تاریخی یادگاروں کا آج موجود ہونا اس دعوے کو ظاہر کرتا ہے۔ اگلی صدیوں میں مملوکوں اور آخر کار عثمانی ترکوں نے اس سرزمین کو فتح کرنے کے بعد اپنے علمبرداروں کی پالیسی کو جاری رکھا اور ان اسلامی یادگاروں کی حفاظت اور بحالی کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی تعمیر کیں۔
13 یا 16 ہجری میں مسلمانوں کی شام پر فتح کے بعد ، اس نئے مذہب کی ثقافت کئی صدیوں تک مذکورہ قبائل کی تہذیبوں پر غالب رہی ۔ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں جو کہ صلیبی جنگوں کا دور تھا ، اس ملک میں بہت طاقتور اور مذہبی حکمران تخت پر بیٹھے اور صلیبیوں اور رومیوں کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کیا۔ نورالدین محمود زنگی شاہد ، سلطان صلاح الدین ایوبی ، ملک عادل ایوبی، ملک ظاہر بیبرس البنداغداری، سیف الدولہ ہمدانی وغیرہ جیسے لوگ جنہوں نے جنگ اور عسکری امور کو اپنے اعمال میں سرفہرست رکھا جن میں  فوجی اڈوں کی تشکیل  اور قلعوں کی تعمیرشامل ہے۔ اس دور کی سینکڑوں تاریخی یادگاروں کا وجود اس دعوے کو ثابت کرتا ہے۔ اگلی صدیوں میں مملوکوں اور آخر کار عثمانی ترکوں نے اس سرزمین کو فتح کرنے کے بعد اپنے پیشرؤوں کی پالیسی کو جاری رکھا اور ان اسلامی یادگاروں کی حفاظت اور بحالی کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی تعمیر کیں۔
== اسلام سے پہلے کے دور ==
== اسلام سے پہلے کے دور ==
موجودہ شام ایشیا کے قدیم ترین آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں اموری سامی لوگ اس سرزمین میں آباد ہوئے اور اس میں ایک حکومت قائم کی جو سال قبل مسیح تک قائم رہی۔ 11ویں صدی قبل مسیح کے آخر میں آرامی نام کے ایک اور لوگ اس ملک میں آباد ہوئے۔ عیسوی میں مشرقی اور مغربی رومن ریاستوں کی تقسیم کے بعد یہ ملک مشرقی رومن (بازنطینی) سلطنت کا حصہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ شام پر بازنطینی فتح کمزور پڑ گئی یہاں تک کہ پہلی صدی ہجری (ساتویں عیسوی) میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کی خلافت کے دوران [[خالد بن ولید]] کو اس پر قبضہ کرنے کا کام سونپا گیا۔
موجودہ شام ایشیا کے قدیم ترین آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ تین ہزار سال قبل مسیح میں سامی آموری  لوگ اس سرزمین میں آباد ہوئے اور ایک حکومت قائم کی جو سال قبل مسیح تک قائم رہی۔ 11ویں صدی قبل مسیح کے آخر میں آرامی نام کی ایک اور قوم اس ملک میں آباد ہوئی۔ 395عیسوی میں سلطنت روم کے  مشرقی اور مغربی رومن ریاستوں میں تقسیم کے بعد یہ ملک مشرقی رومن (بازنطینی) سلطنت کا حصہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ شام پر بازنطینی تسلط کمزور پڑ گیا یہاں تک کہ پہلی صدی ہجری (ساتویں عیسوی) میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کی خلافت کے دوران [[خالد بن ولید]] کو اس پر قبضہ کرنے کا کام سونپا گیا۔
== اسلام سے بعد کے دور ==
== ظہوراسلام  کے بعد ==
پہلی اسلامی ریاست کے ظہور کے ساتھ، جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں قائم ہوئی تھی ، شام میں رومی سلطنت کی سرحدیں دو بار فوجی تنازعات کا نشانہ بن گئیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام (11 ہجری) میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو پھیلانے اور جواب دینے کے لیے اسامہ بن زید اور تمام بزرگانِ صحابہ کی سربراہی میں ایک لشکر تیار کیا اور روانہ کیا۔ شام کی سرزمین پر کفار کی مخالفت کے لیے۔ لیکن انہی دنوں میں ان کا انتقال ہوگیا۔ بعد میں خلیفہ ابوبکر نے اس لشکر کو روانہ کیا۔
پہلی اسلامی ریاست کے ظہور کے ساتھ، جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں قائم ہوئی تھی ، شام میں رومی سلطنت کی سرحدیں دو بار فوجی تنازعات کا نشانہ بن گئیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام (11 ہجری) میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام کو پھیلانے اور رومی سلطنت کو جواب دینے کے لیے اسامہ بن زید کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا۔لیکن انہی دنوں آپ  کا انتقال ہوگیا۔ بعد میں خلیفہ ابوبکر نے اس لشکر کو روانہ کیا۔
== موجودہ دور ==
== معاصر دور ==
نپولین بوناپارٹ کی مصر کی فتح کے ساتھ ہی شام پر فرانس نے قبضہ کر لیا۔ مصر کی نسبتاً آزادی کے ساتھ ہی شام کو دوبارہ عثمانیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس شہر میں عیسائیوں پر ظلم و ستم اور ان کی بغاوتوں کو دبانے نے یورپی حکومتوں کے لیے اس ملک میں مداخلت کا راستہ کھول دیا۔ آخر کار، سنہ عیسوی میں، فرانس نے شام کی انتظامیہ میں عثمانی سلطان کی مدد کے لیے بیروت (جو اس وقت شام کا حصہ تھا) میں اپنی فوجی دستوں کو تعینات کیا ۔ عیسوی میں پہلی جنگ عظیم میں عثمانی حکومت کے داخلے کے ساتھ ہی عرب قوم پرستوں نے اپنے آزادی کے اہداف کے نفاذ کے لیے زمین سازگار دیکھی اور کام کرنا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ اسرائیل میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے میدان عمل شروع ہو گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم اور عثمانی شکست کے اختتام پر ، امیر فیصل بن حسین (جو بعد میں عراق کا بادشاہ بنا) کو شام کی عوامی کانگریس نے اس ملک کا بادشاہ منتخب کیا۔ سنہ عیسوی میں ان کی حکومت سے دمشق کی سیاسی حیثیت اور مرکزیت مستحکم ہو گئی۔
نپولین بوناپارٹ کی مصر کی فتح کے ساتھ ہی شام پر فرانس نے قبضہ کر لیا۔ مصر کی جزوی  آزادی کے ساتھ شام کو بھی  دوبارہ عثمانیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس شہر میں عیسائیوں پر ظلم و ستم اور ان کی بغاوتوں کو کچلنے کی وجہ سے  یورپی حکومتوں کے لیے اس ملک میں مداخلت کا راستہ ہموار ہو گیا۔ آخر کار، 1860عیسوی میں، فرانس نے شام کے  انتظام و انصرام میں عثمانی سلطان کی مدد کے عنوان سے  بیروت میں  (جو اس وقت شام کا حصہ تھا) اپنی فوجی دستوں کو تعینات کیا ۔ 1914عیسوی میں پہلی جنگ عظیم میں عثمانی حکومت کے شامل ہوتے ہی عرب قوم پرستوں نے اپنے آزادی کے اہداف کے حصول کے لیے زمین سازگار دیکھی اور کام کرنا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ اسرائیل میں یہودی ریاست کے قیام کے لیےکام شروع ہو گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم اور عثمانی شکست کے اختتام پر ، امیر فیصل بن حسین (جو بعد میں عراق کا بادشاہ بنا) کو شام کی عوامی کانگریس نے اس ملک کا بادشاہ منتخب کیا۔  
== شام کی آزادی ==
== شام کی آزادی ==
فرانسیسی اور اتحادی افواج نے اس ملک پر قبضہ کر لیا اور شام اور لبنان کو لیگ آف نیشنز کے ووٹ کے ذریعے فرانسیسی محافظوں کے ماتحت کر دیا گیا۔ اسی سال لبنان شام سے الگ ہو کر ایک الگ ملک بن گیا۔ برسوں کے طویل مذاکرات کے بعد ایک خود مختار شام کے قیام کے لیے معاہدے کیے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں فرانس کے جرمنی کے ہاتھوں زوال کے بعد شام آزاد فرانسیسی یا وچی حکومت کے زیر تسلط آگیا۔ برطانوی اور آزاد فرانسیسی افواج نے شام پر قبضہ کر لیا۔ اسی سال شام نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور آزاد فرانسیسی افواج کے کمانڈر جنرل کیٹروکس نے آزادی کا اعلان کیا اور پھر 16 ستمبر کو شامی جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا اور شیخ تاج الدین حسنی صدر بن گئے۔ تاہم 1944 تک شام کی آزادی کا احساس نہیں ہو سکا تھا۔
فرانسیسی اور اتحادی افواج نے اس ملک پر قبضہ کر لیا اور شام اور لبنان کو لیگ آف نیشنز کے ووٹ کے ذریعے فرانسیسی سرپرستی میں  دے دیا گیا۔ اسی سال لبنان شام سے الگ ہو کر ایک الگ ملک بن گیا۔ برسوں کے طویل مذاکرات کے بعد ایک خود مختار شام کے قیام کے لیے معاہدے کیے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں فرانس کے جرمنی کے ہاتھوں زوال کے بعد شام آزاد فرانسیسی یا وچی حکومت کے زیر تسلط آگیا۔ برطانوی اور آزاد فرانسیسی افواج نے شام پر قبضہ کر لیا۔ اسی سال شام نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور آزاد فرانسیسی افواج کے کمانڈر جنرل کیٹروکس نے آزادی کا اعلان کیا اور پھر 16 ستمبر کو شامی جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا اور شیخ تاج الدین حسنی صدر بن گئے۔ تاہم 1944 تک شام کی آزادی کا احساس نہیں ہو سکا تھا۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد، شام کی سرزمین کا ایک حصہ، بشمول جولان کی پہاڑیوں اور قنیطرہ کا ایک حصہ، اسرائیل نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ آخر کار، سال میں، جنرل حافظ الاسد نے بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور صدارت کے لیے منتخب ہوئے۔ شام نے دوبارہ عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیل کو کافی نقصان پہنچایا۔ فی الحال (2007) صدارت حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد کے پاس ہے۔ اس کا دوسرا بیٹا، عرف ابابسال، جس نے اپنی جانشینی کے لیے تمام تیاریاں کر رکھی تھیں، ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد، شام کی سرزمین کا ایک حصہ، بشمول جولان کی پہاڑیوں اور قنیطرہ کا ایک حصہ، اسرائیل نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ آخر کار، سال میں، جنرل حافظ الاسد نے بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور صدارت کے لیے منتخب ہوئے۔ شام نے دوبارہ عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیل کو کافی نقصان پہنچایا۔ فی الحال (2007) صدارت حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد کے پاس ہے۔ اس کا دوسرا بیٹا، عرف ابابسال، جس نے اپنی جانشینی کے لیے تمام تیاریاں کر رکھی تھیں، ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔
== شامی عوام ==
== شامی عوام ==
confirmed
821

ترامیم