"شام" کے نسخوں کے درمیان فرق

2,709 بائٹ کا اضافہ ،  20 نومبر 2023ء
سطر 58: سطر 58:
== شام پر عالمی مسلط جنگ ==
== شام پر عالمی مسلط جنگ ==
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق، شام اور لیبیا کے تیل اور پٹرول کے ذخایر کو بے دری‏غ لوٹا گیا۔ یہ سارا کھیل امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے کھیلا گیا۔ عربوں اور مسلمانوں کی دولت سے خریدا ہوا اسلحہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوا۔ عربی بہار کے نام پر قلعہ مقاومت (شام) کو مہندم کرنے لیے ملک شام پر عالمی جنگ مسلط ہوئی اور مقاومت کے گرد دائرہ تنگ تر کر دیا گیا۔ خلیجی ممالک، ترکی اور دنیا کے دیگر ممالک نے امریکہ، غرب اور اسرائیل کے اشاروں پر عراق اور شام میں [[داعش]] اور دیگر تکفیری دہشتگردوں کو عراق اور شام بھیجا اور ان کی ہر لحاظ سے پشت پناہی کی۔ جنگ کے ایندھن کی فراہمی کے لیے لیبیا، تیونس اور مصر کے سیاسی نظام کو نشانہ بنایا گیا خلیجی و ایشیائی ممالک بھی جنگجوں کی بڑی تعداد بھرتی کی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق لاکھوں دہشتگرد دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک سے شام میں لائے گئے جو کہ جدیدترین اسلحہ  سے لیس تھے۔ [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] نے ملک شام و عراق کی حکومت و عوام کا ساتھ دیا۔ اور داعش کی شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حزب اللہ نے ان ممالک کو تقسیم ہونے اور ٹوٹنے سے بچایا۔ قصیر، حمص، حماۂ اور اطراف دمشق و درعا، حلب و ادلب کی فتوحات اور کامیابیوں میں بھی حزب اللہ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس جنگ میں حزب اللہ کے شہداء کی تعداد حزب اللہ اور اسرائیل کی تین دہائیوں پر محیط جنگ کے شہداء سے زیادہ ہے۔ جس میں حزب اللہ کے اہم اور تجربہ کار کمانڈر بھی شریک ہوئےجن میں شام محاذ کے سربراہ اور حاج عماد مغنیہ کے ساتھی حاج مصطفی بدر الدین (حاج ذوالفقار) سر فہرست ہیں۔ جنہیں دمشق ائیرپورٹ کے قریب اسرائیل نے میزائل حملے سے شہید کیا۔ حاج عماد مغنیہ شہید کے فرزند مجاہد حاج جہاد مغنیہ اور اسیر محرر سمیر قنطار جیسے دسیوں اہم کمانڈر شام کے محاذ پر شہید ہوئے <ref>سید شفقت حسین شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک، الباقر پبلی کیشنزز اسلام آباد، 2021ء، ص274-275</ref>۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق، شام اور لیبیا کے تیل اور پٹرول کے ذخایر کو بے دری‏غ لوٹا گیا۔ یہ سارا کھیل امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے کھیلا گیا۔ عربوں اور مسلمانوں کی دولت سے خریدا ہوا اسلحہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوا۔ عربی بہار کے نام پر قلعہ مقاومت (شام) کو مہندم کرنے لیے ملک شام پر عالمی جنگ مسلط ہوئی اور مقاومت کے گرد دائرہ تنگ تر کر دیا گیا۔ خلیجی ممالک، ترکی اور دنیا کے دیگر ممالک نے امریکہ، غرب اور اسرائیل کے اشاروں پر عراق اور شام میں [[داعش]] اور دیگر تکفیری دہشتگردوں کو عراق اور شام بھیجا اور ان کی ہر لحاظ سے پشت پناہی کی۔ جنگ کے ایندھن کی فراہمی کے لیے لیبیا، تیونس اور مصر کے سیاسی نظام کو نشانہ بنایا گیا خلیجی و ایشیائی ممالک بھی جنگجوں کی بڑی تعداد بھرتی کی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق لاکھوں دہشتگرد دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک سے شام میں لائے گئے جو کہ جدیدترین اسلحہ  سے لیس تھے۔ [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] نے ملک شام و عراق کی حکومت و عوام کا ساتھ دیا۔ اور داعش کی شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حزب اللہ نے ان ممالک کو تقسیم ہونے اور ٹوٹنے سے بچایا۔ قصیر، حمص، حماۂ اور اطراف دمشق و درعا، حلب و ادلب کی فتوحات اور کامیابیوں میں بھی حزب اللہ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس جنگ میں حزب اللہ کے شہداء کی تعداد حزب اللہ اور اسرائیل کی تین دہائیوں پر محیط جنگ کے شہداء سے زیادہ ہے۔ جس میں حزب اللہ کے اہم اور تجربہ کار کمانڈر بھی شریک ہوئےجن میں شام محاذ کے سربراہ اور حاج عماد مغنیہ کے ساتھی حاج مصطفی بدر الدین (حاج ذوالفقار) سر فہرست ہیں۔ جنہیں دمشق ائیرپورٹ کے قریب اسرائیل نے میزائل حملے سے شہید کیا۔ حاج عماد مغنیہ شہید کے فرزند مجاہد حاج جہاد مغنیہ اور اسیر محرر سمیر قنطار جیسے دسیوں اہم کمانڈر شام کے محاذ پر شہید ہوئے <ref>سید شفقت حسین شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک، الباقر پبلی کیشنزز اسلام آباد، 2021ء، ص274-275</ref>۔
== شام پر مسلط جنگ کا مقصد ==
شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فورا بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ شام کو کمزور کرنے کا دشمن کا مقصد اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا، ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تھا۔ شام پر مسلط کی گئی جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں تھا۔ شام حکومت کا قصور یہ تھا کہ اس نے خطے میں اسرائیلی بالادستی ماننے سے انکار کر رکھا تھا، فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکن مدد بھی دمشق حکومت کا جرم تصور کی گئی۔ اسی طرح دمشق تہران اور بیروت سے قریبی تعلقات نیز باعث بنے کہ شام کے دشمن نے دمشق کو سبق سیکھانے کے لیے شدت پسندوں کے ذریعے شام پر جنگ مسلط کر دی۔ دشمن کی طرف سے مسلط شدہ اس جنگ میں ایران، روس، چین، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقاومتی گروہ شام کے اتحادی تھے۔ اس جنگ میں اسرائیل کو تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں اور خلیجی بادشاہوں کے علاوہ مسلح شدت پسند تکفیری گروہوں نے حمایت کی۔ اسرائیل کی پشت پناہی عالمی سامراجی طاقتوں میں امریکہ کے علاوہ فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ عالمی سامراجی طاقتیں اس جنگ کے ذریعے خطے کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاسی نظم و نسق پر کنٹرول چاہتی تھیں کیونکہ اس خطے پر کنٹرول پوری دنیا پر کنٹرول کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب، ترکی اور امارت وغیرہ اسرائیل کے پشت پناہ تھے۔ ان علاقائی ممالک میں سے ترکی اس جنگ کے نتیجے میں دمشق حکومت کو سرنگوں کرکے شام، فلسطین اور اردن پر بالادستی حاصل کرکے یہاں خلافت قائم خواب دیکھ رہا تھا۔ خلیجی ممالک اس جنگ کے نتیجے کو اپنی ملوکیت بجانے کی آخری کوشش تصور کررہے تھے <ref>ایضا، ص299-300</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
confirmed
2,369

ترامیم