"شام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 3 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 3: سطر 3:
| تصویر = پرچم سوریه.jpg
| تصویر = پرچم سوریه.jpg
| نقشہ کی تصویر =  
| نقشہ کی تصویر =  
| سرکاری نام = السوریہ
| سرکاری نام =  
| پورا نام = الجہوریہ العربیہ السوریہ
| پورا نام = الجہوریہ العربیہ السوریہ
| طرز حکمرانی = پارلیمانی جمہوریہ
| طرز حکمرانی = پارلیمانی جمہوریہ
سطر 39: سطر 39:
اس ملک کے مسلمان ملک کی آبادی کا 87فیصد ہیں اور عیسائی، جو ملک کی آبادی کا 3فیصد ہیں، اس ملک میں نسبتاً اہم اقلیت ہیں۔ دمشق اور اس کے اطراف میں تقریباً پانچ ہزار یہودی بھی آباد ہیں۔
اس ملک کے مسلمان ملک کی آبادی کا 87فیصد ہیں اور عیسائی، جو ملک کی آبادی کا 3فیصد ہیں، اس ملک میں نسبتاً اہم اقلیت ہیں۔ دمشق اور اس کے اطراف میں تقریباً پانچ ہزار یہودی بھی آباد ہیں۔
ایران عراق جنگ شروع ہونے کے بعد شام نے عراق کے ساتھ اپنے تعلقات کو ممکنہ حد تک کم کر دیا اور ایران کا ساتھ دیا۔
ایران عراق جنگ شروع ہونے کے بعد شام نے عراق کے ساتھ اپنے تعلقات کو ممکنہ حد تک کم کر دیا اور ایران کا ساتھ دیا۔
ملک شام کا ایک صوبہ یا (عربی میں سرپرست) ہے۔ دمشق شہر کو بھی ایک صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ دمشق شام کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ حلب شام کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ شام کے دیگر اہم اور گنجان آباد شہروں میں شامل ہیں: لطاکیہ، حمص، حما، دیر الزور اور مارات النعمان۔ شامی حکومت کے نقشوں میں خطائے صوبہ، جو اب ترکی کا حصہ ہے، کو شام کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ عربی میں گولان ہائٹس جو شام کی سرزمین کا حصہ ہے، اس وقت اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ پیغمبر اسلام کے مشن کے بعد شامات  کے علاقے میں رومیوں کے خلاف دو جنگیں لڑی گئیں جن کا نام موتی سلسلہ اور تبوک مہم ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 14 ہجری میں شام کو فتح کیا گیا اور باقی علاقے عمر کے دور خلافت کے ساتھ ساتھ قبضے میں لیے گئے ۔ شام کی فتح کے بعد وہاں کی حکومت معاویہ بن ابی سفیان کے حوالے کر دی گئی ۔ اس پر اس تاریخ سے لے کر قمری کیلنڈر کے سنہ 35 تک تین خلفاء کی حکومت رہی، یہاں تک کہ انھیں 35 میں [[علی ابن ابی طالب|امام علی]] کی خلافت کے ساتھ شام کی حکومت سے ہٹا دیا گیا ، لیکن وہ ہار نہیں مانے اور یہ کشمکش جنگ کا باعث بنی ۔ صفین کا امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ نے چال بازی سے اقتدار میں آ کر شام کو اموی حکومت کا مرکز بنا دیا اور 127 ہجری تک دارالحکومت رہا۔ اس کے بعد عباسیوں ، ہمدانیوں ، مصر کے فاطمیوں ، سلجوق اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر حکومت کی یہاں تک کہ مغربیوں کی حکمرانی کے بعد حالیہ صدیوں میں یہ سرزمین الگ ہو کر کئی عرب ممالک میں تقسیم ہو گئی۔ شام مشرق وسطیٰ کے مرکز میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی ، عراق ، اردن ، مقبوضہ فلسطین اور لبنان سے ملتی ہیں ۔ آبادی کی اکثریت بحیرہ روم کے ساحلوں پر رہتی ہے، جو شام کے سب سے زیادہ زرخیز علاقے ہیں، اور شمال مشرقی علاقوں میں، جو فرات اور اورونٹے ندیوں سے سیراب ہوتے ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقے پہاڑی ہیں اور مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ ساحلی علاقوں میں گرم اور خشک گرمیاں اور ہلکی اور گیلی سردیوں کے ساتھ بحیرہ روم کی آب و ہوا ہے۔ اوسط درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے، اور اوسط بارش ہر سال 40 سینٹی میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔
ملک شام کا ایک صوبہ ہے۔ دمشق شہر کو بھی ایک صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ دمشق شام کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ حلب شام کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ شام کے دیگر اہم اور گنجان آباد شہروں میں لاذقیہ، حمص، حماہ، دیر الزور اور معرۃ النعمان شامل ہیں۔  گولان ہائٹس جو شام کی سرزمین کا حصہ ہے، اس وقت اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ پیغمبر اسلام کے مشن کے بعد شامات  کے علاقے میں رومیوں کے خلاف دو جنگیں لڑی گئیں جن کا نام جنگ موتہ اور جنگ  تبوک ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں 14 ہجری میں شام کو فتح کیا گیا اور باقی علاقے حضرت عمر کے دور خلافت میں قبضے میں لیے گئے ۔ شام کی فتح کے بعد وہاں کی حکومت معاویہ بن ابی سفیان کے حوالے کر دی گئی ۔ یہاں تک کہ 35 ہجری میں [[علی ابن ابی طالب|امام علی]] کی خلافت کے زمانے میں  معاویہ کو  شام کی حکومت سے ہٹا دیا گیا ، لیکن وہ ہار نہیں مانے اور یہ کشمکش جنگ صفین  کا باعث بنی ۔ امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ نے چال بازی سے اقتدار میں آ کر دمشق کو اموی حکومت کا مرکز بنا دیا اوروہ  127 ہجری تک دارالحکومت رہا۔ اس کے بعد عباسیوں ، ہمدانیوں ، مصر کے فاطمیوں ، سلجوق اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر حکومت کی یہاں تک کہ اہل  مغرب کی حکمرانی کے بعد حالیہ صدیوں میں یہ سرزمین الگ ہو کر کئی عرب ممالک میں تقسیم ہو گئی۔ شام مشرق وسطیٰ کے مرکز میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی ، عراق ، اردن، مقبوضہ فلسطین اور لبنان سے ملتی ہیں ۔ آبادی کی اکثریت بحیرہ روم کے ساحلوں پر رہتی ہے، جو شام کے سب سے زیادہ زرخیز علاقے ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقے پہاڑی ہیں اور مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ ساحلی علاقوں میں گرم اور خشک گرمیاں اور ہلکی اور گیلی سردیوں کے ساتھ بحیرہ روم کی آب و ہوا ہے۔ اوسط درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے، اور اوسط بارش ہر سال 40 سینٹی میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔
== شام کے صوبے ==
== شام کے صوبے ==
شام کو 14 صوبوں تقسیم کیا گیا ہے اور ان صوبوں کو 60 اضلاع میں:
شام کو 14 صوبوں تقسیم کیا گیا ہے اور ان صوبوں کو 60 اضلاع میں:
سطر 57: سطر 57:
* صوبہ طرطوس <ref>معرفی کشور سوریه از حیث اطلاعات و شرایط جغرافیایی، [https://tradetejarat.com/4218/%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%84%D9%87-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%8C-%DA%A9%D8%B4%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D8%AD%DB%8C%D8%AB-%D8%A7%D8%B7%D9%84%D8%A7%D8%B9%D8%A7%D8%AA-%D9%88/ tradetejarat.com]</ref>۔
* صوبہ طرطوس <ref>معرفی کشور سوریه از حیث اطلاعات و شرایط جغرافیایی، [https://tradetejarat.com/4218/%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%84%D9%87-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%8C-%DA%A9%D8%B4%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D8%AD%DB%8C%D8%AB-%D8%A7%D8%B7%D9%84%D8%A7%D8%B9%D8%A7%D8%AA-%D9%88/ tradetejarat.com]</ref>۔
== شام پر عالمی مسلط جنگ ==
== شام پر عالمی مسلط جنگ ==
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق، شام اور لیبیا کے تیل اور پٹرول کے ذخایر کو بے دری‏غ لوٹا گیا۔ یہ سارا کھیل امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے کھیلا گیا۔ عربوں اور مسلمانوں کی دولت سے خریدا ہوا اسلحہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوا۔ عربی بہار کے نام پر قلعہ مقاومت (شام) کو مہندم کرنے لیے ملک شام پر عالمی جنگ مسلط ہوئی اور مقاومت کے گرد دائرہ تنگ تر کر دیا گیا۔ خلیجی ممالک، ترکی اور دنیا کے دیگر ممالک نے امریکہ، غرب اور اسرائیل کے اشاروں پر عراق اور شام میں [[داعش]] اور دیگر تکفیری دہشتگردوں کو عراق اور شام بھیجا اور ان کی ہر لحاظ سے پشت پناہی کی۔ جنگ کے ایندھن کی فراہمی کے لیے لیبیا، تیونس اور مصر کے سیاسی نظام کو نشانہ بنایا گیا خلیجی و ایشیائی ممالک بھی جنگجوں کی بڑی تعداد بھرتی کی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق لاکھوں دہشتگرد دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک سے شام میں لائے گئے جو کہ جدیدترین اسلحہ  سے لیس تھے۔ [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] نے ملک شام و عراق کی حکومت و عوام کا ساتھ دیا۔ اور داعش کی شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حزب اللہ نے ان ممالک کو تقسیم ہونے اور ٹوٹنے سے بچایا۔ قصیر، حمص، حماۂ اور اطراف دمشق و درعا، حلب و ادلب کی فتوحات اور کامیابیوں میں بھی حزب اللہ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس جنگ میں حزب اللہ کے شہداء کی تعداد حزب اللہ اور اسرائیل کی تین دہائیوں پر محیط جنگ کے شہداء سے زیادہ ہے۔ جس میں حزب اللہ کے اہم اور تجربہ کار کمانڈر بھی شریک ہوئےجن میں شام محاذ کے سربراہ اور حاج عماد مغنیہ کے ساتھی حاج مصطفی بدر الدین (حاج ذوالفقار) سر فہرست ہیں۔ جنہیں دمشق ائیرپورٹ کے قریب اسرائیل نے میزائل حملے سے شہید کیا۔ حاج عماد مغنیہ شہید کے فرزند مجاہد حاج جہاد مغنیہ اور اسیر محرر سمیر قنطار جیسے دسیوں اہم کمانڈر شام کے محاذ پر شہید ہوئے <ref>سید شفقت حسین شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک، الباقر پبلی کیشنزز اسلام آباد، 2021ء، ص274-275</ref>۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق، شام اور لیبیا کے تیل اور پٹرول کے ذخایر کو بے دری‏غ لوٹا ۔ یہ سارا کھیل امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے کھیلا گیا۔ عربوں اور مسلمانوں کی دولت سے خریدا ہوا اسلحہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوا۔ بہار عرب کے نام پر قلعہ مقاومت (شام) کو مہندم کرنے لیے ملک شام پر عالمی جنگ مسلط ہوئی اور مقاومت کے گرد دائرہ تنگ تر کر دیا گیا۔ خلیجی ممالک، ترکی اور دنیا کے دیگر ممالک نے امریکہ، غرب اور اسرائیل کے اشاروں پر عراق اور شام میں [[داعش]] اور دیگر تکفیری دہشتگردوں کو عراق اور شام بھیجا اور ان کی ہر لحاظ سے پشت پناہی کی۔ جنگ کے ایندھن کی فراہمی کے لیے لیبیا، تیونس اور مصر کے سیاسی نظام کو نشانہ بنایا گیا خلیجی و ایشیائی ممالک سے بھی جنگجوؤں کی بڑی تعداد بھرتی کی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق لاکھوں دہشتگرد دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک سے شام میں لائے گئے جو کہ جدیدترین اسلحہ  سے لیس تھے۔ [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] نے ملک شام و عراق کی حکومت و عوام کا ساتھ دیا۔ اور داعش کو شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حزب اللہ نے ان ممالک کو تقسیم ہونے اور ٹوٹنے سے بچایا۔ قصیر، حمص، حماۂ اور اطراف دمشق و درعا، حلب و ادلب کی فتوحات اور کامیابیوں میں بھی حزب اللہ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس جنگ میں حزب اللہ کے شہداء کی تعداد حزب اللہ اور اسرائیل کی تین دہائیوں پر محیط جنگ کے شہداء سے زیادہ ہے۔ جس میں حزب اللہ کے اہم اور تجربہ کار کمانڈر بھی شریک ہوئےجن میں شام محاذ کے سربراہ اور حاج عماد مغنیہ کے ساتھی حاج مصطفی بدر الدین (حاج ذوالفقار) سر فہرست ہیں جنہیں اسرائیل نے دمشق ائیرپورٹ کے قریب میزائل حملے سے شہید کیا۔ حاج عماد مغنیہ شہید کے فرزند حاج جہاد مغنیہ اور اسیر محرر سمیر قنطار جیسے دسیوں اہم کمانڈر شام کے محاذ پر شہید ہوئے <ref>سید شفقت حسین شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک، الباقر پبلی کیشنزز اسلام آباد، 2021ء، ص274-275</ref>۔
== شام پر مسلط جنگ کا مقصد ==
== شام پر مسلط جنگ کا مقصد ==
شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فورا بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ شام کو کمزور کرنے کا دشمن کا مقصد اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا، ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تھا۔ شام پر مسلط کی گئی جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں تھا۔ شام حکومت کا قصور یہ تھا کہ اس نے خطے میں اسرائیلی بالادستی ماننے سے انکار کر رکھا تھا، فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکن مدد بھی دمشق حکومت کا جرم تصور کی گئی۔ اسی طرح دمشق تہران اور بیروت سے قریبی تعلقات نیز باعث بنے کہ شام کے دشمن نے دمشق کو سبق سیکھانے کے لیے شدت پسندوں کے ذریعے شام پر جنگ مسلط کر دی۔ دشمن کی طرف سے مسلط شدہ اس جنگ میں ایران، روس، چین، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقاومتی گروہ شام کے اتحادی تھے۔ اس جنگ میں اسرائیل کو تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں اور خلیجی بادشاہوں کے علاوہ مسلح شدت پسند تکفیری گروہوں نے حمایت کی۔ اسرائیل کی پشت پناہی عالمی سامراجی طاقتوں میں امریکہ کے علاوہ فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ عالمی سامراجی طاقتیں اس جنگ کے ذریعے خطے کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاسی نظم و نسق پر کنٹرول چاہتی تھیں کیونکہ اس خطے پر کنٹرول پوری دنیا پر کنٹرول کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب، ترکی اور امارت وغیرہ اسرائیل کے پشت پناہ تھے۔ ان علاقائی ممالک میں سے ترکی اس جنگ کے نتیجے میں دمشق حکومت کو سرنگوں کرکے شام، فلسطین اور اردن پر بالادستی حاصل کرکے یہاں خلافت قائم خواب دیکھ رہا تھا۔ خلیجی ممالک اس جنگ کے نتیجے کو اپنی ملوکیت بجانے کی آخری کوشش تصور کررہے تھے <ref>ایضا، ص299-300</ref>۔
شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فورا بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ شام کو کمزور کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا، ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تھا۔ شام پر مسلط کی گئی جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں تھا۔ شامی حکومت کا قصور یہ تھا کہ اس نے خطے میں اسرائیلی بالادستی کو  ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکن مدد بھی دمشق حکومت کا جرم تصور کی گئی۔ اسی طرح دمشق، تہران اور بیروت سے قریبی تعلقات بھی باعث بنے کہ شام کے دشمن نے دمشق کو سبق سکھانے کے لیے شدت پسندوں کے ذریعے شام پر جنگ مسلط کر دی۔ دشمن کی طرف سے مسلط شدہ اس جنگ میں ایران، روس، چین، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقاومتی گروہ شام کے اتحادی تھے۔ اس جنگ میں تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں اور خلیجی بادشاہوں کے علاوہ مسلح شدت پسند تکفیری گروہوں نے اسرائیل  کی حمایت کی۔ اسرائیل کی پشت پناہ  عالمی سامراجی طاقتوں میں امریکہ کے علاوہ فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ عالمی سامراجی طاقتیں اس جنگ کے ذریعے خطے کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاسی نظم و نسق پر کنٹرول چاہتی تھیں کیونکہ اس خطے پر کنٹرول پوری دنیا پر کنٹرول کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب، ترکی اور امارت وغیرہ اسرائیل کے پشت پناہ تھے۔ ان علاقائی ممالک میں سے ترکی اس جنگ کے نتیجے میں دمشق حکومت کو سرنگوں کرکے شام، فلسطین اور اردن پر بالادستی حاصل کرکے یہاں خلافت قائم کرنے کا  خواب دیکھ رہا تھا۔ خلیجی ممالک اس جنگ کے نتیجے کو اپنی ملوکیت بجانے کی آخری کوشش تصور کررہے تھے <ref>ایضا، ص299-300</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{شام}}
[[زمرہ: شام]]
[[زمرہ:ممالک]]