سید محمد دہلوی

نظرثانی بتاریخ 14:37، 10 فروری 2024ء از Mahdipor (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏حوالہ جات)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

سید محمد دہلوی پاکستانی شیعوں کے سب سے پہلا قائد تھے ۔آپ کی قیادت کے دوران مختلف کمیٹیاں معرض وجود میں آئیں۔ سید محمد برصغیر کے مشہور خطباء میں سے تھے اور آپ کو خطیب اعظم کا لقب ملا۔ آپ 1950ء کو پاکستان تشریف لائے۔ آپ نے پاکستان آنے کے بعد مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دیں اوربے لوث خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو قائدملت جعفریہ کاخطاب دیا گیا اور اس طرح پہلی بارپاکستان کی تاریخ میں قائدملت جعفریہ پاکستان کاٹائٹل ابھرکرسامنے آیا۔

سید محمد دہلوی
سید محمد دہلوی.jpg
پورا نامسید محمد دہلوی
دوسرے نامخطیب اعظم
ذاتی معلومات
پیدائش1920 ء، 1298 ش، 1338 ق
پیدائش کی جگہپاکستان
وفات1971 ء، 1349 ش، 1390 ق
وفات کی جگہکراچی
اساتذہآفتاب حسین
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • قائد ملت جعفریہ

حالات زندگی

آپ نے١٨٩٩ء کوایک علمی گھرانہ میں آنکھ کھولی ،آپ کاآبائی تعلق موضع پتن ہیٹری، ضلع بجنور یو۔پی کے زیدی سادات سے تھا۔ آپ کے والد محترم کانام سیدآفتاب حسین اورآپ کے جدگرامی کانام سید غازی الدین حسن تھا ۔ آپ کے والد جناب مولانا مرحوم سیدآفتاب حسین دہلی کی شیعہ جامع مسجدمیں پیش نماز تھے۔ مولوی آفتاب حسین مرحوم آپ کے بچپن میں ہی رحلت فرما گئے۔ اوردرگاہ پنجہ شریف دہلی میں شہید رابع علیہ الرحمہ کے سرہانے مدفون ہوئے، یہی وجہ تھی کہ خطیب اعظم نے دہلی کواپنا وطن بنا لیا اور اسی نسبت سے تاحیات دہلوی کہلائے۔ مرحوم دہلوی صاحب چارسال کی عمرمیں یتیم ہوگئے تھے ۔جبکہ پانچ سال کی عمرمیں والدہ کاسایہ بھی سر سے اٹھ گیاتھا۔ باوجود یتیم ہونے کے یہ تائیدخداوندایزدی تھی کہ آپ کی تعلیم وتربیت جلیل القدرعلمائے دین کی سرپرستی میں ہوئی ،آپ کی والدہ گرامی نے قرآنی تعلیم کے لئے آپ کوحافظ قاری سیدعباس حسین کے سپردکیا۔ آپ 20اگست 1971ء اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے [1]۔

تعلیم و تربیت

والدہ کی وفات کے بعدآپکی سرپرستی مولانامیرزامحمدحسن اورمولانا سید محمد ہارون نے اپنے ذمہ لی اور کافیہ تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کوعلم وادب کے مرکزلکھنو روانہ کیا۔جہاں چارسال کے عرصہ تک مدرسہ ناظمیہ میں کسب فیض کیا۔ اسی طرح آپ نے یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین سندبھی عربی زبان و ادب میں اچھے نمبروں سے حاصل کی۔ آپ کی تعلیم وتربیت میں جن مشہورعلمائے دین کاکرداررہاان میں بالخصوس مندرجہ ذیل پانچ ہستیاں سرفہرست ہیں:

  • شمس العلماء سید عباس حسین جارچوی،
  • دہلی میں مولوی مرزا محمد حسن مرحوم،
  • مولوی سید محمد ہارون زنگی پوری مرحوم،
  • لکھنؤ مدرسہ ناظمیہ میں سید نجم العلماء،
  • مولوی سید مقبول احمد مرحوم ۔

اساتذہ

مولانامیرزامحمدحسن ،مولانا نجم الملتہ نجم الحسن ،مولانا محمد ہارون زنگی پوری جودوسوکے قریب گرانقدرعلمی کتابوں کے مصنف بھی تھے اوربڑے بڑے علماء کو ان کی شاگردی پرنازتھا۔ ،مولانامقبول احمد جن کاترجمہ وحواشی قرآن آج بھی برصغیرمیں شہرہ آفاقی کی حیثیت کاحامل ہے۔ ،مولاناشیخ محمدطیب عربی مکی جواہل زبان اورعربی کے مایہ نازاستادتھے۔ جناب مرحوم دہلوی صاحب اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے بعدمذہب اہل بیت (ع) کی ترویج میں زندگی بسرکرنے لگے۔

علمی خدمات

تقاریرکے میدان میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ تحریری میدان میں بھی موصوف بہت مقبول تھے ،یہی وجہ تھی کہ جب ١٩٤٣ء میں نواب رضاعلی خان آف رام پورنے ادارہ تفسیرالقرآن قائم کیاجس میں متعددمایہ نازاور جید قسم کے علماء بھی شامل تھے تواس ادارہ کی سربراہی کے لئے خطیب اعظم کاانتخاب کیا،خطیب اعظم اپنے ذاتی ذوق تحریراوراس ادارہ کی اہمیت کے پیش نظردہلی سے رام پور تشریف لے گئے، اس دوران مجالس کے سلسلے میں بھی آپ کا باہرآناجانارہامگرمستقل قیام رام پور میں ہی رہااوراپنے سات سالہ قیام کے دوران شب وروز کی جانفشانی سے تفسیرقرآن کامقدمہ تحریرفرمایاجوتقریباًپانچ /چھہ سو صفحات پرمشتمل تھا۔ کون اندازہ لگاسکتاہے کہ اس میں کیاعظیم علمی اورتحقیقی جواہرپارے ہونگے! ١٩٥٠ء میں آپ نے پاکستان ہجرت فرمائی،لیکن صد افسوس کہ یہ علمی شاہنامہ اسی ادارہ میں رہ گیااور اس کے بعد اس سرکاری ادارہ میں بھی اس کاسراغ نہ مل سکا،مقدمہ تفسیرقرآن جیسے عظیم کارنامے کے علاوہ قیام پاکستان سے قبل آپ کی کئی تحریری کاوشیں دہلی سے طبع ہو چکیں تھیں: جن میں

  • مقتل ابی مخنف کتاب کاترجمہ
  • رسول اوران کے اہل بیت
  • قرآن اوراہل بیت
  • معجزات آئمہ اطہار
  • ترجمہ رسالہ وجوب نماز جمعہ جیسی اہم کتابیں شامل ہیں اوراسی طرح قیام پاکستان کے بعدکراچی سے ایک نہایت اہم کتاب رو
  • نورالعصر شائع ہوئی ،مگرافسوس کہ نورالعصرکے علاوہ باقی تمام کتابیں ناپیدہیں۔

سید محمد دہلوی کی کتاب نور العصر کے مقدمے میں علامہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل لکھتے ہیں کہ ” اس کتاب میں قرآن مجید،تفسیر، حدیث، عقائد،کلام اور آسان فلسفہ دیانت، مسلمانوں کے مسلمات اور اکابر علماء اسلام کے ارشادات ہیں۔ سادی اور عام فہم اور نتیجہ خیز دلیلیں ہیں۔ عقل کی روشنی میں مذہب شیعہ کا بیان ہے۔ آیات کے فیضان سے امامت پر استدلال ہے اور قرآنی شواہد کی امداد سے حضرت امام آخر الزماں علیہ الصلاۃ والسلام کی معرفتِ کے لیے دعوت دی گئی ہے۔ معقول حقائق کے لیے مواد مہیا کیا ہے اور بات سمجھنے کے لیے قندیل نور روشن کی ہے۔ آپ خطابت میں وہ مقام حاصل کیا کہ خطیب اعظم کا لقب پایا۔ سادات بارہہ کے لیے انہی سے ایک شاندار بورڈنگ بنوایا۔ بمبئی میں قیصر باغ جیسی تعمیر آپ کی پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ دہلی ہال اور جھنگ کا یتیم خانہ آپ کے جذبوں کا ترجمان ہے۔ 1931ء سے انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے رکن تھے اور اس ادارے کی بہتری کے لیے کام کیا۔ لکھنؤ کے تاریخی ایجی ٹیشن میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ ستر برس کی عمر اپنی جواں ہمتی اور بہادرانہ پامردی کے ساتھ ایک انتھک سپاہی، ایک بے پروا مجاہد اور ایک نڈر قائد کی طرح پوری قوم کی قیادت فرمائی [2]۔

خطیب اعظم

چونکہ مکتب اہل بیت (ع) کی نشرواشاعت اورتبلیغ دین میں اہم کردارشہید کربلاحضرت امام حسین علیہ السلام اوران کے انصار باوفا کی یادمیں منعقدکی گئی مجالس عزا کاہے اورتاریخ کے مطابق ان مجالس عزا کاباقائدہ انعقاد واہتمام صادق آل محمد (ص)حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانے میں خود انہی کے حکم سے ہوا،جو تاہنوزجاری ہے اورانشاء اللہ تاقیامت جاری رہے گا۔اس اہم سیاسی ومذہبی عبادت کے سلسلہ کوجاری رکھنے کے لئے صدیوں پرمحیط اس عرصے میں ہرملک وقوم میں اعلیٰ سے اعلیٰ خطیب اورذاکرین پیدا ہوتے رہے جنہوں نے دنیاکوفضائل و مصائب اہل بیت علیہم السلام سے روشناس کرایا،یہاں تک کہ برصغیرپاک و ہندمیں بھی جب اردوزبان نے عروج پایاتواس زبان میں چند ایسے نامورخطیب پیداہوئے جن کاتذکرہ تاریخ نے ہمیشہ کے لئے اپنے اندرمحفوظ کرلیا،انہی چندنامورہستیوں میں سے نہایت معروف، مشہوراورصدواجب الاحترام شخصیت حضرت مستطاب عالی جناب مولاناخطیب اعظم سیدمحمددہلوی اعلیٰ اللہ مقامہ کی ہے،آپ کاانداز بیان اس قدردلنشین تھاکہ سننے والاآپ کے اندازتکلم سے مسحورہوکررہ جاتاتھا،مشکل ترین مسائل کوآسان ترین اورخوبصورت مثالوں کے ذریعے مومنین کے ذہن نشین کردینا آپ کی تقریروخطابت کی خوبی تھی اوریہی وہ منفردکمال تھا جو آپ کی ذہانت ، فصاحت وبلاغت اورعلمی مسائل پرمکمل عبورکانتیجہ تھا۔

آپ کے زمانے میں بھی خطابت کے میدان میں سیدالعلماء سیدعلی نقی نقن،حافظ کفایت حسین نجفی ،سیدابن حسن نونہروی،فاتح ٹیکسلا محمد بشیر ، حافظ سید ذوالفقارعلی شاہ، مرزا احمدعلی اور لقاعلی حیدری صاحب جیسے بہت سے شہرہ آفاق،ذی وقاراورعالی مقام نام موجودتھے،اوران تمام ترحضرات کے ہوتے ہوئے خطیب اعظم کا خطاب پانا کوئی معمولی بات نہ تھی. سیدمحمددہلوی صاحب کویہ خطاب اس وقت ہندوستان بھرکے ہندو،مسلمان،سنی اورشیعہ عمائدین واکابرین نے بالاتفاق وبیک زبان ہوکرعطاکیا،جب کانگریس کے سرکردہ لیڈربیرسٹرپنڈت موتی لال نہروجوسابق وزیراعظم ہند پنڈت جواہرلال نہروکے والدتھے ان کے انتقال پر ہندوستان کے پایہ تخت دہلی کے وسیع وعریض میدان پریڈگراونڈمیں خواجہ حسن نظامی کے زیر اہتمام ایک تعزیتی جلسہ عام کاانعقادکیاگیاتھا،جس میں عمائدین شیعہ سے بطورخاص مولاناموصوف کو مدعو کیاگیاتھا اورتقریرکی بھی فرمائش کی گئی تھی،جب مولانا نے تقریر شروع کی توبجائے پنڈت موتی لال نہرو کی تعریف کرتے اپنے ماہرانہ اندازفصاحت وبلاغت سے خالق کائنات کی حمدوثناء کرتے ہوئے تخلیق کائنات کا موضوع اپنایا اور سائنسی اندازمیں قرآنی حوالوں سے اس پرروشنی ڈالی یہاں تک کہ اسی کائنات میں سمندروں کی تخلیق اوراس میں موتی بننے کے مراحل،ساتھ ہی ساتھ زمین میں جواہرات کی بتدریج تخلیق پر روشنی ڈالنامولاناکی ذہانت کاکمال تھا،تقریر کے اختتام پرحسن نظامی کی تحریک پرتمام عمائدین ملک نے آپ کو ”خطیب اعظم ” کاخطاب دیااورتاحد نگاہ انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرنے اس کی تائید کی،آپ کے لئے یہ لقب اتنامقبول ہوا کہ آپ کے نام کاحصہ بن گیا۔

قومی خدمات

مارچ 1948ء میں ایک ادارہ کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب چند روایتی رہنماؤں نے آل پاکستان شیعہ کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد منظورکروائی جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھاکہ ”ہم شیعان حیدر کرار کے پاکستان میں وہ ہی حقوق ہیں جو دوسرے اہلسنت برادران کے ہیں اور دیگر مسلمانوں سے الگ ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں” ۔ لہذاجب اس کی خبر مفتی جعفرحسین قبلہ اور حافظ کفایت حسین کو ہوئی تو انہوں نے دور اندیشی کے ساتھ انتہائی سخت رد عمل کا اظہارکیا اور کہا کہ ”یہ غلط ہے کہ ہمارے دوسرے مسلمانوں سے الگ کوئی اورحقوق نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں سے ہماری کچھ الگ خصوصیات اورحقوق ہیں کہ جن کے تحفظ سے ہم دستبردارنہیں ہوسکتے ہیں”۔

ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان

مذکورہ قرارداد کے چند روز بعد ”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان” کا لاہور میں قیام عمل میں آیا اورمفتی جعفر حسین مرحوم پہلے صدر،حافظ کفایت حسین مرحوم نائب صدر، سیداظہرحسین زیدی مرحوم جونیئرنائب صدر، پروفیسر صادق حسین قریشی مرحوم جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1949ء میں مفتی جعفر حسین مرحوم تعلیمات اسلامیہ بورڈ کے رکن نامزد ہو گئے۔ اکتیس علماء کے بائیس نکات اور تحریک ختم نبوت میں اسی پلیٹ فارم سے حصہ لیا گیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ اور دیگر تنظیمیں بھی روایتی ہوتے چلے گئے جب کہ مسائل بڑھتے گئے۔ پہلے تو اقتدار کی چومکھی دوڑ جاری رہی پھر ایوب خان کا مارشل لاء آ گیا، عائلی قوانین آ گئے، سارے اوقاف پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ 1963ء میں سانحہ ٹھیڑی، سندھ میں پیش آیا اس پر کوئی خاص احتجاج و دادرسی نہ ہو سکی۔ درسی کتب میں دل آزار مواد شامل ہو گیا۔ دینیات کے نام پر ایک خاص نکتہ نظر کو پڑھایا جانے لگا۔ عزاداری کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی ہونی شروع ہوگئیں۔ شیعہ افسران سے تعصب برتا جانے لگا، انہیں اہم ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا جانے لگا۔ غرضیکہ مسائل بڑھتے چلے گئے۔

پہلا منظم اجتماع

ان حالات میں سید محمد دہلوی مرحوم نے 5، 6، 7 جنوری 1964ء کو کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم اجتماع امام بارگاہ شاہ کربلا، رضیہ کالونی، کراچی میں منعقد کروایا

  • آزادانہ طورپرعزاداری امام حسین علیہ السلام کی اجازت ہونی چاہئے اوراس کے تمام تر حفاظتی امورحکومت پرعائدہوتے ہیں۔
  • شیعہ اسٹوڈنس کے لئے اسکولوں میں جداگانہ اپنی فقہ کے مطابق نصاب دینیات کاانتظام ہوناچاہئے۔
  • درسی کتب سے قابل اعتراض ودل آزارموادکااخراج کیاجائے۔
  • تمام ترشیعہ اوقاف کی نگرانی کے لئے شیعہ بورڈکاقیام عمل میں لایاجائے۔

شیعہ رہنما سیدمحمددہلوی نے کل پاکستان علمائے شیعہ کنونشن میں طے پانے والی تمام قرار دادوں سے اپنی قوم کوروشناس کرانے کے لئے ملک گیرسطح پردورہ جات کئے اورپاکستان کے گوشہ گوشہ میں اپنے مطالبات دھراتے رہے مگرحکومت نے اپنی گزشتہ تاریخ کے مطابق ہمیشہ کی طرح شیعہ مطالبات کو نظراندازکرنے کاروایتی اندازاپنایاجس کے نتیجہ میں اکتوبر١٩٦٤ء کوعوامی سطح پرملک گیراحتجاج میں حکومت کی اس روایتی اندازکی بھرپورالفاظ میں مذمت کی گئی اورمطالبہ کیاگیاکہ کل پاکستان علمائے شیعہ کنونشن کے تمام ترمطالبات پر عمل درآمد کیا جائے ۔

سیدمحمددہلوی کی حکمت عملی موثرواقع ہوئی اورصدرایوب خان نے شیعہ اکابرین اورعلماء پرمشتمل ٥٠ رکنی وفدسے ملاقات کی اورشیعہ مطالبات کوحق بجانب سمجھتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لئے پانچ شیعہ اورچارحکومت کی نمائندگی میں مشتمل افرادپرایک کمیٹی بنانے کااعلان کیا۔شیعہ نمائندگی میں جن پانچ افراد کے نام تھے ان میں علامہ سیدمحمددہلوی کے علاوہ مرحوم علامہ مفتی جعفرحسین جیسی اہم شخصیات تھیں،چانچہ آپ کی اورآپ کے ساتھیوں کی تگ و دو سے دونومبر١٩٦٨ء کو حکومت نے نصاب تعلیم کے مطالبہ کوتسلیم کرلیا جس پرقوم نے خطیب اعظم کی اس پرخلوص اوربے لوث خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو”قائدملت جعفریہ ”کاخطاب دیا اور اس طرح پہلی بارپاکستان کی تاریخ میں قائدملت جعفریہ پاکستان کاٹائٹل ابھرکرسامنے آیا۔

دوران قیادت خدمات

دوران قیادت آپ کی خدمات کو فہرست وار پیش کیا جا رہا ہے:

  • 5، 6، 7 جنوری 1964ء۔ کراچی میں علماء کا اجلاس اور مطالبات کا تعین، مجلس عمل علمائے شیعہ اور انتخاب
  • 23،فروری1964ء مطالبات کے سلسلے میں وفد گورنر امیر محمد خان سے ملاقات ۔ انہوں نے غور کرنے کا کہہ کر ٹال دیا۔
  • 3،مارچ،1964ء صدر پاکستان سے ملاقات کی۔ وعدہ کیا جو پورا نہ ہوا۔
  • 14، مئی،1964ء صدر پاکستان سے کراچی میں ملاقات کی اور وعدہ یاد دلایا۔ انہوں نے سیکرٹری تعلیم سے ملنے کو کہا۔
  • 13،اگست1964ء کو سیکرٹری تعلیم سے راولپنڈی میں ملاقات کی جو سودمند ثابت نہ ہوئی تو پنڈی کنونشن طلب کیا گیا۔
  • 30،29،28 اگست1964ء کو راولپنڈی میں عظیم الشان کنونشن منعقد ہوا۔ تیس ہزار سے زائد مؤمنین نے شرکت کی۔ پاس کردہ ریزولیوشن حکومت کو بھیجا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔
  • 25، اکتوبر،1964ء آل پاکستان یوم احتجاج منایا گیا۔ حکومت کو ہر جگہ سے خطوط اور ٹیلی گرامز دئے گئے مگر حکومت کی طرف سے خاموشی رہی۔
  • 30، نومبر،1964ء پچاس افراد مشتمل علماء و زعماء نے لاہور میں صدر سے ملاقات کی اور صدر نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔
  • جنوری،1965ء قائد ملت سید محمد دہلوی نے ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا مگر گورنر نے اپنے دوست کا نام کمیٹی میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہونے دیا۔
  • 28،27،اگست،1966ء کو ملتان میں کنونشن منعقد ہوا۔ ملک بھر سے نمائندگان شریک ہوئے۔ حکومت سے پر زور مطالبہ کیا گیا کہ وہ شیعہ مطالبات کو منظور کرے مگر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
  • 1965,ء،1966ء میں پورے ملک میں شیعہ مطالبات کمیٹیاں قائم کر دیں گیں۔
  • 6،نومبر,1966ء کو جھنگ میں کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ملک بھر سے نمائندگان نے شرکت کی۔
  • 12،11فروری,1967 کو کراچی میں ورکرز، ممبران کونسل اور مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا مگر بے سود رہا۔
  • 4،3جون، 1967ء عظیم شان جلسے کا اعلان کیا۔ جلسہ سے قبل گورنر جنرل موسیٰ سے ایک وفد نے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر جلسہ ملتوی کردیا جائے تو مطالبات کی منظوری کے لیے کوشش کرے گا۔ مگر جلسہ ملتوی کرنے کے باوجود کچھ نہ ہوا۔
  • 15،14 جنوری،1968 پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ٹیلی گرام و خطوط لکھ کر حکومت سے مطالبات کی منظوری کےلیے کہا گیا۔
  • 12،11،10فروری,1968 حیدرآباد میں کنونشن طلب کیا گیا ۔گورنر موسٰی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ علمائے کرام و مندوبین کی حیدرآباد میں داخلہ پر پابندی لگا دی لیکن وزیر داخلہ کے وعدہ پر کنونشن ملتوی کر دیا گیا مگر وعدہ وفا نہ ہوا۔
  • 25مارچ1968ء کو لاہور میں ایک میٹنگ بلائی گئی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ سے ایک وفد ملا تو انہوں نے بتایا کہ مطالبات حکومت کے زیر غور ہیں۔
  • 7،6جولائی،1968ء کو حیدر آباد میں مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا جس میں مطالبات کے حصول کے لیے مختلف طریقوں پر غور ہوا۔
  • 3،2 نومبر،1968ء راولپنڈی میں جلسہ عام بلایا گیا۔ دس ہزار سے زائد مؤمنین جمع ہو گئے۔ جبکہ سینکڑوں علاقہ جات سے کفن بر دوش دستوں کی اطلاعات آنی شروع ہو گئیں۔ پہلا 72 افراد پر مشتمل دستہ 2, نومبر کو پہنچنا تھا کہ حکومت نے مطالبات کی منظوری کا اعلان کر دیا۔
  • حکومت نے مطالبات تو منظورِ کر لیے مگر عمل درآمد میں تساہل سے کام لیتی رہی۔ علیحدہ شیعہ دینیات بھٹو کے دور میں احتجاجی دھرنے کے بعد جاری ہوئی۔1976ء میں میٹرک کا امتحان اسی دینیات پر ہوا۔ مگر اسے بھی برقرار نہ رکھ سکے۔ یہ ایک جھلک ہے کس طرح پوری قوم کو منظم کر کے دن رات ایک کر کے پھر پور جد وجہد کی۔ آپ کا یہ پہلو آپ کی پہچان تو ہے مگر لوگ اس سے کم آگاہی رکھتے ہیں [3]۔

لائبریری

تقریراورتحریرکے علاوہ خطیب اعظم کی رفاہی اوردیگردینی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں،قیام پاکستان سے قبل شیعہ ہوسٹل مظفرنگر اورشیعہ یتیم خانہ جھنگ کاقیام،نئی دہلی میں امامیہ ہال کی تعمیر،امامیہ یتیم خانہ کشمیری گیٹ دہلی اورشیعہ یتیم خانہ درگاہ پنجہ شریف دہلی کی سرپرستی کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد آپ کی دودینی خدمات نہایت ہی اہم ہیں جوہمیشہ کے لئے یادگاررہیں گی۔ سب سے پہلا کام یہ کہ آپ نے اپناانتہائی قیمتی کتب خانہ جوموصوف کی زندگی بھرکی کمائی کے علاوہ چھ ہزارسے آٹھ ہزارتک کی نادروقیمتی کتب پرمشتمل تھااپنی قوم کے لئے وقف کردیاجوکہ کراچی،ناظم آباد نمبر ٢میں جامعہ امامیہ سے متصل ایک لائبریری مکتبہ العلوم کے نام سے آج بھی قوم کے استفادہ کے لئے موجودہے۔

حوالہ جات

  1. قائد ملت جعفریہ خطیب اعظم حضرت علامہ سید محمد دہلوی رح، rasanews.ir
  2. سید محمد دہلوی، maablib.org
  3. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020