"سید علی خامنہ ای" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 214: سطر 214:
ایران کے عوام کے نام ایک پیغام میں امام خمینی نے قرار داد کی منظوری کو ایک بہت ہی تلخ اور افسوسناک مسئلہ قرار دیا اور صرف انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی مصلحت کی وجہ سے قرار دیا: "میرے لئے اس قرار داد کا  قبول کرنا زہر سے زیادہ مہلک ہے۔ لیکن میں خدا کی مرضی پر راضی ہوں اور میں نے یہ مشروب اس کی رضا کے لیے پیا ہے... اس قرارداد کی قبولیت میں ایرانی  حکام نے  فقط اپنے آپ پر بھروسہ  کیا ہے اور کسی شخص نے یا کسی ملک نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔“ اس فیصلے کے بعد 27 تیرماہ  1367 کو آیت اللہ خامنہ ای نے صدر ایران کی حیثیت سے  اقوام متحدہ کے اس وقت کے سکریٹری جنرل زیویئر پیریز ڈیکویار کے نام ایک خط میں ایران کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرارداد 598 کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
ایران کے عوام کے نام ایک پیغام میں امام خمینی نے قرار داد کی منظوری کو ایک بہت ہی تلخ اور افسوسناک مسئلہ قرار دیا اور صرف انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی مصلحت کی وجہ سے قرار دیا: "میرے لئے اس قرار داد کا  قبول کرنا زہر سے زیادہ مہلک ہے۔ لیکن میں خدا کی مرضی پر راضی ہوں اور میں نے یہ مشروب اس کی رضا کے لیے پیا ہے... اس قرارداد کی قبولیت میں ایرانی  حکام نے  فقط اپنے آپ پر بھروسہ  کیا ہے اور کسی شخص نے یا کسی ملک نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔“ اس فیصلے کے بعد 27 تیرماہ  1367 کو آیت اللہ خامنہ ای نے صدر ایران کی حیثیت سے  اقوام متحدہ کے اس وقت کے سکریٹری جنرل زیویئر پیریز ڈیکویار کے نام ایک خط میں ایران کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرارداد 598 کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
== دہشت ==
== دہشت ==
اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں میں ایرانی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ملک کے سرکاری سیاسی ڈھانچے میں دو بااثر دھڑوں کا وجود اور سرگرمی تھی جنہیں امام کی صفی قوتوں اور آزادی پسندوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امام خمینی کے زیادہ تر دوست، رشتہ دار اور مشیر، بشمول ان کے، امام کی صفی افواج کے دھڑے میں شامل تھے۔ لبرل دھڑے کی سرکردہ شخصیت، جس کا فکری اور سیاسی نقطہ نظر کے لحاظ سے امام کی صف کی قوتوں سے کئی تنازعات تھے، '''ابوالحسن بنی صدر''' تھے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں ایرانی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ملک کے سرکاری سیاسی ڈھانچے میں دو بااثر دھڑوں کا وجود اور ان کی  سرگرمیاں تھیں جنہیں ”نیروہای خط امام“ اور لبرلز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امام خمینی کے زیادہ تر دوست، رشتہ دار اور مشیر، بشمول آیت اللہ خامنہ ای” نیروہای خط  امام“ نامی  دھڑے میں شامل تھے۔ لبرل دھڑے کی سرکردہ شخصیت، جس کے فکری اور سیاسی نقطہ نظر سے”نیروہای خط امام“ سے کئی تنازعات تھے، '''ابوالحسن بنی صدر''' تھے۔


وہ بنی صدر کو ایک ایسے دھارے کا نمائندہ سمجھتے تھے جو ملک کے اعلیٰ حکام کی سطح پر تفرقہ اور تصادم کا سبب تھا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں تفرقہ اور انتشار کا باعث تھا۔ تاہم بنی صدر اور ان کی ہم خیال اور حمایتی تحریک سے بنیادی اختلاف کے باوجود، معاشرے میں اتحاد کو برقرار رکھنے اور اس پر امام خمینی کی تاکید کے باوجود عوامی حلقوں میں اپنی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ بعض معاملات میں وہ فیصلہ امام خمینی کے پاس لے جاتا ہے۔ بنی صدر کے اسلامی انقلاب اور آئین کی نوعیت سے واضح انحراف کے بعد اور 30 ​​جون 1360 کو اسلامی شوریٰ مجلس میں صدارت کے لیے ان کی سیاسی نا اہلی کی تجویز کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے مفصل اور موثر تقریر کی۔ تجویز
آیت اللہ خامنہ ای ، بنی صدر کو ایک ایسے دھارے کا نمائندہ سمجھتے تھے جو ملک کے اعلیٰ حکام کی سطح پر تفرقہ اور تصادم کا سبب تھا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں تفرقہ اور انتشار کا باعث تھا۔ تاہم بنی صدر اور ان کی ہم خیال اور حمایتی تحریک سے بنیادی اختلاف کے باوجود، معاشرے میں اتحاد کو برقرار رکھنے اور اس پر امام خمینی کی تاکید کی وجہ سے  انہوں نے  عوامی حلقوں میں اپنی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ بعض معاملات میں وہ فیصلہ امام خمینی کے پاس لے جاتےتھے۔ بنی صدر کے اسلامی انقلاب اور آئین کی نوعیت سے واضح انحراف کے بعد اور 30 ​​خرداد 1360 کو پارلیمنٹ میں صدارت کے لیے ان کی سیاسی نا اہلی کی تجویز کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے مفصل اور موثر تقریر کی۔ تجویز


1358ء سے یکم جولائی 1360ء تک اس نے مختلف مقدمات میں لبرل اور قوم پرست دھڑے کے خلاف مخالفانہ موقف اختیار کیا۔ انہوں نے ایران میں امریکی فوجی مشیر کے دفتر کو برقرار رکھنے اور عبوری حکومت کی طرف سے اس کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کی۔ وزراء، نائب وزراء کے انتخاب اور سرکاری محکموں اور اداروں میں صفائی ستھرائی کے معاملے کے بارے میں انہوں نے ایسے لوگوں کے انتخاب کی بھی مخالفت کی جو انقلاب کی صف میں نہ تھے اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ کی لائن کے حق میں تھے یا رجعت پسندوں سے تعلقات رکھتے تھے۔ عرب ممالک وغیرہ۔
1358ء سے یکم تیرماہ  1360ء تک انہوں نے مختلف معاملات میں لبرل اور قوم پرست دھڑے کے خلاف موقف اختیار کیا۔ انہوں نے ایران میں امریکی فوجی مشیر کے دفتر کو برقرار رکھنے اور عبوری حکومت کی طرف سے اس کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کی۔ وزراء، نائب وزراء کے انتخاب اور سرکاری محکموں اور اداروں میں صفائی ستھرائی کے بارے میں انہوں نے ایسے لوگوں کے انتخاب کی بھی مخالفت کی جو انقلاب کی صف میں نہ تھے اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ یا خطے کے رجعت پسند عرب ممالک سے تعلقات رکھنا چاہتے تھے ۔


6 جولائی 1360 کو تہران کے جنوبی علاقے میں واقع ابوذر مسجد میں نماز ظہر کے بعد تقریر کرتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر میں نصب بم کے پھٹنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ امام خمینی نے اپنے ایک پیغام میں ان کی جان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان کے سینے، کندھے اور دائیں ہاتھ میں شدید چوٹیں آئیں۔ غیر سرکاری رپورٹس میں اس واقعے کی وجہ ایران کی عوامی مجاہدین تنظیم بتائی گئی ہے۔ بنی صدر کی جنرل کمان اور صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد ہونے والے واقعات اور پیش رفت میں آیت اللہ خامنہ ای پہلے شخص تھے جنہیں قتل کیا گیا۔ وہ 18 اگست 1360 کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور سماجی اور سیاسی منظر نامے پر واپس آئے اور 26 اگست 1360 سے اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
6 تیرماہ  1360 کو تہران کے جنوبی علاقے میں واقع مسجد  ابوذر میں نماز ظہر کے بعد تقریر کرتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر میں نصب بم کے پھٹنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ امام خمینی نے اپنے ایک پیغام میں ان کی جان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان کے سینے، کندھے اور دائیں ہاتھ میں شدید چوٹیں آئیں۔ غیر سرکاری رپورٹس میں اس واقعے کا ذمہ دار  مجاہدین خلق ایران نامی تنظیم کو بتایا گیا ۔ بنی صدر کی صدارت سےمعزولی کے بعد ہونے والے واقعات اور پیش رفت میں آیت اللہ خامنہ ای پہلے شخص تھے جن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وہ 18 مرداد  1360 کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور سماجی اور سیاسی منظر نامے پر واپس آئے اور 26 مرداد  1360 سے اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
== صدارت ==
== صدارت ==
پہلا دور - 95% ووٹوں کے ساتھ صدر کے طور پر انتخاب۔ ایران کے دوسرے اسلامی صدر محمد علی رجائی کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوریہ پارٹی کی مرکزی کونسل اور قم مدرسہ کے اساتذہ نے ان کی مخالفت کے باوجود متفقہ طور پر انہیں صدارتی امیدوار منتخب کیا اور امام خمینی جو اس سے قبل صدارتی امیدوار تھے۔ علما کے ساتھ صدارت کے لیے وہ متفق نہیں تھے، وہ ان کی نامزدگی سے متفق تھے۔
پہلا دور - 95% ووٹوں کے ساتھ صدر کے طور پر انتخاب۔ ایران کے دوسرے اسلامی صدر محمد علی رجائی کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل اورجامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے ان کی مخالفت کے باوجود متفقہ طور پر انہیں صدارتی امیدوار منتخب کیا اور امام خمینی جو اس سے قبل علما کےصدارت کا منصب سنبھالنے کے خلاف تھے، انہوں نے بھی ان کی نامزدگی سے اتفاق کیا۔


گارڈین کونسل کی طرف سے ان کی نامزدگی اور اہلیت کے اعلان کے بعد، مختلف گروہوں اور شخصیات نے ان کی صدارت کی حمایت کی۔ آیت اللہ خامنہ ای کے سب سے اہم حامیوں میں سے ایک خط امام گروپوں کا اتحاد تھا۔ انتخابات 10 مہر 2013 کو ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای ووٹوں کی مطلق اکثریت (95 ووٹ، 11 فیصد) کے ساتھ صدر منتخب ہوئے۔ 17 مہر 1360 کو امام خمینی نے اپنے صدارتی فرمان پر عملدرآمد کیا اور 21 مہر کو اسلامی کونسل میں ایران کے تیسرے اسلامی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
گارڈین کونسل کی طرف سے ان کی نامزدگی اور اہلیت کے اعلان کے بعد، مختلف گروہوں اور شخصیات نے ان کی صدارت کی حمایت کی۔ آیت اللہ خامنہ ای کے سب سے اہم حامیوں میں سے ایک خط امام گروپوں کا اتحاد تھا۔ انتخابات 10 مہر 2013 کو ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای ووٹوں کی مطلق اکثریت (95 ووٹ، 11 فیصد) کے ساتھ صدر منتخب ہوئے۔ 17 مہر 1360 کو امام خمینی نے اپنے صدارتی فرمان پر عملدرآمد کیا اور 21 مہر کو اسلامی کونسل میں ایران کے تیسرے اسلامی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
confirmed
821

ترامیم