"سید علی خامنہ ای" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
سطر 42: سطر 42:
وہ ان پہلے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے 15 خرداد  1342 کی بغاوت سے پہلے کے عرصے میں ہم آہنگی کے ساتھ  مبارزاتی جد و جہد کا آغاز کیا۔ بہمن  1341 میں ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل پر ریفرنڈم کے بعد آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے بھائی سید محمد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ مشہد کے عوام کے ردعمل کے بارے میں آیت اللہ محمد ہادی میلانی کی رپورٹ امام خمینی کو ایک خط کی صورت میں  پہنچائیں۔  
وہ ان پہلے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے 15 خرداد  1342 کی بغاوت سے پہلے کے عرصے میں ہم آہنگی کے ساتھ  مبارزاتی جد و جہد کا آغاز کیا۔ بہمن  1341 میں ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل پر ریفرنڈم کے بعد آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے بھائی سید محمد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ مشہد کے عوام کے ردعمل کے بارے میں آیت اللہ محمد ہادی میلانی کی رپورٹ امام خمینی کو ایک خط کی صورت میں  پہنچائیں۔  
=== پہلی گرفتاری ===
=== پہلی گرفتاری ===
1342 میں اور ماہ محرم کے موقع پر، امام خمینی نے انہیں تحریک کو جاری رکھنے اور لوگوں کو پہلوی حکومت کے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنے کے لیے آیت اللہ میلانی اور خراسان کے علماء، علماء اور مذہبی اداروں کو پیغامات بھیجنے کا حکم دیا۔
1342 میں ماہ محرم کے موقع پر، امام خمینی نے انہیں آیت اللہ میلانی اور خراسان کے دیگر علما اور مذہبی انجمنوں تک تحریک کو جاری رکھنے اور لوگوں کو پہلوی حکومت کے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنے کے سلسلے میں  پیغامات بھیجنے پر مامور کیا۔


ان پیغامات میں امام خمینی نے جدوجہد کی پالیسی کا خاکہ پیش کیا اور علماء و مشائخ سے کہا کہ وہ پہلوی حکومت کے جرائم کی وضاحت کے لیے محرم کی ساتویں تاریخ سے منبروں میں ذکر فیضیہ پڑھیں۔ آیت اللہ خامنہ ای خود برجند گئے - جو کہ علمی خاندان کے زیر اثر تھا - مقصد کو حاصل کرنے اور امام خمینی کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، اور اس شہر کے منبروں اور مجالس میں انھوں نے مکتب اسلامی کے واقعات کے بارے میں تقریر کی۔ اسلامی معاشروں پر اسرائیل کی حکمرانی ان تقاریر کے بعد آپ کو 7 محرم 1383 کی مناسبت سے 12 جون 1342 کو مشہد میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا۔
ان پیغامات میں امام خمینی نے جدوجہد کی پالیسی کا خاکہ پیش کیا اور علماء اور روحانی حضرات سے کہا کہ وہ پہلوی حکومت کے جرائم کی وضاحت کے لیے محرم کی ساتویں تاریخ سے منبروں سے مدرسہ فیضیہ کا واقعہ بیان کریں۔ آیت اللہ خامنہ ای خود مقصد کو حاصل کرنے اور امام خمینی کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے  بیرجند گئے  جو کہ علم خاندان کے زیر اثر تھا  اور اس شہر کے منبروں اور مجالس میں انھوں نے مدرسہ فیضیہ کے حادثے  اور  اسلامی معاشروں پر اسرائیل کی حکمرانی کے متعلق تقریریں کی۔ ان تقاریر کے بعد آپ کو 7 محرم 1383 مطابق  12 خرداد 1342 کو مشہد میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا۔


رہائی کے بعد آیت اللہ محمد ہادی میلانی نے ان کی عیادت کی اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے نظربند امام خمینی کی غیر موجودگی میں اسلامی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے آیت اللہ میلانی کے گھر پر منعقدہ اجلاسوں میں شرکت کرکے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ قم کے مدرسے میں واپس آئے اور کچھ عسکری علما کی مدد اور تعاون سے مشاورتی اجلاسوں اور پروپیگنڈے کے ذریعے سیاسی سرگرمیوں کو دوبارہ منظم کیا۔ وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے 11 جنوری 1342 کو آیت اللہ سید محمود تلغانی، مہدی بازارگان اور ید اللہ صحابی کو ٹیلی گرام بھیجا تھا جو امام خمینی کی حمایت میں قید تھے۔ اسی دوران ان کی رہنمائی میں قم کے مدرسہ خراسانی کے طلباء نے امام خمینی کی مسلسل نظربندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم حسن علی منصور کو ایک خط لکھا اور شائع کیا جن میں وہ خود بھی شامل تھے۔ ، ابوالقاسم خزالی اور محمد ابی خراسانی۔
رہائی کے بعد آیت اللہ محمد ہادی میلانی نے ان سے ملاقات  کی۔ اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے نظربند امام خمینی کی غیر موجودگی میں اسلامی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے آیت اللہ میلانی کے گھر پر منعقدہ نشستوں  میں شرکت کرکے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ حوزہ علمیہ قم واپس آئے اور کچھ مجاہد علما کی مدد اور تعاون سے مشاورتی جلسوں  اور تبلیغات کے ذریعے سیاسی سرگرمیوں کو دوبارہ منظم کیا۔ وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے 11 دی  1342 کو آیت اللہ سید محمود طالقانی ، مہدی بازرگان اور ید اللہ سحابی کو ٹیلی گرام بھیجا تھا جو امام خمینی کی حمایت کی وجہ سے قید کر لئے گئے تھے۔ اسی دوران ان کی رہنمائی میں حوزہ علمیہ قم کے خراسانی طلبہ نے امام خمینی کی نظربندی کے جاری رہنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم حسن علی منصور کو ایک خط لکھا اور شائع کیا۔ان طلبہ میں ان کے علاوہ  ابوالقاسم خزعلی اور محمد عبائی خراسانی شامل تھے۔
=== دوسری گرفتاری ===
=== دوسری گرفتاری ===
وہ اسلامی تحریک کے مسائل کی تبلیغ اور وضاحت کے لیے رمضان المبارک 1383ھ کے متوازی بہمن 1342 میں زاہدان گئے۔
وہ اسلامی تحریک کے مسائل کی تبلیغ اور وضاحت کے لیے بہمن 1342 مطابق  رمضان المبارک 1383ھ میں زاہدان گئے۔زاہدان کی مسجدوں  میں ان کی تقاریر اور عوام کی پذیرائی نے حکومت کو انہیں  گرفتار کرنے اور قزل قلعہ جیل میں منتقل کرنے پر اکسایا جو اس وقت سیاسی قیدیوں کی حراست کی جگہ تھی۔ 14 اسفند 1342 کو آیت اللہ خامنہ ای کی گرفتاری کے حکم کو تہران کے دائرہ سے باہر نہ نکلنے  کے حکم میں تبدیل کر کے انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے انقلاب اسلامی کی فتح تک ان کی سرگرمیاں ہمیشہ سیکورٹی ایجنٹوں کے زیر نظر رہیں۔
 
زاہدان کی مساجد میں ان کی تقاریر اور عوام کی پذیرائی نے حکومت کو اس کو گرفتار کرنے اور قزل قلعہ جیل میں منتقل کرنے پر اکسایا - جو اس وقت سیاسی اور سیکورٹی قیدیوں کی حراست کی جگہ تھی۔ 14 مارچ 1342 کو آیت اللہ خامنہ ای کی گرفتاری کے حکم کو تہران کے دائرہ اختیار کو نہ چھوڑنے کے عزم کے حکم میں تبدیل کر دیا گیا اور انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے انقلاب اسلامی کی فتح تک ان کی سرگرمیاں ہمیشہ سیکورٹی ایجنٹوں کے کنٹرول میں رہیں
=== حوزہ علمیہ قم کے گیارہ اراکین کا اجلاس ===
=== حوزہ علمیہ قم کے گیارہ اراکین کا اجلاس ===
آیت اللہ خامنہ ای 1343ھ کے موسم خزاں میں قم سے مشہد واپس آئے اور اپنے والد کی دیکھ بھال کے علاوہ سائنسی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے امام خمینی کی ترکی جلاوطنی کے فوراً بعد، 29 فروری 1343ھ کو اس وقت کی حکومت یعنی امیر عباس ہویدا کی حکومت کو خط لکھا، جس میں ملک کی افراتفری کی صورتحال اور [[امام خمینی]] کی جلاوطنی کے خلاف احتجاج کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای 1343ھ کے موسم خزاں میں قم سے مشہد واپس آئے اور اپنے والد کی دیکھ بھال کے علاوہ علمی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے امام خمینی کی ترکی جلاوطنی کے فوراً بعد، 29 بہمن 1343کو اس وقت کی حکومت یعنی امیر عباس ہویدا کی حکومت کو خط لکھا، جس میں ملک کی افراتفری کی صورتحال اور [[امام خمینی]] کی جلاوطنی کے خلاف احتجاج کیا۔سید علی خامنہ ای، [[عبدالرحیم ربانی شیرازی]]، [[علی فیض مشکینی]]، [[ابراہیم امینی]]، [[مہدی حائری تہرانی]]، [[حسین علی منتظری]]، [[احمد آذری قمی]]، علی قدوسی، [[اکبر ہاشمی رفسنجانی]]، [[سید محمد خامنہ ای]] اور [[محمد تقی مصباح یزدی]]   کے ہمراہ اس گیارہ نفری  گروپ کا حصہ تھے، جو پہلوی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے حوزہ علمیہ قم کی تقویت اور اصلاح کے مقصد سے تشکیل دیا گیا تھا۔
سید علی خامنہ ای [[عبدالرحیم ربانی شیرازی]]، [[علی فیض مشکینی]]، [[ابراہیم امینی]]، [[مہدی حائری تہرانی]]، [[حسین علی منتظری]]، [[احمد آذری قمی]]، علی قدوسی، [[اکبر ہاشمی رفسنجانی]]، [[سید محمد خامنہ ای]] اور [[محمد تقی مصباح یزدی]] کے ساتھ۔ اس گروپ کے گیارہ ارکان تھے، جو پہلوی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے مدرسہ قم کو مضبوط اور اصلاح کرنے کے مقصد سے تشکیل دیا گیا تھا۔


جدوجہد فکر اور رائے پر مبنی تھی اور یہی اس کی ترقی کی وجہ تھی اور علما بھی اس جدوجہد کے باڈی اور ماسٹر مائنڈ تھے۔ جدوجہد کے اس مرحلے پر وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تنظیم کے بغیر انہیں کامیابی کم ملے گی اور اس کا وجود حکومت کے ہاتھوں جدوجہد کے خاتمے کو روک دے گا۔ امام خمینی کی جلاوطنی کے دوران اس گروہ نے مہم کی منصوبہ بندی اور اس کے تسلسل کو سنبھالا.
جدوجہد فکر اور عقیدے پر مبنی تھی اور یہی اس کی ترقی کی وجہ تھی۔ اور علما اس جدوجہد کی باڈی اور ماسٹر مائنڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ جدوجہد کے اس مرحلے پر وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تنظیم کے بغیر انہیں زیادہ  کامیابی نہیں ملے گی اور اس کا وجود حکومت کے ہاتھوں جدوجہد کے خاتمے کو روک دے گا۔ امام خمینی کی جلاوطنی کے دوران اس گروہ نے مہم کی منصوبہ بندی اور اس کے تسلسل کو سنبھالا.


اس گروہ کو [[حوزہ علمیہ قم]] کی پہلی خفیہ تنظیم کہا جاتا ہے جس کی سرگرمیوں کا انکشاف 1345ھ کے اواخر میں ساواک نے کیا اور اس کے بعد کچھ ارکان کو گرفتار کر لیا گیا اور دیگر پر ظلم و ستم کیا گیا جن میں آیت اللہ خامنہ ای بھی شامل تھے۔
اس گروہ کو [[حوزہ علمیہ قم]] کی پہلی خفیہ تنظیم کہا جاتا ہے جس کی سرگرمیوں کا انکشاف 1345ھ کے اواخر میں ساواک نے کیا اور اس کے بعد کچھ ارکان کو گرفتار کر لیا گیا اور دیگر پر ظلم و ستم کیا گیا جن میں آیت اللہ خامنہ ای بھی شامل تھے۔
confirmed
821

ترامیم