"سید علی خامنہ ای" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(3 صارفین 22 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 152: سطر 152:
تیر ماہ 1358 کے آخر میں عبوری حکومت اور انقلابی کونسل کے انضمام کے ساتھ، انقلابی کونسل کے کچھ اراکین کو اس کونسل کی جانب  سے کچھ حساس وزارتوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ ان میں سے آیت اللہ خامنہ ای کو وزارت دفاع کے انقلابی امور کے نائب وزیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔  اس وقت ڈاکٹر مصطفی چمران وزیر دفاع تھے۔
تیر ماہ 1358 کے آخر میں عبوری حکومت اور انقلابی کونسل کے انضمام کے ساتھ، انقلابی کونسل کے کچھ اراکین کو اس کونسل کی جانب  سے کچھ حساس وزارتوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ ان میں سے آیت اللہ خامنہ ای کو وزارت دفاع کے انقلابی امور کے نائب وزیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔  اس وقت ڈاکٹر مصطفی چمران وزیر دفاع تھے۔


نیز، انقلابی کونسل اور عارضی حکومت کے انضمام کے دوران، جو کہ ایگزیکٹو برانچ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے مقصد سے ہوا، وہ سیکورٹی وزراء کمیشن کا رکن بن گیا، جو تمام پولیسنگ، فوجی اور سیکورٹی کی نگرانی اور ذمہ دار ہے۔ گونباد، کردستان اور خوزستان کے بحرانوں اور سیاسی جماعتوں کے اقدامات سے نمٹنا اور انقلاب مخالف گروپوں کے انچارج کے طور پر وہ منتخب ہوئے۔
نیز، انقلابی کونسل اور عارضی حکومت کے انضمام کے دوران جس کا مقصد  انتظامیہ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا تھا، وہ سیکورٹی وزراء کمیشن کے رکن بن گئے، جس کا کام تمام انتظامی، فوجی اور سیکورٹی امور  کی نگرانی اور سرپرستی کرنا تھا جن میں  گنبد، کردستان اور خوزستان کے بحران اور انقلاب مخالف  جماعتوں کے اقدامات سے نمٹنا شامل  تھے۔
=== پاسداران انقلاب کی سرپرستی ===
=== پاسداران انقلاب کی سرپرستی ===
انقلابی کونسل کی جانب سے ان کی دیگر ذمہ داریوں میں، وہ دستاویزی مرکز کے ذمہ دار تھے اور 3 دسمبر 1358 میں اسلامی انقلابی گارڈ کور کے سربراہ بھی تھے۔ اس سے پہلے وہ انقلابی کونسل کے نمائندے کے طور پر IRGC کے بعض اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ آئی آر جی سی کے سربراہ کے طور پر ان کے انتخاب کی وجہ آئی آر جی سی کے جسم اور تنظیم میں کچھ اختلافات تھے جو انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد کے مہینوں میں پیدا ہوئے تھے اور ثالثی کی کوششوں سے حل نہیں ہوئے تھے۔
انقلابی کونسل کی جانب سے ان کی دیگر ذمہ داریوں میں دستاویزی مرکز کی ذمہ دار ی  اور 3 آذر  1358 میں پاسداران انقلاب (IRGC) کی سربراہی بھی تھے۔ اس سے پہلے وہ انقلابی کونسل کے نمائندے کے طور پر IRGC کے بعض اجلاسوں میں شریک ہوچکے تھے۔ آئی آر جی سی کے سربراہ کے طور پر ان کے انتخاب کی وجہ آئی آر جی سی کی باڈی اور تنظیم میں کچھ اختلافات تھے جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد کے مہینوں میں پیدا ہوئے تھے اور ثالثی کی کوششوں کے باوجود حل نہیں ہوئے تھے۔


وہ مقبول فوجی دستوں بالخصوص سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے حامیوں میں سے تھے، اس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے دور میں انہوں نے موجودہ اختلافات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک مناسب تنظیم دینے کی کوشش کی۔
وہ عوامی فوجی دستوں بالخصوص سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے حامیوں میں سے تھ۔ اس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے دور میں انہوں نے موجودہ اختلافات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک مناسب تنظیم دینے کی کوشش کی۔
=== اسلامی جمہوریہ پارٹی کا قیام ===
=== اسلامی جمہوری پارٹی کا قیام ===
آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کی فتح کے دنوں میں اور اس کے بعد انقلابی کونسل میں اپنی موثر موجودگی اور عبوری دور میں انقلاب کے امور کی نگرانی کے ساتھ ساتھ سید محمد حسینی بہشتی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی اور محمد جواد بہانیر ایک انقلابی تنظیم بنانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس تنظیم نے باضابطہ طور پر 29 فروری 1357 کو اسلامی جمہوریہ پارٹی کے نام سے اپنے وجود کا اعلان کیا، لیکن اس کے قیام کی بنیادیں 1356 کے موسم گرما میں مشہد میں ہونے والے اجلاسوں سے ملتی ہیں، جن میں کچھ جنگجو، جن میں بعد کے بانی بھی شامل تھے۔ اسلامی جمہوریہ پارٹی نے سرگرمیوں کے لیے ایک اسمبلی اور ایک منظم تنظیم بنانے کی کوشش کی، وہ پہلوی حکومت اور اسلامی فکر کی ترقی کے خلاف تھے۔
آیت اللہ خامنہ ای ، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دنوں میں اور اس کے بعد انقلابی کونسل میں اپنی موثر موجودگی اور عبوری دور میں انقلاب کے امور کی نگرانی کے ساتھ ساتھ سید محمد حسینی بہشتی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی اور محمد جواد باہنر کے ساتھ ملک کر ایک انقلابی تنظیم بنانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس تنظیم نے باضابطہ طور پر 29 بہمن  1357 کو اسلامی جمہوری پارٹی کے نام سے اپنے وجود کا اعلان کیا۔ لیکن اس کے قیام کی بنیادیں 1356 کے موسم گرما میں مشہد میں ہونے والے اجلاسوں میں پڑ گئی تھی، جہاں کچھ انقلابی ، جن میں اسلامی جمہوری پارٹی کے موسسین بھی شامل تھے،پہلوی حکومت کے خلاف سرگرمیوں اور اسلامی فکر کی ترقی کے لیے ایک منظم پارٹی بناناچاہتے تھے۔


اس بنا پر انقلاب کی فتح کا باعث بننے والے مہینوں میں اپنی غیر سرکاری سرگرمی کے دوران جماعت نے جلسوں اور تقاریر کے انعقاد میں موثر کردار ادا کیا اور اس میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کی سرگرمی نمایاں تھی۔
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس  پارٹی نے  انقلاب کی کامیابی پر منتہی ہونے والے مہینوں میں اپنی غیر رسمی  فعالیت کے دوران   جلسوں اور تقاریر کے انعقاد میں موثر کردار ادا کیا اور اس میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کی سرگرمی نمایاں تھی۔


اسلامی جمہوریہ پارٹی کے قیام کی وجوہات میں سے اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کی حفاظت اور حمایت کے لیے منظم اور جدید تنظیموں کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنا، انقلاب کو جاری رکھنے اور سالمیت کو برقرار رکھنے میں مدد کرنا ہے۔ اور منظر میں لوگوں کی موجودگی، اسلامی جمہوریہ نظام کی بنیاد ڈالنا، انقلاب کے بعد کے دور میں امام خمینی کے کردار کی مرکزیت کا تحفظ، لوگوں کے ذہنوں میں اصل اسلامی فکر کو گہرا کرنا، لمحہ بہ لمحہ لوگوں کی رہنمائی کرنا۔ سیاسی طور پر لمحہ فکریہ، اسلامی انقلاب کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے انتظامی اداروں کے لیے افرادی قوت فراہم کرنے میں مدد کرنا، ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کی چالوں اور فریبوں کے مقابلے میں صاف اور دیانتدارانہ موقف اختیار کرنا۔ وہ پارٹی کے منشور کے پروڈیوسر میں سے تھے۔ ارکان کے فرائض کی تقسیم میں انہوں نے پارٹی کے پرچار کی ذمہ داری بھی نبھائی۔
اسلامی جمہوری پارٹی کے قیام کی وجوہات میں ، اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کی حفاظت اور حمایت کے لیے منظم اور جدید تنظیموں کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنا، انقلاب کو جاری رکھنے، عوامی یکجہتی کو برقرار رکھنے اور لوگوں کو میدان میں باقی رکھنے میں مدد کرنا، اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد ڈالنا، انقلاب کے بعد کے دور میں امام خمینی کے موثر کردار کی مرکزیت کا تحفظ کرنا، لوگوں کے ذہنوں میں اصل اسلامی فکر کو گہرا کرنا، لمحہ بہ لمحہ لوگوں کی سیاسی  رہنمائی کرنا، اسلامی انقلاب کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے انتظامی اداروں کو افرادی قوت فراہم کرنے میں مدد کرنا، ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کی چالوں اور فریب کاریوں کے مقابلے میں صاف اور دیانتدارانہ موقف اختیار کرنا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای پارٹی کا منشور بنانے والوں میں شامل  تھے۔ ارکان کے فرائض کی تقسیم میں بھی  انہوں نے پارٹی کے شعبہ تبلیغات  کی ذمہ داری نبھائی۔


وہ پارٹی کے بانی رکن اور مرکزی کونسل کے رکن تھے اور عموماً پارٹی کے بانی دور میں انہوں نے وضاحتی کردار ادا کیا اور تقریروں اور پمفلٹ کی صورت میں پارٹی کے موقف کو پیش کیا۔ انہوں نے مشہد میں جماعت کی شاخ کے قیام میں کردار ادا کیا اور 26 مارچ 1357 کو اس شاخ کا دفتر کھولا۔
وہ پارٹی کے بانی رکن اور مرکزی کونسل کے رکن تھے۔مجموعی طور پر  پارٹی کے تاسیسی دور میں انہوں نے وضاحتی کردار ادا کیا اور تقریروں اور پمفلٹ کی صورت میں پارٹی کے موقف کو پیش کیا۔ انہوں نے مشہد میں پارٹی کی شاخ کے قیام میں کردار ادا کیا اور 26 اسفند 1357 کو اس شاخ کا دفتر کا افتتاح کیا۔
== اسلامی جمہوریہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ==
== اسلامی جمہوری پارٹی کے جنرل سیکرٹری ==
آیت اللہ بہشتی اور ڈاکٹر بہنر کے بعد - پارٹی کے پہلے اور دوسرے جنرل سکریٹری - آیت اللہ خامنہ ای کو ستمبر 2016 میں پارٹی کی مرکزی کونسل نے پارٹی کے تیسرے جنرل سکریٹری کے طور پر منتخب کیا تھا۔ انقلاب کی فتح کے بعد 1360 کی دہائی میں اسلامی جمہوریہ نظام کے قیام تک، اسلامی جمہوریہ پارٹی نے سرکاری سیاسی ڈھانچے سے باہر حکمرانی کے ایک اہم ستون کے طور پر کام کیا اور یہ اسلامی جمہوریہ نظام کی بنیاد تھی۔
پارٹی کے پہلے اور دوسرے جنرل سکریٹری  آیت اللہ بہشتی اور ڈاکٹر باہنر کے بعد ، آیت اللہ خامنہ ای کو شہریور 1360میں پارٹی کی مرکزی کونسل نے پارٹی کے تیسرے جنرل سکریٹری کے طور پر منتخب کیا ۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے سالوں اور  1360 کی دہائی میں اسلامی جمہوری نظام کی بنیادیں استوار ہونے  تک، اسلامی جمہوری پارٹی نے سرکاری سیاسی ڈھانچے سے باہر رہتے ہوئے حکومت کے ایک اہم ستون کے طور پر کام کیا۔


وہ اسلامی جمہوریہ پارٹی کو اسلامی جمہوریہ کے پورے نئے نظام کے تحفظ کے لیے ایک ضروری ادارہ سمجھتے تھے۔ پارٹی کی پہلی کانگریس مئی 1362 میں منعقد ہوئی اور آیت اللہ خامنہ ای دوسری بار پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور پارٹی کی مرکزی کونسل اور ثالثی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنی صدارت کے دوران انہوں نے تہران اور دیگر شہروں میں اسلامی جمہوریہ ایران پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی اور پارٹی کے مشن اور اہداف کو بیان کرتے ہوئے پارٹی کے دفاتر، شاخوں اور اراکین کے سوالات کے جوابات دیئے۔
وہ اسلامی جمہوری پارٹی کو اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کی کلیت کے تحفظ کے لیے ایک ضروری ادارہ سمجھتے تھے۔ پارٹی کی پہلی کانفرنس اردیبہشت 1362 میں منعقد ہوئی اور آیت اللہ خامنہ ای دوسری بار پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور پارٹی کی مرکزی کونسل اور ثالثی(arbitral) کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنی صدارت کے دوران انہوں نے تہران اور دیگر شہروں میں اسلامی جمہوری پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی اور پارٹی کے مشن اور اہداف کو بیان کرتے ہوئے پارٹی کے دفاتر، شاخوں اور اراکین کے سوالات کے جوابات دیئے۔


دوسری مدت صدارت کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی جمہوریہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اس عرصے میں پارٹی کی سرگرمیاں مختلف وجوہات کی بنا پر ہوئیں جن میں: انقلاب کے ابتدائی سالوں کے بحرانوں کو حل کرنا، اسلامی جمہوریہ کو درکار اداروں اور تنظیموں کا قیام، جن کے قیام، مضبوطی اور ترقی میں پارٹی نے موثر کردار ادا کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی سمیت پارٹی کی اہم شخصیات کی ملازمتیں، نظام کی اہم ملازمتوں کے ساتھ ساتھ اس کے بعض موثر بانیوں کے کھو جانے کے ساتھ، جماعت کو متحد کرنے والے عنصر سے تبدیل کرنے پر امام خمینی کی عدم اطمینان۔ ایک تقسیم کرنے والا عنصر اور پارٹی کے اندر دھڑے بندی کی شدت میں کمی آئی اور اپنے ابتدائی سالوں میں مزید موثر نہیں رہی۔ لہٰذا آیت اللہ خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی نے جون 1366 کے اوائل میں امام خمینی کو ایک خط لکھا اور مذکورہ وجوہات بالخصوص جماعت کے اندر دھڑے بندی کے ابھرنے اور اس کی شدت اور اس کے معاشرے کے اتحاد و اتفاق کے لیے خطرہ کا ذکر کیا اور اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کی سرگرمیاں. امام خمینی نے بھی 11 جون 1366 کو اس درخواست پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بعد جماعت کی سرگرمیاں بند کر دی گئیں۔
دوسری مدت صدارت کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی جمہوری پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اس عرصے میں پارٹی کی سرگرمیاں مختلف وجوہات کی بنا پر سست پڑ گئی اور اس میں ابتدائی سالوں والی اثر انگیزی باقی نہ رہی۔ان وجوہات میں انقلاب کے ابتدائی سالوں کے بحرانوں کا حل ہوجانا، اسلامی جمہوریہ کو درکار اداروں اور تنظیموں کا قیام، جن کے قیام، مضبوطی اور ترقی میں پارٹی نے موثر کردار ادا کیا، آیت اللہ خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی سمیت پارٹی کی اہم شخصیات کا نظام کے اہم منصبوں پر مشغول ہوجانا، بعض با اثر  بانیوں کادنیا سے چلے جانا،امام خمینی کا اس بات سے ناخوش ہونا کہ یہ پارٹی اب  متحد کرنے والے عامل سے تفرقہ پرداز عامل میں بدل چکی ہے اور پارٹی کے اندر گروپ بازی  میں شدت کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا آیت اللہ خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی نے خرداد 1366 کے اوائل میں امام خمینی کو ایک خط لکھا اور مذکورہ وجوہات بالخصوص جماعت کے اندر دھڑے بندی کے ابھرنے اور اس کی شدت اور معاشرے کے اتحاد و اتفاق کے لیے ا س کے خطرہ کا ذکر کیا اور اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ امام خمینی نے بھی 11 خرداد 1366 کو اس درخواست پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بعد پارٹی  کی سرگرمیاں بند کر دی گئیں۔
== تہران کے امام جمعہ ==
== تہران کے امام جمعہ ==
امام خمینی نے 24 جنوری 1358 کو تہران میں آیت اللہ خامنہ ای کو امامت جمعہ کے لیے مقرر کیا اور سائنس اور عمل میں ان کے اچھے ریکارڈ اور قابلیت کا حوالہ دیا۔ آپ نے 28 جنوری 1358 کو پہلی نماز جمعہ کی امامت کی۔ اس تاریخ سے لے کر 6 جولائی 1360 کے واقعے تک، جب وہ تہران کی ابو ذر مسجد میں قتل ہوئے اور اس کے نتیجے میں شدید زخمی ہو گئے، سوائے 21 بہمن سے 6 مارچ 1359 کے دوران کے، جب وہ مشنری پر تھے۔ ہندوستان میں سفر کرتے ہوئے تہران میں نماز جمعہ ادا کی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ اس عہدے پر فائز رہے۔
امام خمینی نے 24 دیماہ  1358 کو تہران میں آیت اللہ خامنہ ای کو امام جمعہ مقرر کیا اور علم و عمل میں ان کے اچھے ریکارڈ اور قابلیت کا حوالہ دیا۔ آپ نے 28 دیماہ  1358 کو پہلی بار  نماز جمعہ کی امامت کی۔ اس تاریخ سے لے کر 6 تیرماہ  1360 کے واقعے تک، جب تہران کی مسجد ابوذر میں ان پر حملہ ہوا  اور اس کے نتیجے میں وہ  شدید زخمی ہو گئے، 21 بہمن سے 6 اسفند 1359 تک کے عرصے کو چھوڑ کر جب وہ تبلیغی سفر کے سلسلے میں  ہندوستان  کے دورے پر تھے، تہران میں نماز جمعہ کی امامت کی۔ اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ اس عہدے پر فائز رہے۔


نماز جمعہ کے حوالے سے ان کا اہم اور اختراعی اقدام ملک اور عالم اسلام کے اندر جمعے کے ائمہ کے نیٹ ورک کو مربوط کرنے کے لیے ائمہ جمعہ کے لیے سیمینار منعقد کرنے کی تجویز تھا۔ انہوں نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے اہم ترین اور فیصلہ کن اصولی اور اسٹریٹجک موقف کو پیش کیا اور معاشرے کی دینی فکر اور سیاسی بصیرت کو بھی گہرا کیا۔ عربی خطبات پر توجہ دینا، جو عالم اسلام کے مسلمانوں سے مخاطب تھے، ان کے خطبات کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔
نماز جمعہ کے سلسلے میں ان کا اہم اور منفرد اقدام یہ تھا کہ انہوں نے  ملک اور عالم اسلام کے اندر ائمہ جمعہ کے نیٹ ورک کو مربوط کرنے کے مقصد سے  ائمہ جمعہ کے لیے سیمینار منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے اہم ترین اور فیصلہ کن اصولی اور اسٹریٹجک موقف کو پیش کیا اور معاشرے کی دینی فکر اور سیاسی بصیرت کو بھی گہرا کیا۔ عربی خطبات پر توجہ دینا، جن میں  عالم اسلام کے مسلمانوں سے خطاب تھا، ان کے خطبات کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔
== اسلامی مشاورتی اسمبلی میں نمائندگی ==
== اسلامی مشاورتی اسمبلی میں نمائندگی ==
آیت اللہ خامنہ ای نے مارچ 1358 میں اسلامی کونسل کی پہلی قانون سازی کی مدت کے انتخابات میں حصہ لینے کے بعد، امام کی صف کی افواج کے ایک بڑے اتحاد کی حمایت کی، جس میں تہران کی عسکری علما برادری، اسلامی جمہوریہ پارٹی اور کئی دیگر اسلامی تنظیمیں شامل تھیں۔ اسلامی کونسل کے انتخابات اور تہران کے انتخابات میں تنظیمیں اور گروہ پارلیمنٹ میں داخل ہوئے۔ پارلیمنٹ میں وہ دفاعی امور کے کمیشن کے رکن اور چیئرمین رہے۔
اسفند 1358 میں  اسلامی کونسل کے  قانون سازی کی پہلی مدت کے انتخابات  میں امیدوار بننے پر   آیت اللہ خامنہ ای کو ”نیروی ہای خط امام“ نامی  عظیم اتحاد  کی حمایت حاصل ہوئی جس میں  تہران کی جامعہ روحانیت مبارز،اسلامی جمہوری پارٹی اور دوسری کئی اسلامی تنظیمیں شامل تھیں۔انہوں نے تہران سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور پارلیمنٹ میں آ گئے۔ پارلیمنٹ میں وہ کمیشن برائے دفاعی امور کے رکن اور چیئرمین رہے۔


ان کی صدارت کے دوران اس کمیشن میں کئی منصوبوں، بلوں اور مسائل کا جائزہ لیا گیا، جن میں سب سے اہم پاسداران انقلاب کی بھرتی کی ضروریات کی فراہمی، پاسداران انقلاب میں بسیج مصطفیٰ تنظیم کا انضمام، کردستان کا مسئلہ، سرحدی مسائل، بلوچستان کا مسئلہ اور نئی فوج کی تنظیم۔ وفد کے دوران ان کے اہم عہدوں میں سے، ہم صدارت کے لیے بنی صدر کی سیاسی نااہلی کی تجویز سے اتفاق کرنے میں ان کے اہم اور دستاویزی الفاظ کا ذکر کر سکتے ہیں۔  
ان کی صدارت کے دوران اس کمیشن میں کئی منصوبوں، بلوں اور مسائل کا جائزہ لیا گیا، جن میں سب سے اہم پاسداران انقلاب کی بھرتی کی ضروریات کی فراہمی، بسیج مستضعفین نامی تنظیم کا  پاسداران انقلاب میں انضمام، کردستان کا مسئلہ، سرحدی مسائل، بلوچستان کا مسئلہ اور فوج کی از سر نو  تنظیم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی  کے دوران ان کے اہم اقدامات میں سے، صدارت کے لیے بنی صدر کی سیاسی نااہلی کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے  ان کی اہم اور مستند  تقریر  کا ذکر کر سکتے ہیں۔  


31 شہریار 1359 کو ایران عراق جنگ شروع ہونے اور جنگی محاذوں پر موجودگی کی وجہ سے وہ اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شاذ و نادر ہی شریک ہوئے اور 6 جولائی 1360 کو شدید زخمی ہونے کے بعد صرف چند مواقع پر ہی شریک ہوئے۔ مہر 1360 میں صدر کے عہدے پر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے مقننہ چھوڑ دیا۔
31 شہریور 1359 کو ایران -عراق جنگ شروع ہونے اور جنگی محاذوں پر موجودگی کی وجہ سے وہ اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شاذ و نادر ہی شریک ہوئے اور 6 تیرماہ  1360 کو شدید زخمی ہونے کے بعد صرف چند مواقع پر ہی شریک ہوئے۔ مہر 1360 میں عہدہ صدارت کے لئےمنتخب ہونے کے بعد وہ اسلامی کونسل سے الگ ہو گئے
== جنگ میں شرکت ==
== جنگ میں شرکت ==
آیت اللہ خامنہ ای نے ایران [[عراق]] جنگ کے پہلے گھنٹوں سے جنگی مسائل کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کیا۔ ہمارے ملک کی سرزمین پر حملہ شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد اس نے عراق کی بعث فوج کے ایران پر حملے کا پہلا اعلان تیار کیا اور لوگوں کو ریڈیو پر آگاہ کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایران [[عراق]] جنگ کے پہلے گھنٹوں سے ہی  جنگی مسائل کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کیا۔ ملک کی سرزمین پر حملہ شروع ہونے کے کچھ دیر بعدہی  انہوں نے عراق کی بعثی فوج کے ایران پر حملے کا پہلا اعلانیہ تیار کیا اور ریڈیو کے ذریعہ لوگوں کو آگاہ کیا۔


جنگ کے آغاز کے دوسرے دن انہوں نے فوج کے جوائنٹ اسٹاف میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کی جس کا جائزہ لیا گیا کہ عراق کی فوجی جارحیت سے کیسے نمٹا جائے۔ اور جب یہ طے پایا کہ ان میں سے ایک جنگی محاذ پر جا کر اس مسئلے کی تحقیق کرے گا تو سب سے پہلے جس شخص نے اس تجویز کو قبول کیا وہ آیت اللہ خامنہ ای تھے۔
جنگ کے آغاز کے دوسرے دن انہوں نے فوج کےمشترکہ ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ عراق کی فوجی جارحیت سے کیسے نمٹا جائے۔ اور جب یہ طے پایا کہ ان میں سے کوئی ایک   جنگی محاذ پر جا کر اس مسئلے کی تحقیق کرے گا تو سب سے پہلے جس شخص نے اس تجویز کو قبول کیا وہ آیت اللہ خامنہ ای تھے۔


5 مہر 1359 کو امام خمینی کی اجازت کے بعد آپ نے ایک سپاہی کے بھیس میں جنگی محاذوں پر حاضری دی تاکہ عراقی افواج کے حملہ آور علاقے میں ایرانی افواج کے مورچوں اور تنصیبات کی صورت حال کی رپورٹ تیار کی جا سکے۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے افواج کو منظم کرنے میں مدد کریں۔ اس بنا پر وہ جنوبی محاذ کی طرف روانہ ہوا اور 1360 کے وسط بہار تک اس محاذ پر تعینات رہا۔
5 مہر 1359 کو امام خمینی کی اجازت کے بعد آپ نے فوجی لباس  میں جنگی محاذوں پر حاضری دی تاکہ عراقی افواج کے حملہ آور علاقے میں ایرانی افواج کے مورچوں اور تنصیبات کی صورت حال کی رپورٹ تیار کر سکے اور  دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے افواج کو منظم کرنے میں مدد کرسکے۔ اس بنا پر وہ جنوبی محاذ کی طرف روانہ ہوئے اور 1360 کے وسط بہار تک اس محاذ پر مستقر رہےاس کے بعد وہ مغربی محاذ پر پہنچے۔ تہران میں نماز جمعہ کی امامت، امام خمینی  سے ملاقات  اور انہیں رپورٹ دینااور ضروری ملاقاتوں اور ضروری سفروں اور تقریروں  کو چھوڑ کر وہ مسلسل محاذ پر موجود رہے۔


اس کے بعد وہ مغربی محاذ پر نمودار ہوئے۔ لیکن تہران میں نماز جمعہ، امام سے ملاقات اور رپورٹنگ یا ضروری ملاقاتوں اور ضروری سفروں اور لیکچروں کے علاوہ حاضری مسلسل تھی۔
انہوں نے کئی فوجی آپریشنز یا ان  کےتیاری میں حصہ لیا۔ سپاہ پاسداران اور بسیجی  افواج کی ہتھیاروں اور رسد کی ضروریات کی  فراہمی، میدان جنگ میں ان کی دیگر سرگرمیوں میں سے ہے۔


اس نے کئی فوجی آپریشنز یا اس کے ڈیزائن میں حصہ لیا۔ بسیجی اور سپاہی افواج کی ہتھیاروں اور رسد کی ضروریات کی مدد کرنا اور فراہم کرنا میدان جنگ میں ان کی دیگر سرگرمیوں میں سے ایک تھا۔
مورچوں  پر ان کا زیادہ تر وقت، بے قاعدہ جنگوں کے ہیڈکوارٹر کی کارروائیوں کی رہنمائی، حمایت اور منصوبہ بندی میں گزرتا تھا جسے مصطفی چمران نے تشکیل دیا تھا۔ اس ہیڈکوارٹر کے خصوصی اقدامات میں سے ایک، جس میں آیت اللہ خامنہ ای براہ راست شریک تھے، ٹینکوں کے شکار کے لیے خصوصی فوجی گروپوں کی تشکیل تھی۔


ان کا زیادہ تر وقت مورچوں میں بے قاعدہ جنگوں کے ہیڈکوارٹر کی کارروائیوں کی رہنمائی، حمایت اور ڈیزائننگ میں گزرتا تھا - جسے مصطفی چمران نے تشکیل دیا تھا۔ اس ہیڈکوارٹر کے خصوصی اقدامات میں سے ایک، جس میں آیت اللہ خامنہ ای براہ راست ملوث تھے، ٹینکوں کے شکار کے لیے خصوصی فوجی گروپوں کی تشکیل تھی۔
خرمشہر، آبادان اور سوسنگرد محاذوں کی حمایت میں انہوں نے موثر کردار ادا کیا اور اسلامی انقلابی گارڈ کور(irgc) اور بسیج جیسی عوامی فوجی قوتوں کو مضبوط بنانے اور ان کی تکنیکی اور سازوسامان کی ضروریات کو پورا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان کی ایک اور کوشش آئی آر جی سی اور فوج کے درمیان محاذوں اور فوجی کارروائیوں میں ہم آہنگی قائم کرنا تھی۔
=== سپریم کونسل آف ڈیفنس  میں امام خمینی کے نمائندے ===
20 مہر 1359 کو امام خمینی کے فرمان کے مطابق،  سپریم کونسل آف ڈفینس کو  تمام جنگی امور کی ذمہ داری دے دی گئی، اور آیت اللہ خامنہ ای، جو 20 اردیبہشت 1359 کے امام  خمنیی کے فرمان کے مطابق، اس کونسل میں ان کے نمائندے اور اس کے ترجمان بھی تھے، اس دوران  جنگی معاملات میں امام خمینی کے مشیر بھی رہے۔


اس نے خرمشہر، آبادان اور سوسنگارڈ محاذوں کی حمایت میں موثر کردار ادا کیا اور اسلامی انقلابی گارڈ کور اور بسیج جیسی مقبول فوجی قوتوں کو مضبوط بنانے اور ان کی تکنیکی اور سازوسامان کی ضروریات کو پورا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان کی ایک اور کوشش آئی آر جی سی اور فوج کے درمیان محاذوں اور فوجی کارروائیوں میں ہم آہنگی قائم کرنا تھی۔
وہ عموماً سپریم کونسل آف ڈیفنس کے اجلاسوں کے اختتام پر کونسل کی مباحثوں اور فیصلوں کے بارے میں ایک پریس انٹرویو دیتے تھے اور کونسل کے فیصلوں سے عوام کو آگاہ کرتے تھے۔
=== سپریم کونسل آف ڈیفنس ===
20 مہر 1359 کو امام خمینی کے فرمان کے مطابق، دفاع کی سپریم کونسل تمام جنگی امور کا انچارج تھا، اور آیت اللہ خامنہ ای، جو 20 مئی 1359 کے امام کے فرمان کے مطابق، اس کونسل میں ان کے نمائندے اور اس کے ترجمان بھی تھے۔ اس دور میں وہ جنگی معاملات میں امام خمینی کے مشیر بھی رہے۔


وہ عموماً سپریم ڈیفنس کونسل کے اجلاسوں کے اختتام پر کونسل کی بات چیت اور فیصلوں کے بارے میں ایک پریس انٹرویو دیتے تھے اور کونسل کے فیصلوں سے عوام کو آگاہ کرتے تھے۔
وہ آبادان  کا محاصرہ توڑنے کے آپریشن میں براہ راست موجود تھے اور خرمشہر کے معاملے میں بھی وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ درست فوجی اقدامات سے اس کے سقوط کو روکا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس تناظر میں انہوں نے اس وقت کے افواج کے صدر اور کمانڈر انچیف ابوالحسن بنی صدر کو ایک خط لکھا اور مطلع کیا کہ اگر سوسنگرد کے ارد گرد دو بکتر بند بریگیڈ تعینات کر دی جائیں تو شہر کے سقوط کو روکا جا سکتا ہے۔ تاہم بنی صدر نے اس تنبیہ پر توجہ نہیں دی۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد بین الاقوامی شخصیات اور تنظیموں کے ایک گروپ کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک نے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے سرگرمیاں شروع کر دیں۔


وہ حصر آباد کا محاصرہ توڑنے کے آپریشن میں براہ راست موجود تھا اور خرمشہر کے معاملے میں بھی وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ درست فوجی اقدامات سے اس کے زوال کو روکا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس تناظر میں انہوں نے اس وقت کی افواج کے صدر اور کمانڈر انچیف ابوالحسن بنی صدر کو ایک خط لکھا اور خبردار کیا کہ اگر سوسنگارڈ کے ارد گرد دو بکتر بند بریگیڈ تعینات کر دی جائیں تو شہر کے زوال کو روکا جا سکتا ہے۔ تاہم بنی صدر نے اس تنبیہ پر توجہ نہیں دی۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد بین الاقوامی شخصیات اور تنظیموں کے ایک گروپ کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک نے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے سرگرمیاں شروع کر دیں۔
اس معاملے میں ان کا خیال تھا کہ جب تک عراق ایران کی اہم شرائط کو تسلیم نہیں کرتا جس میں بین الاقوامی سرحدوں سے پیچھے ہٹنا، ہرجانہ ادا کرنا اور جارح کو سزا دینا شامل ہے، امن نہیں ہو سکتا اور اگر عراق ان شرائط کو قبول نہیں کرتا ہے تو ہم طاقت کے بل پر  اسے اپنے ملک کی سرزمین سے  نکال باہر کریں گے۔  ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ تھوپی گئی  امن جنگ سے بدتر ہے۔ اس   کے باوجود  انہوں نے امن وفود  کی رفت و آؐمد کو اس لحاظ سے مفید سمجھا کہ اس سے  صدام حسین اور اس کی افواج کے ایرانی عوام کے خلاف کیے گئے جرائم کی جہتیں واضح ہو گئی  اور ایران کی مظلومیت اور صدام کی جارحیت ثابت کرنے میں مدد ملی۔
=== جنگ، صدارت کے زمانے کا سب سے اہم مسئلہ ===
ان کی صدارت کے دو ادوار میں جنگ کا مسئلہ سرفہرست اور ملک کا اہم ترین مسئلہ رہا۔ 1360 سے 1364 تک جنگی منظر نامے میں تبدیلیاں آئیں اور مجموعی طور پر جنگی مورچوں پر توازن ایران کے حق میں بدل گیا۔ عراقی افواج کو زیادہ تر مقبوضہ علاقوں سے باہر دھکیل دیا گیا، اور ملک کے اعلیٰ حکام، بشمول سپریم ڈیفنس کونسل کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کے اتفاق رائے سے، فوجی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ڈیزائن اور نافذ کیا گیا۔ اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی میدان میں ایران کی سفارتی موجودگی زیادہ سے زیادہ فعال ہوتی گئی۔


اس معاملے میں ان کا خیال تھا کہ جب تک عراق ایران کی اہم شرائط کو تسلیم نہیں کرتا جس میں بین الاقوامی سرحدوں سے پیچھے ہٹنا، ہرجانہ ادا کرنا اور جارح کو سزا دینا شامل ہے، امن نہیں ہو سکتا اور اگر عراق ان شرائط کو قبول نہیں کرتا ہے تو ہم اسے اپنے ملک سے بے دخل کر دیں گے۔ طاقت کے ذریعے زمین. اس کا یہ بھی ماننا تھا کہ جبری امن جنگ سے بدتر ہے۔ اس تحریک کے باوجود انہوں نے امن وفود کو اس لحاظ سے مفید سمجھا کہ انہوں نے صدام حسین اور اس کی افواج کے ایرانی عوام کے خلاف کیے گئے جرائم کی جہتیں واضح کیں اور ایران کے جبر اور صدام کی جارحیت کو ثابت کرنے میں مدد کی۔
اپنی صدارت کے کل آٹھ سالوں میں سے سات سالوں کے دوران، جو جنگ کے ہم زمان  تھے، انہوں نے اپنے  بیرونی مذاکرات کا ایک بڑا حصہ بین الاقوامی، اسلامی اور علاقائی تنظیموں کے خیر سگالی امن وفود یا اہم بین الاقوامی اور علاقائی شخصیات کے ساتھ مذاکرات کے لیے وقف کییا جو ثالثی پر مامور تھے۔
=== جنگ، صدارت کا سب سے اہم مسئلہ ===
ان کے دور صدارت کے دو ادوار میں جنگ معاملات میں سرفہرست اور ملک کا اہم ترین مسئلہ رہا۔ 1360 سے 1364 تک جنگی منظر نامے میں تبدیلیاں آئیں اور مجموعی طور پر جنگی محاذوں میں توازن ایران کے حق میں بدل گیا۔ عراقی افواج کو زیادہ تر مقبوضہ علاقوں سے باہر دھکیل دیا گیا، اور ملک کے اعلیٰ حکام، بشمول سپریم ڈیفنس کونسل کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کے اتفاق رائے سے، فوجی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ڈیزائن اور نافذ کیا گیا۔ ان پیش رفت کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی میدان میں ایران کی سفارتی موجودگی زیادہ سے زیادہ فعال ہوتی گئی۔


اپنی صدارت کے کل آٹھ سالوں میں سے سات سالوں کے دوران، جو جنگ کے متوازی تھے، انہوں نے اپنے غیر ملکی مذاکرات کا ایک بڑا حصہ بین الاقوامی، اسلامی اور علاقائی تنظیموں کے خیر سگالی امن وفود یا اہم بین الاقوامی اور علاقائی شخصیات کے ساتھ مذاکرات کے لیے وقف کیا۔ ثالثی کا مشن تھا۔
صدارت کے دور  میں امام خمینی  کی طرف سے جنگی مورچوں پر حاضری کی مخالفت کی وجہ سے انہوں نے اپنے مورچوں پر اپنی حاضری کو محدود کر لیا لیکن جنگ کے اختتام پر اور قرارداد کی منظوری کے بعد محاذوں کی سنگین صورتحال نے انہیں  امام خمینی کی  اجازت سے  ایک  بڑی  تبدیلی کے لئے  مورچوں پر جانے کے لئے  مجبور کر دیا۔


دور صدارت میں امام کی طرف سے جنگی محاذوں میں شرکت کی مخالفت کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو کچھ پیشیوں اور محدود دوروں تک محدود رکھا لیکن جنگ کے اختتام پر اور قرارداد کی منظوری کے بعد محاذوں کی سنگین صورتحال نے انہیں مجبور کر دیا۔ محاذوں میں بڑی تبدیلی کے لیے امام خمینی کی منظوری کے بعد ایسا کریں۔
اس کے علاوہ، وہ صدارت کے دوران سپریم کونسل آف  وار سپورٹ  کے سربراہ بھی  تھے۔ یہ کونسل 1365 میں جنگ کے خاص حالات کے پیش نظر تشکیل دی گئی تھی اور اس کا مقصدیہ تھا کہ ملک کے وسائل و امکانات کو جنگ کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے  استعمال کیا جائے اور جنگی مورچوں  کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے افواج کو آمادہ کیا جائے اور سہولیات کی فراہمی کے لئے موثر اقدامات کیے جائیں۔ امام خمینی نے 19 بہمن 1366 کو  ان کے استفسار کے جواب میں کونسل  کے منظوریوں کو  جنگ کے خاتمے تک  لازم الاجرا قرار دیا۔


اس کے علاوہ، وہ صدارت کے دوران سپریم وار سپورٹ کونسل کے سربراہ تھے۔ یہ کونسل 1365 میں جنگ کے خاص حالات کے پیش نظر تشکیل دی گئی تھی اور اس مقصد کے لیے کہ ملکی سہولیات کو جنگ کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے اور جنگی محاذوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے افواج اور سہولیات کو متحرک کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔ امام خمینی نے ان کے استفسار کے جواب میں 19 بہمن 1366 کو جنگ کے خاتمے تک کونسل کی منظوریوں کو درست قرار دیا۔
1367 کے موسم گرما میں اور صدارت کے آخری سال میں ایران کی طرف سے قرارداد 598 کی منظوری کے ساتھ ہی عراق اور ایران کے درمیان جنگ ختم ہو گئی۔ 26 تیرماہ 1367 کو آیت اللہ خامنہ ای کی زیر صدارت اجلاس میں قرارداد 598 کی منظوری دی گئی جس میں نظام کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور امام خمینی نے بھی اس پر دستخط کیے۔


1367 کے موسم گرما میں اور صدارت کے آخری سال میں ایران کی طرف سے قرارداد 598 کی منظوری کے ساتھ ہی عراق اور ایران کے درمیان جنگ ختم ہو گئی۔ 26 جولائی 1367 کو آیت اللہ خامنہ ای کی زیر صدارت اجلاس میں قرارداد 598 کی منظوری دی گئی جس میں نظام کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور امام خمینی نے بھی اس پر دستخط کیے۔
ایران کے عوام کے نام ایک پیغام میں امام خمینی نے قرار داد کی منظوری کو ایک بہت ہی تلخ اور افسوسناک مسئلہ قرار دیا اور صرف انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی مصلحت کی وجہ سے قرار دیا: "میرے لئے اس قرار داد کا  قبول کرنا زہر سے زیادہ مہلک ہے۔ لیکن میں خدا کی مرضی پر راضی ہوں اور میں نے یہ مشروب اس کی رضا کے لیے پیا ہے... اس قرارداد کی قبولیت میں ایرانی  حکام نے فقط اپنے آپ پر بھروسہ کیا ہے اور کسی شخص نے یا کسی ملک نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔“ اس فیصلے کے بعد 27 تیرماہ  1367 کو آیت اللہ خامنہ ای نے صدر ایران کی حیثیت سے  اقوام متحدہ کے اس وقت کے سکریٹری جنرل زیویئر پیریز ڈیکویار کے نام ایک خط میں ایران کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرارداد 598 کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
 
ایران کے عوام کے نام ایک پیغام میں امام خمینی نے قرار داد کی منظوری کو ایک بہت ہی تلخ اور افسوسناک مسئلہ قرار دیا اور صرف انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی مصلحت کی وجہ سے قرار دیا: "میرے لیے، قبول کرنا۔ یہ مسئلہ زہر سے زیادہ مہلک ہے۔ لیکن میں خدا کی خوشنودی سے مطمئن ہوں اور میں نے یہ مشروب اس کی تسلی کے لیے پیا... اس قرارداد کو قبول کرتے ہوئے صرف ایران کے حکام نے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور کسی نے اور کسی ملک نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔ اس فیصلے کے بعد 27 جولائی 1367 کو اقوام متحدہ کے اس وقت کے سکریٹری جنرل زیویئر پیریز ڈیکویار کے نام ایک خط میں انہوں نے ایران کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرارداد 598 کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
== دہشت ==
== دہشت ==
اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں میں ایرانی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ملک کے سرکاری سیاسی ڈھانچے میں دو بااثر دھڑوں کا وجود اور سرگرمی تھی جنہیں امام کی صفی قوتوں اور آزادی پسندوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امام خمینی کے زیادہ تر دوست، رشتہ دار اور مشیر، بشمول ان کے، امام کی صفی افواج کے دھڑے میں شامل تھے۔ لبرل دھڑے کی سرکردہ شخصیت، جس کا فکری اور سیاسی نقطہ نظر کے لحاظ سے امام کی صف کی قوتوں سے کئی تنازعات تھے، '''ابوالحسن بنی صدر''' تھے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں ایرانی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ملک کے سرکاری سیاسی ڈھانچے میں دو بااثر دھڑوں کا وجود اور ان کی  سرگرمیاں تھیں جنہیں ”نیروہای خط امام“ اور لبرلز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امام خمینی کے زیادہ تر دوست، رشتہ دار اور مشیر، بشمول آیت اللہ خامنہ ای” نیروہای خط  امام“ نامی  دھڑے میں شامل تھے۔ لبرل دھڑے کی سرکردہ شخصیت، جس کے فکری اور سیاسی نقطہ نظر سے”نیروہای خط امام“ سے کئی تنازعات تھے، '''ابوالحسن بنی صدر''' تھے۔


وہ بنی صدر کو ایک ایسے دھارے کا نمائندہ سمجھتے تھے جو ملک کے اعلیٰ حکام کی سطح پر تفرقہ اور تصادم کا سبب تھا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں تفرقہ اور انتشار کا باعث تھا۔ تاہم بنی صدر اور ان کی ہم خیال اور حمایتی تحریک سے بنیادی اختلاف کے باوجود، معاشرے میں اتحاد کو برقرار رکھنے اور اس پر امام خمینی کی تاکید کے باوجود عوامی حلقوں میں اپنی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ بعض معاملات میں وہ فیصلہ امام خمینی کے پاس لے جاتا ہے۔ بنی صدر کے اسلامی انقلاب اور آئین کی نوعیت سے واضح انحراف کے بعد اور 30 ​​جون 1360 کو اسلامی شوریٰ مجلس میں صدارت کے لیے ان کی سیاسی نا اہلی کی تجویز کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے مفصل اور موثر تقریر کی۔ تجویز
آیت اللہ خامنہ ای ، بنی صدر کو ایک ایسے دھارے کا نمائندہ سمجھتے تھے جو ملک کے اعلیٰ حکام کی سطح پر تفرقہ اور تصادم کا سبب تھا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں تفرقہ اور انتشار کا باعث تھا۔ تاہم بنی صدر اور ان کی ہم خیال اور حمایتی تحریک سے بنیادی اختلاف کے باوجود، معاشرے میں اتحاد کو برقرار رکھنے اور اس پر امام خمینی کی تاکید کی وجہ سے  انہوں نے  عوامی حلقوں میں اپنی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ بعض معاملات میں وہ فیصلہ امام خمینی کے پاس لے جاتےتھے۔ بنی صدر کے اسلامی انقلاب اور آئین کی نوعیت سے واضح انحراف کے بعد اور 30 ​​خرداد 1360 کو پارلیمنٹ میں صدارت کے لیے ان کی سیاسی نا اہلی کی تجویز کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے مفصل اور موثر تقریر کی۔ تجویز


1358ء سے یکم جولائی 1360ء تک اس نے مختلف مقدمات میں لبرل اور قوم پرست دھڑے کے خلاف مخالفانہ موقف اختیار کیا۔ انہوں نے ایران میں امریکی فوجی مشیر کے دفتر کو برقرار رکھنے اور عبوری حکومت کی طرف سے اس کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کی۔ وزراء، نائب وزراء کے انتخاب اور سرکاری محکموں اور اداروں میں صفائی ستھرائی کے معاملے کے بارے میں انہوں نے ایسے لوگوں کے انتخاب کی بھی مخالفت کی جو انقلاب کی صف میں نہ تھے اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ کی لائن کے حق میں تھے یا رجعت پسندوں سے تعلقات رکھتے تھے۔ عرب ممالک وغیرہ۔
1358ء سے یکم تیرماہ  1360ء تک انہوں نے مختلف معاملات میں لبرل اور قوم پرست دھڑے کے خلاف موقف اختیار کیا۔ انہوں نے ایران میں امریکی فوجی مشیر کے دفتر کو برقرار رکھنے اور عبوری حکومت کی طرف سے اس کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کی۔ وزراء، نائب وزراء کے انتخاب اور سرکاری محکموں اور اداروں میں صفائی ستھرائی کے بارے میں انہوں نے ایسے لوگوں کے انتخاب کی بھی مخالفت کی جو انقلاب کی صف میں نہ تھے اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ یا خطے کے رجعت پسند عرب ممالک سے تعلقات رکھنا چاہتے تھے ۔


6 جولائی 1360 کو تہران کے جنوبی علاقے میں واقع ابوذر مسجد میں نماز ظہر کے بعد تقریر کرتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر میں نصب بم کے پھٹنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ امام خمینی نے اپنے ایک پیغام میں ان کی جان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان کے سینے، کندھے اور دائیں ہاتھ میں شدید چوٹیں آئیں۔ غیر سرکاری رپورٹس میں اس واقعے کی وجہ ایران کی عوامی مجاہدین تنظیم بتائی گئی ہے۔ بنی صدر کی جنرل کمان اور صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد ہونے والے واقعات اور پیش رفت میں آیت اللہ خامنہ ای پہلے شخص تھے جنہیں قتل کیا گیا۔ وہ 18 اگست 1360 کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور سماجی اور سیاسی منظر نامے پر واپس آئے اور 26 اگست 1360 سے اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
6 تیرماہ  1360 کو تہران کے جنوبی علاقے میں واقع مسجد  ابوذر میں نماز ظہر کے بعد تقریر کرتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر میں نصب بم کے پھٹنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ امام خمینی نے اپنے ایک پیغام میں ان کی جان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان کے سینے، کندھے اور دائیں ہاتھ میں شدید چوٹیں آئیں۔ غیر سرکاری رپورٹس میں اس واقعے کا ذمہ دار  مجاہدین خلق ایران نامی تنظیم کو بتایا گیا ۔ بنی صدر کی صدارت سےمعزولی کے بعد ہونے والے واقعات اور پیش رفت میں آیت اللہ خامنہ ای پہلے شخص تھے جن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وہ 18 مرداد  1360 کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور سماجی اور سیاسی منظر نامے پر واپس آئے اور 26 مرداد  1360 سے اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
== صدارت ==
== صدارت ==
پہلا دور - 95% ووٹوں کے ساتھ صدر کے طور پر انتخاب۔ ایران کے دوسرے اسلامی صدر محمد علی رجائی کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوریہ پارٹی کی مرکزی کونسل اور قم مدرسہ کے اساتذہ نے ان کی مخالفت کے باوجود متفقہ طور پر انہیں صدارتی امیدوار منتخب کیا اور امام خمینی جو اس سے قبل صدارتی امیدوار تھے۔ علما کے ساتھ صدارت کے لیے وہ متفق نہیں تھے، وہ ان کی نامزدگی سے متفق تھے۔
پہلا دور - ٪95 ووٹوں کے ساتھ صدر کے طور پر انتخاب۔ جمہوریہ اسلامی ایران کے دوسرے صدر محمد علی رجائی کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل اورجامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے ان کی مخالفت کے باوجود متفقہ طور پر انہیں صدارتی امیدوار منتخب کیا اور امام خمینی جو اس سے قبل علما کےصدارت کا منصب سنبھالنے کے خلاف تھے، انہوں نے بھی ان کی نامزدگی سے اتفاق کیا۔


گارڈین کونسل کی طرف سے ان کی نامزدگی اور اہلیت کے اعلان کے بعد، مختلف گروہوں اور شخصیات نے ان کی صدارت کی حمایت کی۔ آیت اللہ خامنہ ای کے سب سے اہم حامیوں میں سے ایک خط امام گروپوں کا اتحاد تھا۔ انتخابات 10 مہر 2013 کو ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای ووٹوں کی مطلق اکثریت (95 ووٹ، 11 فیصد) کے ساتھ صدر منتخب ہوئے۔ 17 مہر 1360 کو امام خمینی نے اپنے صدارتی فرمان پر عملدرآمد کیا اور 21 مہر کو اسلامی کونسل میں ایران کے تیسرے اسلامی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
گارڈین کونسل کی طرف سے ان کی نامزدگی اور اہلیت کے اعلان کے بعد، مختلف گروہوں اور شخصیات نے ان کی صدارت کی حمایت کی۔ آیت اللہ خامنہ ای کے سب سے اہم حامیوں میں سے ایک امام خمینی کے ہم فکر گروپوں کا اتحاد تھا۔ انتخابات 10 مہر 1360 کو ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای ووٹوں کی مطلق اکثریت (95.11فیصد) کے ساتھ صدر منتخب ہوئے۔ 17 مہر 1360 کو امام خمینی نے ان کی  صدارت کو نافذ العمل قرار دیا  اور 21 مہر کو پارلیمنٹ  میں ایران کے تیسرے اسلامی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔


27 مہر 1360 کو علی اکبر ولایتی، جو اسلامی جمہوریہ پارٹی کی مرکزی کونسل کے رکن اور امام لائن کی افواج میں سے ایک تھے، کو اسلامی کونسل میں بطور وزیراعظم متعارف کرایا گیا، لیکن وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 30 مہر 1360 کو ہونے والی ووٹنگ میں ووٹوں کی تعداد۔ 4 نومبر 1360 کو اس نے میرحسین موسوی کو نامزد کیا جو اسلامی جمہوریہ ایران کی مرکزی کونسل کے رکن، اسلامی جمہوریہ اخبار کے ایڈیٹر اور رجائی، بہنر اور مہدوی کینی کی حکومتوں کے وزیر خارجہ تھے۔ ، بطور وزیر اعظم۔ 6 نومبر 1360 کو وہ پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
27 مہر 1360 کو علی اکبر ولایتی کو ، جو اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل کے رکن اور ”نیروی ہای  خط امام“ کا حصہ تھے،   پارلیمنٹ میں بطور وزیراعظم متعارف کرایا، لیکن وہ   30 مہر 1360 کو ہونے والی ووٹنگ میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔  4 آبان 1360 کوانہوں نے میرحسین موسوی کو بطور وزیر اعظم  متعارف کرایا جو اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل کے رکن،جمہوری اسلامی اخبار کے ایڈیٹر اور رجائی، باہنر اور مہدوی کینی کی حکومتوں میں  وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ 6 آبان  1360 کو وہ پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔


انہوں نے اپنی صدارت کا آغاز کیا جبکہ صدارتی ادارے کا مناسب ڈھانچہ نہیں تھا۔ صدر کی قانونی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مدد کرنے کے لیے مشاورتی گروپ اور ورکنگ گروپ ابھی تک تشکیل نہیں دیے گئے تھے اور اس سے صدر کی کارکردگی کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ رفتہ رفتہ صدارتی دفتر کئی مشیروں اور ورکنگ گروپس کے ساتھ تشکیل پا گیا۔ سب سے پہلے، آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی کوششوں کا ایک حصہ صدر کے دفتر اور صدارت کے ادارے کی تشکیل پر مرکوز کیا۔ بعد ازاں صدر کے فرائض کی وضاحت میں ابہام کی وجہ سے، جو خاص طور پر پہلی مدت کے دوران وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت میں واضح ہوا، صدر کے اختیارات سے متعلق قانون کا مسودہ 16 کو اسلامی کونسل نے تیار کیا اور اس کی منظوری دی۔ مئی 1365۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایسے حالات میں  اپنی صدارت کا آغاز کیا جب صدارتی ادارے کا کوئی مناسب ڈھانچہ نہیں تھا۔ صدر کی قانونی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مدد کرنے کے لیے مشاورتی گروپ اور ورکنگ گروپ ابھی تک تشکیل نہیں دیے گئے تھے جس  سے صدر کی کارکردگی کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ رفتہ رفتہ صدارتی دفتر کئی مشیروں اور ورکنگ گروپس کے ساتھ تشکیل پا گیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شروع میں  اپنی کوششوں کا ایک حصہ صدر کے دفتر اور صدارت کے ادارے کی تشکیل پر مرکوز کیا۔ بعد ازاں صدر کے فرائض کی وضاحت میں ابہام کی وجہ سے، جو خاص طور پر پہلی مدت کے دوران وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت میں واضح ہوا، صدر کے اختیارات سے متعلق قانون کا مسودہ تیار ہوا جسے  16 اردیبہشت1365 کو پارلیمنٹ نے منظوری دی۔  


صدارت کی پہلی چار سالہ مدت میں آیت اللہ خامنہ ای کے منصوبوں کی سرخیاں یہ ہیں: مسلط کردہ جنگ سے متعلق امور کی طرف توجہ، مظلوموں کی حمایت اور مرکز سے دور رہنے والوں کی معاشی پالیسیوں کا حصول، تمام پہلوؤں سے ظالم کو ہٹانا۔ ایرانی عوام کی انتظامی، سماجی اور سیاسی زندگی، تکنیک سے لے کر فن تک تمام شعبوں میں انسانی صلاحیتوں کو تلاش کرنا اور ان سے کام لینا، لوگوں کو موثر خدمات فراہم کرنے کے لیے سماجی، انتظامی اور عدالتی تحفظ فراہم کرنا، تمام وفادار لوگوں کی سلامتی اور آزادی کو یقینی بنانا۔ اسلامی جمہوریہ نظام کو ہر سوچ اور فکر کے ساتھ۔
صدارت کی پہلی چار سالہ مدت میں آیت اللہ خامنہ ای کے منصوبوں کی سرخیاں یہ ہیں: مسلط کردہ جنگ سے متعلق امور کی طرف توجہ، مظلوموں اور مرکز سے دور رہنے والوں کی حمایت کے لئے  معاشی پالیسیوں کا حصول، ایرانی عوام کی انتظامی، سماجی اور سیاسی زندگی کے تمام  پہلوؤں سے طاغوت کا خاتمہ، تکنیک سے لے کر فن تک تمام شعبوں میں انسانی صلاحیتوں کو تلاش کرنا اور ان سے کام لینا، لوگوں کو موثر خدمات فراہم کرنے کے لیے سماجی، انتظامی اور عدالتی تحفظ فراہم کرنا،جمہوریہ اسلامی ایران سےوفادار تمام لوگوں کی سلامتی اور آزادی کو یقینی بنانا خواہ ان کا تعلق کسی بھی سوچ اور فکر سے ہو۔


دوسرے چار سالہ دور میں، پہلے دور کے پروگراموں کے تسلسل کے علاوہ، جن میں مسلط کردہ جنگ سر پر تھی، صدارتی اختیارات کے بل کا مسودہ تیار کرنا، حکومتی مدت میں کمی اور معاملات کو لوگوں کے حوالے کرنا، قابل ملازمتیں دینا۔ حکومت میں انقلابی اور کارآمد اہلکار، دائمی اور طویل مدتی غربت کا خاتمہ، معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر حکومت کرنا، زرعی زمین کو لوگوں کے حوالے کرنا، ریاستی صنعتوں کو کوآپریٹو سیکٹر کے حوالے کرنا، کارخانوں میں مزدوروں کو بانٹنا، توسیع اور ترقی کرنا۔ تیل کی برآمدات اور تیل کی آمدنی پر ملک کے انحصار کو کم کرنا، حکومت کی نگرانی میں ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں عوام کی شرکت، ملک کی ثقافتی پالیسی کو ثقافتی آزادی کی طرف لے جانا آیت اللہ خامنہ ای کے اہم ترین پروگراموں میں سے ایک تھا۔
دوسرے چار سالہ دور میں، پہلے دور کے پروگراموں کے تسلسل کے علاوہ، جن میں مسلط کردہ جنگ سرفہرست تھی، صدارتی اختیارات کے بل کا مسودہ تیار کرنا، حکومتی مدت میں تخفیف اور معاملات کو عوام کے سپرد کرنا، حکومت میں با صلاحیت ،انقلابی اور کارآمد عہدہ داروں کا تقرر،  معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر مدتوں سے  چھائی ہوئی غربت کا خاتمہا، زرعی زمین کو لوگوں کے حوالے کرنا، ریاستی صنعتوں کو کوآپریٹو سیکٹر کے حوالے کرنا، کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنانا، تیل کے علاوہ دیگر  برآمدات کو توسیع اور ترقی دینا، اور تیل کی آمدنی پر ملک کے انحصار کو کم کرنا، حکومت کی نگرانی میں ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں عوام کی شرکت، ملک کی ثقافتی پالیسی کو ثقافتی آزادی کی طرف لے جان،ا آیت اللہ خامنہ ای کے اہم ترین پروگراموں میں سے تھا۔


سیاست اور خارجہ تعلقات کے میدان میں ان کے منصوبے میں دنیا کے ہر ملک کے بارے میں ایک آزاد اور متوازن پالیسی اپنانا اور فیصلہ کن اور کھلے پن کے ساتھ ساتھ نظام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا، مشرق و مغرب پر عدم انحصار شامل ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اہمیت دیتے ہوئے عالمی طاقتوں سے دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کی واپسی میں سنجیدہ اور خطے میں سپر پاورز کے تسلط کے لیے کسی بھی اقدام اور تحریک سے مسلسل جدوجہد، اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ قدس اور دیگر غاصب فلسطینی اراضی اور غاصب صیہونی دشمن کے خلاف ہمہ جہت لڑائی کی تیاری، ایک بھرپور اور اصلی ثقافت کی طرف لوٹنا، بین الاقوامی میدان میں اسلام دشمنوں اور لٹیروں کے لیے رکاوٹ، بین الاقوامی منظرناموں میں بڑھتی ہوئی سرگرمی اور موثر موجودگی۔
سیاست اور خارجہ تعلقات کے میدان میں ان کے منصوبوں میں ،دنیا کے ہر ملک کے بارے میں ایک آزاد اور متوازن پالیسی اپنانا اور فیصلہ کن انداز میں  اور صراحت  کے ساتھ نظام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا، مشرق و مغرب کسی پر انحصار نہ کرنا، دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اہمیت دینا،عالمی طاقتوں سے مسلمانوں کے حقوق کی واپسی کے لئے سنجیدہ کوشش کرنا،خطے میں سپر پاورز کے تسلط کے لیے کسی بھی اقدام اور تحریک کا مسلسل مقابلہ کرنا، قدس کے  مسئلے اور دیگر غصب شدہ فلسطینی اراضی کے مسئلے پر توجہ  اور   صیہونی دشمن کے خلاف ہمہ جہت لڑائی کی تیاری، بین الاقوامی میدان میں اسلام دشمنوں اور لٹیروں کے لیے رکاوٹ بنتے ہوئے مالامال اور اصلی  اسلامی ثقافت کی طرف لوٹنااور بین الاقوامی منظرناموں میں بااثر موجودگی درج کرانا  شامل ہے۔


اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات کے تجربے کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے اپنا شرعی سمجھا۔ ایک فرض، اس نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں، اور امام نے قبول کر لیا۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، اور وزیر اعظم کے انتخاب کی دہلیز پر، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کے وزیراعظم کی طرف سے بعض فوجی اہلکاروں نے امام سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت وزیراعظم پر منحصر ہے، یہ پھر موسوی کا انجینئر ہے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے لیے اس رائے کو قبول کیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ انجینئر موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اور مخالف رائے کے باوجود ان کا مجلس سے تعارف کرایا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا  شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی  سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم  بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اختلاف رائے کے باوجود انہیں  پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
=== صدارت کے دوران سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں ===
=== صدارت کے دوران سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں ===
شہریوار 8، 1362 کو، اس نے امام خمینی کے حکم پر ثقافتی انقلاب کے ہیڈکوارٹر کی پہلی بڑی تزئین و آرائش کی۔ امام نے یہ حکم یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھلنے کے موقع پر اپنے استفسار کے جواب میں جاری کیا۔ نیز، اس نے 19 دسمبر 1363 کو امام خمینی کے پیغام پر مبنی ثقافتی انقلاب کے صدر دفتر میں دوسری تزئین و آرائش کی۔ اس بحالی میں، ثقافتی انقلاب کے صدر دفتر کا نام تبدیل کر کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل رکھ دیا گیا اور صدر اس کونسل کے سربراہ بن گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای جولائی 1368 میں اپنی دوسری صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے اور ان سالوں کے دوران انہوں نے ملک کی اہم ثقافتی پالیسیوں کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا۔
8 شہریو  1362 کو،آیت اللہ خامنہ ای نے ، امام خمینی کے حکم پر ثقافتی انقلاب تنظیم  میں  بنیادی ترمیم کی ذمہ داری قبول کر لی۔ امام نے یہ حکم یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھلنے کے موقع پرآیت اللہ خامنہ ای  استفسار کے جواب میں جاری کیا۔ اسی طرح انہوں نے ثقافتی انقلاب تنظیم میں 19 آذر 1363 کو امام خمینی کے حکم پر دوسری ترمیم انجام دی ۔ اس ترمیم میں، ثقافتی انقلاب تنظیم  کا نام تبدیل کر کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل رکھ دیا گیا اور صدر جمہوریہ  اس کونسل کے سربراہ بن گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای تیرماہ  1368 میں اپنی دوسری صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے ۔اس  دوران انہوں نے ملک کی اہم ثقافتی پالیسیوں کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا۔


آٹھ سالہ دور صدارت میں ایران کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا آلہ زیادہ فعال ہوا۔ سیاست اور خارجہ تعلقات کی ترقی کے اشارے میں سے ایک صدر کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف ممالک کے دورے تھے، جو صدارت کے پہلے دور میں شروع ہوئے اور دوسرے دور میں ترقی کی۔ انہوں نے اپنے دور صدارت کے پہلے دور میں 15 سے 20 ستمبر 1363 تک شام، لیبیا اور الجزائر اور دوسرے دور میں 23 جنوری سے 3 فروری 1364 تک پاکستان کے ایشیائی اور افریقی ممالک تنزانیہ، زمبابوے، انگولا اور موزمبیق کا سفر کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای کے آٹھ سالہ دور صدارت میں ایران کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا محکمہ زیادہ فعال ہوا۔ خارجہ پالیسی اور تعلقات کی ترقی کی ایک علامت ، تعلقات کو فروغ دینے کے لیے صدر جمہوریہ کے مختلف ممالک کے دورے تھے، جو صدارت کے پہلے دور میں شروع ہوئے اور دوسرے دور میں ترقی کی۔ انہوں نے اپنی  صدارت کے پہلے دور میں 15 سے 20 شہریور1363 تک شام، لیبیا اور الجزائر اور دوسرے دور میں 23 دیماہ سے 3 بہمن 1364 تک ایشیائی اور افریقی ممالک پاکستان، تنزانیہ، زمبابوے، انگولا اور موزمبیق کا سفر کیا۔11 سے 15 شہریور 1365 تک وہ ہرارے میں ناوابستہ ممالک کے آٹھویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دوبارہ زمبابوے گئے۔ اس سفر کے دوران انہوں نے سربراہی اجلاس میں تقریر کی اور ناوابستہ ممالک کے بعض سربراہان سے ملاقات اور گفتگو کی۔ انہوں نے 2 سے 6 ماسفند 1367 تک یوگوسلاویہ اور رومانیہ اور 19 سے 26 اردیبہشت1368 تک چین اور شمالی کوریا کا سفر کیا۔
11 سے 15 ستمبر 1365 تک وہ ہرارے میں ناوابستہ ممالک کے آٹھویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دوبارہ زمبابوے گئے۔ اس سفر کے دوران انہوں نے سربراہی اجلاس میں تقریر کی اور ناوابستہ ممالک کے بعض سربراہان سے ملاقات اور گفتگو کی۔ اس نے 2 سے 6 مارچ 1367 تک یوگوسلاویہ اور رومانیہ اور 19 سے 26 مئی 1368 تک چین اور شمالی کوریا کا سفر کیا۔


31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اور دنیا کی استکباری پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔ ایران کی طرف.
31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اورایران کے سلسلے میں  عالمی سامراج کی پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔


نیویارک میں مسلمانوں کی نماز جمعہ کی امامت اور اس کے خطبات میں خطاب بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات کے علاوہ، [[افغانستان]]، عراق اور [[لبنان]] میں [[شیعہ]] سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر ممکن ہے۔ عراق کا اسلامی انقلاب۔ تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ جماعتوں سے اسلامی اتحاد پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کے مؤثر مقابلے کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم اسمبلی کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی جنگجوؤں کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا اور ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔
نیویارک میں نماز جمعہ کی امامت اور خطبات بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات میں ، [[افغانستان]]، عراق اور [[لبنان]] میں [[شیعہ]] سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور عراق  کے اسلامی انقلاب  کی سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر  بھی کیا جا سکتاہے۔  تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ پارٹیوں سے وحدت  اسلامی پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کی نقصان دہ  مقابلہ آرائی کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل  کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی مجاہدین کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا ۔ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔


مختلف طبقوں کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملیوں میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھروں پر جانا ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔
مختلف طبقات کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملی میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھر جانا ،ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف طبقوں کے لوگوں خصوصاً پسماندہ طبقے سے ملنے  اور نزدیک سے  ان کے مسائل جاننے، مقامی حکام کے اختلافات کو دور کرنے، جنگ سے متعلق مسائل کی پیروی کرنے اور آئی آر جی سی اور فوج کا تعاون کرنے، علماء سے ملاقات، اور شہروں اور دیہاتوں کے عمائدین سے ملاقات اور اقتصادی مسائل کا جائزہ لینے کے مقصد سے  ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کا سفر کرنا ان کی مسلسل اور موثر سرگرمیوں میں شامل تھا۔
اس کے علاوہ ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کا سفر کرنے کا مقصد مختلف طبقوں کے لوگوں خصوصاً پسماندہ طبقے سے ملاقات کرنا اور ان کے مسائل اور مسائل کو قریب سے جاننا، مقامی حکام کے اختلافات کو دور کرنا، جنگ سے متعلق مسائل کی پیروی کرنا۔ اور آئی آر جی سی اور فوج کا تعاون، علماء سے ملاقاتیں، اور شہروں اور دیہاتوں کے عمائدین سے ملاقاتیں، اقتصادی مسائل اور مسائل کی تحقیق اور اس طرح کے اقدامات ان کے اقدامات، مسلسل اور موثر سرگرمیوں میں سے تھے۔
=== امام خمینی کا خط ===
=== امام خمینی کا خط ===
16 جنوری 1366 کو امام خمینی نے ان کے نام ایک خط میں اور تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی حکومت کی حدود اور فقیہ کے اختیارات کے بارے میں ان کے بیانات کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت پر غور کیا۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اور تمام ثانوی اصولوں پر مقدم ہے اور فقہ مطلق ہے۔ امام کے خط کے جواب میں انہوں نے اپنی نظریاتی اور عملی طور پر امام کے نقطہ نظر کی پاسداری کا اعلان کیا۔
16 دیماہ  1366 کو امام خمینی نے ، تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی حکومت کے حدود اور فقیہ کے اختیارات کے بارے میں ان کے بیانات کے مد نظر  ان کے نام ایک خط میں  اسلامی حکومت کو  اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیا جو  دیگر  تمام فرعی  احکام پر مقدم ہے نیز ولایت  فقیہ کو  مطلق قرر دیا۔ امام خمینی  کے خط کے جواب میں آیت اللہ خامنہ ای نے ان کے نقطہ نظر کے سلسلے میں  اپنی نظریاتی اور عملی تائید  کا اعلان کیا۔


اس کے علاوہ، آمنے سامنے ملاقات میں، انہوں نے امام خمینی سے نماز جمعہ کے خطبوں میں بیانات کے بارے میں اپنے ارادے پر تبادلہ خیال کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن اس خط کا فوراً جواب دیا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کے ایک حصے میں لکھا: میرا آپ کے ساتھ انقلاب سے پہلے کے برسوں سے گہرا تعلق رہا ہے اور اب تک یہی رشتہ قائم ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ اس کے بازوؤں میں سے ایک ہیں، میں اسلامی جمہوریہ کی طاقت کو جانتا ہوں، اور میں آپ کو ایک ایسے بھائی کے طور پر جانتا ہوں جو فقہی مسائل سے واقف ہے اور ان پر کاربند ہے، اور جو مطلق العنانیت سے متعلق فقہی اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ فقیہ، سورج کے طور پر، آپ روشنی دیتے ہیں.
اس کے علاوہ، آمنے سامنے ملاقات میں، انہوں نے امام خمینی سے نماز جمعہ کے خطبوں میں اپنے  بیانات کے مقصد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن اس خط کا فوراً جواب دیا اور ان  کی تعریف و تمجید  کرتے ہوئے لکھا: ”میرا آپ کے ساتھ انقلاب سے برسوں پہلے سے گہرا تعلق رہا ہے اور حمد اللہ اب تک یہی رشتہ قائم ہے۔ میری  نظر میں  آپ جمہوری اسلامی کے تواناباز کی حیثیت رکھتے  ہیں، اور میں آپ کو ایک ایسے بھائی کے طور پر جانتا ہوں جو فقہی مسائل سے واقف ہیں اور ان پر کاربند ہیں، اور جو ولایت فقیہ  مطلقہ سے مربوط فقہی اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ آپ اسلام اور اسلامی اصول و مبانی پر کاربند ان نادر افراد میں سے ہیں جو مثل خورشدید روشنی بکھیرتے ہیں۔“


مختلف بلوں کی منظوری میں اسلامی کونسل اور گارڈین کونسل کے اختلاف کے بعد، امام خمینی نے ملک کے رہنماؤں (بشمول آیت اللہ خامنہ ای) کے خط کے جواب میں 17 فروری 1366 کو کونسل آف ایکسپیڈینسی کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ اسی بنا پر آیت اللہ خامنہ ای شناخت کونسل کے پہلے صدر بنے۔ وہ صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے۔
مختلف بلوں کی منظوری میں پارلیمنٹ اور گارڈین کونسل کے اختلاف کے بعد، امام خمینی نے ملک کے رہنماؤں (بشمول آیت اللہ خامنہ ای) کے خط کے جواب میں 17 بہمن  1366 کو کونسل آف ایکسپیڈینسی(مجمع تشخیص مصلحت نظام) کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای اس کونسل کے پہلے صدر بنے۔ وہ صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے۔


اپنی آٹھ سالہ صدارت کے دوران، جیسا کہ انقلاب کی فتح کے بعد کے سالوں میں، وہ امام خمینی کے رشتہ داروں، مشیروں اور قابل اعتماد افراد میں سے تھے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے بہت سے معاملات میں انہیں صدارت کے فرائض سے بڑھ کر مشن سونپے یا مختلف مسائل میں ان کی تجاویز کو قبول کیا۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد کے سالوں کی طرح ،اپنی آٹھ سالہ صدارت کے دوران بھی  وہ امام خمینی کے قریبیوں، مشیروں اور قابل اعتماد افراد میں سے تھے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے بہت سے معاملات میں انہیں صدارت کے فرائض سے بڑھ کر مشن سونپے یا مختلف مسائل میں ان کی تجاویز کو قبول کیا۔


یکم نومبر 1362 کو انہیں امریکہ اور دیگر ممالک سے ایران کے مطالبات پر عمل کرنے کا کام سونپا گیا۔ یکم دسمبر کو انہوں نے آرمی انفارمیشن پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام پر اتفاق کیا۔
یکم آبان  1362 کو انہیں امریکہ اور دیگر ممالک سے ایران کے مطالبات کی پیروی نے کا کام سونپا گیا۔ یکم آذر کو انہوں نے آرمی انفارمیشن پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام پر اتفاق کیا۔9 دیماہ 1362 کو ان کا تقرر تعزیرات  بل کی دوبارہ جانچ کے لیے کیا گیا۔ 23 بہمن 1367 کو امام خمینی نے انہیں اس بات پر مومور کیا کہ  سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو تینوں محکموں کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دےجہاں وہ لوگ  اس کونسل کے بہتر انتظام کے لیے تقسیم وظائف  کے متعلق اپنے منصوبے پیش کرسکے۔ آخر میں انہوں نے تینوں محکموں کے سربراہان کی ملاقات میں زیر بحث لائحہ عمل سے اتفاق کیا۔ 19 اسفند 1367 کو امام خمینی نے  ایک خط میں انہیں ایران میں مقیم عراقیوں کے مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی۔
9 جنوری 1362 کو ان کا تقرر طریقت بل کی دوبارہ جانچ کے لیے کیا گیا۔ 23 بہمن 1367 کو امام نے انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو تینوں طاقتوں کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے اور اس کونسل کے بہتر انتظام کے لیے محنت کی تقسیم کے میدان میں اپنے منصوبے پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ آخر میں انہوں نے تینوں طاقتوں کے سربراہان کی ملاقات میں زیر بحث لائحہ عمل سے اتفاق کیا۔ 19 مارچ 1367 کو ایک خط میں اس نے انہیں ایران میں مقیم عراقیوں کے مسائل سے نمٹنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔


امام خمینی نے 4 مئی 1368 کو اپنے نام ایک فرمان میں آیت اللہ خامنہ ای سمیت بیس افراد پر مشتمل ایک وفد مقرر کیا جو اسلامی کونسل کے پانچ نمائندوں کے ساتھ مل کر آئینی نظرثانی کونسل تشکیل دے، جسے اسلامی کونسل نے منتخب کیا، اور پانچ مضامین میں آئین میں ترمیم، نظر ثانی اور مکمل۔ مذکورہ کونسل کی تشکیل کے بعد آیت اللہ مشکینی صدر منتخب ہوئے اور وہ اور اکبر ہاشمی رفسنجانی کونسل کے پہلے اور دوسرے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اکتالیس اجلاسوں کے دوران، کونسل نے پانچ اہم امور پر تبادلہ خیال کیا اور فیصلہ کیا: قیادت کے حالات، انتظامی اور عدلیہ میں ارتکاز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے انتظام میں ارتکاز، مستقبل میں آئین پر نظر ثانی کیسے کی جائے اور اسلامی کونسل کے نمائندوں کی تعداد۔ . یہ ملاقاتیں امام خمینی کی وفات تک جاری رہیں۔
امام خمینی نے 4 اردیبہشت 1368 کو آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک فرمان میں آیت اللہ خامنہ ای سمیت بیس افراد پر مشتمل ایک وفد مقرر کیا جو پارلیمنٹ کے پانچ نمائندوں کے ساتھ مل کر جنہیں خود پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہو ،آئینی نظرثانی کونسل تشکیل دے اور پانچوں  موضوعات میں آئین میں ترمیم، نظر ثانی اور تکمیل کا کام انجام دے۔ مذکورہ کونسل کی تشکیل کے بعد آیت اللہ مشکینی صدر منتخب ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای اور اکبر ہاشمی رفسنجانی کونسل کے پہلے اور دوسرے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اکتالیس نشستوں کے دوران، کونسل نے پانچ اہم امور پر تبادلہ خیال کیا اور فیصلہ کیا: قیادت کے شرائط، انتظامیہ اور عدلیہ میں تمرکز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے انتظام و انصرام میں تمرکز، مستقبل میں آئین پر امکانی  نظر ثانی کی نوعیت اورپارلیمنٹ کے نمائندوں کی تعداد کے متعلق بحث و گفتگو  کرکے فیصلے لئے۔ . یہ نشستیں امام خمینی کی وفات کے بعد تک  تک جاری رہیں۔
== ایران کی قیادت ==
== ایران کی قیادت ==
14 جون 1368 کو جب عوام اور حکام امام خمینی  کے مقدس جسم کو دفنانے کی تیاری کر رہے تھے، ایک اجلاس میں جس میں قومی اور فوجی حکام نے شرکت کی، صدر آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی (رہ) کا سیاسی الہی وصیت پڑھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے نئے لیڈر یا لیڈر شپ کونسل کے انتخاب کے لیے اسی دن کی شام کو قائدین کی کونسل کا اجلاس ہوا۔ 1358 میں منظور شدہ آئین کے آرٹیکل 107 کے مطابق قیادت کا انتخاب ماہرین کی اسمبلی کے ارکان کی ذمہ داری ہے۔
14 خرداد  1368 کو جب عوام اور حکام امام خمینی  کے مقدس جسم کو دفنانے کی تیاری کر رہے تھے، ایک اجلاس میں جس میں قومی اور فوجی حکام نے شرکت کی، صدر آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی (رہ) کا سیاسی- الہی وصیت نامہ  پڑھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے نئے لیڈر یا لیڈر شپ کونسل کے انتخاب کے لیے اسی دن شام کو   مجلس خبرگان رہبری کا اجلاس ہوا۔ 1358 میں منظور شدہ آئین کے آرٹیکل 107 کے مطابق قیادت کا انتخاب مجلس خبرگان کے ارکان کی ذمہ داری ہے۔


کونسل یا انفرادی قیادت کی بحث میں ماہرین کی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے کونسل کی قیادت کو ووٹ نہیں دیا اور جب ووٹنگ کے لیے قیادت کا سوال آیا تو ان کا نام لیا گیا۔ بعض نمائندوں نے جو امام خمینی کی امامت کے بعد نظام کی قیادت کرنے کی اہلیت کے بارے میں مختصر علم رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے افواج کے سربراہان اور رہبر معظم و حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں کئی ملاقاتوں میں کیا تھا، نے ان سے وضاحت طلب کی۔ گواہوں
کونسل یا انفرادی لیڈر شپ کی بحث میں مجلس خرگان  کی اکثریت نے کونسل کی قیادت کو ووٹ نہیں دیا اور جب ووٹنگ کے لئے  قیادت کے  مصداق کا سوال آیا تو آیت اللہ خامنہ ای  کا نام لیا گیا۔ بعض نمائندوں نے ،جو امام خمینی کی وفات کے بعد آیت اللہ خامنہ  کے اندر نظام کی قیادت کی صلاحیت کے بارے میں امام خمینی  کے نظریے کا اجمالی  علم رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے تینوں محکموں  کے سربراہان ،وزیر اعظم  اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ؐمختلف  جلسات میں کیا تھا، ان جلسات کے عینی گواہوں سے وضاحت کا مطالبہ کیا۔


امام خمینی کی روایت کے دو گواہوں نے جو خود بھی ماہرین کی مجلس کے رکن تھے، امام کی طرف اس قول کے منسوب ہونے کی تصدیق کی۔ اسی ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای کی اہلیت کے حوالے سے امام کا ایک اور بیان بھی بیان کیا گیا جس کا اظہار انہوں نے اپنے حالیہ دورہ چین اور شمالی کوریا کے دوران کیا تھا۔ اس کے بعد رائے شماری ہوئی اور ماہرین کی اسمبلی کے نمائندوں کی بھاری اکثریت نے امام راحل کی رائے اور آیت اللہ خامنہ ای کی مذہبی، سائنسی اور سیاسی قابلیت کی بنیاد پر تقدس کو اسلامی جمہوریہ ایران کا قائد منتخب کیا۔
امام خمینی کی روایت کے دو گواہوں نے جو خود بھی مجلس خبرگان کے رکن تھے، امام کی طرف اس قول کے منسوب ہونے کی تصدیق کی۔ اسی جلسے میں آیت اللہ خامنہ ای کی اہلیت کے حوالے سے امام خمینی کا ایک اور بیان بھی سامنے آٰیا جس کا اظہار انہوں نے آیت اللہ خامنہ ای کے  حالیہ دورہ چین اور شمالی کوریا کے دوران کیا تھا۔ اس کے بعد رائے شماری ہوئی اور مجلس خبرگان  کے نمائندوں کی بھاری اکثریت نے امام راحل کی رائے اور آیت اللہ خامنہ ای کی مذہبی، علمی اور سیاسی قابلیت کی بنیاد پران  کو اسلامی جمہوریہ ایران کا قائد منتخب کیا۔


اس مسئلے کا ذکر انہوں نے خود کیا، وہ کہتے ہیں کہ جب تک میں سلیکشن کے معاملے پر فیصلہ نہ کر لیتا، میں اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا۔ آئین کا جائزہ لینے اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد قائدانہ ماہرین کی اسمبلی نے ایک بار پھر تقدس مآب کی قیادت کے حوالے سے نئے آئین پر ووٹ دیا اور بھاری اکثریت نے تقدس کو دوبارہ نظام کے رہنما کے طور پر منتخب کیا۔
اس مسئلے کا ذکر انہوں نے خود کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت تک اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کرتا رہا جب تک یہ انتخاب  حتمی نہیں ہو گیا۔ آئین میں نظر ثانی  اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد مجلس خبرگان  نے ایک بار پھر آیت اللہ خامنہ کی قیادت کے حوالے سے نئے آئین کے مطابق ووٹنگ کرائی ا اور بھاری اکثریت نے انہیں  دوبارہ نظام کے رہنما کے طور پر منتخب کیا۔


اپنی قیادت کے بارے میں امام راحل کی رائے کے چند اہم پہلو یہ ہیں: اسلامی حکومت کے حصول کے لیے طویل المدتی جدوجہد، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ نظام پر پختہ اور واضح یقین، ایک دہائی سے زیادہ ہمہ جہت۔ اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے لیے سیاسی، انتظامی اور ثقافتی سرگرمیاں، مذہبی روشن خیالی سائنسی مہارت کا انحصار مذہبی بنیادوں، انفرادی اور سماجی رویے، سنت اور تقویٰ پر ہے۔ امام خمینی  نے مختلف مواقع پر اسلامی جمہوریہ کی خدمت کے سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای کی خوبیوں، عزم اور خدمات کی تصدیق کی تھی۔
آیت اللہ خامنہ کی  قیادت کے بارے میں امام راحل کی رائے کے چند اہم پہلو یہ ہیں: اسلامی حکومت کے حصول کے لیے طویل المدتی جدوجہد، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام پر پختہ اور واضح یقین، اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے لیے ایک دہائی سے زیادہ ہمہ جہت  سیاسی، انتظامی اور ثقافتی سرگرمیاں، مذہبی روشن خیالی، دینی اصول و مبانی پر  علمی تسلط، انفرادی اور سماجی رویے، زہد اور پاکدامنی۔ امام خمینی  نے مختلف مواقع پر اسلامی جمہوریہ کی خدمت کے سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای کی خوبیوں، عزم اور خدمات کی تصدیق کی تھی۔


'''سید احمد خمینی'''، امام خمینی کے قریب ترین شخص، جو ان کے مشیر اور معتمد تھے، نے کہا کہ ان کے غیر ملکی سفر کے بعد، امام نے فرمایا: "انہیں قیادت کا حق حاصل ہے۔" امام خمینی  کی بیٹی زہرہ مصطفوی نے بیان کیا کہ جب انہوں نے امام سے نظام کی مستقبل کی قیادت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کا نام بتایا، اور جب انہوں نے ان کی علمی حیثیت پوچھی تو انہوں نے ان کے اجتہاد کی تصدیق کی۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب امام آیت اللہ منتظری کو مستقبل کی قیادت سے ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے، تینوں طاقتوں کے سربراہان، وزیر اعظم (میر حسین موسوی) اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ہونے والی ملاقات میں۔ قیادت کی تبدیلی کے بارے میں بات چیت ہوئی، آیت اللہ خامنہ ای کو نظام کے مستقبل کے رہنما کے طور پر نامزد کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امام راحل کے ساتھ اپنی نجی ملاقات میں انہوں نے مستقبل میں قیادت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے جواب میں امام نے آیت اللہ خامنہ ای کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "تمہارا انجام ختم نہیں ہوگا، ایک ایسا شخص موجود ہے۔ تمہارے درمیان۔" تم کیوں نہیں جانتے؟
'''سید احمد خمینی'''، امام خمینی کے قریب ترین شخص، جو ان کے مشیر اور معتمد تھے، نے کہا کہ ان کے غیر ملکی سفر کے بعد، امام نے فرمایا: "بے شک ان کے اندر  قیادت کی صلاحیت ہے۔" امام خمینی  کی بیٹی زہرہ مصطفوی نے بیان کیا کہ جب انہوں نے امام سے نظام کی مستقبل کی قیادت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کا نام بتایا، اور جب انہوں نے ان کی علمی حیثیت پوچھی تو انہوں نے ان کے اجتہاد کی تصدیق کی۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب امام آیت اللہ منتظری کو مستقبل کی قیادت سے ہٹانا چاہ ر رہے تھے، تو  تینوں محکموں کے سربراہان، وزیر اعظم (میر حسین موسوی) اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ہونے والی نشست میں قیادت کی تبدیلی کے بارے میں بات چیت ہوئی تو  انہوں نے  نظام کے مستقبل کے رہنما کے طور پر آیت اللہ خامنہ ای کا نام لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امام راحل کے ساتھ اپنی نجی ملاقات میں انہوں نے مستقبل میں قیادت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے جواب میں امام نے آیت اللہ خامنہ ای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہوئے فرمایا: "تم بن بست کا شکار نہیں ہوگے جبکہ تمہارے درمیان  ایک ایسا شخص موجود ہے۔تم خود  کیوں نہیں جانتے؟“


اس میں کوئی شک نہیں کہ جس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای کو نظام کا رہبر منتخب کیا گیا وہ خاص اہمیت اور حساسیت کا حامل تھا۔ امام خمینی کی بیماری کے بعد پیدا ہونے والے کچھ خدشات یہ تھے:  
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای کو نظام کا رہبر منتخب کیا گیا وہ خاص اہمیت اور حساسیت کا حامل تھا۔ امام خمینی کی بیماری کے بعد پیدا ہونے والے کچھ خدشات یہ تھے:  
* امام خمینی کے بعد کے دور میں ملک کا انتظام
* امام خمینی کے بعد کے دور میں ملک کا انتظام
* آئین کی نامکمل ترمیم اور نظرثانی  
* آئین کی ترمیم اور نظرثانی کا نامکمل رہ جانا
* عراق، امریکہ اور منافقین کے فوجی حملوں یا اشتعال انگیزیوں کی فکر؛ عراق کی بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور جنگ میں اس کی سمجھی جانے والی فتح کے لیے وسیع پروپیگنڈے کے پیش نظر
* عراق، امریکہ اور منافقین کے فوجی حملوں یا اشتعال انگیزیوں کی فکر؛ عراق کی بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزی اور جنگ میں   خود کو  کامیاب قرار دینے کے لئے وسیع پروپیگنڈے کے پیش نظر
* مصنف سلمان رشدی کے ارتداد پر امام خمینی کے حکم سے پیدا ہونے والے بحران کا تسلسل، جسے مغربی ممالک کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
* شیطانی آیات نامی کتاب کی اشاعت  اور اس کے مصنف سلمان رشدی کے ارتداد پر مبنی  امام خمینی کے فتوے سے پیدا ہونے والے بحران کا تسلسل، جسے مغربی ممالک کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔


لیکن جس چیز نے تمام پریشانیوں کو امید میں بدل دیا وہ یہ تھے:  
لیکن جن چیزوں  نے تمام پریشانیوں کو امید میں بدل دیا وہ یہ تھے:  
* آیت اللہ خامنہ ای کا رہبر کے عہدے پر انتخاب، جو کہ مختصر ترین وقت میں ہوا۔  
* آیت اللہ خامنہ ای کا رہبر کے عہدے پر انتخاب، جو کہ مختصر ترین وقت میں ہوا۔  
* امام خمینی  کے لاکھوں منفرد جنازے اور الوداعی اور سب سے بڑے جنازوں کی تشکیل اور ایک مقبول رہنما کے لیے الوداعی جس نے ایک بہت بڑے طوفان کی طرح دشمن کی کسی بھی سازش کے امکان کو ختم کر دیا۔  
* لاکھوں لوگوں  کا امام خمینی  کو بے مثال انداز میں وداع کرنا  اور ایک عوامی قائد کی بے مثال تشییع  جنازہ  کا تشکیل پانا جس نے ایک بہت بڑے طوفان کی طرح دشمن کی کسی بھی سازش کے امکان کو ختم کر دیا۔
* نظام کے اعلیٰ حکام اور ملک کے مختلف اداروں، ایوان ائمہ، مذہبی حکام اور علماء بشمول آیت اعظم اراکی، مرعشی نجفی، آیت اللہ مرزا ہاشم آملی، آیت اللہ العظمیٰ گولپائیگانی اور آیت اللہ کی طرف سے بیعت کی تصدیق اور بیعت۔ میشکینی، اشرافیہ، مدرسے اور یونیورسٹی کی شخصیات، شہداء کے اہل خانہ اور عوام کے مختلف طبقات  
* نظام کے اعلیٰ حکام اور ملک کے مختلف اداروں، امام خمینی کے گھر والوں ، مراجع تقید اور علماء بشمول آیت اللہ  اراکی،آیت اللہ  مرعشی نجفی، آیت اللہ میرزا ہاشم آملی، آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی اور آیت اللہ مشکینی ، حوزہ اور یونیورسٹی کی ممتاز شخصیات ، شہداء کے اہل خانہ اور عوام کے مختلف طبقات کی جانب سے  آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت کی تائید
* آیت اللہ خامنہ ای کے رہبر منتخب ہونے کے چند گھنٹے بعد حاج سید احمد خمینی نے انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا اور کہا: [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہ السلام]]! کئی بار آپ کو ایک مسلم مجتہد اور ہمارے اسلامی نظام کی رہنمائی کے لیے بہترین شخص کہا۔ میں اور امام کے گھر کے تمام اراکین معزز ماہرین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام کی روح اس انتخاب سے خوش اور پرسکون ہوئی ہے۔ ایک بار پھر، ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، میں اس فقیہ کے احکامات کو اپنے لیے پابند سمجھتا ہوں۔
* آیت اللہ خامنہ ای کے رہبر منتخب ہونے کے چند گھنٹے بعد حاج سید احمد خمینی نے انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا اور کہا: امام خمینی نے  کئی بار آپ کو ایک مسلم مجتہد اور ہمارے اسلامی نظام کی رہنمائی کے لیے بہترین شخص کہا۔ میں اور امام خمینی کے گھر کے تمام اراکین مجلس خبرگان کے معزز ماہرین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام کی روح اس انتخاب سے خوش اور پرسکون ہوئی ہے۔ ایک بار پھر، میں  ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، خود کو  اس ولی فقیہ کے احکامات کا پابند سمجھتا ہوں۔
== عالم اسلام کا اتحاد ==
== عالم اسلام کا اتحاد ==
وہ اسلامی امت کے اتحاد اور اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی کے مسئلہ کے سب سے پرجوش محافظوں میں سے ایک ہیں اس طرح کہ اسلامی مذاہب کے عالمی فورم کے قیام کے بعد ان کا پہلا اقدام تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی اتحاد کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد۔
وہ اسلامی امت کے اتحاد اور اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی کے سب سے پرجوش حامیوں میں سے ہیں ۔ یہاں تک کہ قیادت کی ذمہ داری ملنے کے بعد ان کا سب سے پہلا قدم  اسلامی جمہوریہ ایران میں چوتھی بین الاقوامی وحدت اسلامی  کانفرنس کے بعد تقریب  مذاہب اسلامی کے عالمی فورم کا قیام  تھا۔


تمام وحدت کانفرنسوں میں وہ ایک دن کانفرنس کے مہمانوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ان کے لیے ایک اہم تقریر کرتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی ان تقاریر کا مجموعہ ایک اندازاً روڈ میپ اور ایک اہم میراث ہے جو نہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے۔ عالم اسلام بلکہ عام مسلمانوں کو حتی الامکان اتحاد اور ہمدردی کی ترغیب دیتی ہے اور مذہب، اسلام اور روحانیت کے کھلے ہوئے دشمنوں کے خلاف فکر سے ایک مذہبی فریضہ اور اسلامی اصول کی طرف موڑ دیتی ہے۔
تمام وحدت کانفرنسوں میں وہ ایک دن کانفرنس کے مہمانوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ان کے لیے ایک اہم تقریر کرتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی یہ  تقاریر بجائے خود ایک روڈ میپ اور ایک اہم تقریبی میراث ہے جو نہ صرف عالم اسلام کے دانشور طبقے بلکہ   عام مسلمانوں کو بھی زیادہ سے زیادہ  اتحاد اور ہمدردی کی ترغیب دیتی ہے۔
== عام عقائد پر توجہ دیں ==
== مشترک  عقائد پر توجہ دیں ==
اور مسلمانوں اور مذاہب کے پیروکاروں کے لیے ان پاکیزہ تعلیمات کے محور کے گرد دین کی ترویج و اشاعت یقیناً ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب اور قریب کر دے گی۔ انہوں نے بارہا اس نکتے پر تاکید کی اور کہا: آج ہمارا ایک ہی دشمن ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی معاشرے میں ایک ہی کتاب، ایک سنت، ایک ہی نبی، ایک ہی قبلہ، ایک کعبہ، ایک حج، ایک ہی عبادت اور ایک ہی عقیدہ ہے۔ یقینا، اختلافات ہیں.
مسلمانوں اور مختلف فرقوں  کے پیروکاروں کے لیے اگر ان پاکیزہ تعلیمات کو محور بنا کر دین کی ترویج و اشاعت کی جائے تو یقینی طور پر  ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دے گی۔ انہوں نے بارہا اس نکتے پر زور دیا ہے : آج ہمارے سامنے  دشمن بھی ایک ہی ہے علاوہ اس کے کہ  اسلامی معاشرے کی ایک ہی کتاب، ایک ہی  سنت، ایک ہی نبی، ایک ہی قبلہ، ایک ہی کعبہ، ایک ہی حج، ایک ہی عبادت اور ایک ہی عقیدہ ہے۔ یقینا، اختلافات بھی ہیں۔ علمی  اختلاف ہر  دو علما کے درمیان ہو سکتا ہے۔ علاوہ بر ایں، عالم اسلام کے خلاف واحد دشمن ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد  ایک اہم اور سنجیدہ  مسئلہ ہے۔ اسے اس طرح ہینڈل کیا جانا چاہئے۔ اس مسئلے میں ایک دن کی بھی  تاخیر ہوتی ہے تو گویا عالم اسلام نے ایک دن کھو دیا ہے اور یہ دن ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ اتنے حساس ہیں کہ زندگی بھر متاثر کرتے ہیں۔ تاخیر نہ ہونے دیجئے۔


سائنسی اختلافات دونوں علماء کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عالم اسلام کے خلاف واحد دشمن ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اسے اس طرح ہینڈل کیا جانا چاہئے۔ ہر روز جب یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے، عالم اسلام نے ایک دن کھو دیا ہے اور یہ دن ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ اتنے حساس ہیں کہ زندگی بھر متاثر کرتے ہیں۔ آپ کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔
ہم تمام مسلمانوں کو - [[شیعہ]] اور [[سنی]]  -  بتانا اور یاد دلانا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے درمیان ایک نقطہ اشتراک ہے اور ایک نقطہ افتراق۔ کچھ چیزوں میں آپ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور کچھ چیزوں میں ہر فرقے کا اپنا طریقہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ،مشترکات اختلافات سے زیادہ ہیں۔ یعنی تمام مسلمان ایک خدا، ایک قبلہ، ایک نبی، ایک  طرح کے احکام ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ایمان رکھتے ہیں۔


ہم تمام مسلمانوں کو بتانا اور یاد دلانا چاہتے ہیں - [[شیعہ]] اور [[سنی]] سے - کہ آپ میں ایک نقطہ مشترک ہے اور ایک نقطہ فرق ہے۔ کچھ چیزوں میں آپ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور کچھ چیزوں میں ہر فرقے کا اپنا طریقہ ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ، سب سے پہلے، مشترکات کے وہ نکات فرق کے نکات سے زیادہ ہیں۔ یعنی تمام مسلمان ایک خدا، ایک قبلہ، ایک نبی، ایک حکم، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ایمان رکھتے ہیں۔
آپ کو دو مسلمان ایسے نہیں ملیں گے جو صبح ہوتے ہی نماز کے لیے نہ اٹھیں مگر یہ کہ وہ اپنا فرض ادا نہ کرنا چاہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسے صبح، دوپہر، شام اور رات کی نماز پڑھنی چاہیے، اور مستحب ہے کہ وہ نصف شب میں نماز شب ادا کرے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نماز کعبہ کی طرف اور قرآن کی زبان میں اور قرآن کی آیات سے ادا کی جانی چاہیے۔ دنیا کے تمام مسلمان جب رمضان کا مہینہ آتا ہے اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہ رمضان  کا پہلا دن ہے  تو روزہ رکھتے ہیں۔


آپ کو دو مسلمان ایسے نہیں ملیں گے جو صبح ہوتے ہی نماز کے لیے نہ اٹھیں۔ جب تک وہ اپنا فرض ادا نہ کرنا چاہے، دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسے صبح، دوپہر، شام اور رات کی نماز پڑھنی چاہیے، اور مستحب ہے کہ وہ رات کی نماز نصف شب میں ادا کرے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نماز کعبہ کی طرف اور قرآن کی زبان میں اور قرآن کی آیات سے ادا کی جانی چاہیے۔ دنیا کے تمام مسلمان جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو روزہ رکھتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہ کا پہلا دن ہے۔
بڑے اہم  مشترکات موجود  ہیں؛ سب  اس محور کے گرد جمع ہو جائیں، ایک دوسرے کوتحمل  کریں۔ اصول ہیں، محور ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہم  ان اصولوں میں ایک دوسرے کے ہم درد ہوجائیں۔ ممکن ہے لوگوں میں سو فروعی باتوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ہو۔کوئی بات نہیں۔ یہ باہم جمع ہونےسے منافات نہیں رکھتا ہے۔ ان  مشترکات کو  معیار ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی تقریروں اور گفتگو میں محتاط رہنا چاہئے۔  ثانوی مسائل  میں ایک دوسرے کو رد کرنا قطعاً مناسب نہیں۔


بڑی مشترکات ہیں؛ سب کو اس محور کے گرد ضم کیا جانا چاہیے۔ ایک دوسرے کے ساتھ برداشت کریں۔ اصول ہیں، محور ہیں؛ اصول ان اصولوں میں ہمدرد ہونا ہے۔ سو شاخوں میں لوگوں کے لیے ایک دوسرے سے اختلاف کرنا ممکن ہے۔ یہ برادری، اجتماع، انضمام سے متصادم نہیں ہے۔ یہ معیار ہونے چاہئیں۔ ہماری تقریر میں محتاط رہیں۔ دوسروں کو رد کرنا، دوسروں کو رد کرنا، ثانوی مسائل کے لیے قطعاً مناسب نہیں۔
تمام ایرانی عوام کو ہمارے پیارے امام کے اس بامعنی اور مختصر سبق کو یاد رکھنا چاہیے اور اسلام کے محور پر  اتحاد  کو نہ بھولنا چاہیے: اللہ کی رسی  کو پکڑو اور اسلام کے محور پر متحد ہو جاؤ۔ یہ اتحاد تمام دردوں کا علاج ہے اور تمام دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔ ایرانی قوم کی فتح کا  اکسیر اعظم یہی ایک نکتہ ہے: اسلام کی بنیاد پر  اتحاد ۔


تمام ایرانی عوام کو ہمارے پیارے امام کے اس بامعنی اور مختصر سبق کو یاد رکھنا چاہیے اور اسلام کے محور پر کلمہ کی وحدت کو نہ بھولنا چاہیے: الہی دھاگے کو پکڑو اور اسلام کے محور پر متحد ہو جاؤ۔ یہ اتحاد تمام دردوں کا علاج ہے اور تمام دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔ ایرانی قوم کی فتح کا عظیم امر یہ ایک نکتہ ہے: اسلام کی بنیاد پر کلمہ کی وحدت
آج عالم اسلام کو پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے تمسک  کی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل­ عمران، 103) حبل اللہ سے تمسک ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن قرآن ہمیں حبل اللہ سے  وابستگئ کے حکم پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ ہمیں   اجتماعی اور سماجی طور پر حبل اللہ سے وابستہ رہنے کا کا حکم دیتا ہے۔ "جمیعاً سب مل کر وابستہ رہو۔اتحاد کے بارے میں رہبر معظم کے ارشادات کے سلسلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: ’’مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کوئی مذاق یا نعرہ نہیں ہے۔ تمام  اسلامی معاشروں کو باہم  متحد ہوجانا چاہیے اور ساتھ چلنا چاہیے۔ اس تناظر میں جو عناصر  مرکز بن سکتے ہیں  ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ و الہ  وسلم کی ذات  مبارک  ہے۔
آج عالم اسلام کو پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے چمٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل­ عمران، 103) حبل اللہ کا روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن قرآن ہمیں حبل اللہ کا روزہ رکھنے کا حکم دینے تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہبل اللہ کا روزہ جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ "کل"؛ مل کر ہڑتال کریں۔
اتحاد کے بارے میں رہبر معظم کے ارشادات کے سلسلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: ’’مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کوئی مذاق یا نعرہ نہیں ہے۔ الگ الگ، اسلامی معاشروں کو اتحاد تلاش کرنا چاہیے اور ساتھ چلنا چاہیے۔ اس تناظر میں جن عوامل کا مرکز ہو سکتا ہے ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہے۔


مسلمانوں اور اسلامی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اس معزز شخص کی شخصیت اور تعلیمات میں سرمایہ کاری کریں اور اسلام کے ہمہ جہت نظریہ کے ساتھ اس محترم شخصیت سے محبت کریں۔
مسلمانوں اور اسلامی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اسلام کے متعلق  ہمہ جہت نظر یہ کے ساتھ اس عظیم ہستی کی شخصیت اور تعلیمات اور اس سے محبت میں سرمایہ کاری کریں ۔
پیغمبر اسلام (ص) کی موجودگی تمام اسلامی ادوار میں اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے اور آج بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا اس عظیم اور مقدس وجود پر عقیدہ محبت اور محبت کے ساتھ ہے اور اسی لیے وہ عظمت تمام مسلمانوں کے جذبات اور آراء کا مرکز اور محور ہے اور یہ مرکزیت اتحاد بین المسلمین کے اسباب میں شمار ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے دل اور اسلامی فرقے کی ایک دوسرے سے قربت۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہماری نصیحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپ کی زندگی، آپ کے اخلاق، آپ کے اخلاق اور آپ کی کہی اور لکھی ہوئی تعلیمات کے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام کریں۔
پیغمبر اسلام (ص) کا وجود مبارک  تمام اسلامی ادوار میں اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اور آج بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا اس عظیم اور مقدس وجود پر عقیدہ محبت اور جذبات کے ساتھ ہے ۔ اسی لیے آنحضرت ص تمام مسلمانوں کے جذبات اور عقائد  کا مرکز اور محور ہے ۔اور یہ مرکزیت مسلمانوں کے دلوں کی باہمی انسیت اور اسلامی فرقوں  کی ایک دوسرے سے قربت کا سبب بنتی ہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہماری نصیحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ذات، آپ کی زندگی، آپ کے اخلاق اور آپ کی کہی اور لکھی ہوئی تعلیمات کے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام کریں۔


ان عوامل میں سے جو اس اتحاد کا مرکز ہو سکتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر متفق ہو سکتے ہیں، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی پیروی ہے۔ تمام مسلمان پیغمبر کے اہل بیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ شیعہ اپنی امامت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک غیر شیعہ انہیں شیعہ اصطلاح میں امامت کے معنی میں امام نہیں مانتا، لیکن وہ انہیں اسلام کے بزرگانِ اسلام سے جانتا ہے، پیغمبر کے خاندان سے، جو اسلامی تعلیمات اور احکام کو جانتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور اہل بیت کے ارشادات پر عمل کریں۔
جو عوامل اس اتحاد کا مرکز ہو سکتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر متفق ہو سکتے ہیں، ان میں سے ایک  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اہل بیت کی پیروی ہے۔ تمام مسلمان پیغمبر کے اہل بیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ شیعہ ان کی  امامت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن غیر شیعہ انہیں شیعہ اصطلاح کے مطابق  امام نہیں مانتے۔ لیکن وہ انہیں اسلام کے بزرگوں میں سے تو مانتے ہیں ، پیغمبر کے خاندان سے تو مانتے ہیں، اسلامی تعلیمات اور احکام سے مطلع تو مانتے  ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور اہل بیت کے ارشادات پر عمل کے سلسلے میں متحد ہوجائیں۔


یہ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔ یقیناً یہ ایک تکنیکی کام ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کے ابتدائی مراحل ہیں۔ جو لوگ سائنس کے ماہر ہیں، حدیث کے ماہر ہیں، اور حدیث سے متعلق علوم کے ماہر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کام کے لیے کیا شرائط ہیں۔
یہ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔ البتہ یہ ایک فنی کام ہے۔ آسان کام نہیں ہے اور اس کےکے کچھ مقدمات ہیں۔ جو لوگ اہل فن  ہیں، حدیث کے ماہر ہیں، اور حدیث سے متعلق علوم کے ماہر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کام کے مقدمات کیا ہیں۔
=== غدیر ===
=== غدیر ===
مسئلہ غدیر بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خود غدیر کا مسئلہ، اس پہلو کے علاوہ جسے شیعوں نے عقیدہ کے طور پر قبول کیا ہے، یعنی وہ حکومت جو امیر المومنین (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے مقرر کی ہے، جو حدیث غدیر میں واضح ہے۔ سرپرستی کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ اب اس میں شیعہ یا سنی نہیں ہیں۔ اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ممالک کی قومیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو امت اسلامیہ کی بے شمار راہیں اور حل نہ ہونے والی گرہیں کھل جائیں گی اور اسلامی ممالک کے مسائل حل ہونے کے قریب تر ہوں گے۔
مسئلہ غدیر بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خود غدیر کا مسئلہ، اس پہلو کے سوا جسے شیعوں نے عقیدہ کے طور پر قبول کیا ہے( یعنی وہ حکومت جو امیر المومنین (ع) کو  پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سےحاصل ہوئی ہے، جو حدیث غدیر میں واضح ہے) سرپرستی کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے۔ اب اس میں شیعہ یا سنی نہیں ہیں۔ اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ممالک کی قومیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو امت اسلامیہ کی بے شمار حل نہ ہونے والی گرہیں کھل جائیں گی اور اسلامی ممالک کے مسائل حل ہونے کے قریب پہنچ جائیں گے
 
امیرالمومنین علیہ السلام اتحاد کا محور ہیں۔ تمام عالم اسلام امیر المومنین علیہ السلام کا  احترام کرتا ہے؛ نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی۔ نواصب نامی ایک چھوٹی سی جماعت امیر المومنین کے دشمن تھے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں، اموی اور عباسی دونوں ادوار میں بعض  گروہ امیر المومنین کے دشمن تھے۔ لیکن عالم اسلام کے  عام لوگ - سنی اور شیعہ دونوں - امیر المومنین کی عزت کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں  کہ سنی فقہی ائمہ کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں تعریفی اشعارموجود  ہیں۔
 
مشہور اشعار جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ شافعی کے ہیں۔ امام شافعی کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں مدحیہ  اشعار ہیں۔ صرف امیر المومنین کے بارے میں ہی نہیں بلکہ تمام یا زیادہ تر ائمہ کا یہ لوگ احترام کرتے ہیں۔
== رہبر کے بیان کے بعد حیفہ اور تل ابیب میں خوفناک راتیں ==
دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر حملے کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے ایک پیغام میں خبردار کیا: "بدمعاش حکومت کو ہمارے بہادر جوانوں کے ہاتھوں سزا دی جائے گی، ہم انہیں اس جرم پر پچھتاوا کرائیں گے۔" وہ پیغام جس نے صیہونی حکومت میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی اور عبرانی اور عربی میڈیا کے مطابق تل ابیب اور حیفہ میں خطرے کی سطح بہت بلند ہو گئی۔
 
آگ سے کھیلنے اور [[شام]] میں [[ایران]] کے خلاف دہشت گردانہ حملے پر سیاسی اور عسکری حلقوں کی جانب سے متعدد تنقیدوں کے جواب میں نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ یہ حکومت ایران کے ردعمل کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ حیفہ کے میئر نے اس پر چند جملوں کے ساتھ سوال کیا اور کہا: ’’مجھے ایسی تیاری نظر نہیں آرہی، وہ ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتا کہ کیا کرنا ہے؟
 
اسرائیلی حکومت کے تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں جنرل زاہدی کی شہادت اور دمشق میں ایران کے کئی اعلیٰ فوجی مشیروں کی شہادت کے ساتھ ہی اس نے ایک خطرناک جوا شروع کیا جو اس کے تیزی سے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔
 
قابضین کے خلاف ڈرونز اور میزائلوں کے استعمال سے لے کر مقبوضہ فلسطین کے اندر یا باہر صیہونی تنصیبات کو نشانہ بنانے تک مستقبل کے مختلف آپشنز کی وجہ سے ایران کے تل ابیب کو "سخت تھپڑ" کے بارے میں قیاس آرائیاں ان دنوں امریکی میڈیا اور سیاسی حلقوں کی خبروں میں سرفہرست ہیں
 
اس خبر کے اجراء کے ساتھ ہی، جب صیہونی حکومت کی کابینہ نے انتباہ اور تیاری کی سطح کو بڑھانے کے لیے عجلت میں اقدامات اٹھائے، صیہونی برادری کو یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے شدید اضطراب اور خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑا کہ ایران کیا جواب دے گا اور کب کہاں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سوشل نیٹ ورکس اور مختلف میڈیا میں خبروں کو فعال طور پر فالو کر رہے ہیں۔ وہ خوف جو اسرائیل کے داخلی محاذ کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنا ہے اور اسرائیلی میڈیا میں اس کی واضح جھلک نظر آرہی ہے۔*
 
اسرائیلی حکومت کے ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ ایران کی جوابی کارروائی کے خدشے کے پیش نظر اس حکومت کی فضائیہ کو مکمل چوکس کر دیا گیا ہے اور اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ صورتحال کے جائزے کے حصے کے طور پر اس نے فیصلہ کیا ہے فضائی دفاعی نظام کے لیے ریزرو فورسز کو مضبوط اور طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
 
صیہونی حکومت کی ریزرو فوج کے جنرل نے کہا: [مقبوضہ فلسطین] کے عوام کو جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
 
یروشلم پوسٹ نے یوم قدس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ایران کی دھمکیوں کی وجہ سے 28 صہیونی سفارت خانے اور قونصل خانے عارضی طور پر بند کردیئے گئے ہیں۔
 
کل رات، اسرائیل کے داخلی محاذ کی کمان نے اعلان کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ اپنے آپ کو پناہ گاہوں میں رہنے کے لیے تیار کریں اور وہاں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اعلان کردہ ضروری اشیا اور سامان تیار کریں
== سفارت خانے پر حملہ ایرانی سرزمین پر حملہ ہے/صہیونی حکومت کو سخت سزا دی جائے گی ==
 
[[نماز]] عیدالفطر کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ سید علی خامنہ ای  نے کہا: کہ ہر ملک کا سفارت خانہ یا قونصل خانہ اس کی سرزمین کا حصہ ہوتا ہے۔ صہیونی حکومت کو اس مجرمانہ عمل پر سخت سزا دینی چاہئے اور یقینا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔
 
تہران کے مصلائے [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] میں نماز [[عید فطر|عیدالفطر]] کا اجتماع ہواجہاں رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نماز عیدالفطر کی اقتداء کی۔
انہوں نے کہا: کہ ایک مہینہ اللہ کی رحمت امت مسلمہ پر برسی۔ اس سال شمسی سال کا آغاز بھی [[رمضان|ماہ رمضان]] میں ہوا۔ ماہ رمضان کے دوران تلاوت [[قرآن|قرآن کریم]] کی محفلیں پہلے سے زیادہ بارونق تھیں۔ پورے مہینے کے دوران دعا اور ذکر کی وجہ سے خاص معنویت محسوس کی گئی۔
 
آپ  نے لوگون کو نصیحت کی کہ اس معنوی ذخیرے کی حفاظت کریں۔
 
سید علی خامنہ ای  نے ماہ رمضان کے دوران پیش آنے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سال ماہ رمضان کے دوران [[غزہ]] کے مسلمانوں نے تلخ واقعات کا سامنا کیا۔ [[فلسطین|فلسطینی]] مسلمانوں پر ظلم کرنے والی صہیونی حکومت پر خدا کی لعنت ہو!
 
آپ  نے مغربی ممالک پر کڑی  تنقید کرتے ہوئے کہا: کہ انہوں نے ہمیشہ صہیونی غاصب حکومت کی پشت پناہی کی ہے۔ اس سال کے واقعات اور جرائم میں بھی مغربی ممالک نے کھلم کھلا جارح صہیونی حکومت کا ساتھ دیا۔ صہیونی حکومت نے گذشتہ چھے مہینوں کے دوران 30 ہزار سے زائد فلسطینی بے گناہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔


امیرالمومنین علیہ السلام اتحاد کا محور ہیں۔ تمام عالم اسلام امیر المومنین علیہ السلام کا مطیع ہے؛ نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی۔ نواسب نامی ایک چھوٹی سی جماعت امیر المومنین کے دشمن تھے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں، اموی اور عباسی دونوں ادوار میں، گروہ امیر المومنین کے دشمن تھے۔ لیکن عالم اسلام کے لوگ - سنی اور شیعہ دونوں - امیر المومنین کی عزت کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ سنی فقہی ائمہ کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں تعریفی اشعار ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر نے [[اسرائیل]] کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہر ملک کا سفارت خانہ یا قونصل خانہ اس کی سرزمین کا حصہ ہوتا ہے۔ صہیونی حکومت کو اس مجرمانہ عمل پر سخت سزا دینی چاہئے اور یقینا خمیازہ بھگتنا پڑے گا <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923218/ سفارت خانے پر حملہ ایرانی سرزمین پر حملہ ہے/صہیونی حکومت کو سخت سزا دی جائے گی]mehrnews.com-شا‏ئع شدہ: 10اپریل 2024ء-اخذ شدہ: 10 اپریل 2024ء۔</ref>۔


مشہور اشعار جو کہے گئے ہیں وہ شافعی کے ہیں۔ امام شافعی کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں حمد کے اشعار ہیں۔ صرف امیر المومنین کے بارے میں ہی نہیں بلکہ تمام یا زیادہ تر ائمہ کے بارے میں یہ فرمانبردار ہیں۔
انہوں نے دمشق میں شہید ہونے والے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوکر کامیابی حاصل کی جبکہ ہم پیچھے رہ گئے۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ: عالم اسلام کے قائدین]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:ایران]]
[[fa:سید علی حسینی خامنه‌ای]]
[[fa:سید علی حسینی خامنه‌ای]]
confirmed
2,360

ترامیم