"سید ضیاء الدین رضوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک دوسرے صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا)
سطر 68: سطر 68:
== تحريك نصاب کا پس منظر ==  
== تحريك نصاب کا پس منظر ==  
مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مکتب [[اہل بیت]] کی ترویج اور ثقافت جعفریہ کی بقاء کی خاطر ربانی علماء نے ہر طرح کے جتن کئے ہیں چنانچہ 1963ء کے دوران [[سید محمد دہلوی]]  نے ثقافت جعفریہ کے خلاف ہونے والے واقعات کے پیش نظر علماء اور دانشمندان ملت کے مشورے سے شیعہ مطالبات کمیٹی پاکستان کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس کے چار نکات تھے مکتب تشیع کے لئے جدا گانہ نصاب تعلیم کی تدوین، زکواۃ وعشر کا مکتبی ادائیگی، جدا شیعہ اوقاف بورڈ کی تشکیل، اور تحفظ [[عزاداری|عزاداری سید الشہداء]] کی حکومتی ضمانت تھی انی چار نکات پر بھر پور انداز میں منظم طور پر تحریک چلائی گئی کراچی سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سے گلگت و بلتستان تک یہ منتظم تحریک چلی اس حوالے سے 1965ء کے دوران احتجاج ہوا راقم نے ایک طالب علم کی حیثیت سے لاہور مال روڈ پر اس احتجاج میں شرکت کی تھی پس قومی وحدت کے ساتھ یہ تحریک چلی اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے ملت شیعہ کے یہ سب مطالبات تسلیم کئے تھے اور ان کے حل کی خاطر سر کار سطح پر کام ہورہا تھا زکواۃ و عشر کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ کراچی بورڈ میں الک نصاب تعلیم کا اجراء بھی ہوا تھا اس دوران علامہ سید محمد دہلوی کا انتقال ہوا اور آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی کا ذمہ داری جناب جسٹس سید جمیل حسین رضوی لاہور کے ذمہ لگادی گئی اسی طرح مطالبات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ملکی سیاسی حالات فوجی اقتدار کی وجہ سے خراب ہوئے اور [[محمد ضیاء الحق|جنرل ضیاء الحق]] نے اپنی جنرلی صدارت کے دوان اسلام کے نام پر لوگوں سے زبردستی زکواۃ و عشر وصول کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان بھر کے علماء کرام اور کابرین ملت تشیع نے متفقہ طور پر [[ جعفریہ|تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان]] کے نام سے ایک منظم اور مربوط تنظیم کا اعلان کیا اور تنظیم کی سربراہی کے لیے [[جعفر حسین|مفتی جعفر حسین]] کے نام نامی کا انتخاب ہوا علم و عمل زہد و تقوی اور سیاست مدن کے حوالے سے آپ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں راقم اور وزیر غلام عباس مرحوم اس تحریک کے پہلے ممبر ہوئے تھے اسی طرح صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور حکومت میں اپنے مذہبی حقوق کی خاطر دارالخلافہ اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کیا گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور اس تاریخی اجتماع کے بعد صدر ضیاء الحق کی مارشل لائی حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور زکواۃ وعشر کے حوالے سے ڈیکلریشن کا اجراء ہوا اور آج نیک اس پر عمل ہو رہاہے <ref>ایضا، ص156</ref>۔
مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مکتب [[اہل بیت]] کی ترویج اور ثقافت جعفریہ کی بقاء کی خاطر ربانی علماء نے ہر طرح کے جتن کئے ہیں چنانچہ 1963ء کے دوران [[سید محمد دہلوی]]  نے ثقافت جعفریہ کے خلاف ہونے والے واقعات کے پیش نظر علماء اور دانشمندان ملت کے مشورے سے شیعہ مطالبات کمیٹی پاکستان کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس کے چار نکات تھے مکتب تشیع کے لئے جدا گانہ نصاب تعلیم کی تدوین، زکواۃ وعشر کا مکتبی ادائیگی، جدا شیعہ اوقاف بورڈ کی تشکیل، اور تحفظ [[عزاداری|عزاداری سید الشہداء]] کی حکومتی ضمانت تھی انی چار نکات پر بھر پور انداز میں منظم طور پر تحریک چلائی گئی کراچی سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سے گلگت و بلتستان تک یہ منتظم تحریک چلی اس حوالے سے 1965ء کے دوران احتجاج ہوا راقم نے ایک طالب علم کی حیثیت سے لاہور مال روڈ پر اس احتجاج میں شرکت کی تھی پس قومی وحدت کے ساتھ یہ تحریک چلی اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے ملت شیعہ کے یہ سب مطالبات تسلیم کئے تھے اور ان کے حل کی خاطر سر کار سطح پر کام ہورہا تھا زکواۃ و عشر کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ کراچی بورڈ میں الک نصاب تعلیم کا اجراء بھی ہوا تھا اس دوران علامہ سید محمد دہلوی کا انتقال ہوا اور آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی کا ذمہ داری جناب جسٹس سید جمیل حسین رضوی لاہور کے ذمہ لگادی گئی اسی طرح مطالبات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ملکی سیاسی حالات فوجی اقتدار کی وجہ سے خراب ہوئے اور [[محمد ضیاء الحق|جنرل ضیاء الحق]] نے اپنی جنرلی صدارت کے دوان اسلام کے نام پر لوگوں سے زبردستی زکواۃ و عشر وصول کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان بھر کے علماء کرام اور کابرین ملت تشیع نے متفقہ طور پر [[ جعفریہ|تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان]] کے نام سے ایک منظم اور مربوط تنظیم کا اعلان کیا اور تنظیم کی سربراہی کے لیے [[جعفر حسین|مفتی جعفر حسین]] کے نام نامی کا انتخاب ہوا علم و عمل زہد و تقوی اور سیاست مدن کے حوالے سے آپ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں راقم اور وزیر غلام عباس مرحوم اس تحریک کے پہلے ممبر ہوئے تھے اسی طرح صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور حکومت میں اپنے مذہبی حقوق کی خاطر دارالخلافہ اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کیا گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور اس تاریخی اجتماع کے بعد صدر ضیاء الحق کی مارشل لائی حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور زکواۃ وعشر کے حوالے سے ڈیکلریشن کا اجراء ہوا اور آج نیک اس پر عمل ہو رہاہے <ref>ایضا، ص156</ref>۔
== عالمی و ملکی مسائل پر شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کا کردار ناقابل فراموش ہے ==
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: شہید آغا ضیاء الدین رضوی نے گلگت  بلتستان کے عوام کے سیاسی، معاشرتی اور سماجی حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی جو مشعل راہ ہے۔ نصاب تعلیم کے حوالے سے شہید آغا ضیاء الدین کی مثبت اور منطقی جدوجہد جاری ہے ۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے جید عالم دین اور گلگت بلتستان کی معروف اور متحرک مذہبی و سماجی شخصیت شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کی 19ویں برسی کے موقع اپنے پیغام میں کہا: عالمی اور ملکی مسائل پر شہید کا جو کردار رہا اُس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
انہوں نے کہا: شہید رضوی نے گلگت بلتستان کے عوام کے سیاسی، معاشرتی اور سماجی حقوق کیلئے بھر پور جدوجہد کی جو مشعل راہ ہے۔ نصاب تعلیم کے حوالے سے شہید آغا ضیاء الدین کی مثبت اور منطقی جدوجہد جاری رہے گی۔
علامہ سید ساجد نقوی نے مزید کہا: ملی پلیٹ فارم کے ذریعہ گلگت بلتستان کے آئینی و قانونی حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھانا شہید آغا ضیاء الدین رضوی کا مشن تھا کیونکہ ملی پلیٹ فارم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ روز اول سے ہی اس نے ان پسماندہ اور محروم علاقوں کے آئینی و قانونی حقوق کیلئے صدا بلند کی اور جماعت کے ہر اہم اجتماع اور اجلاس کے ایجنڈے پر سرفہرست جو مسئلہ رہا وہ ان علاقوں کی آئینی و قانونی حیثیت کا تعین اور عوام کے محرومی و پسماندگی کا خاتمہ ہے۔ چنانچہ اس لازوال اور مسلسل جدوجہد نے حکومتوں کو ہماری آواز پر کان دھرنے پر مجبور کیا اور ان علاقوں کی تعمیر و ترقی اور حقوق کے حوالے سے ایک حد تک پیشرفت ہوئی تاہم اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی خودمختاری کی خاطر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: گلگت بلتستان میں نصاب تعلیم جیسے اہم او ر حساس معاملہ میں شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کی کاوشیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
انہوں نے شہید رضوی کی مذہبی، ملی اور قومی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے علو درجات کی بھی دعا کی  <ref>عالمی و ملکی مسائل پر شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کا کردار ناقابل فراموش ہے، علامہ سید ساجد علی نقوی، [https://ur.hawzahnews.com/news/395898/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D9%88-%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D9%BE%D8%B1-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%B6%DB%8C%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9% ur.hawzahnews.com]</ref>۔
== شهادت کے عواقب و نتائج اور اثرات ==  
== شهادت کے عواقب و نتائج اور اثرات ==  
چنانچہ 8 جنوری 2005ء کو دن کے سوا بارہ بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس حملے میں آپکا جان نثار ڈرائیور حسین اکبر شہید ہوا اور دہشت گردوں میں سے ایک قاتل کو ایک جانثار نے وہی گولی مار دی اس قاتلانہ حملے میں آپ کا ایک جان نثار محافظ تنور حسین بھی شدید زخمی ہوا لوگوں نے آغا ضیاء الدین رضوی اور آپ کے محافظ کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال گلگت پہنچا دیا اور اس بدترین ریاستی دہشت گردی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح گلگت اور اس کے اطراف میں پھیل گئی۔ بد قسمتی سے 8 جنوری کی دہشت گردی کے سانحہ کے موقعہ پر راقم گلگت میں جناب سید جعفر شاہ صاحب ایڈوکیٹ کے چیمبر میں بیٹھا ہوا تھا اور اس لرز خیز خبر کے سنتے ہی ہم لوگ ہسپتال کی طرف دوڑ گئے اور ہستپال کے باہر لوگوں کا جمع غفیر موجود تھا جذبات سے بھرے عقیدت مندوں کی آہ بکاء قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا حالات خراب ہوئے تو فوراً کرفیو لگا دیا گیا اور راقم بھی دس جنوری تک گلگت میں پھنسا رہا اور دس تاریخ کی رات کے بارہ بجے جناب حاجی صفدر علی صاحب کی توسط سے مجسٹریٹ اور پولیس موبائل مجھے دنیور چھوڑ گئے اس دوران زخمی آغا اور محافظ تنویر حسین کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی بنایا گیا چونکہ یہ خالق کا منشا تھا کہ ان شہیدوں کی روح سرزمین راولپنڈی میں قبض ہو چنانچہ 13 جنوری 2005 ، بروز جمعرات،  رات کے تین بجے آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے میری تحقیق کے مطابق تنویر حسین کی شہادت تک آپ کی شہادت کو چھپایا گیا تھا ہم لوگوں نے اپنے رب سے دست بستہ ہو کر گڑھ گڑھا کر آغا کی زندگی کے لئے دعائیں مانگی تھی مگر آپ کی تمناء شہادت ہماری سلامتی کی دعاؤں پر حاوی ہوئی چنانچہ پاکستان ٹیلیویژن کے مختلف چینلز نے اچھا تک آپ کی شہادت کی دل ہلا دینے والی خبر نشر کیا اور اس اعلان غم کے بعد شمالی علاقہ جات گلگت کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی اور ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ زار و قطار رو رہے تھے
چنانچہ 8 جنوری 2005ء کو دن کے سوا بارہ بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس حملے میں آپکا جان نثار ڈرائیور حسین اکبر شہید ہوا اور دہشت گردوں میں سے ایک قاتل کو ایک جانثار نے وہی گولی مار دی اس قاتلانہ حملے میں آپ کا ایک جان نثار محافظ تنور حسین بھی شدید زخمی ہوا لوگوں نے آغا ضیاء الدین رضوی اور آپ کے محافظ کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال گلگت پہنچا دیا اور اس بدترین ریاستی دہشت گردی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح گلگت اور اس کے اطراف میں پھیل گئی۔ بد قسمتی سے 8 جنوری کی دہشت گردی کے سانحہ کے موقعہ پر راقم گلگت میں جناب سید جعفر شاہ صاحب ایڈوکیٹ کے چیمبر میں بیٹھا ہوا تھا اور اس لرز خیز خبر کے سنتے ہی ہم لوگ ہسپتال کی طرف دوڑ گئے اور ہستپال کے باہر لوگوں کا جمع غفیر موجود تھا جذبات سے بھرے عقیدت مندوں کی آہ بکاء قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا حالات خراب ہوئے تو فوراً کرفیو لگا دیا گیا اور راقم بھی دس جنوری تک گلگت میں پھنسا رہا اور دس تاریخ کی رات کے بارہ بجے جناب حاجی صفدر علی صاحب کی توسط سے مجسٹریٹ اور پولیس موبائل مجھے دنیور چھوڑ گئے اس دوران زخمی آغا اور محافظ تنویر حسین کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی بنایا گیا چونکہ یہ خالق کا منشا تھا کہ ان شہیدوں کی روح سرزمین راولپنڈی میں قبض ہو چنانچہ 13 جنوری 2005 ، بروز جمعرات،  رات کے تین بجے آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے میری تحقیق کے مطابق تنویر حسین کی شہادت تک آپ کی شہادت کو چھپایا گیا تھا ہم لوگوں نے اپنے رب سے دست بستہ ہو کر گڑھ گڑھا کر آغا کی زندگی کے لئے دعائیں مانگی تھی مگر آپ کی تمناء شہادت ہماری سلامتی کی دعاؤں پر حاوی ہوئی چنانچہ پاکستان ٹیلیویژن کے مختلف چینلز نے اچھا تک آپ کی شہادت کی دل ہلا دینے والی خبر نشر کیا اور اس اعلان غم کے بعد شمالی علاقہ جات گلگت کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی اور ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ زار و قطار رو رہے تھے
سطر 87: سطر 97:
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{پاکستان}}
{{پاکستانی علماء}}
{{پاکستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:پاکستان]]
[[زمرہ:پاکستان]]