"سید ضیاء الدین رضوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(ایک دوسرے صارف 10 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 10: سطر 10:
| death date =8 جنوری
| death date =8 جنوری
| death place = راولپنڈی  
| death place = راولپنڈی  
| teachers = {{hlist|حمد شفیع نجفی |موسی بیگ نجفی |آیۃ اللہ وحید خراسانی}}
| teachers = {{hlist|[[سید صفدرحسین نجفی|سید صفدر حسین نجفی]]| شیخ محمد شفیع نجفی |موسی بیگ نجفی |آیۃ اللہ وحید خراسانی}}
| students =  
| students =  
| religion = [[اسلام]]  
| religion = [[اسلام]]  
سطر 17: سطر 17:
| known for = {{افقی باکس کی فہرست|صدر تحریک جعفریہ پاکستان| }}
| known for = {{افقی باکس کی فہرست|صدر تحریک جعفریہ پاکستان| }}
}}
}}
''' سید ضیاء الدین رضوی'''، آپ حجتہ الاسلام آغا میر فاضل شاہ کے فرزند ہیں۔ آپ گلگت میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے بعد [[پاکستان]] کی مشہور درسگاہ حوزہ علمیہ جامعۂ المنتطر گئے اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مرکز علم قم مقدس چلے گئے قم میں قیام کے دوران [[سید صفدرحسین نجفی| سید صفدر حسین نجفی]] کی خواہش پر لندن بھی گئے لندن میں آپ نے درسی و تبلیغی خدمات انجام دیے اور لندن سے واپسی کے بعد گلگت میں خدمت دین میں مشغول ہوئے۔ یہ نوجوان عالم دین اتحاد بین المسلمین کے حامی تھے۔ آپ انقلابی ذہن کے مالک ہیں۔ آپ [[ایران|جہوری اسلامی ایران]] سے علوم دینی حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آگے۔ آپ مرکزی جامع مسجد امامیہ گلگت کے خطیب تھے۔ 8جنوری 2005ء کو آغا سید ضياء الدین رضوی اپنے تین محافظین کے ساتھ شہید ہوئے <ref>غلام حسین انجم دینوری، شیعیت گلگت میں، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ دینور گلگت، 2006ء،ص249</ref>۔
''' سید ضیاء الدین رضوی''' داعی اتحاد بین مسلمین، شیعیان گلگت و بلتستان کے رہبر اور تحریک جعفریہ پاکستان کے راہنما تھے۔ آپ گلگت میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے بعد [[پاکستان]] کی مشہور درسگاہ حوزہ علمیہ جامعۂ المنتطر گئے اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مرکز علم قم مقدس چلے گئے قم میں قیام کے دوران [[سید صفدرحسین نجفی| سید صفدر حسین نجفی]] کی خواہش پر لندن بھی گئے لندن میں آپ نے درسی و تبلیغی خدمات انجام دیے اور لندن سے واپسی کے بعد گلگت میں خدمت دین میں مشغول ہوئے۔ یہ نوجوان عالم دین اتحاد بین المسلمین کے حامی تھے۔ سید ضیاء الدین انقلابی ذہن کے مالک تھے ۔ آپ [[ایران|جہوری اسلامی ایران]] سے علوم دینی حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور مرکزی جامع مسجد امامیہ گلگت کے خطیب بنے۔ 8جنوری 2005ء کو آغا سید ضياء الدین رضوی اپنے تین محافظین کے ساتھ شہید ہوئے <ref>غلام حسین انجم دینوری، شیعیت گلگت میں، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ دینور گلگت، 2006ء،ص249</ref>۔
==  ولادت سے نوجوانی تک ==
==  ولادت سے نوجوانی تک ==
حجة الاسلام آغا میر فاضل شاہ رضوی کے ہاں امپھری گلگت میں 1958ء میں سیادت و قیادت اور شہادت کی صفات کے ساتھ ایک نونہال خوش قسمت بچے نے علم وعمل کے اس خانوادے میں آنکھ کھولی اور اس نونہال کا نام ضیاء الدین رکھا گیا آپ نجیب الطرفین رضوی سید تھے اور اس خانوادے میں آپ آغا میر فاضل شاہ رضوی المعروف عادل سید کے ہاں پہلا بیٹا اور آغا میر احمد شاہ رضوی المعروف بڑوسید کے ہاں پہلا نواسہ اور آغا محمد علی شاہ المعروف بڑو آغا کے ہاں پہلا بھانجہ تھے <ref>غلام حسین انجم، اسلام گلگت میں، 1194ء،ص88</ref>۔
حجة الاسلام آغا میر فاضل شاہ رضوی کے ہاں امپھری گلگت میں 1958ء میں سیادت و قیادت اور شہادت کی صفات کے ساتھ ایک نونہال خوش قسمت بچے نے علم وعمل کے اس خانوادے میں آنکھ کھولی اور اس نونہال کا نام ضیاء الدین رکھا گیا آپ نجیب الطرفین رضوی سید تھے اور اس خانوادے میں آپ آغا میر فاضل شاہ رضوی المعروف عادل سید کے ہاں پہلا بیٹا اور آغا میر احمد شاہ رضوی المعروف بڑوسید کے ہاں پہلا نواسہ اور آغا محمد علی شاہ المعروف بڑو آغا کے ہاں پہلا بھانجہ تھے <ref>غلام حسین انجم، اسلام گلگت میں، 1194ء،ص88</ref>۔
سطر 35: سطر 35:
== وطن واپسی ==
== وطن واپسی ==
اور وہاں چند ماہ درس کا ایک دورہ کر کے وطن مالوف گلگت پاکستان واپس ہوئے پاکستان میں آنے کے بعد اپنی شریک حیات کی بیماری اور بے وقت موت سے آپ کو بڑا صدمہ پہنچا چنانچہ بغیر ماں کے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت ضعیف والدہ کی خدمت اور خطہ شمال گلگت کے حالات نے آپ کی سوچ پر دباؤ دالا اور قدموں میں مجبوری کی زنجیر ڈالدی اگرچہ 1989 میں شیخ محمد حسین علوی نے آپ کو دعوت دی تھی کہ آپ جامعۃ الشہید پشاور میں درس و تدریس کرے اس دعوت پر آپ نے مزکورہ بالا مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا مگر غور کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا چونکہ اس لئے گو مگو کے عالم میں شریک حیات کی موت اور سانحہ 1988ء کے بعد کے حالات اور [[سید عارف قائد شہید |سید عارف حسینی الحسینی]] کی شہادت نے آپ کے حساس زہن کو مغمحل کر دیا تھا اس گو مگو کے عالم تھے اس دوران جناب سید فاضل حسین موسوی نجفی شیخ تسلام حیدر نجفی شیخ مہربان علی نجفی مرحوم کے علاوہ بعض احباب کے اصرار پر آپ نے ینی جاری تعلیم کو چھوڑ کر گلگت میں ہمیشہ کے لئے رہنے کا حتمی فیصلہ کیا اسی طرح آپ گلگت میں آبادملت تشیع کے پریشان حال لوگوں کے لئے ایک حوصلہ مند سہارا بن گئے اور آپ کی روحانی اور مذہبی قیادت سے ستائی ہو سے ستائی آپ ہوئی ملت کو حوصلہ ملا اور آپ کے وجود سے شیعہ مرکز گلگت میں جان آئی اور ایک نو جوان عالم اور غیر سیاسی قیادت قوم کو مل گئی اسی طرح سات مکسوہ گلگت کے مومنین نے بھی آپ سے عقیدت ومحبت کی انتہا کر دی کیونکہ آپ کے خاندانی پس منظر کی بدولت بھی آپ سے لوگ محبت کرتے تھے اور خود آپ کی غیر سیاسی طرز ادا سے عوام الناس کے دلوں میں عقیدت واحترام کا ایک خاص جذبہ پیدا ہوا تھا <ref>غلام حسین انجم، شہید ضياء الدین رضوی، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ گلگت، 2008ء، ص118</ref>۔
اور وہاں چند ماہ درس کا ایک دورہ کر کے وطن مالوف گلگت پاکستان واپس ہوئے پاکستان میں آنے کے بعد اپنی شریک حیات کی بیماری اور بے وقت موت سے آپ کو بڑا صدمہ پہنچا چنانچہ بغیر ماں کے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت ضعیف والدہ کی خدمت اور خطہ شمال گلگت کے حالات نے آپ کی سوچ پر دباؤ دالا اور قدموں میں مجبوری کی زنجیر ڈالدی اگرچہ 1989 میں شیخ محمد حسین علوی نے آپ کو دعوت دی تھی کہ آپ جامعۃ الشہید پشاور میں درس و تدریس کرے اس دعوت پر آپ نے مزکورہ بالا مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا مگر غور کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا چونکہ اس لئے گو مگو کے عالم میں شریک حیات کی موت اور سانحہ 1988ء کے بعد کے حالات اور [[سید عارف قائد شہید |سید عارف حسینی الحسینی]] کی شہادت نے آپ کے حساس زہن کو مغمحل کر دیا تھا اس گو مگو کے عالم تھے اس دوران جناب سید فاضل حسین موسوی نجفی شیخ تسلام حیدر نجفی شیخ مہربان علی نجفی مرحوم کے علاوہ بعض احباب کے اصرار پر آپ نے ینی جاری تعلیم کو چھوڑ کر گلگت میں ہمیشہ کے لئے رہنے کا حتمی فیصلہ کیا اسی طرح آپ گلگت میں آبادملت تشیع کے پریشان حال لوگوں کے لئے ایک حوصلہ مند سہارا بن گئے اور آپ کی روحانی اور مذہبی قیادت سے ستائی ہو سے ستائی آپ ہوئی ملت کو حوصلہ ملا اور آپ کے وجود سے شیعہ مرکز گلگت میں جان آئی اور ایک نو جوان عالم اور غیر سیاسی قیادت قوم کو مل گئی اسی طرح سات مکسوہ گلگت کے مومنین نے بھی آپ سے عقیدت ومحبت کی انتہا کر دی کیونکہ آپ کے خاندانی پس منظر کی بدولت بھی آپ سے لوگ محبت کرتے تھے اور خود آپ کی غیر سیاسی طرز ادا سے عوام الناس کے دلوں میں عقیدت واحترام کا ایک خاص جذبہ پیدا ہوا تھا <ref>غلام حسین انجم، شہید ضياء الدین رضوی، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ گلگت، 2008ء، ص118</ref>۔
== سیاسی خدمات ==
بدلہ نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو
تو جاچکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے
شهید سید ضیاء الدین رضوی بھی ان محسنین میں سے ایک تھے جن کو ملت تشیع پاکستان بالعموم اور ملت تشیع گلگت و بلتستان بلخصوص ہمیشہ یاد رکھے گی، شہید ضياء الدین ایک فرد کا نام  نہیں بلکہ ایک فکر ایک جذبے، ایک حوصلے اور شعور کا نام ہے ۔ بقول [[سید ساجد علی نقوی|قائد ملت جعفریہ آیت اللہ سید ساجد علی نقوی]]: شهید ضیاء الدین رضوی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک پاکیزہ تحریک اور مشن کا نام ہے۔ شہید ضیاء الدین رضوی اک انسان کامل کا نمونہ اور ہمہ جہت شخصیت تھے جن کے زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے نمونہ عمل ہے ۔ چاہے وہ شہید کی زندگی کا سیاسی پہلو یا اخلاقی پہلو۔
شهید سید ضیاء الدین رضوی نے 1990 میں گلگت کی سرزمین پر اپنے قدم مبارک رکھے ۔ سید والا مقام نے اپنی بصیرت اور قابلیت سے تھوڑی مدت میں گلگت کے مومنین کو منسجم اور متحد کیا جامع مسجد گلگت میں اپنے شعلہ بیان خطیبوں کے ذریعے ملت کے مومنین کو روحانی طاقت بخشی اور مومنین کے دلوں کو جذبہ شہادت اور ایثار سے سرشار کیا۔ شہید کی مدبرانہ اور با بصیرت قیادت اور پالیسی کا نتیجہ 1994ء کے انتخابات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سیاسی میدان میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم پر پوری شیعہ قوم کو متحد کیا اور گلگت بلتستان کونسل کے پہلے انتخابات میں ۲۴ نشتوں سے 8 نشستیں جیت کر بھر پور کامیابی حاصل کی ۔ اسی طرح ۱۹۹۹ کے قومی اسمبلی گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی شہید کی صدارت میں ٹی۔ جے۔ پی نے بھر پور کامیابی حاصل کر کے ملت جعفریہ گلگت بلتستان کو سرخرو کیا۔
1999 کے بعد ملت تشیع کے خلاف ہر میدان میں ناکامی کے بعد حکومت میں بیٹھے ہوئے اسلام اور پاکستان کے دشمن وہابی افکار نے سوچی سمجھی سازش کے تحت حکومتی نصاب تعلیم میں شیعہ عقائد کے خلاف ایسا مواد شامل کیا گیا جس کو پڑھنے پر شیعہ طالب علموں کو مجبور کیا گیا ۔ جیسے ہی شہید کو اس کے بارے میں علم ہوا شہید نے احساس ذمہ داری کرتے ہوئے ابتدائی نصابی کتابوں سے لے کر عالی درجے کی نصابی کتابوں تک کا دقیق مطالعہ و تحقیق کرنے کے بعد ابتدائی مراحل میں گفت و شنید کے ذریعے پوری شیعہ قوم اور حکومتی ذمہ داروں کو آگاہ کیا کہ موجودہ نصاب تعلیم متنازعہ ہے جس میں ایک فرقے کی نمائندگی ہوتی ہے اور اس میں شیعہ عقائد کے خلاف مواد شامل ہے۔ شہید ضیاء الدین رضوی شیعیان گلگت بلتستان کا رہبر اور تحریک جعفریہ پاکستان کا راہنما تھے  <ref>سعیدی شگری، فرمان علی، تاریخ تشیع و عوامل گسترش آن در گلگت و بلتستان، دار التہذیب قم، 1400ش، ص279</ref>۔
== شہید اور متنازعہ نصاب  تعلیم ==
شہید متنازعہ نصاب تعلیم کے خللاف آواز بلند کرنا اور اس کی اصلاح کو اپنی شرقی ذمہ داری اور متنازعہ نصاب تعلیم کو زندگی اور موت کا مسلہ سمجھتے تھے ۔ شہید اپنی اکثر تقاریر اور خطبات میں فرمایا کرتے تھے کہ : موجودہ نصاب تعلیم کلاشنکوف کی کوئی سے بھی زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ کلاشنکوف کی گولی صرف خاکی بدن کو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن متنازعہ نصاب تعلیم شیعہ فکر اور عقیدے کو نقصان پہنچایے ہے جو جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ہمارا سلام ہو شہید سید ضیاء الدین کی بصیرت اور دور اندیشی کو شہید نے شیعیان حیدر کرار کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تعلیمی حوالے سے بھی بہت ساری خدمات انجام دیں ۔ اقتصادی حوالے سے تعمیر ملت پروگرام کے تحت شہداء کے گھروں کی کفالت ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور غریب طالب علموں کی مدد اور بے روزگار مومنین کی مدد کی۔ علمی میدان میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم اور قائد ملت جعفریہ کی مدد سے المصطفیٰ پبلک سکول کے نام سے گلگت، نگر، بار گور جلال آباد، جھوٹ کالونی میں سکولز قائم کئے جن میں اب بھی ہزاروں شیعہ بچے علم کے نور سے منور ہو رہے ہیں <ref>اجمل حسین قاسمی، شہید ضیاء الدین رضوی کا فکر، مجلہ سلسبیل، شمارہ1، 2021ء،ص55-56</ref>۔


== مذہبی قیادت ==
== مذہبی قیادت ==
سطر 55: سطر 68:
== تحريك نصاب کا پس منظر ==  
== تحريك نصاب کا پس منظر ==  
مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مکتب [[اہل بیت]] کی ترویج اور ثقافت جعفریہ کی بقاء کی خاطر ربانی علماء نے ہر طرح کے جتن کئے ہیں چنانچہ 1963ء کے دوران [[سید محمد دہلوی]]  نے ثقافت جعفریہ کے خلاف ہونے والے واقعات کے پیش نظر علماء اور دانشمندان ملت کے مشورے سے شیعہ مطالبات کمیٹی پاکستان کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس کے چار نکات تھے مکتب تشیع کے لئے جدا گانہ نصاب تعلیم کی تدوین، زکواۃ وعشر کا مکتبی ادائیگی، جدا شیعہ اوقاف بورڈ کی تشکیل، اور تحفظ [[عزاداری|عزاداری سید الشہداء]] کی حکومتی ضمانت تھی انی چار نکات پر بھر پور انداز میں منظم طور پر تحریک چلائی گئی کراچی سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سے گلگت و بلتستان تک یہ منتظم تحریک چلی اس حوالے سے 1965ء کے دوران احتجاج ہوا راقم نے ایک طالب علم کی حیثیت سے لاہور مال روڈ پر اس احتجاج میں شرکت کی تھی پس قومی وحدت کے ساتھ یہ تحریک چلی اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے ملت شیعہ کے یہ سب مطالبات تسلیم کئے تھے اور ان کے حل کی خاطر سر کار سطح پر کام ہورہا تھا زکواۃ و عشر کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ کراچی بورڈ میں الک نصاب تعلیم کا اجراء بھی ہوا تھا اس دوران علامہ سید محمد دہلوی کا انتقال ہوا اور آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی کا ذمہ داری جناب جسٹس سید جمیل حسین رضوی لاہور کے ذمہ لگادی گئی اسی طرح مطالبات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ملکی سیاسی حالات فوجی اقتدار کی وجہ سے خراب ہوئے اور [[محمد ضیاء الحق|جنرل ضیاء الحق]] نے اپنی جنرلی صدارت کے دوان اسلام کے نام پر لوگوں سے زبردستی زکواۃ و عشر وصول کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان بھر کے علماء کرام اور کابرین ملت تشیع نے متفقہ طور پر [[ جعفریہ|تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان]] کے نام سے ایک منظم اور مربوط تنظیم کا اعلان کیا اور تنظیم کی سربراہی کے لیے [[جعفر حسین|مفتی جعفر حسین]] کے نام نامی کا انتخاب ہوا علم و عمل زہد و تقوی اور سیاست مدن کے حوالے سے آپ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں راقم اور وزیر غلام عباس مرحوم اس تحریک کے پہلے ممبر ہوئے تھے اسی طرح صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور حکومت میں اپنے مذہبی حقوق کی خاطر دارالخلافہ اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کیا گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور اس تاریخی اجتماع کے بعد صدر ضیاء الحق کی مارشل لائی حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور زکواۃ وعشر کے حوالے سے ڈیکلریشن کا اجراء ہوا اور آج نیک اس پر عمل ہو رہاہے <ref>ایضا، ص156</ref>۔
مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مکتب [[اہل بیت]] کی ترویج اور ثقافت جعفریہ کی بقاء کی خاطر ربانی علماء نے ہر طرح کے جتن کئے ہیں چنانچہ 1963ء کے دوران [[سید محمد دہلوی]]  نے ثقافت جعفریہ کے خلاف ہونے والے واقعات کے پیش نظر علماء اور دانشمندان ملت کے مشورے سے شیعہ مطالبات کمیٹی پاکستان کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس کے چار نکات تھے مکتب تشیع کے لئے جدا گانہ نصاب تعلیم کی تدوین، زکواۃ وعشر کا مکتبی ادائیگی، جدا شیعہ اوقاف بورڈ کی تشکیل، اور تحفظ [[عزاداری|عزاداری سید الشہداء]] کی حکومتی ضمانت تھی انی چار نکات پر بھر پور انداز میں منظم طور پر تحریک چلائی گئی کراچی سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سے گلگت و بلتستان تک یہ منتظم تحریک چلی اس حوالے سے 1965ء کے دوران احتجاج ہوا راقم نے ایک طالب علم کی حیثیت سے لاہور مال روڈ پر اس احتجاج میں شرکت کی تھی پس قومی وحدت کے ساتھ یہ تحریک چلی اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے ملت شیعہ کے یہ سب مطالبات تسلیم کئے تھے اور ان کے حل کی خاطر سر کار سطح پر کام ہورہا تھا زکواۃ و عشر کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ کراچی بورڈ میں الک نصاب تعلیم کا اجراء بھی ہوا تھا اس دوران علامہ سید محمد دہلوی کا انتقال ہوا اور آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی کا ذمہ داری جناب جسٹس سید جمیل حسین رضوی لاہور کے ذمہ لگادی گئی اسی طرح مطالبات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ملکی سیاسی حالات فوجی اقتدار کی وجہ سے خراب ہوئے اور [[محمد ضیاء الحق|جنرل ضیاء الحق]] نے اپنی جنرلی صدارت کے دوان اسلام کے نام پر لوگوں سے زبردستی زکواۃ و عشر وصول کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان بھر کے علماء کرام اور کابرین ملت تشیع نے متفقہ طور پر [[ جعفریہ|تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان]] کے نام سے ایک منظم اور مربوط تنظیم کا اعلان کیا اور تنظیم کی سربراہی کے لیے [[جعفر حسین|مفتی جعفر حسین]] کے نام نامی کا انتخاب ہوا علم و عمل زہد و تقوی اور سیاست مدن کے حوالے سے آپ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں راقم اور وزیر غلام عباس مرحوم اس تحریک کے پہلے ممبر ہوئے تھے اسی طرح صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور حکومت میں اپنے مذہبی حقوق کی خاطر دارالخلافہ اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کیا گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور اس تاریخی اجتماع کے بعد صدر ضیاء الحق کی مارشل لائی حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور زکواۃ وعشر کے حوالے سے ڈیکلریشن کا اجراء ہوا اور آج نیک اس پر عمل ہو رہاہے <ref>ایضا، ص156</ref>۔
== سیاسی خدمات ==
== عالمی و ملکی مسائل پر شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کا کردار ناقابل فراموش ہے ==
بدلہ نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو تو جاچکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: شہید آغا ضیاء الدین رضوی نے گلگت بلتستان کے عوام کے سیاسی، معاشرتی اور سماجی حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی جو مشعل راہ ہے۔ نصاب تعلیم کے حوالے سے شہید آغا ضیاء الدین کی مثبت اور منطقی جدوجہد جاری ہے ۔
شهید سید ضیاء الدین رضوی بھی ان محسنین میں سے ایک ہیں جن کو ملت تشیع پاکستان بالعموم اور ملت تشیع گلگت و بلتستان بلخصوص ہمیشہ یاد رکھے گی، شہید ضياء الدین ایک فرد کا نام  نہیں بلکہ ایک فکر ایک جذبے، ایک حوصلے اور شعور کا ہیم ہے ۔ بقول [[سید ساجد علی نقوی|قائد ملت جعفریہ آیت اللہ سید ساجد علی نقوی]]: شهید ضیاء الدین رضوی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک پاکیزہ تحریک اور مشن کا نام ہے۔ شہید ضیاء الدین رضوی اک انسان کامل کا نمونہ اور ہمہ جہت شخصیت تھے جن کے زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے نمونہ عمل ہے ۔ چاہے وہ شہید کی زندگی کا سیاسی پہلو ہو، بھی یا اخلاقی پہلو ہو۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے جید عالم دین اور گلگت بلتستان کی معروف اور متحرک مذہبی و سماجی شخصیت شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کی 19ویں برسی کے موقع اپنے پیغام میں کہا: عالمی اور ملکی مسائل پر شہید کا جو کردار رہا اُس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
شهید سید ضیاء الدین رضوی نے 1990 میں گلگت کی سرزمین پر اپنے قدم مبارک رکھے ۔ سید والا مقام نے اپنی بصیرت اور قابلیت سے تھوڑی مدت میں گلگت کے مومنین کو منسجم اور متحد کیا جامع مسجد گلگت میں اپنے شعلہ بیان خطیبوں کے ذریعے ملت کے مومنین کو روحانی طاقت بخشی اور مومنین کے دلوں کو جذبہ شہادت اور ایثار سے سرشار کیا۔ شہید کی مدبرانہ اور با بصیرت قیادت اور پالیسی کا نتیجہ 1994ء کے انتخابات میں دیکھا جاسکتا ہے۔


سیاسی میدان میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم پر پوری شیعہ قوم کو متحد کیا اور گلگت بلتستان کونسل کے پہلے انتخابات میں ۲۴ نشتوں سے 8 نشستیں جیت کر بھر پور کامیابی حاصل کی ۔ اسی طرح ۱۹۹۹ کے قومی اسمبلی گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی شہید کی صدارت میں ٹی۔ جے۔ پی نے بھر پور کامیابی حاصل کر کے ملت جعفریہ گلگت بلتستان کو سرخرو کیا۔
انہوں نے کہا: شہید رضوی نے گلگت بلتستان کے عوام کے سیاسی، معاشرتی اور سماجی حقوق کیلئے بھر پور جدوجہد کی جو مشعل راہ ہے۔ نصاب تعلیم کے حوالے سے شہید آغا ضیاء الدین کی مثبت اور منطقی جدوجہد جاری رہے گی۔
1999 کے بعد ملت تشیع کے خلاف ہر میدان میں ناکامی کے بعد حکومت میں ہے بیٹھے ہوئے اسلام اور پاکستان کے دشمن وہابی افکار نے سوچی سمجھی سازش کے تحت حکومتی نصاب تعلیم میں شیعہ عقائد کے خلاف ایسا مواد شامل کیا گیا جسکو پڑھنے پر شیعہ طالب علموں کو مجبور کیا گیا ۔ جیسے ہی شہید کو اس کے بارے میں علم ہوا شہید نے احساس ذمہ داری کرتے ہوئے ابتدائی نصابی کتابوں سے لے کر عالی درجے کی نصابی کتابوں سمٹ کا دقیق مطالعہ و تحقیق کرنے کے بعد ابتدائی مراحل میں گفت و شنید کے ذریعے پوری شیعہ قوم اور حکومتی ذمہ داروں کو آگاہ کیا کہ موجودہ نصاب تعلیم متنازعہ ہے جس میں ایک فرقے کی نمائندگی ہوتی ہے اور اس میں شیعہ عقائد کے خلاف مواد شامل ہے۔


== شہید اور متنازعہ نصاب  تعلیم ==
علامہ سید ساجد نقوی نے مزید کہا: ملی پلیٹ فارم کے ذریعہ گلگت بلتستان کے آئینی و قانونی حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھانا شہید آغا ضیاء الدین رضوی کا مشن تھا کیونکہ ملی پلیٹ فارم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ روز اول سے ہی اس نے ان پسماندہ اور محروم علاقوں کے آئینی و قانونی حقوق کیلئے صدا بلند کی اور جماعت کے ہر اہم اجتماع اور اجلاس کے ایجنڈے پر سرفہرست جو مسئلہ رہا وہ ان علاقوں کی آئینی و قانونی حیثیت کا تعین اور عوام کے محرومی و پسماندگی کا خاتمہ ہے۔ چنانچہ اس لازوال اور مسلسل جدوجہد نے حکومتوں کو ہماری آواز پر کان دھرنے پر مجبور کیا اور ان علاقوں کی تعمیر و ترقی اور حقوق کے حوالے سے ایک حد تک پیشرفت ہوئی تاہم اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی خودمختاری کی خاطر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
شہید متنازعہ نصاب تعلیم کے خللاف آواز بلند کرنا اور اس کی اصلاح کو اپنی شرقی ذمہ داری اور متنازعہ نصاب تعلیم کو زندگی اور موت کا مسلہ سمجھتے تھے ۔ شہید اپنی اکثر تقاریر اور خطبات میں فرمایا کرتے تھے کہ : موجودہ نصاب تعلیم کلاشنکوف کی کوئی سے بھی زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ کلاشنکوف کی گولی صرف خاکی بدن کو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن متنازعہ نصاب تعلیم شیعہ فکر اور عقیدے کو نقصان پہنچایے ہے جو جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ہمارا سلام ہو شہید سید ضیاء الدین کی بصیرت اور دور اندیشی کو شہید نے شیعیان حیدر کرار کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تعلیمی حوالے سے بھی بہت ساری خدمات انجام دیں ۔ اقتصادی حوالے سے تعمیر ملت پروگرام کے تحت شہداء کے گھروں کی کفالت ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور غریب طالب علموں کی مدد اور بے روزگار مومنین کی مدد کی۔ علمی میدان میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم اور قائد ملت جعفریہ کی مدد سے المصطفیٰ پبلک سکول کے نام سے گلگت، نگر، بار گور جلال آباد، جھوٹ کالونی میں سکولز قائم کئے جن میں اب بھی ہزاروں شیعہ بچے علم کے نور سے منور ہو رہے ہیں <ref>اجمل حسین قاسمی، شہید ضیاء الدین رضوی کا فکر، مجلہ سلسبیل، شمارہ1، 2021ء،ص55-56</ref>۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: گلگت بلتستان میں نصاب تعلیم جیسے اہم او ر حساس معاملہ میں شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کی کاوشیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
انہوں نے شہید رضوی کی مذہبی، ملی اور قومی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے علو درجات کی بھی دعا کی <ref>عالمی و ملکی مسائل پر شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کا کردار ناقابل فراموش ہے، علامہ سید ساجد علی نقوی، [https://ur.hawzahnews.com/news/395898/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D9%88-%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D9%BE%D8%B1-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%B6%DB%8C%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9% ur.hawzahnews.com]</ref>۔


== شهادت کے عواقب و نتائج اور اثرات ==  
== شهادت کے عواقب و نتائج اور اثرات ==  
سطر 70: سطر 82:


اس دوران گلگت مرکز کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ دونوں شہیداء کے جنازے دنیور لائے جائنگے اور دنیور جامع مسجد امامیہ میں نماز جنازہ ہوگی اس کے بعد گلگت میں تدفین عمل میں لائی جائیگی اس غیر متوقع اطلاع کے بعد مومنین دنیور نے خلوص عقیدت کے ساتھ دو عدد خصوصی صندوق راتوں رات تیار کرا کر ملٹری ہیلی پیڈ گلگت بیچ دیا تا کہ ان دونوں شہداء کے جنازے دنیور لائے جائیں چنانچہ جوانوں نے جامع مسجد امامیہ دنیور کے صحن کے علاوہ ملحقہ شاہراہ ریشم کو بھی باوجود یخ بستہ سردی کے پانی سے دھو کر صاف کر کے اطراف میں عود و عنبر کے دھویں سے معطر کر دیا تھا اس طرح آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شہادت کے بعد بھی لوگوں نے بھرپور عقیدت مندی کا خاص مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دنیور میں نماز جنازہ کی خبر سن کر حلقہ3 کے علاوہ نومل، نلتر، نگر اور ہنزہ سے بھی عقیدت مند جامع مسجد امامیہ دنیور میں حاضر ہوئے تھے جمعے کا دن تھا راقم نے نماز جمعہ کی امامت کرائی اور نماز جمعہ کے بعد تین دن احتجاجی شٹر ڈاؤں سات دن مجالس عزا الشہید امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور چالیس دن عام سوگ کا اعلان کیا اور اسی طرح غم واندوہ کے ساتھ انتظار میں تھے پس ایک پس پردہ حالات بدل گئے اور دوبارہ اطلاع دی گئی کہ نماز جنازہ گلگت میں ہوگی اور لوگوں کے لئے سواریوں کا بندوبست بھی ہوگا لہذا سب لوگ جامع مسجد امامیہ گلگت آئیں اس ادل بدل کے پس پردہ کچھ محرکات تھے اور اس ہنگامہ محشر میں یہ ایک عجیب اعلان تھا کیونکہ گلگت شہر میں سخت کرفیو تھا میں نے خود چائنا پل دنیور سے تحصیل چوک گلگت تک آرمی رینجرز ایف سی اور پولیس کے 19 چیک پوسٹ دیکھے تھے اس ہنگامہ خیز موقعہ پر حکومت جانے بھی نہ دیتی اور لوگوں کا خالی ہاتھ بلانا بھی غلط تھا چنانچہ اس غیر منطقی اعلان کے بعد راقم عزیزم مولانا میر عباس مصطفوی سے ناراض ہوا اور صدر انجمن امامیہ گلگت سے رابطہ کرکے بہت سخت ناراض ہو کر کہا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ آپ لوگ عقیدت مندوں اور شہداء کے جنازوں سے مزاق کر رہے ہو کل رات سے آج بارہ بجے تک دنیور میں نماز جنازے کا پروگرام تھا مگر عین موقعہ پر پروگرام کو اچانک تبدیل کرنا بڑی زیادتی ہے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے چنانچہ میری اس خطی پر صدر موصوف نے کہا کہ گلگت غسل و تکفین کے بعد آغا شہید کا جنازہ دنیور لانا مناسب نہ تھا چونکہ عقیدت تدوں کا غم و غصہ اور آہ و بکا اپنے عروج پر تھا اس بے محل اعلان کے بعد لوگ گلگت انے کے لئے بے تاب تھے اس لئے کچھ لوگ اپنی سواریوں میں بیٹھ کر گلگت کی لئے شاہراہ ریشم پر نکل چکے تھے اور دو گنا سے زیادہ لوگ پریشان حال صرف جانے کے لئے جامع مسجد دنیور اور سٹرکوں پر کھڑے تھے چنانچہ ہم لوگوں نے روانہ ہونے والوں کا راستہ روک کر حالات کی نزاکت کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم لوگوں سے اس کوشش کی، عقیدت مند لوگ مان گئے اور غم و غصہ اور اظہار بیزاری کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے لگے مگر علماء کرام اور نمائندہ معززین کو کرفیو انتظامیہ کی خصوصی اجازت پر نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا گیا اسی طرح راقم ان انتظامی مسائل میں پھنس کر شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اس کے علاوہ گلگت کے مخدوش حالات کی وجہ سے حلقہ نمبر 3 نگر و ہنزہ سے لوگ آکر ظہار تعزیت کرتے تھے چنانچہ مجالس ترحیم کا سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں جاری رہا اور تیسرے دن شہید ضیاء الدین رضوی اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے ام نیاز و خیرات کا اہتمام کیا گیا اور اس خیرات میں دنیور کے اسماعیلیہ کونسل کی طرف سے بھی حصہ ڈالا گیا ۔ اور اس سوئم کی نیاز میں بڑی تعداد میں شریک ہو کر ہمیں حوصلہ دیا چنانچہ اس غم واندوہ کی کٹھن  موقع پر نہایت خلوص کے ساتھ شرکت ما تعاون نے ہمارے دکھوں کو کم کرنے میں مدد دیا میں حلقہ نمبر ۳ کے اسماعیلی برادری اور ان کے مذہبی نمائندوں کی طرف سے جس خلوص و ہمدردی کے ساتھ مکتب شیعہ اثنا عشری اور شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے خاندان سے تعزیت و تسلیت پر میں اپنی طرف سے اور شہید کے خاندان کی طرف سے اور ملت شیعہ اثنا عشریہ کی طرف سے اس تحریر کے توسط سے انکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحہ فاجعہ میں ہمارے دکھ درد اور غم والم میں برابر کے شریک ہوئے <ref>ایضا، ص165</ref>۔
اس دوران گلگت مرکز کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ دونوں شہیداء کے جنازے دنیور لائے جائنگے اور دنیور جامع مسجد امامیہ میں نماز جنازہ ہوگی اس کے بعد گلگت میں تدفین عمل میں لائی جائیگی اس غیر متوقع اطلاع کے بعد مومنین دنیور نے خلوص عقیدت کے ساتھ دو عدد خصوصی صندوق راتوں رات تیار کرا کر ملٹری ہیلی پیڈ گلگت بیچ دیا تا کہ ان دونوں شہداء کے جنازے دنیور لائے جائیں چنانچہ جوانوں نے جامع مسجد امامیہ دنیور کے صحن کے علاوہ ملحقہ شاہراہ ریشم کو بھی باوجود یخ بستہ سردی کے پانی سے دھو کر صاف کر کے اطراف میں عود و عنبر کے دھویں سے معطر کر دیا تھا اس طرح آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شہادت کے بعد بھی لوگوں نے بھرپور عقیدت مندی کا خاص مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دنیور میں نماز جنازہ کی خبر سن کر حلقہ3 کے علاوہ نومل، نلتر، نگر اور ہنزہ سے بھی عقیدت مند جامع مسجد امامیہ دنیور میں حاضر ہوئے تھے جمعے کا دن تھا راقم نے نماز جمعہ کی امامت کرائی اور نماز جمعہ کے بعد تین دن احتجاجی شٹر ڈاؤں سات دن مجالس عزا الشہید امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور چالیس دن عام سوگ کا اعلان کیا اور اسی طرح غم واندوہ کے ساتھ انتظار میں تھے پس ایک پس پردہ حالات بدل گئے اور دوبارہ اطلاع دی گئی کہ نماز جنازہ گلگت میں ہوگی اور لوگوں کے لئے سواریوں کا بندوبست بھی ہوگا لہذا سب لوگ جامع مسجد امامیہ گلگت آئیں اس ادل بدل کے پس پردہ کچھ محرکات تھے اور اس ہنگامہ محشر میں یہ ایک عجیب اعلان تھا کیونکہ گلگت شہر میں سخت کرفیو تھا میں نے خود چائنا پل دنیور سے تحصیل چوک گلگت تک آرمی رینجرز ایف سی اور پولیس کے 19 چیک پوسٹ دیکھے تھے اس ہنگامہ خیز موقعہ پر حکومت جانے بھی نہ دیتی اور لوگوں کا خالی ہاتھ بلانا بھی غلط تھا چنانچہ اس غیر منطقی اعلان کے بعد راقم عزیزم مولانا میر عباس مصطفوی سے ناراض ہوا اور صدر انجمن امامیہ گلگت سے رابطہ کرکے بہت سخت ناراض ہو کر کہا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ آپ لوگ عقیدت مندوں اور شہداء کے جنازوں سے مزاق کر رہے ہو کل رات سے آج بارہ بجے تک دنیور میں نماز جنازے کا پروگرام تھا مگر عین موقعہ پر پروگرام کو اچانک تبدیل کرنا بڑی زیادتی ہے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے چنانچہ میری اس خطی پر صدر موصوف نے کہا کہ گلگت غسل و تکفین کے بعد آغا شہید کا جنازہ دنیور لانا مناسب نہ تھا چونکہ عقیدت تدوں کا غم و غصہ اور آہ و بکا اپنے عروج پر تھا اس بے محل اعلان کے بعد لوگ گلگت انے کے لئے بے تاب تھے اس لئے کچھ لوگ اپنی سواریوں میں بیٹھ کر گلگت کی لئے شاہراہ ریشم پر نکل چکے تھے اور دو گنا سے زیادہ لوگ پریشان حال صرف جانے کے لئے جامع مسجد دنیور اور سٹرکوں پر کھڑے تھے چنانچہ ہم لوگوں نے روانہ ہونے والوں کا راستہ روک کر حالات کی نزاکت کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم لوگوں سے اس کوشش کی، عقیدت مند لوگ مان گئے اور غم و غصہ اور اظہار بیزاری کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے لگے مگر علماء کرام اور نمائندہ معززین کو کرفیو انتظامیہ کی خصوصی اجازت پر نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا گیا اسی طرح راقم ان انتظامی مسائل میں پھنس کر شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اس کے علاوہ گلگت کے مخدوش حالات کی وجہ سے حلقہ نمبر 3 نگر و ہنزہ سے لوگ آکر ظہار تعزیت کرتے تھے چنانچہ مجالس ترحیم کا سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں جاری رہا اور تیسرے دن شہید ضیاء الدین رضوی اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے ام نیاز و خیرات کا اہتمام کیا گیا اور اس خیرات میں دنیور کے اسماعیلیہ کونسل کی طرف سے بھی حصہ ڈالا گیا ۔ اور اس سوئم کی نیاز میں بڑی تعداد میں شریک ہو کر ہمیں حوصلہ دیا چنانچہ اس غم واندوہ کی کٹھن  موقع پر نہایت خلوص کے ساتھ شرکت ما تعاون نے ہمارے دکھوں کو کم کرنے میں مدد دیا میں حلقہ نمبر ۳ کے اسماعیلی برادری اور ان کے مذہبی نمائندوں کی طرف سے جس خلوص و ہمدردی کے ساتھ مکتب شیعہ اثنا عشری اور شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے خاندان سے تعزیت و تسلیت پر میں اپنی طرف سے اور شہید کے خاندان کی طرف سے اور ملت شیعہ اثنا عشریہ کی طرف سے اس تحریر کے توسط سے انکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحہ فاجعہ میں ہمارے دکھ درد اور غم والم میں برابر کے شریک ہوئے <ref>ایضا، ص165</ref>۔
== تعزیتی پیغام ==
8 جنوری سے 13 جنوری 2005 کے دوران شہید ضیاء الدین رضویہ پر قاتلانہ حملہ اور آپ کی شہادت کے حوالے سے مختلف علمی مذہبی سیاسی، تنظیمی اور حکومتی شخصیات کی جانب سے اظہار عقیدت کے تاثرات تحریری شکل میں بیان ہوئے تھے میں اس کتاب میں ان تاثرات کے تراشے بطور یادگار کیا لکھنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
== آیة اللہ حافظ بشیر حسین نجفی ==
بسمه تعالی
جناب علامہ سید ضیاء الدین رضوی شہید کے علاوہ ان کے ساتھ دیگر مومنین کے شہید اور زخمی ہونے کی خبر سے دل کو بہت گہرا صدمہ ہوا اگر چہ رے چہ جو شہید ہوئے ہیں وہ یقیناً جنات عالیہ میں ائمہ طاہرین کی بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں اور جو زخمی ہوئے ہیں وہ درجہ مجاہدین پر فائز ہوئے ہیں۔
حکومت وقت کا بار بار مختلف مقامات پر اپنی نااہلیت کا ثبوت ہمیں مجبور کررہا ہے کہ ہمارے جوان ہمارے بچے اور ہماری قوم اپنے دفاع کے لئے خود تیار ہوں لہذا میں شہید کے بلندی درجات اور ان کے پسماندگان کے لئے صبر جمیل اور مجرد حسین کے لئے جلد شفاء یابی کی دعا کے ساتھ ساتھ مومنین کو خبر دار کرتا ہوں کہ ہرمومن اپنی قوم کی دفاع کے لئے ہمیشہ تیار رہے
والسلام
بشیر حسین نجفی نجف اشرف عراق
== قائد ملت جعفریہ پاکستان ==
شہید ضیاء الدین رضوی کا جہاں ایک طرف مقامی اور خاندانی کردار ہے وہاں دوسری طرف دین اور روحانی تشخص بھی نمایاں تھا انہوں نے تقوی کا راستہ اختیار کیا اور آخر دم تک تقوی اور پاک بازی کی صلاحیتوں سے مزین رہے اپنے والد بزرگوار سے تقویٰ اور وحانیت انہیں وراثت میں ملی تھی اور اس نعمت کو انہوں نے سنبھال کر رکھا تھا بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے عقیدے نظریئے اور موقف کے ساتھ سو فیصد سے زیادہ مخلص ہوں اور انہیں اپنے اصولوں پر ڈٹ جانی کا ہنر آتا تھا جب کبھی اپنے مذہبی آئینی شہری اور قانونی حقوق کے تحفظ کا مرحلہ در پیش ہوا تو آپ میدان عمل میں ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور تادم شہادت اپنے موقف سے ذرہ برابر پیچھے نہ ہٹے اور کسی قسم کی سودا بازی کرنے کی بجائے موت کو گلے لگانا اپنی ترجیح لیا۔
قائد تحریک اسلامی علامہ سید ساجد علی نقوی  اسلام آباد پاکستان <ref>ایضا، ص205</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{پاکستان}}
{{پاکستانی علماء}}
{{پاکستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:پاکستان]]
[[زمرہ:پاکستان]]