"سید ضیاء الدین رضوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 17: سطر 17:
| known for = {{افقی باکس کی فہرست|صدر تحریک جعفریہ پاکستان| }}
| known for = {{افقی باکس کی فہرست|صدر تحریک جعفریہ پاکستان| }}
}}
}}
''' سید ضیاء الدین رضوی'''، حجت الاسلام آغا میر فاضل شاہ کے فرزند تھے۔ آپ گلگت میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے بعد [[پاکستان]] کی مشہور درسگاہ حوزہ علمیہ جامعۂ المنتطر گئے اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مرکز علم قم مقدس چلے گئے قم میں قیام کے دوران [[سید صفدرحسین نجفی| سید صفدر حسین نجفی]] کی خواہش پر لندن بھی گئے لندن میں آپ نے درسی و تبلیغی خدمات انجام دیے اور لندن سے واپسی کے بعد گلگت میں خدمت دین میں مشغول ہوئے۔ یہ نوجوان عالم دین اتحاد بین المسلمین کے حامی تھے۔ سید ضیاء الدیر انقلابی ذہن کے مالک تھے ۔ آپ [[ایران|جہوری اسلامی ایران]] سے علوم دینی حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور مرکزی جامع مسجد امامیہ گلگت کے خطیب تھے۔ 8جنوری 2005ء کو آغا سید ضياء الدین رضوی اپنے تین محافظین کے ساتھ شہید ہوئے <ref>غلام حسین انجم دینوری، شیعیت گلگت میں، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ دینور گلگت، 2006ء،ص249</ref>۔
''' سید ضیاء الدین رضوی'''، حجت الاسلام آغا میر فاضل شاہ کے فرزند تھے۔ آپ گلگت میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے بعد [[پاکستان]] کی مشہور درسگاہ حوزہ علمیہ جامعۂ المنتطر گئے اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مرکز علم قم مقدس چلے گئے قم میں قیام کے دوران [[سید صفدرحسین نجفی| سید صفدر حسین نجفی]] کی خواہش پر لندن بھی گئے لندن میں آپ نے درسی و تبلیغی خدمات انجام دیے اور لندن سے واپسی کے بعد گلگت میں خدمت دین میں مشغول ہوئے۔ یہ نوجوان عالم دین اتحاد بین المسلمین کے حامی تھے۔ سید ضیاء الدین انقلابی ذہن کے مالک تھے ۔ آپ [[ایران|جہوری اسلامی ایران]] سے علوم دینی حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور مرکزی جامع مسجد امامیہ گلگت کے خطیب تھے۔ 8جنوری 2005ء کو آغا سید ضياء الدین رضوی اپنے تین محافظین کے ساتھ شہید ہوئے <ref>غلام حسین انجم دینوری، شیعیت گلگت میں، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ دینور گلگت، 2006ء،ص249</ref>۔
==  ولادت سے نوجوانی تک ==
==  ولادت سے نوجوانی تک ==
حجة الاسلام آغا میر فاضل شاہ رضوی کے ہاں امپھری گلگت میں 1958ء میں سیادت و قیادت اور شہادت کی صفات کے ساتھ ایک نونہال خوش قسمت بچے نے علم وعمل کے اس خانوادے میں آنکھ کھولی اور اس نونہال کا نام ضیاء الدین رکھا گیا آپ نجیب الطرفین رضوی سید تھے اور اس خانوادے میں آپ آغا میر فاضل شاہ رضوی المعروف عادل سید کے ہاں پہلا بیٹا اور آغا میر احمد شاہ رضوی المعروف بڑوسید کے ہاں پہلا نواسہ اور آغا محمد علی شاہ المعروف بڑو آغا کے ہاں پہلا بھانجہ تھے <ref>غلام حسین انجم، اسلام گلگت میں، 1194ء،ص88</ref>۔
حجة الاسلام آغا میر فاضل شاہ رضوی کے ہاں امپھری گلگت میں 1958ء میں سیادت و قیادت اور شہادت کی صفات کے ساتھ ایک نونہال خوش قسمت بچے نے علم وعمل کے اس خانوادے میں آنکھ کھولی اور اس نونہال کا نام ضیاء الدین رکھا گیا آپ نجیب الطرفین رضوی سید تھے اور اس خانوادے میں آپ آغا میر فاضل شاہ رضوی المعروف عادل سید کے ہاں پہلا بیٹا اور آغا میر احمد شاہ رضوی المعروف بڑوسید کے ہاں پہلا نواسہ اور آغا محمد علی شاہ المعروف بڑو آغا کے ہاں پہلا بھانجہ تھے <ref>غلام حسین انجم، اسلام گلگت میں، 1194ء،ص88</ref>۔
سطر 72: سطر 72:


اس دوران گلگت مرکز کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ دونوں شہیداء کے جنازے دنیور لائے جائنگے اور دنیور جامع مسجد امامیہ میں نماز جنازہ ہوگی اس کے بعد گلگت میں تدفین عمل میں لائی جائیگی اس غیر متوقع اطلاع کے بعد مومنین دنیور نے خلوص عقیدت کے ساتھ دو عدد خصوصی صندوق راتوں رات تیار کرا کر ملٹری ہیلی پیڈ گلگت بیچ دیا تا کہ ان دونوں شہداء کے جنازے دنیور لائے جائیں چنانچہ جوانوں نے جامع مسجد امامیہ دنیور کے صحن کے علاوہ ملحقہ شاہراہ ریشم کو بھی باوجود یخ بستہ سردی کے پانی سے دھو کر صاف کر کے اطراف میں عود و عنبر کے دھویں سے معطر کر دیا تھا اس طرح آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شہادت کے بعد بھی لوگوں نے بھرپور عقیدت مندی کا خاص مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دنیور میں نماز جنازہ کی خبر سن کر حلقہ3 کے علاوہ نومل، نلتر، نگر اور ہنزہ سے بھی عقیدت مند جامع مسجد امامیہ دنیور میں حاضر ہوئے تھے جمعے کا دن تھا راقم نے نماز جمعہ کی امامت کرائی اور نماز جمعہ کے بعد تین دن احتجاجی شٹر ڈاؤں سات دن مجالس عزا الشہید امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور چالیس دن عام سوگ کا اعلان کیا اور اسی طرح غم واندوہ کے ساتھ انتظار میں تھے پس ایک پس پردہ حالات بدل گئے اور دوبارہ اطلاع دی گئی کہ نماز جنازہ گلگت میں ہوگی اور لوگوں کے لئے سواریوں کا بندوبست بھی ہوگا لہذا سب لوگ جامع مسجد امامیہ گلگت آئیں اس ادل بدل کے پس پردہ کچھ محرکات تھے اور اس ہنگامہ محشر میں یہ ایک عجیب اعلان تھا کیونکہ گلگت شہر میں سخت کرفیو تھا میں نے خود چائنا پل دنیور سے تحصیل چوک گلگت تک آرمی رینجرز ایف سی اور پولیس کے 19 چیک پوسٹ دیکھے تھے اس ہنگامہ خیز موقعہ پر حکومت جانے بھی نہ دیتی اور لوگوں کا خالی ہاتھ بلانا بھی غلط تھا چنانچہ اس غیر منطقی اعلان کے بعد راقم عزیزم مولانا میر عباس مصطفوی سے ناراض ہوا اور صدر انجمن امامیہ گلگت سے رابطہ کرکے بہت سخت ناراض ہو کر کہا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ آپ لوگ عقیدت مندوں اور شہداء کے جنازوں سے مزاق کر رہے ہو کل رات سے آج بارہ بجے تک دنیور میں نماز جنازے کا پروگرام تھا مگر عین موقعہ پر پروگرام کو اچانک تبدیل کرنا بڑی زیادتی ہے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے چنانچہ میری اس خطی پر صدر موصوف نے کہا کہ گلگت غسل و تکفین کے بعد آغا شہید کا جنازہ دنیور لانا مناسب نہ تھا چونکہ عقیدت تدوں کا غم و غصہ اور آہ و بکا اپنے عروج پر تھا اس بے محل اعلان کے بعد لوگ گلگت انے کے لئے بے تاب تھے اس لئے کچھ لوگ اپنی سواریوں میں بیٹھ کر گلگت کی لئے شاہراہ ریشم پر نکل چکے تھے اور دو گنا سے زیادہ لوگ پریشان حال صرف جانے کے لئے جامع مسجد دنیور اور سٹرکوں پر کھڑے تھے چنانچہ ہم لوگوں نے روانہ ہونے والوں کا راستہ روک کر حالات کی نزاکت کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم لوگوں سے اس کوشش کی، عقیدت مند لوگ مان گئے اور غم و غصہ اور اظہار بیزاری کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے لگے مگر علماء کرام اور نمائندہ معززین کو کرفیو انتظامیہ کی خصوصی اجازت پر نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا گیا اسی طرح راقم ان انتظامی مسائل میں پھنس کر شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اس کے علاوہ گلگت کے مخدوش حالات کی وجہ سے حلقہ نمبر 3 نگر و ہنزہ سے لوگ آکر ظہار تعزیت کرتے تھے چنانچہ مجالس ترحیم کا سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں جاری رہا اور تیسرے دن شہید ضیاء الدین رضوی اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے ام نیاز و خیرات کا اہتمام کیا گیا اور اس خیرات میں دنیور کے اسماعیلیہ کونسل کی طرف سے بھی حصہ ڈالا گیا ۔ اور اس سوئم کی نیاز میں بڑی تعداد میں شریک ہو کر ہمیں حوصلہ دیا چنانچہ اس غم واندوہ کی کٹھن  موقع پر نہایت خلوص کے ساتھ شرکت ما تعاون نے ہمارے دکھوں کو کم کرنے میں مدد دیا میں حلقہ نمبر ۳ کے اسماعیلی برادری اور ان کے مذہبی نمائندوں کی طرف سے جس خلوص و ہمدردی کے ساتھ مکتب شیعہ اثنا عشری اور شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے خاندان سے تعزیت و تسلیت پر میں اپنی طرف سے اور شہید کے خاندان کی طرف سے اور ملت شیعہ اثنا عشریہ کی طرف سے اس تحریر کے توسط سے انکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحہ فاجعہ میں ہمارے دکھ درد اور غم والم میں برابر کے شریک ہوئے <ref>ایضا، ص165</ref>۔
اس دوران گلگت مرکز کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ دونوں شہیداء کے جنازے دنیور لائے جائنگے اور دنیور جامع مسجد امامیہ میں نماز جنازہ ہوگی اس کے بعد گلگت میں تدفین عمل میں لائی جائیگی اس غیر متوقع اطلاع کے بعد مومنین دنیور نے خلوص عقیدت کے ساتھ دو عدد خصوصی صندوق راتوں رات تیار کرا کر ملٹری ہیلی پیڈ گلگت بیچ دیا تا کہ ان دونوں شہداء کے جنازے دنیور لائے جائیں چنانچہ جوانوں نے جامع مسجد امامیہ دنیور کے صحن کے علاوہ ملحقہ شاہراہ ریشم کو بھی باوجود یخ بستہ سردی کے پانی سے دھو کر صاف کر کے اطراف میں عود و عنبر کے دھویں سے معطر کر دیا تھا اس طرح آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شہادت کے بعد بھی لوگوں نے بھرپور عقیدت مندی کا خاص مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دنیور میں نماز جنازہ کی خبر سن کر حلقہ3 کے علاوہ نومل، نلتر، نگر اور ہنزہ سے بھی عقیدت مند جامع مسجد امامیہ دنیور میں حاضر ہوئے تھے جمعے کا دن تھا راقم نے نماز جمعہ کی امامت کرائی اور نماز جمعہ کے بعد تین دن احتجاجی شٹر ڈاؤں سات دن مجالس عزا الشہید امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور چالیس دن عام سوگ کا اعلان کیا اور اسی طرح غم واندوہ کے ساتھ انتظار میں تھے پس ایک پس پردہ حالات بدل گئے اور دوبارہ اطلاع دی گئی کہ نماز جنازہ گلگت میں ہوگی اور لوگوں کے لئے سواریوں کا بندوبست بھی ہوگا لہذا سب لوگ جامع مسجد امامیہ گلگت آئیں اس ادل بدل کے پس پردہ کچھ محرکات تھے اور اس ہنگامہ محشر میں یہ ایک عجیب اعلان تھا کیونکہ گلگت شہر میں سخت کرفیو تھا میں نے خود چائنا پل دنیور سے تحصیل چوک گلگت تک آرمی رینجرز ایف سی اور پولیس کے 19 چیک پوسٹ دیکھے تھے اس ہنگامہ خیز موقعہ پر حکومت جانے بھی نہ دیتی اور لوگوں کا خالی ہاتھ بلانا بھی غلط تھا چنانچہ اس غیر منطقی اعلان کے بعد راقم عزیزم مولانا میر عباس مصطفوی سے ناراض ہوا اور صدر انجمن امامیہ گلگت سے رابطہ کرکے بہت سخت ناراض ہو کر کہا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ آپ لوگ عقیدت مندوں اور شہداء کے جنازوں سے مزاق کر رہے ہو کل رات سے آج بارہ بجے تک دنیور میں نماز جنازے کا پروگرام تھا مگر عین موقعہ پر پروگرام کو اچانک تبدیل کرنا بڑی زیادتی ہے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے چنانچہ میری اس خطی پر صدر موصوف نے کہا کہ گلگت غسل و تکفین کے بعد آغا شہید کا جنازہ دنیور لانا مناسب نہ تھا چونکہ عقیدت تدوں کا غم و غصہ اور آہ و بکا اپنے عروج پر تھا اس بے محل اعلان کے بعد لوگ گلگت انے کے لئے بے تاب تھے اس لئے کچھ لوگ اپنی سواریوں میں بیٹھ کر گلگت کی لئے شاہراہ ریشم پر نکل چکے تھے اور دو گنا سے زیادہ لوگ پریشان حال صرف جانے کے لئے جامع مسجد دنیور اور سٹرکوں پر کھڑے تھے چنانچہ ہم لوگوں نے روانہ ہونے والوں کا راستہ روک کر حالات کی نزاکت کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم لوگوں سے اس کوشش کی، عقیدت مند لوگ مان گئے اور غم و غصہ اور اظہار بیزاری کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے لگے مگر علماء کرام اور نمائندہ معززین کو کرفیو انتظامیہ کی خصوصی اجازت پر نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا گیا اسی طرح راقم ان انتظامی مسائل میں پھنس کر شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اس کے علاوہ گلگت کے مخدوش حالات کی وجہ سے حلقہ نمبر 3 نگر و ہنزہ سے لوگ آکر ظہار تعزیت کرتے تھے چنانچہ مجالس ترحیم کا سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں جاری رہا اور تیسرے دن شہید ضیاء الدین رضوی اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے ام نیاز و خیرات کا اہتمام کیا گیا اور اس خیرات میں دنیور کے اسماعیلیہ کونسل کی طرف سے بھی حصہ ڈالا گیا ۔ اور اس سوئم کی نیاز میں بڑی تعداد میں شریک ہو کر ہمیں حوصلہ دیا چنانچہ اس غم واندوہ کی کٹھن  موقع پر نہایت خلوص کے ساتھ شرکت ما تعاون نے ہمارے دکھوں کو کم کرنے میں مدد دیا میں حلقہ نمبر ۳ کے اسماعیلی برادری اور ان کے مذہبی نمائندوں کی طرف سے جس خلوص و ہمدردی کے ساتھ مکتب شیعہ اثنا عشری اور شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے خاندان سے تعزیت و تسلیت پر میں اپنی طرف سے اور شہید کے خاندان کی طرف سے اور ملت شیعہ اثنا عشریہ کی طرف سے اس تحریر کے توسط سے انکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحہ فاجعہ میں ہمارے دکھ درد اور غم والم میں برابر کے شریک ہوئے <ref>ایضا، ص165</ref>۔
== تعزیتی پیغام ==
8 جنوری سے 13 جنوری 2005 کے دوران شہید ضیاء الدین رضویہ پر قاتلانہ حملہ اور آپ کی شہادت کے حوالے سے مختلف علمی مذہبی سیاسی، تنظیمی اور حکومتی شخصیات کی جانب سے اظہار عقیدت کے تاثرات تحریری شکل میں بیان ہوئے تھے میں اس کتاب میں ان تاثرات کے تراشے بطور یادگار کیا لکھنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
== آیة اللہ حافظ بشیر حسین نجفی ==
بسمه تعالی
جناب علامہ سید ضیاء الدین رضوی شہید کے علاوہ ان کے ساتھ دیگر مومنین کے شہید اور زخمی ہونے کی خبر سے دل کو بہت گہرا صدمہ ہوا اگر چہ رے چہ جو شہید ہوئے ہیں وہ یقیناً جنات عالیہ میں ائمہ طاہرین کی بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں اور جو زخمی ہوئے ہیں وہ درجہ مجاہدین پر فائز ہوئے ہیں۔
حکومت وقت کا بار بار مختلف مقامات پر اپنی نااہلیت کا ثبوت ہمیں مجبور کررہا ہے کہ ہمارے جوان ہمارے بچے اور ہماری قوم اپنے دفاع کے لئے خود تیار ہوں لہذا میں شہید کے بلندی درجات اور ان کے پسماندگان کے لئے صبر جمیل اور مجرد حسین کے لئے جلد شفاء یابی کی دعا کے ساتھ ساتھ مومنین کو خبر دار کرتا ہوں کہ ہرمومن اپنی قوم کی دفاع کے لئے ہمیشہ تیار رہے
والسلام
بشیر حسین نجفی نجف اشرف عراق
== قائد ملت جعفریہ پاکستان ==
شہید ضیاء الدین رضوی کا جہاں ایک طرف مقامی اور خاندانی کردار ہے وہاں دوسری طرف دین اور روحانی تشخص بھی نمایاں تھا انہوں نے تقوی کا راستہ اختیار کیا اور آخر دم تک تقوی اور پاک بازی کی صلاحیتوں سے مزین رہے اپنے والد بزرگوار سے تقویٰ اور وحانیت انہیں وراثت میں ملی تھی اور اس نعمت کو انہوں نے سنبھال کر رکھا تھا بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے عقیدے نظریئے اور موقف کے ساتھ سو فیصد سے زیادہ مخلص ہوں اور انہیں اپنے اصولوں پر ڈٹ جانی کا ہنر آتا تھا جب کبھی اپنے مذہبی آئینی شہری اور قانونی حقوق کے تحفظ کا مرحلہ در پیش ہوا تو آپ میدان عمل میں ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور تادم شہادت اپنے موقف سے ذرہ برابر پیچھے نہ ہٹے اور کسی قسم کی سودا بازی کرنے کی بجائے موت کو گلے لگانا اپنی ترجیح لیا۔
قائد تحریک اسلامی علامہ سید ساجد علی نقوی  اسلام آباد پاکستان <ref>ایضا، ص205</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed
2,369

ترامیم