"سید ضیاء الدین رضوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 33: سطر 33:
چنانچہ 3 جون 2004ء کی صبح نمودار ہوئی اور گلگت کے بلند و بالا پہاڑوں کے آوٹ سے سورج طلوع ہوا تو بگروٹ جلال آباد، اوشکھنداس، جوتل، جگلوٹ، رحیم آباد، نومل، نلتر اور دنیور سے کم از کم چار سے پانچ ہزار بچے جوان اور بوڑھے چائںا  پل دنیور میں جمع ہوئے اور غیر منظم انداز میں گلگت شہر میں داخل ہو کر کرفیو اور آغا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح دس بجے صبح جلال آباد سے حاجی شاہ مرزہ صاحب اور حاجی غلام نبی وفا کی طرف سے ٹیلیفون پر یہ پیغام ملا کہ آپ جا کر حالات سے ہمیں باخبر رکھیں اس لئے میں دنیور چوک پہنچا تو اطلاع ملی کی ریڈیو پاکستان کی گاڑی کو آگ لگا دی گئی ہے۔  
چنانچہ 3 جون 2004ء کی صبح نمودار ہوئی اور گلگت کے بلند و بالا پہاڑوں کے آوٹ سے سورج طلوع ہوا تو بگروٹ جلال آباد، اوشکھنداس، جوتل، جگلوٹ، رحیم آباد، نومل، نلتر اور دنیور سے کم از کم چار سے پانچ ہزار بچے جوان اور بوڑھے چائںا  پل دنیور میں جمع ہوئے اور غیر منظم انداز میں گلگت شہر میں داخل ہو کر کرفیو اور آغا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح دس بجے صبح جلال آباد سے حاجی شاہ مرزہ صاحب اور حاجی غلام نبی وفا کی طرف سے ٹیلیفون پر یہ پیغام ملا کہ آپ جا کر حالات سے ہمیں باخبر رکھیں اس لئے میں دنیور چوک پہنچا تو اطلاع ملی کی ریڈیو پاکستان کی گاڑی کو آگ لگا دی گئی ہے۔  
== تحريك نصاب کا پس منظر ==  
== تحريك نصاب کا پس منظر ==  
مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مکتب [[اہل بیت]] کی ترویج اور ثقافت جعفریہ کی بقاء کی خاطر ربانی علماء نے ہر طرح کے جتن کئے ہیں چنانچہ 1963ء کے دوران [[سید محمد دہلوی]]  نے ثقافت جعفریہ کے خلاف ہونے والے واقعات کے پیش نظر علماء اور دانشمندان ملت کے مشورے سے شیعہ مطالبات کمیٹی پاکستان کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس کے چار نکات تھے مکتب تشیع کے لئے جدا گانہ نصاب تعلیم کی تدوین، زکواۃ وعشر کا مکتبی ادائیگی، جدا شیعہ اوقاف بورڈ کی تشکیل، اور تحفظ [[عزاداری|عزاداری سید الشہداء]] کی حکومتی ضمانت تھی انی چار نکات پر بھر پور انداز میں منظم طور پر تحریک چلائی گئی کراچی سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سے گلگت و بلتستان تک یہ منتظم تحریک چلی اس حوالے سے 1965ء کے دوران احتجاج ہوا راقم نے ایک طالب علم کی حیثیت سے لاہور مال روڈ پر اس احتجاج میں شرکت کی تھی پس قومی وحدت کے ساتھ یہ تحریک چلی اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے ملت شیعہ کے یہ سب مطالبات تسلیم کئے تھے اور ان کے حل کی خاطر سر کار سطح پر کام ہورہا تھا زکواۃ و عشر کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ کراچی بورڈ میں الک نصاب تعلیم کا اجراء بھی ہوا تھا اس دوران علامہ سید محمد دہلوی کا انتقال ہوا اور ایک سال کے اندر مطلو به نصاب تعلیم پنجاب ٹکسٹ بک بورڈ لاہور نے چھاپ کر شائع کیا اسی طرح حسب دستور چار سال بعد جناب محمد نواز شریف کے دور حکومت میں مزکورہ نصاب سب کے لئے ختم کر کے ترجمہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے علاوہ معروضی سوالات کے ساتھ اسلامیات لازمی کا نیا نصاب منظر عام پر لایا گیا تھا اور آج تک اسلامیات کا وہی نصاب تعلیم رائج ہے۔ خطئہ بے آئین شمالی علاقہ جات گلگت میں چلائی گئی تحریک نصاب تعلیم کے دوران پانچ جون 2004 ء کو باہم طے پانے والا نام نہاد معاہدہ کہاں گیا اور آج چار سال کی مدت پوری ہوئی ہے مگر سر پر کفن بھاند کر میدان عمل میں آنے والے تختہ کی جگہ تخت پر آرام فرما ہیں اور شیعہ طلباء ایکشن کمیٹی بھی نام کی رہ گئی ہے خدا ہم سب کی ہدایت کرے کیونکہ ہم نے پایا کچھ نہیں مگر بہت کچھ کھو دیا ہے پس پاکستان سے بے وفائی کے الزام اور بے گنا جوانوں کی شہادت کے علاوہ تاریخ گلگت کا دوسرا بڑا زخم آغا ضیاء الدین رضوی کی مظلومانہ شہادت ہے اور مکتب تشیع گلگت اس عظیم زخم کو ہمیشہ چاشتار ہے اشتار ہیگا۔ اب ضیاء الدین تنہا ہے۔
مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مکتب [[اہل بیت]] کی ترویج اور ثقافت جعفریہ کی بقاء کی خاطر ربانی علماء نے ہر طرح کے جتن کئے ہیں چنانچہ 1963ء کے دوران [[سید محمد دہلوی]]  نے ثقافت جعفریہ کے خلاف ہونے والے واقعات کے پیش نظر علماء اور دانشمندان ملت کے مشورے سے شیعہ مطالبات کمیٹی پاکستان کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس کے چار نکات تھے مکتب تشیع کے لئے جدا گانہ نصاب تعلیم کی تدوین، زکواۃ وعشر کا مکتبی ادائیگی، جدا شیعہ اوقاف بورڈ کی تشکیل، اور تحفظ [[عزاداری|عزاداری سید الشہداء]] کی حکومتی ضمانت تھی انی چار نکات پر بھر پور انداز میں منظم طور پر تحریک چلائی گئی کراچی سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سے گلگت و بلتستان تک یہ منتظم تحریک چلی اس حوالے سے 1965ء کے دوران احتجاج ہوا راقم نے ایک طالب علم کی حیثیت سے لاہور مال روڈ پر اس احتجاج میں شرکت کی تھی پس قومی وحدت کے ساتھ یہ تحریک چلی اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے ملت شیعہ کے یہ سب مطالبات تسلیم کئے تھے اور ان کے حل کی خاطر سر کار سطح پر کام ہورہا تھا زکواۃ و عشر کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ کراچی بورڈ میں الک نصاب تعلیم کا اجراء بھی ہوا تھا اس دوران علامہ سید محمد دہلوی کا انتقال ہوا اور آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی کا ذمہ داری جناب جسٹس سید جمیل حسین رضوی لاہور کے ذمہ لگادی گئی اسی طرح مطالبات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ملکی سیاسی حالات فوجی اقتدار کی وجہ سے خراب ہوئے اور [[محمد ضیاء الحق|جنرل ضیاء الحق]] نے اپنی جنرلی صدارت کے دوان اسلام کے نام پر لوگوں سے زبردستی زکواۃ و عشر وصول کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان بھر کے علماء کرام اور کابرین ملت تشیع نے متفقہ طور پر [[ جعفریہ|تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان]] کے نام سے ایک منظم اور مربوط تنظیم کا اعلان کیا اور تنظیم کی سربراہی کے لیے [[جعفر حسین|مفتی جعفر حسین]] کے نام نامی کا انتخاب ہوا علم و عمل زہد و تقوی اور سیاست مدن کے حوالے سے آپ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں راقم اور وزیر غلام عباس مرحوم اس تحریک کے پہلے ممبر ہوئے تھے اسی طرح صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور حکومت میں اپنے مذہبی حقوق کی خاطر دارالخلافہ اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کیا گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور اس تاریخی اجتماع کے بعد صدر ضیاء الحق کی مارشل لائی حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور زکواۃ وعشر کے حوالے سے ڈیکلریشن کا اجراء ہوا اور آج نیک اس پر عمل ہو رہاہے <ref>ایضا، ص156</ref>۔
== شہید ضیاء الدین کی سیاسی خدمات ==
بدلہ نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو
 
تو جاچکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے
شهید سید ضیاء الدین رضوی بھی ان محسنین میں سے ایک ہیں جن کو ملت تشیع پاکستان بالعموم اور ملت تشیع گلگت و بلتستان بلخصوص ہمیشہ یاد رکھے گی، شہید ضياء الدین ایک فرد کا نام  نہیں بلکہ ایک فکر ایک جذبے، ایک حوصلے اور شعور کا ہیم ہے ۔ بقول [[سید ساجد علی نقوی|قائد ملت جعفریہ آیت اللہ سید ساجد علی نقوی]]: شهید ضیاء الدین رضوی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک پاکیزہ تحریک اور مشن کا نام ہے۔ شہید ضیاء الدین رضوی اک انسان کامل کا نمونہ اور ہمہ جہت شخصیت تھے جن کے زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے نمونہ عمل ہے ۔ چاہے وہ شہید کی زندگی کا سیاسی پہلو ہو، بھی یا اخلاقی پہلو ہو۔
شهید سید ضیاء الدین رضوی نے 1990 میں گلگت کی سرزمین پر اپنے قدم مبارک رکھے ۔ سید والا مقام نے اپنی بصیرت اور قابلیت سے تھوڑی مدت میں گلگت کے مومنین کو منسجم اور متحد کیا جامع مسجد گلگت میں اپنے شعلہ بیان خطیبوں کے ذریعے ملت کے مومنین کو روحانی طاقت بخشی اور مومنین کے دلوں کو جذبہ شہادت اور ایثار سے سرشار کیا۔ شہید کی مدبرانہ اور با بصیرت قیادت اور پالیسی کا نتیجہ 1994ء کے انتخابات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
 
سیاسی میدان میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم پر پوری شیعہ قوم کو متحد کیا اور گلگت بلتستان کونسل کے پہلے انتخابات میں ۲۴ نشتوں سے 8 نشستیں جیت کر بھر پور کامیابی حاصل کی ۔ اسی طرح ۱۹۹۹ کے قومی اسمبلی گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی شہید کی صدارت میں ٹی۔ جے۔ پی نے بھر پور کامیابی حاصل کر کے ملت جعفریہ گلگت بلتستان کو سرخرو کیا۔
1999 کے بعد ملت تشیع کے خلاف ہر میدان میں ناکامی کے بعد حکومت میں ہے بیٹھے ہوئے اسلام اور پاکستان کے دشمن وہابی افکار نے سوچی سمجھی سازش کے تحت حکومتی نصاب تعلیم میں شیعہ عقائد کے خلاف ایسا مواد شامل کیا گیا جسکو پڑھنے پر شیعہ طالب علموں کو مجبور کیا گیا ۔ جیسے ہی شہید کو اس کے بارے میں علم ہوا شہید نے احساس ذمہ داری کرتے ہوئے ابتدائی نصابی کتابوں سے لے کر عالی درجے کی نصابی کتابوں سمٹ کا دقیق مطالعہ و تحقیق کرنے کے بعد ابتدائی مراحل میں گفت و شنید کے ذریعے پوری شیعہ قوم اور حکومتی ذمہ داروں کو آگاہ کیا کہ موجودہ نصاب تعلیم متنازعہ ہے جس میں ایک فرقے کی نمائندگی ہوتی ہے اور اس میں شیعہ عقائد کے خلاف مواد شامل ہے۔
== شہید اور متنازعہ نصاب  تعلیم ==
شہید متنازعہ نصاب تعلیم کے خللاف آواز بلند کرنا اور اس کی اصلاح کو اپنی شرقی ذمہ داری اور متنازعہ نصاب تعلیم کو زندگی اور موت کا مسلہ سمجھتے تھے ۔ شہید اپنی اکثر تقاریر اور خطبات میں فرمایا کرتے تھے کہ : موجودہ نصاب تعلیم کلاشنکوف کی کوئی سے بھی زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ کلاشنکوف کی گولی صرف خاکی بدن کو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن متنازعہ نصاب تعلیم شیعہ فکر اور عقیدے کو نقصان پہنچایے ہے جو جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ہمارا سلام ہو شہید سید ضیاء الدین کی بصیرت اور دور اندیشی کو شہید نے شیعیان حیدر کرار کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تعلیمی حوالے سے بھی بہت ساری خدمات انجام دیں ۔ اقتصادی حوالے سے تعمیر ملت پروگرام کے تحت شہداء کے گھروں کی کفالت ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور غریب طالب علموں کی مدد اور بے روزگار مومنین کی مدد کی۔ علمی میدان میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم اور قائد ملت جعفریہ کی مدد سے المصطفیٰ پبلک سکول کے نام سے گلگت، نگر، بار گور جلال آباد، جھوٹ کالونی میں سکولز قائم کئے جن میں اب بھی ہزاروں شیعہ بچے علم کے نور سے منور ہو رہے ہیں <ref>اجمل حسین قاسمی، شہید ضیاء الدین رضوی کا فکر، مجلہ سلسبیل، شمارہ1، 2021ء،ص55-56</ref>۔
 
== شهادت کے عواقب و نتائج اور اثرات ==  
== شهادت کے عواقب و نتائج اور اثرات ==  
چنانچہ 8 جنوری 2005ء کو دن کے سوا بارہ بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس حملے میں آپکا جان نثار ڈرائیور حسین اکبر شہید ہوا اور دہشت گردوں میں سے ایک قاتل کو ایک جانثار نے وہی گولی مار دی اس قاتلانہ حملے میں آپ کا ایک جان نثار محافظ تنور حسین بھی شدید زخمی ہوا لوگوں نے آغا ضیاء الدین رضوی اور آپ کے محافظ کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال گلگت پہنچا دیا اور اس بدترین ریاستی دہشت گردی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح گلگت اور اس کے اطراف میں پھیل گئی۔ بد قسمتی سے 8 جنوری کی دہشت گردی کے سانحہ کے موقعہ پر راقم گلگت میں جناب سید جعفر شاہ صاحب ایڈوکیٹ کے چیمبر میں بیٹھا ہوا تھا اور اس لرز خیز خبر کے سنتے ہی ہم لوگ ہسپتال کی طرف دوڑ گئے اور ہستپال کے باہر لوگوں کا جمع غفیر موجود تھا جذبات سے بھرے عقیدت مندوں کی آہ بکاء قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا حالات خراب ہوئے تو فوراً کرفیو لگا دیا گیا اور راقم بھی دس جنوری تک گلگت میں پھنسا رہا اور دس تاریخ کی رات کے بارہ بجے جناب حاجی صفدر علی صاحب کی توسط سے مجسٹریٹ اور پولیس موبائل مجھے دنیور چھوڑ گئے اس دوران زخمی آغا اور محافظ تنویر حسین کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی بنایا گیا چونکہ یہ خالق کا منشا تھا کہ ان شہیدوں کی روح سرزمین راولپنڈی میں قبض ہو چنانچہ 13 جنوری 2005 ، بروز جمعرات،  رات کے تین بجے آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے میری تحقیق کے مطابق تنویر حسین کی شہادت تک آپ کی شہادت کو چھپایا گیا تھا ہم لوگوں نے اپنے رب سے دست بستہ ہو کر گڑھ گڑھا کر آغا کی زندگی کے لئے دعائیں مانگی تھی مگر آپ کی تمناء شہادت ہماری سلامتی کی دعاؤں پر حاوی ہوئی چنانچہ پاکستان ٹیلیویژن کے مختلف چینلز نے اچھا تک آپ کی شہادت کی دل ہلا دینے والی خبر نشر کیا اور اس اعلان غم کے بعد شمالی علاقہ جات گلگت کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی اور ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ زار و قطار رو رہے تھے اس دوران گلگت مرکز کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ دونوں شہیداء کے جنازے دنیور لائے جائنگے اور دنیور جامع مسجد امامیہ میں نماز جنازہ ہوگی اس کے بعد گلگت میں تدفین عمل میں لائی جائیگی اس غیر متوقع اطلاع کے بعد مومنین دنیور نے خلوص عقیدت کے ساتھ دو عدد خصوصی صندوق راتوں رات تیار کرا کر ملٹری ہیلی پیڈ گلگت بیچ دیا تا کہ ان دونوں شہداء کے جنازے دنیور لائے جائیں چنانچہ جوانوں نے جامع مسجد امامیہ دنیور کے صحن کے علاوہ ملحقہ شاہراہ ریشم کو بھی باوجود یخ بستہ سردی کے پانی سے دھو کر صاف کر کے اطراف میں عود و عنبر کے دھویں سے معطر کر دیا تھا اس طرح آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شہادت کے بعد بھی لوگوں نے بھرپور عقیدت مندی کا خاص مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دنیور میں نماز جنازہ کی خبر سن کر حلقہ3 کے علاوہ نومل، نلتر، نگر اور ہنزہ سے بھی عقیدت مند جامع مسجد امامیہ دنیور میں حاضر ہوئے تھے جمعے کا دن تھا راقم نے نماز جمعہ کی امامت کرائی اور نماز جمعہ کے بعد تین دن احتجاجی شٹر ڈاؤں سات دن مجالس عزا الشہید امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور چالیس دن عام سوگ کا اعلان کیا اور اسی طرح غم واندوہ کے ساتھ انتظار میں تھے پس ایک پس پردہ حالات بدل گئے اور دوبارہ اطلاع دی گئی کہ نماز جنازہ گلگت میں ہوگی اور لوگوں کے لئے سواریوں کا بندوبست بھی ہوگا لہذا سب لوگ جامع مسجد امامیہ گلگت آئیں اس ادل بدل کے پس پردہ کچھ محرکات تھے اور اس ہنگامہ محشر میں یہ ایک عجیب اعلان تھا کیونکہ گلگت شہر میں سخت کرفیو تھا میں نے خود چائنا پل دنیور سے تحصیل چوک گلگت تک آرمی رینجرز ایف سی اور پولیس کے 19 چیک پوسٹ دیکھے تھے اس ہنگامہ خیز موقعہ پر حکومت جانے بھی نہ دیتی اور لوگوں کا خالی ہاتھ بلانا بھی غلط تھا چنانچہ اس غیر منطقی اعلان کے بعد راقم عزیزم مولانا میر عباس مصطفوی سے ناراض ہوا اور صدر انجمن امامیہ گلگت سے رابطہ کرکے بہت سخت ناراض ہو کر کہا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ آپ لوگ عقیدت مندوں اور شہداء کے جنازوں سے مزاق کر رہے ہو کل رات سے آج بارہ بجے تک دنیور میں نماز جنازے کا پروگرام تھا مگر عین موقعہ پر پروگرام کو اچانک تبدیل کرنا بڑی زیادتی ہے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے چنانچہ میری اس خطی پر صدر موصوف نے کہا کہ گلگت غسل و تکفین کے بعد آغا شہید کا جنازہ دنیور لانا مناسب نہ تھا چونکہ عقیدت تدوں کا غم و غصہ اور آہ و بکا اپنے عروج پر تھا اس بے محل اعلان کے بعد لوگ گلگت انے کے لئے بے تاب تھے اس لئے کچھ لوگ اپنی سواریوں میں بیٹھ کر گلگت کی لئے شاہراہ ریشم پر نکل چکے تھے اور دو گنا سے زیادہ لوگ پریشان حال صرف جانے کے لئے جامع مسجد دنیور اور سٹرکوں پر کھڑے تھے چنانچہ ہم لوگوں نے روانہ ہونے والوں کا راستہ روک کر حالات کی نزاکت کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم لوگوں سے اس کوشش کی، عقیدت مند لوگ مان گئے اور غم و غصہ اور اظہار بیزاری کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے لگے مگر علماء کرام اور نمائندہ معززین کو کرفیو انتظامیہ کی خصوصی اجازت پر نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا گیا اسی طرح راقم ان انتظامی مسائل میں پھنس کر شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اس کے علاوہ گلگت کے مخدوش حالات کی وجہ سے حلقہ نمبر 3 نگر و ہنزہ سے لوگ آکر ظہار تعزیت کرتے تھے چنانچہ مجالس ترحیم کا سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں جاری رہا اور تیسرے دن شہید ضیاء الدین رضوی اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے ام نیاز و خیرات کا اہتمام کیا گیا اور اس خیرات میں دنیور کے اسماعیلیہ کونسل کی طرف سے بھی حصہ ڈالا گیا ۔ اور اس سوئم کی نیاز میں بڑی تعداد میں شریک ہو کر ہمیں حوصلہ دیا چنانچہ اس غم واندوہ کی کٹھن  موقع پر نہایت خلوص کے ساتھ شرکت ما تعاون نے ہمارے دکھوں کو کم کرنے میں مدد دیا میں حلقہ نمبر ۳ کے اسماعیلی برادری اور ان کے مذہبی نمائندوں کی طرف سے جس خلوص و ہمدردی کے ساتھ مکتب شیعہ اثنا عشری اور شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے خاندان سے تعزیت و تسلیت پر میں اپنی طرف سے اور شہید کے خاندان کی طرف سے اور ملت شیعہ اثنا عشریہ کی طرف سے اس تحریر کے توسط سے انکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحہ فاجعہ میں ہمارے دکھ درد اور غم والم میں برابر کے شریک ہوئے <ref>ایضا، ص165</ref>۔
چنانچہ 8 جنوری 2005ء کو دن کے سوا بارہ بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس حملے میں آپکا جان نثار ڈرائیور حسین اکبر شہید ہوا اور دہشت گردوں میں سے ایک قاتل کو ایک جانثار نے وہی گولی مار دی اس قاتلانہ حملے میں آپ کا ایک جان نثار محافظ تنور حسین بھی شدید زخمی ہوا لوگوں نے آغا ضیاء الدین رضوی اور آپ کے محافظ کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال گلگت پہنچا دیا اور اس بدترین ریاستی دہشت گردی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح گلگت اور اس کے اطراف میں پھیل گئی۔ بد قسمتی سے 8 جنوری کی دہشت گردی کے سانحہ کے موقعہ پر راقم گلگت میں جناب سید جعفر شاہ صاحب ایڈوکیٹ کے چیمبر میں بیٹھا ہوا تھا اور اس لرز خیز خبر کے سنتے ہی ہم لوگ ہسپتال کی طرف دوڑ گئے اور ہستپال کے باہر لوگوں کا جمع غفیر موجود تھا جذبات سے بھرے عقیدت مندوں کی آہ بکاء قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا حالات خراب ہوئے تو فوراً کرفیو لگا دیا گیا اور راقم بھی دس جنوری تک گلگت میں پھنسا رہا اور دس تاریخ کی رات کے بارہ بجے جناب حاجی صفدر علی صاحب کی توسط سے مجسٹریٹ اور پولیس موبائل مجھے دنیور چھوڑ گئے اس دوران زخمی آغا اور محافظ تنویر حسین کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی بنایا گیا چونکہ یہ خالق کا منشا تھا کہ ان شہیدوں کی روح سرزمین راولپنڈی میں قبض ہو چنانچہ 13 جنوری 2005 ، بروز جمعرات،  رات کے تین بجے آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے میری تحقیق کے مطابق تنویر حسین کی شہادت تک آپ کی شہادت کو چھپایا گیا تھا ہم لوگوں نے اپنے رب سے دست بستہ ہو کر گڑھ گڑھا کر آغا کی زندگی کے لئے دعائیں مانگی تھی مگر آپ کی تمناء شہادت ہماری سلامتی کی دعاؤں پر حاوی ہوئی چنانچہ پاکستان ٹیلیویژن کے مختلف چینلز نے اچھا تک آپ کی شہادت کی دل ہلا دینے والی خبر نشر کیا اور اس اعلان غم کے بعد شمالی علاقہ جات گلگت کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی اور ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ زار و قطار رو رہے تھے اس دوران گلگت مرکز کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ دونوں شہیداء کے جنازے دنیور لائے جائنگے اور دنیور جامع مسجد امامیہ میں نماز جنازہ ہوگی اس کے بعد گلگت میں تدفین عمل میں لائی جائیگی اس غیر متوقع اطلاع کے بعد مومنین دنیور نے خلوص عقیدت کے ساتھ دو عدد خصوصی صندوق راتوں رات تیار کرا کر ملٹری ہیلی پیڈ گلگت بیچ دیا تا کہ ان دونوں شہداء کے جنازے دنیور لائے جائیں چنانچہ جوانوں نے جامع مسجد امامیہ دنیور کے صحن کے علاوہ ملحقہ شاہراہ ریشم کو بھی باوجود یخ بستہ سردی کے پانی سے دھو کر صاف کر کے اطراف میں عود و عنبر کے دھویں سے معطر کر دیا تھا اس طرح آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شہادت کے بعد بھی لوگوں نے بھرپور عقیدت مندی کا خاص مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دنیور میں نماز جنازہ کی خبر سن کر حلقہ3 کے علاوہ نومل، نلتر، نگر اور ہنزہ سے بھی عقیدت مند جامع مسجد امامیہ دنیور میں حاضر ہوئے تھے جمعے کا دن تھا راقم نے نماز جمعہ کی امامت کرائی اور نماز جمعہ کے بعد تین دن احتجاجی شٹر ڈاؤں سات دن مجالس عزا الشہید امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور چالیس دن عام سوگ کا اعلان کیا اور اسی طرح غم واندوہ کے ساتھ انتظار میں تھے پس ایک پس پردہ حالات بدل گئے اور دوبارہ اطلاع دی گئی کہ نماز جنازہ گلگت میں ہوگی اور لوگوں کے لئے سواریوں کا بندوبست بھی ہوگا لہذا سب لوگ جامع مسجد امامیہ گلگت آئیں اس ادل بدل کے پس پردہ کچھ محرکات تھے اور اس ہنگامہ محشر میں یہ ایک عجیب اعلان تھا کیونکہ گلگت شہر میں سخت کرفیو تھا میں نے خود چائنا پل دنیور سے تحصیل چوک گلگت تک آرمی رینجرز ایف سی اور پولیس کے 19 چیک پوسٹ دیکھے تھے اس ہنگامہ خیز موقعہ پر حکومت جانے بھی نہ دیتی اور لوگوں کا خالی ہاتھ بلانا بھی غلط تھا چنانچہ اس غیر منطقی اعلان کے بعد راقم عزیزم مولانا میر عباس مصطفوی سے ناراض ہوا اور صدر انجمن امامیہ گلگت سے رابطہ کرکے بہت سخت ناراض ہو کر کہا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ آپ لوگ عقیدت مندوں اور شہداء کے جنازوں سے مزاق کر رہے ہو کل رات سے آج بارہ بجے تک دنیور میں نماز جنازے کا پروگرام تھا مگر عین موقعہ پر پروگرام کو اچانک تبدیل کرنا بڑی زیادتی ہے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے چنانچہ میری اس خطی پر صدر موصوف نے کہا کہ گلگت غسل و تکفین کے بعد آغا شہید کا جنازہ دنیور لانا مناسب نہ تھا چونکہ عقیدت تدوں کا غم و غصہ اور آہ و بکا اپنے عروج پر تھا اس بے محل اعلان کے بعد لوگ گلگت انے کے لئے بے تاب تھے اس لئے کچھ لوگ اپنی سواریوں میں بیٹھ کر گلگت کی لئے شاہراہ ریشم پر نکل چکے تھے اور دو گنا سے زیادہ لوگ پریشان حال صرف جانے کے لئے جامع مسجد دنیور اور سٹرکوں پر کھڑے تھے چنانچہ ہم لوگوں نے روانہ ہونے والوں کا راستہ روک کر حالات کی نزاکت کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم لوگوں سے اس کوشش کی، عقیدت مند لوگ مان گئے اور غم و غصہ اور اظہار بیزاری کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے لگے مگر علماء کرام اور نمائندہ معززین کو کرفیو انتظامیہ کی خصوصی اجازت پر نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا گیا اسی طرح راقم ان انتظامی مسائل میں پھنس کر شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اس کے علاوہ گلگت کے مخدوش حالات کی وجہ سے حلقہ نمبر 3 نگر و ہنزہ سے لوگ آکر ظہار تعزیت کرتے تھے چنانچہ مجالس ترحیم کا سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں جاری رہا اور تیسرے دن شہید ضیاء الدین رضوی اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے ام نیاز و خیرات کا اہتمام کیا گیا اور اس خیرات میں دنیور کے اسماعیلیہ کونسل کی طرف سے بھی حصہ ڈالا گیا ۔ اور اس سوئم کی نیاز میں بڑی تعداد میں شریک ہو کر ہمیں حوصلہ دیا چنانچہ اس غم واندوہ کی کٹھن  موقع پر نہایت خلوص کے ساتھ شرکت ما تعاون نے ہمارے دکھوں کو کم کرنے میں مدد دیا میں حلقہ نمبر ۳ کے اسماعیلی برادری اور ان کے مذہبی نمائندوں کی طرف سے جس خلوص و ہمدردی کے ساتھ مکتب شیعہ اثنا عشری اور شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے خاندان سے تعزیت و تسلیت پر میں اپنی طرف سے اور شہید کے خاندان کی طرف سے اور ملت شیعہ اثنا عشریہ کی طرف سے اس تحریر کے توسط سے انکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحہ فاجعہ میں ہمارے دکھ درد اور غم والم میں برابر کے شریک ہوئے <ref>ایضا، ص165</ref>۔
confirmed
2,364

ترامیم