"سید ضیاء الدین رضوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 26: سطر 26:
== عوامی حقوق کا دفاع ==  
== عوامی حقوق کا دفاع ==  
مگر مقامی خود مختار انتظامیہ کے زیر اثر اداروں اور نمک خوار لوگوں کی متعصبانہ روش کی وجہ سے آپ کے اس خاموش سمندر میں ارتعاش پیدا ہوا اور ان ناانصافیوں میں دن بدن اضافہ بھی ہو رہا تھا اس لیے آپ نماز جماعت و جمعہ اور دیگر مذہبی محافل ومجالس کے تبلیغاتی پروگراموں کے دوران علاقے کے مذہبی اور سیاسی مشکلات اور علاقائی قومی مسائل کے حوالے سے دو ٹوک بات کرنے لگے اور اعلی کلمہ حق سے نہیں ہچکچاتے تھے اور آپ کی اس طرز ادا کی وجہ سے لوگوں کو حوصلہ ملا اور مجبور و  پریشان آپ کے سامنے پیش کرتے تھے اور آپ اپنے خطبات میں بیان کرتے تھے مگر ان مسائل کو کسی خاص طریقے سے اٹھانا چاہئے تھامگر اکثر ایسا نہیں ہوتا تھا اور اس طرح کے بیانات کے بعد مسائل میں روزانہ اضافہ ہو جاتا تھا چونکہ مقامی انتظامیہ اور اس کے اداروں میں ہونے والی یکطرفہ زیادتیوں کو ہدف تنقید بناتے تھے اس لئے وہ ضد میں آکر ان مشکلات میں اضافہ کر دیتے تھے پھر بھی خود مختار اور جانبدار انتظامیہ اور اس کے انتظامی اداروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا <ref>ایضا، ص141</ref>۔
مگر مقامی خود مختار انتظامیہ کے زیر اثر اداروں اور نمک خوار لوگوں کی متعصبانہ روش کی وجہ سے آپ کے اس خاموش سمندر میں ارتعاش پیدا ہوا اور ان ناانصافیوں میں دن بدن اضافہ بھی ہو رہا تھا اس لیے آپ نماز جماعت و جمعہ اور دیگر مذہبی محافل ومجالس کے تبلیغاتی پروگراموں کے دوران علاقے کے مذہبی اور سیاسی مشکلات اور علاقائی قومی مسائل کے حوالے سے دو ٹوک بات کرنے لگے اور اعلی کلمہ حق سے نہیں ہچکچاتے تھے اور آپ کی اس طرز ادا کی وجہ سے لوگوں کو حوصلہ ملا اور مجبور و  پریشان آپ کے سامنے پیش کرتے تھے اور آپ اپنے خطبات میں بیان کرتے تھے مگر ان مسائل کو کسی خاص طریقے سے اٹھانا چاہئے تھامگر اکثر ایسا نہیں ہوتا تھا اور اس طرح کے بیانات کے بعد مسائل میں روزانہ اضافہ ہو جاتا تھا چونکہ مقامی انتظامیہ اور اس کے اداروں میں ہونے والی یکطرفہ زیادتیوں کو ہدف تنقید بناتے تھے اس لئے وہ ضد میں آکر ان مشکلات میں اضافہ کر دیتے تھے پھر بھی خود مختار اور جانبدار انتظامیہ اور اس کے انتظامی اداروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا <ref>ایضا، ص141</ref>۔
== تحریک نصاب ==
28 مئی 2004 کو عبوری صدرا انجمن امامیہ گلگت اور خطیب جامع مسجد امامی دنیور نے شاہراہ ریشم کے چوراہے پر عوام کے سامنے یہ اعلان کیا کہ ۳ جون سے احتجاج ہوگا اور سر پر کفن باندھ کر میدان عمل میں آنا ہے اور تخت یا تختہ ہوگا۔ ہر دور میں ملت شیعہ کے ساتھ ان چودہ سو سالوں کے دوران نا انصافی اور ظلم ہوتا آیا ہے اور ان مظالم سے مقابلہ کے لئے ائمہ معصومین کی سیرت اور ثقافت جعفریہ نے ہمیں ایک جامع اور واضح عمل پالیسی دی ہوئی ہے اس پالیسی کے مطابق عمل کرنے میں دو جہاں کی کامیابی و کامرانی یقینی ہے اور پورے پاکستان میں بھی مسئلہ اصلاح نصاب کے حوالے سے تحریکیں چلیں ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ چلتا رہیگا اور خاص بات ملت کو سنبھالا دینے کی خاطر صالح اور دانشمند قیادت کی زندگی کی بقاء سب امور سے اہم ہوتی ہے اور اپنے مقصد سے مخلص قیادت ہی اس جانب توجہ کرتی ہے اور مذہبی قیادت کی پالیسی فقط [[قرآن]] وسنت کی روشن اصولوں کے مطابق ہوتی ہے اور مجھے مسئلہ اصلاح نصاب کے مقابلے میں آغا سید ضیاء الدین رضوی کی حرمت اور زندگی کی فکر تھی اس دوران ہمدرد لوگوں نے بھی صرف دعا پر گزارہ کیا۔
== گرفتاری ==
چنانچہ 3 جون 2004ء کی صبح نمودار ہوئی اور گلگت کے بلند و بالا پہاڑوں کے آوٹ سے سورج طلوع ہوا تو بگروٹ جلال آباد، اوشکھنداس، جوتل، جگلوٹ، رحیم آباد، نومل، نلتر اور دنیور سے کم از کم چار سے پانچ ہزار بچے جوان اور بوڑھے چائںا  پل دنیور میں جمع ہوئے اور غیر منظم انداز میں گلگت شہر میں داخل ہو کر کرفیو اور آغا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح دس بجے صبح جلال آباد سے حاجی شاہ مرزہ صاحب اور حاجی غلام نبی وفا کی طرف سے ٹیلیفون پر یہ پیغام ملا کہ آپ جا کر حالات سے ہمیں باخبر رکھیں اس لئے میں دنیور چوک پہنچا تو اطلاع ملی کی ریڈیو پاکستان کی گاڑی کو آگ لگا دی گئی ہے۔
== تحريك نصاب کا پس منظر ==
مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مکتب [[اہل بیت]] کی ترویج اور ثقافت جعفریہ کی بقاء کی خاطر ربانی علماء نے ہر طرح کے جتن کئے ہیں چنانچہ 1963ء کے دوران [[سید محمد دہلوی]]  نے ثقافت جعفریہ کے خلاف ہونے والے واقعات کے پیش نظر علماء اور دانشمندان ملت کے مشورے سے شیعہ مطالبات کمیٹی پاکستان کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس کے چار نکات تھے مکتب تشیع کے لئے جدا گانہ نصاب تعلیم کی تدوین، زکواۃ وعشر کا مکتبی ادائیگی، جدا شیعہ اوقاف بورڈ کی تشکیل، اور تحفظ [[عزاداری|عزاداری سید الشہداء]] کی حکومتی ضمانت تھی انی چار نکات پر بھر پور انداز میں منظم طور پر تحریک چلائی گئی کراچی سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سے گلگت و بلتستان تک یہ منتظم تحریک چلی اس حوالے سے 1965ء کے دوران احتجاج ہوا راقم نے ایک طالب علم کی حیثیت سے لاہور مال روڈ پر اس احتجاج میں شرکت کی تھی پس قومی وحدت کے ساتھ یہ تحریک چلی اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے ملت شیعہ کے یہ سب مطالبات تسلیم کئے تھے اور ان کے حل کی خاطر سر کار سطح پر کام ہورہا تھا زکواۃ و عشر کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ کراچی بورڈ میں الک نصاب تعلیم کا اجراء بھی ہوا تھا اس دوران علامہ سید محمد دہلوی کا انتقال ہوا اور ایک سال کے اندر مطلو به نصاب تعلیم پنجاب ٹکسٹ بک بورڈ لاہور نے چھاپ کر شائع کیا اسی طرح حسب دستور چار سال بعد جناب محمد نواز شریف کے دور حکومت میں مزکورہ نصاب سب کے لئے ختم کر کے ترجمہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے علاوہ معروضی سوالات کے ساتھ اسلامیات لازمی کا نیا نصاب منظر عام پر لایا گیا تھا اور آج تک اسلامیات کا وہی نصاب تعلیم رائج ہے۔ خطئہ بے آئین شمالی علاقہ جات گلگت میں چلائی گئی تحریک نصاب تعلیم کے دوران پانچ جون 2004 ء کو باہم طے پانے والا نام نہاد معاہدہ کہاں گیا اور آج چار سال کی مدت پوری ہوئی ہے مگر سر پر کفن بھاند کر میدان عمل میں آنے والے تختہ کی جگہ تخت پر آرام فرما ہیں اور شیعہ طلباء ایکشن کمیٹی بھی نام کی رہ گئی ہے خدا ہم سب کی ہدایت کرے کیونکہ ہم نے پایا کچھ نہیں مگر بہت کچھ کھو دیا ہے پس پاکستان سے بے وفائی کے الزام اور بے گنا جوانوں کی شہادت کے علاوہ تاریخ گلگت کا دوسرا بڑا زخم آغا ضیاء الدین رضوی کی مظلومانہ شہادت ہے اور مکتب تشیع گلگت اس عظیم زخم کو ہمیشہ چاشتار ہے اشتار ہیگا۔ اب ضیاء الدین تنہا ہے۔
== شهادت کے عواقب و نتائج اور اثرات ==
چنانچہ 8 جنوری 2005ء کو دن کے سوا بارہ بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس حملے میں آپکا جان نثار ڈرائیور حسین اکبر شہید ہوا اور دہشت گردوں میں سے ایک قاتل کو ایک جانثار نے وہی گولی مار دی اس قاتلانہ حملے میں آپ کا ایک جان نثار محافظ تنور حسین بھی شدید زخمی ہوا لوگوں نے آغا ضیاء الدین رضوی اور آپ کے محافظ کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال گلگت پہنچا دیا اور اس بدترین ریاستی دہشت گردی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح گلگت اور اس کے اطراف میں پھیل گئی۔ بد قسمتی سے 8 جنوری کی دہشت گردی کے سانحہ کے موقعہ پر راقم گلگت میں جناب سید جعفر شاہ صاحب ایڈوکیٹ کے چیمبر میں بیٹھا ہوا تھا اور اس لرز خیز خبر کے سنتے ہی ہم لوگ ہسپتال کی طرف دوڑ گئے اور ہستپال کے باہر لوگوں کا جمع غفیر موجود تھا جذبات سے بھرے عقیدت مندوں کی آہ بکاء قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا حالات خراب ہوئے تو فوراً کرفیو لگا دیا گیا اور راقم بھی دس جنوری تک گلگت میں پھنسا رہا اور دس تاریخ کی رات کے بارہ بجے جناب حاجی صفدر علی صاحب کی توسط سے مجسٹریٹ اور پولیس موبائل مجھے دنیور چھوڑ گئے اس دوران زخمی آغا اور محافظ تنویر حسین کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی بنایا گیا چونکہ یہ خالق کا منشا تھا کہ ان شہیدوں کی روح سرزمین راولپنڈی میں قبض ہو چنانچہ 13 جنوری 2005 ، بروز جمعرات،  رات کے تین بجے آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے میری تحقیق کے مطابق تنویر حسین کی شہادت تک آپ کی شہادت کو چھپایا گیا تھا ہم لوگوں نے اپنے رب سے دست بستہ ہو کر گڑھ گڑھا کر آغا کی زندگی کے لئے دعائیں مانگی تھی مگر آپ کی تمناء شہادت ہماری سلامتی کی دعاؤں پر حاوی ہوئی چنانچہ پاکستان ٹیلیویژن کے مختلف چینلز نے اچھا تک آپ کی شہادت کی دل ہلا دینے والی خبر نشر کیا اور اس اعلان غم کے بعد شمالی علاقہ جات گلگت کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی اور ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ زار و قطار رو رہے تھے اس دوران گلگت مرکز کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ دونوں شہیداء کے جنازے دنیور لائے جائنگے اور دنیور جامع مسجد امامیہ میں نماز جنازہ ہوگی اس کے بعد گلگت میں تدفین عمل میں لائی جائیگی اس غیر متوقع اطلاع کے بعد مومنین دنیور نے خلوص عقیدت کے ساتھ دو عدد خصوصی صندوق راتوں رات تیار کرا کر ملٹری ہیلی پیڈ گلگت بیچ دیا تا کہ ان دونوں شہداء کے جنازے دنیور لائے جائیں چنانچہ جوانوں نے جامع مسجد امامیہ دنیور کے صحن کے علاوہ ملحقہ شاہراہ ریشم کو بھی باوجود یخ بستہ سردی کے پانی سے دھو کر صاف کر کے اطراف میں عود و عنبر کے دھویں سے معطر کر دیا تھا اس طرح آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شہادت کے بعد بھی لوگوں نے بھرپور عقیدت مندی کا خاص مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دنیور میں نماز جنازہ کی خبر سن کر حلقہ3 کے علاوہ نومل، نلتر، نگر اور ہنزہ سے بھی عقیدت مند جامع مسجد امامیہ دنیور میں حاضر ہوئے تھے جمعے کا دن تھا راقم نے نماز جمعہ کی امامت کرائی اور نماز جمعہ کے بعد تین دن احتجاجی شٹر ڈاؤں سات دن مجالس عزا الشہید امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور چالیس دن عام سوگ کا اعلان کیا اور اسی طرح غم واندوہ کے ساتھ انتظار میں تھے پس ایک پس پردہ حالات بدل گئے اور دوبارہ اطلاع دی گئی کہ نماز جنازہ گلگت میں ہوگی اور لوگوں کے لئے سواریوں کا بندوبست بھی ہوگا لہذا سب لوگ جامع مسجد امامیہ گلگت آئیں اس ادل بدل کے پس پردہ کچھ محرکات تھے اور اس ہنگامہ محشر میں یہ ایک عجیب اعلان تھا کیونکہ گلگت شہر میں سخت کرفیو تھا میں نے خود چائنا پل دنیور سے تحصیل چوک گلگت تک آرمی رینجرز ایف سی اور پولیس کے 19 چیک پوسٹ دیکھے تھے اس ہنگامہ خیز موقعہ پر حکومت جانے بھی نہ دیتی اور لوگوں کا خالی ہاتھ بلانا بھی غلط تھا چنانچہ اس غیر منطقی اعلان کے بعد راقم عزیزم مولانا میر عباس مصطفوی سے ناراض ہوا اور صدر انجمن امامیہ گلگت سے رابطہ کرکے بہت سخت ناراض ہو کر کہا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ آپ لوگ عقیدت مندوں اور شہداء کے جنازوں سے مزاق کر رہے ہو کل رات سے آج بارہ بجے تک دنیور میں نماز جنازے کا پروگرام تھا مگر عین موقعہ پر پروگرام کو اچانک تبدیل کرنا بڑی زیادتی ہے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے چنانچہ میری اس خطی پر صدر موصوف نے کہا کہ گلگت غسل و تکفین کے بعد آغا شہید کا جنازہ دنیور لانا مناسب نہ تھا چونکہ عقیدت تدوں کا غم و غصہ اور آہ و بکا اپنے عروج پر تھا اس بے محل اعلان کے بعد لوگ گلگت انے کے لئے بے تاب تھے اس لئے کچھ لوگ اپنی سواریوں میں بیٹھ کر گلگت کی لئے شاہراہ ریشم پر نکل چکے تھے اور دو گنا سے زیادہ لوگ پریشان حال صرف جانے کے لئے جامع مسجد دنیور اور سٹرکوں پر کھڑے تھے چنانچہ ہم لوگوں نے روانہ ہونے والوں کا راستہ روک کر حالات کی نزاکت کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم لوگوں سے اس کوشش کی، عقیدت مند لوگ مان گئے اور غم و غصہ اور اظہار بیزاری کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے لگے مگر علماء کرام اور نمائندہ معززین کو کرفیو انتظامیہ کی خصوصی اجازت پر نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا گیا اسی طرح راقم ان انتظامی مسائل میں پھنس کر شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اس کے علاوہ گلگت کے مخدوش حالات کی وجہ سے حلقہ نمبر 3 نگر و ہنزہ سے لوگ آکر ظہار تعزیت کرتے تھے چنانچہ مجالس ترحیم کا سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں جاری رہا اور تیسرے دن شہید ضیاء الدین رضوی اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے ام نیاز و خیرات کا اہتمام کیا گیا اور اس خیرات میں دنیور کے اسماعیلیہ کونسل کی طرف سے بھی حصہ ڈالا گیا ۔ اور اس سوئم کی نیاز میں بڑی تعداد میں شریک ہو کر ہمیں حوصلہ دیا چنانچہ اس غم واندوہ کی کٹھن  موقع پر نہایت خلوص کے ساتھ شرکت ما تعاون نے ہمارے دکھوں کو کم کرنے میں مدد دیا میں حلقہ نمبر ۳ کے اسماعیلی برادری اور ان کے مذہبی نمائندوں کی طرف سے جس خلوص و ہمدردی کے ساتھ مکتب شیعہ اثنا عشری اور شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے خاندان سے تعزیت و تسلیت پر میں اپنی طرف سے اور شہید کے خاندان کی طرف سے اور ملت شیعہ اثنا عشریہ کی طرف سے اس تحریر کے توسط سے انکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحہ فاجعہ میں ہمارے دکھ درد اور غم والم میں برابر کے شریک ہوئے <ref>ایضا، ص165</ref>۔
confirmed
2,364

ترامیم