"سید روح اللہ موسوی خمینی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 239: سطر 239:
تیسراعنصر جوامام کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا وہ نظم ونسق کا عنصر تھا یہی وجہ تھی کہ انقلاب کی کا میابی سے قبل ہی امام نے حکومت کا تعین کردیاتھا -
تیسراعنصر جوامام کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا وہ نظم ونسق کا عنصر تھا یہی وجہ تھی کہ انقلاب کی کا میابی سے قبل ہی امام نے حکومت کا تعین کردیاتھا -
چوتھا بنیادی عنصرجسے امام نے اسلامی جمھوری نظام کی بنیاد قراردیا اوربحمد اللہ جس کی وجہ سے یہ نظام باقی ہے وہ دشمن کے مقابلے میں استقامت اورتسلط کوقبول نہ کرناہے۔ امام نے ایک لمحے کے لئے بھی دشمن کے مکروحیلے سے خود کوغافل نہیں رکھا اورنہ حکام کو غافل ہونے دیا <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقدکے زائرین سے خطاب سے اقتباس 2001-6-4</ref>۔
چوتھا بنیادی عنصرجسے امام نے اسلامی جمھوری نظام کی بنیاد قراردیا اوربحمد اللہ جس کی وجہ سے یہ نظام باقی ہے وہ دشمن کے مقابلے میں استقامت اورتسلط کوقبول نہ کرناہے۔ امام نے ایک لمحے کے لئے بھی دشمن کے مکروحیلے سے خود کوغافل نہیں رکھا اورنہ حکام کو غافل ہونے دیا <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقدکے زائرین سے خطاب سے اقتباس 2001-6-4</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا بے مثال فن ===
=== آپ کا بے کارنامہ ===
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا کارنامہ اور ہنر قوم کی مدد سے اپنی تحریک کے ذریعے اس سیاسی نظام کاخاتمہ کرنا تھا جو ایک بے ضمیر اور پٹھو شاہی نظام تھا وہ ایک ایسا نظام تھا جس کے حکام اورعہدیداروں کو نہ تو قوم کے جوانوں کے مستقبل کی کوئي فکر تھی نہ ہی ملک کی خود مختاری سے کوئي دلچسپی۔ رفاہ عامہ کے امور تو ان کے نزدیک درخور اعتنا ہی نہیں تھے۔ ملک کا نظم و نسق ایسا تھا کہ اسے نظم و نسق کا نام دینا مناسب نہیں جبکہ یہ وہ نظم و نسق تھا جس کی تھئوری دوسرے ملکوں سے درآمد کی گئي تھی یہ ایک خالص ڈکٹیٹرشپ اورآمرانہ نظام تھا ۔ ایسا نظام جومختلف عناوین اورگوناگوں روشوں سے کہ جن میں سے کوئی بھی روش عوا م کے عزم وارادے کی آئینہ دارنہ تھی اورکوئی بھی روش ملک کے مفاد میں بھی نہ تھی ،چلایاجارہاتھا ۔
آپ کا ایک بڑا کارنامہ اور ہنر قوم کی مدد سے اپنی تحریک کے ذریعے اس سیاسی نظام کاخاتمہ کرنا تھا جو ایک بے ضمیر اور پٹھو شاہی نظام تھا وہ ایک ایسا نظام تھا جس کے حکام اورعہدیداروں کو نہ تو قوم کے جوانوں کے مستقبل کی کوئي فکر تھی نہ ہی ملک کی خود مختاری سے کوئي دلچسپی۔ رفاہ عامہ کے امور تو ان کے نزدیک درخور اعتنا ہی نہیں تھے۔ ملک کا نظم و نسق ایسا تھا کہ اسے نظم و نسق کا نام دینا مناسب نہیں جبکہ یہ وہ نظم و نسق تھا جس کی تھئوری دوسرے ملکوں سے درآمد کی گئي تھی یہ ایک خالص ڈکٹیٹرشپ اورآمرانہ نظام تھا ۔ ایسا نظام جومختلف عناوین اورگوناگوں روشوں سے کہ جن میں سے کوئی بھی روش عوا م کے عزم وارادے کی آئینہ دارنہ تھی اورکوئی بھی روش ملک کے مفاد میں بھی نہ تھی ،چلایاجارہاتھا ۔
انقلاب سے قبل اس وابستہ اور پٹھو نظام میں جوبالکل ناکارہ تھا عوام برائیوں اور بے راہ روی میں گھرے ہوئے تھے یا دوسرے لفظوں میں اور بہترانداز میں کہا جائے کہ عوام کواخلاقی برائیوں بے راہ روی اورخود فریبی وبے ایمانی کی ترغیب دلائی جاتی تھی ۔ یعنی عوام کواس راستے پر لگایا جاتا تھا کہ روز بروز ملک میں بے ایمانی بدعنوانی اوربرائی کا دور دورہ رہے اورلوگ حقیقی ایمان سے بے بہرہ ہو کر رہ جائیں اوربے راہ روی واخلاقی برائیوں میں گھرتے چلے جائیں اغیارکے مقابلے میں احساس کمتری میں اضافہ ہوتا جائے، ملک میں ثقافتی اوراقتصادی خود مختاری کا کوئي مفہوم ہی نہ رہ جائے ۔ اس فاسد و ناکارہ نظام کی بنیادی تصویر یہی تھی - اس صورت حال میں امام خمینی (رہ)کا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ اس فاسد نظام کی جگہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں عوام سے تغافل کے بجائے ان سے محبت اورعشق کیاجانے لگا۔ قوم کی تقدیر سے لاپروائی کے بجائے ان کی تقدیرو مستقبل پرسب سے زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ عوام اورجوانوں کے مستقبل کو نصب العین قرار دیا گیا۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں عوام کے اندر احساس کمتری کے بجائے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ سیاسی، سماج، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں غیروں کی تقلید کرنے کے بجائے خلاقیت اور مقامی تعمیری صلاحیتوں کا مظاہر کیا گیا <ref>امام خمینی کے مرقد پر زائرین کے پرشکوہ اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1997-6-4</ref>۔
انقلاب سے قبل اس وابستہ اور پٹھو نظام میں جوبالکل ناکارہ تھا عوام برائیوں اور بے راہ روی میں گھرے ہوئے تھے یا دوسرے لفظوں میں اور بہترانداز میں کہا جائے کہ عوام کواخلاقی برائیوں بے راہ روی اورخود فریبی وبے ایمانی کی ترغیب دلائی جاتی تھی ۔ یعنی عوام کواس راستے پر لگایا جاتا تھا کہ روز بروز ملک میں بے ایمانی بدعنوانی اوربرائی کا دور دورہ رہے اورلوگ حقیقی ایمان سے بے بہرہ ہو کر رہ جائیں اوربے راہ روی واخلاقی برائیوں میں گھرتے چلے جائیں اغیارکے مقابلے میں احساس کمتری میں اضافہ ہوتا جائے، ملک میں ثقافتی اوراقتصادی خود مختاری کا کوئي مفہوم ہی نہ رہ جائے ۔ اس فاسد و ناکارہ نظام کی بنیادی تصویر یہی تھی - اس صورت حال میں امام خمینی (رہ)کا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ اس فاسد نظام کی جگہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں عوام سے تغافل کے بجائے ان سے محبت اورعشق کیاجانے لگا۔ قوم کی تقدیر سے لاپروائی کے بجائے ان کی تقدیرو مستقبل پرسب سے زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ عوام اورجوانوں کے مستقبل کو نصب العین قرار دیا گیا۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں عوام کے اندر احساس کمتری کے بجائے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ سیاسی، سماج، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں غیروں کی تقلید کرنے کے بجائے خلاقیت اور مقامی تعمیری صلاحیتوں کا مظاہر کیا گیا <ref>امام خمینی کے مرقد پر زائرین کے پرشکوہ اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1997-6-4</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد ===
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد ===
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد تھے اس عظیم انسان نے انقلاب کا خاکہ کھینچنے اوراس انقلاب کی بنیادپر ایک نئے سیاسی نظام یعنی اسلامی جمھوریہ کی تشکیل میں پرودگار عالم کے فضل و کرم اور ہدایت الہی سے ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبروں اورسرچشمہ غیب سے متصل بندگان خدا کی روش تھی ۔ یہ اس لئے ہے کہ امام قرآن سے خاص انس رکھتے تھے اور مکتب قرآن کے قابل فخر شاگرد تھے جب بھی کوئي موقع آیا آپ نے قرآن سے مدد لی۔ آپ قرآن کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے تھے ۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد تھے اس عظیم انسان نے انقلاب کا خاکہ کھینچنے اوراس انقلاب کی بنیادپر ایک نئے سیاسی نظام یعنی اسلامی جمھوریہ کی تشکیل میں پرودگار عالم کے فضل و کرم اور ہدایت الہی سے ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبروں اورسرچشمہ غیب سے متصل بندگان خدا کی روش تھی ۔ یہ اس لئے ہے کہ امام قرآن سے خاص انس رکھتے تھے اور مکتب قرآن کے قابل فخر شاگرد تھے جب بھی کوئي موقع آیا آپ نے قرآن سے مدد لی۔ آپ قرآن کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے تھے ۔
confirmed
2,360

ترامیم