"سید روح اللہ موسوی خمینی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 137: سطر 137:
== زندگی کا چوتھا دور (1340 تا 1368) ==
== زندگی کا چوتھا دور (1340 تا 1368) ==
=== مرجعیت ===
=== مرجعیت ===
یہ دور آیت اللہ بروجردی کی وفات (10 اپریل 1340) کے ساتھ مربوط ہے۔ اس وقت علمائے کرام اور اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے حاج آغا روح اللہ سے اصرار کیا کہ ان کا رسالہ عملیہ( توضیح المسائل) شائع کیا جائے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کا فتویٰ سید ابوالحسن اصفہانی کی کتاب وسیلۂ النجاۂ اور العروۃ الوثقی پر حاشیہ سے حاصل کیا گیا۔  آیت اللہ حکیم کی وفات (134ھ) تک لوگوں کا ایک حصہ آیت اللہ حاج آغا روح اللہ موسوی خمینی کی تقلید کرنے والا بن گیا۔
یہ دور آیت اللہ بروجردی کی وفات (10 اپریل 1340) کے ساتھ مربوط ہے۔ اس وقت علمائے کرام اور اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے حاج آغا روح اللہ سے اصرار کیا کہ ان کا رسالہ عملیہ( توضیح المسائل) شائع کیا جائے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کا فتویٰ سید ابوالحسن اصفہانی کی کتاب '''وسیلۂ النجاۂ''' اور '''عروۃ الوثقی''' پر حاشیہ سے حاصل کیا گیا۔  آیت اللہ حکیم کی وفات (134ھ) تک لوگوں کا ایک حصہ آیت اللہ حاج آغا روح اللہ موسوی خمینی کی تقلید کرنے والا بن گیا۔
=== 15 خرداد کا قیام ===
=== 15 خرداد کا قیام ===
یہ دور ایران اور اسلام کے دشمنوں کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے کا آغاز تھا۔ اسی وقت جب ملک کے معاملات پر امریکہ کا غلبہ تھا، حکومت پر امریکی اصلاحات کے نفاذ کے لیے دباؤ بڑھتا گیا اور یہ زمینی اصلاحات اور ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کی صورت میں سامنے آیا جس میں بظاہر فریب نظر آیا۔ لیکن اندر سے یہ ایک منحوس اتحاد کا اعلان کر رہا تھا اور ملک کے تمام معاملات پر امریکہ، [[اسرائیل]] اور ان کے ایجنٹوں کو تسلط فراہم کر رہا تھا۔ اس وقت حضرت آیت اللہ حاج آغا روح اللہ خمینی امریکی اصلاحات کے خلاف سختی سے کھڑے ہوئے اور شاہ کی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 2 اپریل 1342 کو [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی شہادت کے موقع پر مدرسہ فیضیہ پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد حاج آغا روح اللہ نے نجف اور قم کے عوام اور علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج خاموشی ظالم نظام کے ساتھ تعاون اور ہمکاری ہے اور شاہ دوستی کے عنوان سے اپنے مشہور اعلامیہ میں کہا: یعنی لوٹ مار اور اپنی جدوجہد کی سمت کا تعین کیا۔ آپ کے پیغام اور کلام کے لوگوں کے ذہنوں پر جو حیرت انگیز اثر ہوا، اس کا راز شہادت کی حد تک جا پہنچا، اس کا راز ان کی فکر کی اصلیت، قول کی پختگی اور ان کے ساتھ بے مثال دیانت میں تلاش کرنا چاہیے۔
یہ دور ایران اور اسلام کے دشمنوں کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے کا آغاز تھا۔ اسی وقت جب ملک کے معاملات پر امریکہ کا غلبہ تھا، حکومت پر امریکی اصلاحات کے نفاذ کے لیے دباؤ بڑھتا گیا اور یہ زمینی اصلاحات اور ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کی صورت میں سامنے آیا جس میں بظاہر فریب نظر آیا۔ لیکن اندر سے یہ ایک منحوس اتحاد کا اعلان کر رہا تھا اور ملک کے تمام معاملات پر امریکہ، [[اسرائیل]] اور ان کے ایجنٹوں کو تسلط فراہم کر رہا تھا۔ اس وقت حضرت آیت اللہ حاج آغا روح اللہ خمینی امریکی اصلاحات کے خلاف سختی سے کھڑے ہوئے اور شاہ کی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 2 اپریل 1342 کو [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی شہادت کے موقع پر مدرسہ فیضیہ پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد حاج آغا روح اللہ نے نجف اور قم کے عوام اور علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج خاموشی ظالم نظام کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کے مترادف ہے اور شاہ دوستی کے عنوان سے اپنے مشہور اعلامیہ میں کہا: یعنی لوٹ مار اور اپنی جدوجہد کی سمت کا تعین کیا۔ آپ کے پیغام اور کلام کے لوگوں کے ذہنوں پر جو حیرت انگیز اثر ہوا، اس کا راز شہادت کی حد تک جا پہنچا، اس کا راز ان کی فکر کی اصلیت، قول کی پختگی اور ان کے ساتھ بے مثال دیانت میں تلاش کرنا چاہیے۔
آیت اللہ خمینی نے سانحہ فیضیہ کی 40ویں برسی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں انکشاف کیا: انہوں نے 13 جون 1342 کو مدرسہ فیضیہ  میں اپنی تاریخی تقریر کی، بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا،  اے شاہ صاحب! اے بادشاہ! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں؛ یہ باتیں کرنا چھوڑ دیں۔ وہ آپ کو خواب غقلت ڈال رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اگر ہر کوئی ایک دن آپ چلے جائیں تو سب شکریہ ادا کریں۔ بادشاہ نے اس کی چیخ کو خاموش کرنے کا حکم دیا۔ 14 جون کی شام کو آیت اللہ خمینی کو گرفتار کر کے قصر جیل لے جایا گیا۔
آیت اللہ خمینی نے سانحہ فیضیہ کی 40ویں برسی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں انکشاف کیا: انہوں نے 13 جون 1342 کو مدرسہ فیضیہ  میں اپنی تاریخی تقریر کی، بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا،  اے شاہ صاحب! اے بادشاہ! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں؛ یہ باتیں چھوڑ دیں۔ وہ آپ کو خواب غقلت میں ڈال رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اگر ہر کوئی ایک دن آپ چلے جائیں تو سب شکر ادا کریں۔ بادشاہ نے اس کی پکار کو خاموش کرنے کا حکم دیا۔ 14 جون کی شام کو آیت اللہ خمینی کو گرفتار کر کے قصر جیل لے جایا گیا۔
15تاریخ کی صبح ان کی گرفتاری کی خبر تہران اور دیگر شہروں تک پہنچ گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور موت یا خمینی کے نعرے لگاتے ہوئے شاہ کے محل کی طرف مارچ کیا۔ بغاوت کو سختی سے دبا دیا گیا اور خون خرابہ ہوا۔ حکومت نے مقدمے کے بعد اسے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک اعلامیہ شائع ہوا جس پر علماء اور حکام نے دستخط کیے، جس میں انہوں نے واضح طور پر اس کے مرجعیت کی تصدیق کی اور اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ آخر کار بہت سے احتجاج کے بعد دس ماہ کی قید و نگہداشت کے بعد 19 اپریل 1343 کی صبح حاج آغا روح اللہ کو واپس قم پہنچایا گیا۔ 15 خرداد 1342 علی الظاہر کی بغاوت جوش و خروش سے گری۔ لیکن کیپٹلیشن بل (امریکی ملازمین کو عدالتی استثنیٰ) کی منظوری کے خلاف اس کے انکشاف نے نومبر 2014 میں ایران کو ایک اور بغاوت کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ حاج آغا روح اللہ نے 4 نومبر 1343 کو ایک انقلابی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ دنیا جان لے کہ ہر وہ مسئلہ جس کا ایران اور مسلمان اقوام کو سامنا ہے اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔اسلام کی قومیں بالعموم اغیار سے نفرت کرتی ہیں اور امریکہ سے بالخصوص... امریکہ ہی وہ ہے جو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حمایت کرتا ہے... انہوں نے اسے 13 نومبر 1343 کو فجر کے وقت گرفتار کر کے ایک فوجی طیارے میں ترکی منتقل کیا اور پھر اس کے بعد۔ ایک سال عراق (نجف) میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی نجف منتقلی اس مقصد کے لیے تھی کہ ان کے کردار کو نجف کے عظیم علاقے کے دیگر علمائے کرام کی طرف سے زیر کیا جائے۔ لیکن وہ اس ہزار سال کے فقہی آسمان پر ایک چمکتا ہوا ستارہ بن گیا اور اس شہر کے علماء میں ان کا احترام کیا گیا۔
15تاریخ کی صبح ان کی گرفتاری کی خبر تہران اور دیگر شہروں تک پہنچ گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور موت یا خمینی کے نعرے لگاتے ہوئے شاہ کے محل کی طرف مارچ کیا۔ بغاوت کو سختی سے دبا دیا گیا اور خون خرابہ ہوا۔ حکومت نے مقدمے کے بعد اسے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک اعلامیہ شائع ہوا جس پر علماء اور حکام نے دستخط کیے، جس میں انہوں نے واضح طور پر ان کی مرجعیت کی تصدیق کی اور اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ آخر کار بہت سے احتجاج کے بعد دس ماہ کی قید و نگہداشت کے بعد 19 اپریل 1343 کی صبح حاج آغا روح اللہ کو واپس قم پہنچایا گیا۔ 15 خرداد 1342 علی الظاہر قیام جوش و خروش سے گری۔ لیکن کیپٹلیشن بل (امریکی ملازمین کو عدالتی استثنیٰ) کی منظوری کے خلاف اس کے انکشاف نے نومبر 2014 میں ایران کو ایک اور بغاوت کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ حاج آغا روح اللہ نے 4 نومبر 1343 کو ایک انقلابی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ دنیا جان لے کہ ہر وہ مسئلہ جس کا ایران اور مسلمان اقوام کو سامنا ہے اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔اسلام کی قومیں بالعموم اغیار سے نفرت کرتی ہیں اور امریکہ سے بالخصوص نفرت کرتی ہیں... امریکہ ہی وہ ہے جو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حمایت کرتا ہے... حکومت ان کو 13 نومبر 1343 کو فجر کے وقت گرفتار کر کے ایک فوجی طیارے میں ترکی منتقل کیا اور پھر اس کے بعد۔ ایک سال عراق (نجف) میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی نجف منتقلی اس مقصد کے لیے تھی کہ ان کے کردار کو نجف کے عظیم علاقے کے دیگر علمائے کرام کی طرف سے زیر کیا جائے۔ لیکن وہ اس ہزار سال کے فقہی آسمان پر ایک چمکتا ہوا ستارہ بن گیا اور اس شہر کے علماء میں ان کا احترام کیا گیا۔
=== نجف میں قیام ===  
=== نجف میں قیام ===  
نجف میں، انہوں نے 1344 میں شیخ انصاری مسجد میں اپنا درس خارج فقہ شروع کیا، جو اس میدان میں سب سے زیادہ مفید دروس میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی کتاب اسلامی حکومت یا ولایت فقیہ بھی اس دور کے درس خارج فقہ  کے دروس میں سے ایک متن ہے۔ آپ نے ہمیشہ ایران کے واقعات کی آگاہ رہتے تھے اور شاہ کی حکومت کے خلاف انقلابی موقف اپنایا۔ نیز نجف میں اپنی جلاوطنی کے تیرہ سال کے دوران حاج آغا روح اللہ نے بہت سے طلباء کی تربیت کی جو انقلاب اسلامی ایران کے مضبوط ستون بنے۔ نجف پہنچنے کے بعد سے انہوں نے ایران کو خطوط اور پیغامات بھیج کر مبارزین کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھا اور انہیں ہر موقع پر قیام کے مقاصد کے حصول میں ثابت قدم رہنے کی دعوت دی۔ حکومت کے ثقافتی، سماجی، اقتصادی، فوجی اور سیاسی پروگراموں کے خلاف ان کا شدید ردعمل، جیسے: 2500 سالہ شاہی تقریبات، شیراز آرٹ فیسٹیول، رستاخیز کی پارٹی آمریت، ہجرت کے آغاز سے ملک کی سرکاری تاریخ کو تبدیل کرنا۔ پیغمبر اسلام کی ہخامنشی بادشاہوں کے دور کے آغاز تک، غرباء کی معیشت  کی تباہی اور حلبیوں کی  آباد کاری، مغرب سے فوجی ہتھیاروں کی اندھا دھند خریداری، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مقاصد کے مطابق ایران کی نقل و حرکت۔، اور سیاسی قیام کو دبانے نے جدوجہد کی آگ کو گرم رکھا۔
نجف میں، انہوں نے 1344 میں شیخ انصاری مسجد میں اپنا درس خارج فقہ شروع کیا، جو اس میدان میں سب سے زیادہ مفید دروس میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی کتاب اسلامی حکومت یا ولایت فقیہ بھی اس دور کے درس خارج فقہ  کے دروس میں سے ایک متن ہے۔ آپ نے ہمیشہ ایران کے واقعات کی آگاہ رہتے تھے اور شاہ کی حکومت کے خلاف انقلابی موقف اپنایا۔ نیز نجف میں اپنی جلاوطنی کے تیرہ سال کے دوران حاج آغا روح اللہ نے بہت سے طلباء کی تربیت کی جو انقلاب اسلامی ایران کے مضبوط ستون بنے۔ نجف پہنچنے کے بعد سے انہوں نے ایران کو خطوط اور پیغامات بھیج کر مبارزین کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھا اور انہیں ہر موقع پر قیام کے مقاصد کے حصول میں ثابت قدم رہنے کی دعوت دی۔ حکومت کے ثقافتی، سماجی، اقتصادی، فوجی اور سیاسی پروگراموں کے خلاف ان کا شدید ردعمل، جیسے: 2500 سالہ شاہی تقریبات، شیراز آرٹ فیسٹیول، رستاخیز کی پارٹی آمریت، ہجرت کے آغاز سے ملک کی سرکاری تاریخ کو تبدیل کرنا۔ پیغمبر اسلام کی ہخامنشی بادشاہوں کے دور کے آغاز تک، غرباء کی معیشت  کی تباہی اور حلبیوں کی  آباد کاری، مغرب سے فوجی ہتھیاروں کی اندھا دھند خریداری، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مقاصد کے مطابق ایران کی نقل و حرکت۔، اور سیاسی قیام کو دبانے نے جدوجہد کی آگ کو گرم رکھا۔
سطر 162: سطر 162:
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی رپورٹ کے مطابق ان کے بعد مادی اثاثوں میں سے کیا بچا تھا؟آئین کے آرٹیکل 142 کے مطابق وہ قائد اور اعلیٰ عہدہ داروں کی جائیداد کی جانچ پڑتال اور جانچ پڑتال کے پابند تھے۔ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں نظام، اور امام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جائیداد کی گوشوارہ 24 جنوری 1359 کو سپریم کورٹ کو بھیجی - جو اس طرح ہے: امام کی واحد غیر منقولہ جائیداد قم میں ان کا پرانا گھر تھا، جو 1343 میں ان کی جلاوطنی کے بعد سے تحریک کے مقاصد اور لوگوں کے اجتماع کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ گھر کی بنیادی چیزیں تھیں اور استعمال شدہ قالین کے دو ٹکڑے کسی کے نہیں ہیں اور ضرورت مند سادات کو دیے جائیں۔ اس کے پاس سے کوئی نقد رقم باقی نہیں رہی اور جو کچھ بچا ہے وہ رقم ہے جس پر ورثاء کا کوئی حق نہیں۔ اس طرح تقریباً نوے سال زندہ رہنے والے اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے آدمی کے باقی ماندہ اثاثے شیشے، ناخن تراشے، کنگھی، مالا، قرآن، نمازی قالین، پگڑی، اس کے روحانی لباس اور مذہبی کتابیں تھے۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی رپورٹ کے مطابق ان کے بعد مادی اثاثوں میں سے کیا بچا تھا؟آئین کے آرٹیکل 142 کے مطابق وہ قائد اور اعلیٰ عہدہ داروں کی جائیداد کی جانچ پڑتال اور جانچ پڑتال کے پابند تھے۔ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں نظام، اور امام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جائیداد کی گوشوارہ 24 جنوری 1359 کو سپریم کورٹ کو بھیجی - جو اس طرح ہے: امام کی واحد غیر منقولہ جائیداد قم میں ان کا پرانا گھر تھا، جو 1343 میں ان کی جلاوطنی کے بعد سے تحریک کے مقاصد اور لوگوں کے اجتماع کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ گھر کی بنیادی چیزیں تھیں اور استعمال شدہ قالین کے دو ٹکڑے کسی کے نہیں ہیں اور ضرورت مند سادات کو دیے جائیں۔ اس کے پاس سے کوئی نقد رقم باقی نہیں رہی اور جو کچھ بچا ہے وہ رقم ہے جس پر ورثاء کا کوئی حق نہیں۔ اس طرح تقریباً نوے سال زندہ رہنے والے اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے آدمی کے باقی ماندہ اثاثے شیشے، ناخن تراشے، کنگھی، مالا، قرآن، نمازی قالین، پگڑی، اس کے روحانی لباس اور مذہبی کتابیں تھے۔
جنازے کی تقریب 16 جون کو لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئی اور اسی دن ان کی تدفین تہران کے بہشت زہرا میں کی گئی جہاں اب امام خمینی کا مزار ہے۔ وہ ایک پرسکون دل، ایک پراعتماد دل، ایک خوش روح، اور خُدا کے فضل کی امید رکھنے والے ضمیر کے ساتھ خُدا سے ملنے کے لیے دوڑا۔
جنازے کی تقریب 16 جون کو لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئی اور اسی دن ان کی تدفین تہران کے بہشت زہرا میں کی گئی جہاں اب امام خمینی کا مزار ہے۔ وہ ایک پرسکون دل، ایک پراعتماد دل، ایک خوش روح، اور خُدا کے فضل کی امید رکھنے والے ضمیر کے ساتھ خُدا سے ملنے کے لیے دوڑا۔
== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای ==
== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای ==
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بےمثال اور ممتاز خصوصیات کے مالک تھے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر جتنا ھم غور کرتے ہیں آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں اور بےمثال دکھائی دیتی ھے۔ اگرچہ آج انے فراق کا داغ ہمارے دلوں کو تڑپارہاہے اور غم کی سنگینی یمارے دلوں پر بوجھہ بنی ہوئی ہے انکے فقدان کا کہیں زیادہ احساس کررہاہوں
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بےمثال اور ممتاز خصوصیات کے مالک تھے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر جتنا ھم غور کرتے ہیں آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں اور بےمثال دکھائی دیتی ھے۔ اگرچہ آج انے فراق کا داغ ہمارے دلوں کو تڑپارہاہے اور غم کی سنگینی یمارے دلوں پر بوجھہ بنی ہوئی ہے انکے فقدان کا کہیں زیادہ احساس کررہاہوں
confirmed
2,360

ترامیم