"سید دلدار علی نقوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
 
(ایک ہی صارف کا 2 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 66: سطر 66:
=== ایران و عراق ===
=== ایران و عراق ===
پاک و ہند کے مدارس میں رائج درس نظامی کی کتب اور علوم عقلیہ میں ید طولی پیدا کرنے کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا :
پاک و ہند کے مدارس میں رائج درس نظامی کی کتب اور علوم عقلیہ میں ید طولی پیدا کرنے کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا :
آیت اللہ محمد باقر بہبہانی مشہور وحید بہبہانی:شیخ طوسی کی استبصار کا کچھ حصہ اور رسالۂ فوائد حائریہ دور حاضر کے مرجع آیت اللہ باقر محمد بہبہانی کے سامے قرآت کیا اور ان کے درس میں شریک ہوئے۔
آیت اللہ محمد باقر بہبہانی مشہور وحید بہبہانی:شیخ طوسی کی استبصار کا کچھ حصہ اور رسالۂ فوائد حائریہ دور حاضر کے مرجع آیت اللہ باقر محمد بہبہانی کے سامنے قرآت کیا اور ان کے درس میں شریک ہوئے۔


آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی: شرح مختصر نافع یعنی شرح کبیر کو آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی سے سنا۔
آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی: شرح مختصر نافع یعنی شرح کبیر کو آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی سے سنا۔
سطر 175: سطر 175:
حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے، ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا۔
حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے، ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا۔


لکھنؤ آکر علمائے فرنگی محل کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب شیعہ و سنّی ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے ۔ شیعوں کا اپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا ۔ حضرت غفران مآبؒ سے پہلے جو مدرسے ہندوستان میںسر گرم تھے ان میں اہل سنت و الجماعت علما تدریس فرماتے تھے۔ بعض شیعہ علما نے حالت تقیہ میں ان مدارس میں تدریس کی لیکن شیعوں کااپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا جہاں ان کی فقہ پڑھائی جاتی ہو۔اکثر شیعہ علماء اپنے گھروں پریا بادشاہوں کے محلوں اور رئیسوں کی ڈیوڑھیوں میں پڑھایا کرتے تھے ۔
لکھنؤ آکر علمائے فرنگی محل کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب شیعہ و سنّی ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے ۔ شیعوں کا اپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا ۔ حضرت غفران مآبؒ سے پہلے جو مدرسے ہندوستان میں سر گرم تھے ان میں اہل سنت و الجماعت علما تدریس فرماتے تھے۔ بعض شیعہ علما نے حالت تقیہ میں ان مدارس میں تدریس کی لیکن شیعوں کااپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا جہاں ان کی فقہ پڑھائی جاتی ہو۔اکثر شیعہ علماء اپنے گھروں پریا بادشاہوں کے محلوں اور رئیسوں کی ڈیوڑھیوں میں پڑھایا کرتے تھے ۔


دکن میں میر فتح اللہ شیرازی جیساعظیم عالم اور سائنس داں علی عادل شاہ کا اتالیق مقرر کیا گیا ،جن کی تعلیم و تربیت نے دکن میں انقلاب برپا کیا۔اسی طرح شیخ مبارک کا مدرسہ عہد اکبری میں خاصا گرم رہا ۔اس مدرسے کے پروردہ شیخ فیضی اور ابوالفضل جیسے دانشور تھے ۔اس کے بعد شیخ فیضی اور ابوالفضل نے امراء و روساء کے بچوں کی تربیت کی ،جس کے شواہد اس عہد کی تاریخ میں جابہ جا موجود ہیں ۔یہ تمام لوگ اپنے عہد میں تقیہ میں تھے اور برملا اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس بناپر یہ دعویٰ درست ہےکہ حضرت غفران مآب سے پہلے کسی شیعہ مدرسے کی بنیاد نہیں رکھی گئی ۔ ایسا مدرسہ جس میں معارف آل محمد کی تعلیم دی جاتی ہو۔ان سے پہلے درسی کتب میں بھی عمومیت تھی لہذا انہوں نے امامیہ عقاید و تعلیمات پر مبنی اپنا الگ نصاب ترتیب دیا ۔
دکن میں میر فتح اللہ شیرازی جیساعظیم عالم اور سائنس داں علی عادل شاہ کا اتالیق مقرر کیا گیا ،جن کی تعلیم و تربیت نے دکن میں انقلاب برپا کیا۔اسی طرح شیخ مبارک کا مدرسہ عہد اکبری میں خاصا گرم رہا ۔اس مدرسے کے پروردہ شیخ فیضی اور ابوالفضل جیسے دانشور تھے ۔اس کے بعد شیخ فیضی اور ابوالفضل نے امراء و روساء کے بچوں کی تربیت کی ،جس کے شواہد اس عہد کی تاریخ میں جابہ جا موجود ہیں ۔یہ تمام لوگ اپنے عہد میں تقیہ میں تھے اور برملا اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس بناپر یہ دعویٰ درست ہےکہ حضرت غفران مآب سے پہلے کسی شیعہ مدرسے کی بنیاد نہیں رکھی گئی ۔ ایسا مدرسہ جس میں معارف آل محمد کی تعلیم دی جاتی ہو۔ان سے پہلے درسی کتب میں بھی عمومیت تھی لہذا انہوں نے امامیہ عقاید و تعلیمات پر مبنی اپنا الگ نصاب ترتیب دیا ۔
سطر 219: سطر 219:
عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی۔ جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں  تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی۔
عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی۔ جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں  تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی۔
== علمی آثار ==
== علمی آثار ==
یوں تو آپ نے شروع سے ہی تحریری کی صورت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ اور دفاع کا کا کام شروع کر دیا تھا لیکن زیارات سے واپسی کے بعد آپکی تالیفات کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہوا۔ آپ کی تحریر خدمات میں درج ذیل کتابوں کے نام مذکور ہیں :
یوں تو آپ نے شروع سے ہی تحریر کی صورت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ اور دفاع کا کا کام شروع کر دیا تھا لیکن زیارات سے واپسی کے بعد آپکی تالیفات کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہوا۔ آپ کی تحریر خدمات میں درج ذیل کتابوں کے نام مذکور ہیں :
{{کالم کی فہرست|3}}
{{کالم کی فہرست|3}}
* مواعظہ حسنیہ:یہ کتاب اخلاقیات پر مشتمل فارسی زبان میں لکھی گئی ہے ۔
* مواعظہ حسنیہ:یہ کتاب اخلاقیات پر مشتمل فارسی زبان میں لکھی گئی ہے ۔
confirmed
821

ترامیم