"سید دلدار علی نقوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
 
(3 صارفین 11 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 4: سطر 4:
| name =  سید دلدار علی نقوی
| name =  سید دلدار علی نقوی
| other names = غفران مآب
| other names = غفران مآب
| brith year =  1166 ھ
| brith year =  1166 ء
|  brith date=  17ربیع الثانی
|  brith date=  17ربیع الثانی
| birth place = لکھنؤ، ہندوستان  
| birth place = لکھنؤ، ہندوستان  
| death year = 1235ھ
| death year = 1235 ء
| death date = 19رجب
| death date = 19رجب
| death place = لکھنؤ
| death place = لکھنؤ
| teachers = {{افقی باکس کی فہرست | سید غلام حسین حسینی دکنی الہ آبادی، مولوی حیدر علی سندیلوی، آیت اللہ محمد باقر بہبہانی، آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی، سید مہدی بن ہدایت اللہ اصفہان }}
| teachers = {{hlist| سید غلام حسین حسینی دکنی الہ آبادی| مولوی حیدر علی سندیلوی| آیت اللہ محمد باقر بہبہانی| آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی| سید مہدی بن ہدایت اللہ اصفہان }}
| students = سید احمد علی محمد آبادی، سید محمد بن محمد حامد کنتوری، مرزا فخر الدین احمد خان مشہور میرزا جعفر، سید یاد علی و میر مرتضیٰ  
| students ={{hlist| سید احمد علی محمد آبادی| سید محمد بن محمد حامد کنتوری| مرزا فخر الدین احمد خان مشہور میرزا جعفر| سید یاد علی و میر مرتضیٰ}}
| religion = [[اسلام]]
| religion = [[اسلام]]
| faith = [[شیعہ]]  
| faith = [[شیعہ]]  
سطر 19: سطر 19:




'''سید دلدار علی نقوی (غفران مآب)'''(1166_1235 ھ) غفران مآب کے لقب سے مشہور، برصغیر کے معروف [[شیعہ]] عالم، مجتہد، فقیہ اور متکلم ہیں۔ آپ کا شمار پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں ہوتا ہے اسی لئے آپ کو ہندوستان میں '''مجدّد الشریعہ''' کا لقب دیا گیا۔ ہندوستان کے علما میں اخباریوں کے مقابلے میں آپ پیش پیش تھے اور اسی وجہ سے آپ کو برصغیر میں اصولی مکتب کا بانی اور مؤسس بھی سمجھا جاتا ہے۔ دینی علوم کے حصول میں آپ نے عراق اور ایران کا بھی سفر کیا۔ آپ کو برصغیر میں سب سے پہلے نماز جمعہ قائم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مختلف علوم میں آپ کی کئی تالیفات بھی ہیں جن میں منتہی الافکار، مسکن القلوب، حسام الاسلام، دعائم الاسلام، آثارۃ الاحزان و شہاب ثاقب زیادہ اہم تصنیفات ہیں <ref>آیت اللہ العظمی سید دلدار علی غفران مآب، [https://ulamaehind.in/ur/scholar/syed-dildar-ali-ghufranmaab ulamaehind.in]</ref>۔
'''سید دلدار علی نقوی''' ، '''غفران مآب''' کے لقب سے مشہور، برصغیر کے معروف [[شیعہ]] عالم، مجتہد، فقیہ اور متکلم ہیں۔ آپ کا شمار پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں ہوتا ہے اسی لئے آپ کو ہندوستان میں '''مجدّد الشریعہ''' کا لقب دیا گیا۔ ہندوستان کے علما میں اخباریوں کے مقابلے میں آپ پیش پیش تھے اور اسی وجہ سے آپ کو برصغیر میں اصولی مکتب کا بانی اور مؤسس بھی سمجھا جاتا ہے۔ دینی علوم کے حصول میں آپ نے عراق اور ایران کا بھی سفر کیا۔ آپ کو برصغیر میں سب سے پہلے نماز جمعہ قائم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مختلف علوم میں آپ کی کئی تالیفات بھی ہیں جن میں منتہی الافکار، مسکن القلوب، حسام الاسلام، دعائم الاسلام، آثارۃ الاحزان و شہاب ثاقب زیادہ اہم تصنیفات ہیں <ref>آیت اللہ العظمی سید دلدار علی غفران مآب، [https://ulamaehind.in/ur/scholar/syed-dildar-ali-ghufranmaab ulamaehind.in]</ref>۔
== تعارف ==
== تعارف ==
سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) برصغیر پاک و ہند کے معروف ترین شیعہ عالم دین ، مرجع اور مجتہد اعظم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ غفران مآب آپ کے معروف ترین القاب میں سے ہے نیز آپ کو مجدد الشریعہ کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ آپ نے بارھویں صدی کی آخری چار دہائیوں اور تیرھویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بہاریں دیکھیں۔ پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں سے سر فہرست شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کو پاک و ہند میں علم اصول فقہ کے مکتب کا بانی اور بنیاد گزار مانا جاتا ہے۔ دیگر تالیفوں کے ساتھ ساتھ علم اصول فقہ میں بھی اساس الاصول کے نام سے آپ کی تصنیف موجود ہے۔ پاک و ہند میں آپ نے مذہب حقہ کی ترویج کیلئے جہاں دن رات ایک کیا وہاں مذہب کے حقہ کے دفاع میں تالیفیں لکھ کر اس مذہب کو محکم بنیادیں فراہم کیں اور مذہب اثنا عشریہ کی حقانیت کو پاک و ہند میں دوام بخشا یہان تکہ سید دلدار علی سمیت اس دور کے علما کی دینی خدمات اور [[ اہل بیت|مذہب اہل بیت]] کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔
سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) برصغیر پاک و ہند کے معروف ترین شیعہ عالم دین ، مرجع اور مجتہد اعظم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ غفران مآب آپ کے معروف ترین القاب میں سے ہے نیز آپ کو مجدد الشریعہ کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ آپ نے بارھویں صدی کی آخری چار دہائیوں اور تیرھویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بہاریں دیکھیں۔ پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں سے سر فہرست شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کو پاک و ہند میں علم اصول فقہ کے مکتب کا بانی اور بنیاد گزار مانا جاتا ہے۔ دیگر تالیفوں کے ساتھ ساتھ علم اصول فقہ میں بھی اساس الاصول کے نام سے آپ کی تصنیف موجود ہے۔ پاک و ہند میں آپ نے مذہب حقہ کی ترویج کیلئے جہاں دن رات ایک کیا وہاں مذہب کے حقہ کے دفاع میں تالیفیں لکھ کر اس مذہب کو محکم بنیادیں فراہم کیں اور مذہب اثنا عشریہ کی حقانیت کو پاک و ہند میں دوام بخشا یہاں تکہ سید دلدار علی سمیت اس دور کے علما کی دینی خدمات اور [[ اہل بیت|مذہب اہل بیت]] کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کس سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔
== اجداد ==
== اجداد ==
آپ [[حسن بن علی بن محمد|حضرت امام حسن عسکری]] کے بیٹے اور حضرت امام زمانہ علیہم السلام کے بھائی جعفر کی اولاد میں سے ہیں جنہیں امامت کے جھوٹے دعوے کی نسبت سے کذاب اور بعد میں توبہ کرنے کی وجہ سے تواب کہا گیا ۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں مذکور ہوا ہے :
آپ [[حسن بن علی بن محمد|حضرت امام حسن عسکری]] کے بیٹے اور حضرت امام زمانہ علیہم السلام کے بھائی جعفر کی اولاد میں سے ہیں جنہیں امامت کے جھوٹے دعوے کی نسبت سے کذاب اور بعد میں توبہ کرنے کی وجہ سے تواب کہا گیا ۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں مذکور ہوا ہے :
سطر 33: سطر 33:
اپنے خاندان میں آپ ہی پہلے شخص ہیں جو علم دین کی طرف مائل ہوئے چنانچہ سنڈیلہ ضلع ہردوئی میں آپ نے ملا حیدر علی پھر الہ آباد میں سید غلام حسین اور رائے بریلی میں ملا باب اللہ سے علوم عقلیہ اور نقلیہ کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد آپ نے فیض آباد اور لکھنؤ کا سفر کیا ـ اور وہاں جن علما سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی ان سے آپ نے کسب فیض کیاـ  
اپنے خاندان میں آپ ہی پہلے شخص ہیں جو علم دین کی طرف مائل ہوئے چنانچہ سنڈیلہ ضلع ہردوئی میں آپ نے ملا حیدر علی پھر الہ آباد میں سید غلام حسین اور رائے بریلی میں ملا باب اللہ سے علوم عقلیہ اور نقلیہ کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد آپ نے فیض آباد اور لکھنؤ کا سفر کیا ـ اور وہاں جن علما سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی ان سے آپ نے کسب فیض کیاـ  
== سفرعراق ==
== سفرعراق ==
ہندوستان میں مختلف علما سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اعلیٰ علمی مدارج کی تحصیل کے لیے عراق کا سفر کیا اور کربلا میں جاکر سکونت اختیار کی، وہاں آپ نے آیت اللہ محمد باقر بہبہانی، آیت اللہ سید علی طباطبائی (صاحب کتاب ریاض المسائل) اور آیت اللہ مرزا محمد مہدی شہرستانی کے دروس میں شرکت کی ۔ اس کے بعد آپ نے نجف اشرف کا رخ کیا ،ـ وہاں بھی آپ نے ایک مدت تک قیام کیا اور آیت اللہ سید مہدی بحرالعلوم وغیرہ کے درس میں حصہ لیا ۔ اس کے بعد آپ ایران کے شہر مشہد آ گئے،  وہاں بھی آپ نے زیارت کے بعد ایک عرصہ تک قیام کیا اور آیت اللہ سید محمد مہدی بن ہدایۃ اللہ خراسانی کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے آپ کے لیے ایک بہترین اجازہ اجتہاد تحریر کیا۔
ہندوستان میں مختلف علما سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اعلیٰ علمی مدارج کی تحصیل کے لیے عراق کا سفر کیا اور کربلا میں جاکر سکونت اختیار کی۔ وہاں آپ نے آیت اللہ محمد باقر بہبہانی، آیت اللہ سید علی طباطبائی (صاحب کتاب ریاض المسائل) اور آیت اللہ مرزا محمد مہدی شہرستانی کے دروس میں شرکت کی ۔ اس کے بعد آپ نے نجف اشرف کا رخ کیا ،ـ وہاں بھی آپ نے ایک مدت تک قیام کیا اور آیت اللہ سید مہدی بحرالعلوم وغیرہ کے درس میں حصہ لیا ۔ اس کے بعد آپ ایران کے شہر مشہد آ گئے،  وہاں بھی آپ نے زیارت کے بعد ایک عرصہ تک قیام کیا اور آیت اللہ سید محمد مہدی بن ہدایۃ اللہ خراسانی کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے آپ کے لیے ایک بہترین اجازہ اجتہاد تحریر کیا۔


== ذکاوت وذہانت ==
== ذکاوت وذہانت ==
علوم عقلیہ سے دلچسپی کا یہ عالَم تھا کہ جہاں بھی کسی مشہورعلم منطق کے عالم کی خبر ملتی اسکے پاس چلے جاتے اور اس سے بحث و مباحثہ کرتے ۔اسی سبب سے مختلف مقامات کا سفر کیا۔
علوم عقلیہ سے دلچسپی کا یہ عالَم تھا کہ جہاں بھی کسی مشہورعلم منطق کے عالم کی خبر ملتی اسکے پاس چلے جاتے اور اس سے بحث و مباحثہ کرتے ۔اسی سبب سے مختلف مقامات کا سفر کیا۔


علوم عقلیہ کے متبحر نہایت متعصب اور صوفی المسلک سنی مولوی عبد العلی سے ملاقات کیلئے شاہجہان پور گئے اور وہاں مولوی عبد العلی نے قضیہ شرطیہ کی بحث کے متعلق مولوی حمد اللہ کے بارے میں اعتراض کیا ۔اس اعتراض کا جواب شافی و وافی اسکے دو شاگردوں مولوی صبغۃ اللہ اور دوسرے کا نام یاد نہیں رہا کے سامنے دیا۔ یہ بات ان سالوں کے مدرسہ کے طلاب کے درمیان مشہور تھی۔
علوم عقلیہ کے متبحر نہایت متعصب اور صوفی المسلک سنی مولوی عبد العلی سے ملاقات کیلئے شاہجہان پور گئے اور وہاں مولوی عبد العلی نے قضیہ شرطیہ کی بحث کے متعلق مولوی حمد اللہ کے بارے میں اعتراض کیا ۔اس اعتراض کا جواب شافی و وافی اسکے دو شاگردوں مولوی صبغۃ اللہ اور دوسرے کا نام یاد نہیں رہا کے سامنے دیا۔ یہ بات ان برسوں کے مدرسہ کے طلاب کے درمیان مشہور تھی۔
دہلی کے شاہجہان آباد کی مسجد جامع میں مولوی حسن بیٹھا تھا۔ مولوی ممدوح نے ملا شیرازی شرح ہدایہ الحکمہ پر تعلیقہ لگایا جس میں اس نے جزو کی ادلہ باطلہ ذکر کیں۔ آپ نے مولوی حسن کے سامنے ان میں سے ایک دلیل پر اعتراض کیا ۔لیکن مولوی حسن اس کا جواب دینے سے قاصر رہا۔
دہلی کے شاہجہان آباد کی مسجد جامع میں مولوی حسن بیٹھا کرتے تھے۔ مولوی ممدوح نے ملا شیرازی شرح ہدایہ الحکمہ پر تعلیقہ لگایا جس میں انہوں نے جزو کی ادلہ باطلہ ذکر کیں۔ آپ نے مولوی حسن کے سامنے ان میں سے ایک دلیل پر اعتراض کیا ۔لیکن مولوی حسن اس کا جواب دینے سے قاصر رہے۔
فقہی مسائل کی باریک بینیوں کو درک کرنے کی استعداد یوں تو شروع سے ہی آپ کی ذات میں پائی جاتی تھی ۔جب عراق و ایران زیارات عالیہ سے مشرف ہونے کیلئے گئے تو وہاں آیات عظام کی موجودگی میں ایسے واقعات پیش آئے جس سے آپ کی یہ خصوصیت آیات عظام کیلئے واضح ہو گئی ۔مثلا:
فقہی مسائل کی باریک بینیوں کو درک کرنے کی استعداد یوں تو شروع سے ہی آپ کی ذات میں پائی جاتی تھی ۔جب عراق و ایران زیارات عالیہ سے مشرف ہونے کیلئے گئے تو وہاں آیات عظام کی موجودگی میں ایسے واقعات پیش آئے جس سے آپ کی یہ خصوصیت آیات عظام کیلئے واضح ہو گئی ۔مثلا:
ایک روز صاحب ریاض المسائل آیت اللہ سید علی طباطبائی نماز میں رکوع کے اضافے سے بطلان نماز کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ آپ نے سوال کیا یہاں رکوع سے معنی مصدری مراد ہے یا معنی حاصل مصدر مراد ہے ؟حاضرین اس سوال کو نہ سمجھے اور متعجب ہوئے۔ آپ نے اپنے سوال کی دونوں شقوں کی وضاحت کی۔آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی تعریف کی اور معنائے رکوع کی وضاحت فرمائی۔
ایک روز صاحب ریاض المسائل آیت اللہ سید علی طباطبائی نماز میں رکوع کے اضافے سے بطلان نماز کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ آپ نے سوال کیا یہاں رکوع سے معنی مصدری مراد ہے یا معنی حاصل مصدر مراد ہے ؟حاضرین اس سوال کو نہ سمجھے اور متعجب ہوئے۔ آپ نے اپنے سوال کی دونوں شقوں کی وضاحت کی۔آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی تعریف کی اور معنائے رکوع کی وضاحت فرمائی۔
سطر 45: سطر 45:
ایک روز آیت اللہ سید علی طباطبائی نے عورت کے مرد کے برابر ہونے یا مرد کے سامنے موجودگی کی صورت میں نماز کے جائز نہ ہونے کا مسئلہ بیان کیا اور کہا کہ بعض فقہا نے حضرت عائشہ کی حدیث سے [[نماز]] کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے  کہ جس کا مضمون یہ ہے " حضرت عائشہ حالت حیض میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا]] کے سامنے اس طرح پاؤں پھیلا کر لیٹی ہوئی تھیں کہ رسول اللہ جب سجدے میں تشریف لے جاتے تو پہلے آپؐ ان کے پاؤں اکٹھے کرتے اور پھر سجدہ کرتے"۔سید علی طباطبائی نے کہا "اس حدیث سے نماز کے جائز ہونے پر استدلال کرنے کی کوئی مناسب وجہ موجود نہیں ہے۔ کیونکہ کہاں مصلے کے سامنے عورت کا سونا اور کہاں عورت کا نماز پڑھنا ؟ ہاں اگر حدیث میں حضرت عائشہ کے نماز پڑھنے کا ذکر ہوتا تو اس حدیث سے استدلال کرنا صحیح تھا ۔"
ایک روز آیت اللہ سید علی طباطبائی نے عورت کے مرد کے برابر ہونے یا مرد کے سامنے موجودگی کی صورت میں نماز کے جائز نہ ہونے کا مسئلہ بیان کیا اور کہا کہ بعض فقہا نے حضرت عائشہ کی حدیث سے [[نماز]] کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے  کہ جس کا مضمون یہ ہے " حضرت عائشہ حالت حیض میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا]] کے سامنے اس طرح پاؤں پھیلا کر لیٹی ہوئی تھیں کہ رسول اللہ جب سجدے میں تشریف لے جاتے تو پہلے آپؐ ان کے پاؤں اکٹھے کرتے اور پھر سجدہ کرتے"۔سید علی طباطبائی نے کہا "اس حدیث سے نماز کے جائز ہونے پر استدلال کرنے کی کوئی مناسب وجہ موجود نہیں ہے۔ کیونکہ کہاں مصلے کے سامنے عورت کا سونا اور کہاں عورت کا نماز پڑھنا ؟ ہاں اگر حدیث میں حضرت عائشہ کے نماز پڑھنے کا ذکر ہوتا تو اس حدیث سے استدلال کرنا صحیح تھا ۔"
آپ نے کہا: ان فقہا کی دلیل جواز ہو سکتا ہے قیاس اولویت ہو چونکہ حالت حیض میں مصلے کے سامنے سونے کی نسبت عورت کا نماز پڑھنا زیادہ اولویت رکھتا ہے ۔ آیت اللہ سید علی طباطبائی نے اس توجیہ کو قبول کیا اور آپ کیلئے تعریفی کلمات بیان کئے۔
آپ نے کہا: ان فقہا کی دلیل جواز ہو سکتا ہے قیاس اولویت ہو چونکہ حالت حیض میں مصلے کے سامنے سونے کی نسبت عورت کا نماز پڑھنا زیادہ اولویت رکھتا ہے ۔ آیت اللہ سید علی طباطبائی نے اس توجیہ کو قبول کیا اور آپ کیلئے تعریفی کلمات بیان کئے۔
مشہد میں آیت اللہ مرزا محمد مہدی اصفہانی کے درس میں یہ مسئلہ پیش آیا کہ جس شخص کے پیٹ کے شکن آپس میں ملے ہوئے ہوں تایسے شخص کو غسل ارتماسی میں چاہئے کہ وہ اس حصے سے جسم کو جدا کرے اور پھر وہاں پانی پہنچائے۔آقای اصفہانی یا کسی دوسرے نے اس مسئلے میں یوں دقت فرمائی کہ جب وہ شخص پیٹ کے شکم کو ہاتھوں سے جدا کرے گا تو اس کی وجہ سے پانی کی حرکت کے درمیان لحظہ کیلئے انفصال زمانی متحقق ہو گا  <ref>حسن نجفی ،جواہر الکلام ،8/کراہۃ الصلاۃ مع تقدم المراۃ..../305و306۔محقق بحرانی ،الحدائق الناضرہ7/ہل یجوز تساوی الرجل/177</ref>۔
مشہد میں آیت اللہ مرزا محمد مہدی اصفہانی کے درس میں یہ مسئلہ پیش آیا کہ جس شخص کے پیٹ کے شکن آپس میں ملے ہوئے ہوں ایسے شخص کو غسل ارتماسی میں چاہئے کہ وہ اس حصے سے جسم کو جدا کرے اور پھر وہاں پانی پہنچائے۔آقای اصفہانی یا کسی دوسرے نے اس مسئلے میں یوں دقت فرمائی کہ جب وہ شخص پیٹ کے شکم کو ہاتھوں سے جدا کرے گا تو اس کی وجہ سے پانی کی حرکت کے درمیان لحظہ کیلئے انفصال زمانی متحقق ہو گا  <ref>حسن نجفی ،جواہر الکلام ،8/کراہۃ الصلاۃ مع تقدم المراۃ..../305و306۔محقق بحرانی ،الحدائق الناضرہ7/ہل یجوز تساوی الرجل/177</ref>۔
آپ نے کہا:قاعدۂ کلیہ ہے کہ جس طرح انطباق آنی ہوتا ہے اسی طرح انفصال بھی آنی ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو حرکت سے حاصل ہوتی ہے وہ زمانی ہو گی پس جب انفصال بھی حرکت سے ہوگا تو خواہ نخواہ وہ بھی زمانی ہی ہو گا ۔حضرت آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی اس دلیل کو قبول فرمایا۔
آپ نے کہا:قاعدۂ کلیہ ہے کہ جس طرح انطباق آنی ہوتا ہے اسی طرح انفصال بھی آنی ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو حرکت سے حاصل ہوتی ہے وہ زمانی ہو گی پس جب انفصال بھی حرکت سے ہوگا تو خواہ نخواہ وہ بھی زمانی ہی ہو گا ۔حضرت آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی اس دلیل کو قبول فرمایا۔


سطر 53: سطر 53:
سید علی(1200ھ-1259ھ)
سید علی(1200ھ-1259ھ)
سید حسن.(1205ھ-1260).
سید حسن.(1205ھ-1260).
سید مہدی۔ آپ کی ندگی میں ہی 23 سال زندگی کر کے فوت ہوئے۔
سید مہدی آپ کی ندگی میں ہی 23 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
آیت اللہ سید حسین علیین.(1211ھ-1273ھ))
آیت اللہ سید حسین علیین.(1211ھ-1273ھ))
== اساتذہ ==
== اساتذہ ==
سطر 66: سطر 66:
=== ایران و عراق ===
=== ایران و عراق ===
پاک و ہند کے مدارس میں رائج درس نظامی کی کتب اور علوم عقلیہ میں ید طولی پیدا کرنے کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا :
پاک و ہند کے مدارس میں رائج درس نظامی کی کتب اور علوم عقلیہ میں ید طولی پیدا کرنے کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا :
آیت اللہ محمد باقر بہبہانی مشہور وحید بہبہانی:شیخ طوسی کی استبصار کا کچھ حصہ اور رسالۂ فوائد حائریہ دور حاضر کے مرجع آیت اللہ باقر محمد بہبہانی کے سامے قرآت کیا اور ان کے درس میں شریک ہوئے۔
آیت اللہ محمد باقر بہبہانی مشہور وحید بہبہانی:شیخ طوسی کی استبصار کا کچھ حصہ اور رسالۂ فوائد حائریہ دور حاضر کے مرجع آیت اللہ باقر محمد بہبہانی کے سامنے قرآت کیا اور ان کے درس میں شریک ہوئے۔


آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی: شرح مختصر نافع یعنی شرح کبیر کو آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی سے سنا۔
آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی: شرح مختصر نافع یعنی شرح کبیر کو آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی سے سنا۔
سطر 175: سطر 175:
حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے، ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا۔
حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے، ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا۔


لکھنؤ آکر علمائے فرنگی محل کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب شیعہ و سنّی ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے ۔ شیعوں کا اپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا ۔ حضرت غفران مآبؒ سے پہلے جو مدرسے ہندوستان میںسر گرم تھے ان میں اہل سنت و الجماعت علما تدریس فرماتے تھے۔ بعض شیعہ علما نے حالت تقیہ میں ان مدارس میں تدریس کی لیکن شیعوں کااپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا جہاں ان کی فقہ پڑھائی جاتی ہو۔اکثر شیعہ علماء اپنے گھروں پریا بادشاہوں کے محلوں اور رئیسوں کی ڈیوڑھیوں میں پڑھایا کرتے تھے ۔
لکھنؤ آکر علمائے فرنگی محل کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب شیعہ و سنّی ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے ۔ شیعوں کا اپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا ۔ حضرت غفران مآبؒ سے پہلے جو مدرسے ہندوستان میں سر گرم تھے ان میں اہل سنت و الجماعت علما تدریس فرماتے تھے۔ بعض شیعہ علما نے حالت تقیہ میں ان مدارس میں تدریس کی لیکن شیعوں کااپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا جہاں ان کی فقہ پڑھائی جاتی ہو۔اکثر شیعہ علماء اپنے گھروں پریا بادشاہوں کے محلوں اور رئیسوں کی ڈیوڑھیوں میں پڑھایا کرتے تھے ۔


دکن میں میر فتح اللہ شیرازی جیساعظیم عالم اور سائنس داں علی عادل شاہ کا اتالیق مقرر کیا گیا ،جن کی تعلیم و تربیت نے دکن میں انقلاب برپا کیا۔اسی طرح شیخ مبارک کا مدرسہ عہد اکبری میں خاصا گرم رہا ۔اس مدرسے کے پروردہ شیخ فیضی اور ابوالفضل جیسے دانشور تھے ۔اس کے بعد شیخ فیضی اور ابوالفضل نے امراء و روساء کے بچوں کی تربیت کی ،جس کے شواہد اس عہد کی تاریخ میں جابہ جا موجود ہیں ۔یہ تمام لوگ اپنے عہد میں تقیہ میں تھے اور برملا اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس بناپر یہ دعویٰ درست ہےکہ حضرت غفران مآب سے پہلے کسی شیعہ مدرسے کی بنیاد نہیں رکھی گئی ۔ ایسا مدرسہ جس میں معارف آل محمد کی تعلیم دی جاتی ہو۔ان سے پہلے درسی کتب میں بھی عمومیت تھی لہذا انہوں نے امامیہ عقاید و تعلیمات پر مبنی اپنا الگ نصاب ترتیب دیا ۔
دکن میں میر فتح اللہ شیرازی جیساعظیم عالم اور سائنس داں علی عادل شاہ کا اتالیق مقرر کیا گیا ،جن کی تعلیم و تربیت نے دکن میں انقلاب برپا کیا۔اسی طرح شیخ مبارک کا مدرسہ عہد اکبری میں خاصا گرم رہا ۔اس مدرسے کے پروردہ شیخ فیضی اور ابوالفضل جیسے دانشور تھے ۔اس کے بعد شیخ فیضی اور ابوالفضل نے امراء و روساء کے بچوں کی تربیت کی ،جس کے شواہد اس عہد کی تاریخ میں جابہ جا موجود ہیں ۔یہ تمام لوگ اپنے عہد میں تقیہ میں تھے اور برملا اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس بناپر یہ دعویٰ درست ہےکہ حضرت غفران مآب سے پہلے کسی شیعہ مدرسے کی بنیاد نہیں رکھی گئی ۔ ایسا مدرسہ جس میں معارف آل محمد کی تعلیم دی جاتی ہو۔ان سے پہلے درسی کتب میں بھی عمومیت تھی لہذا انہوں نے امامیہ عقاید و تعلیمات پر مبنی اپنا الگ نصاب ترتیب دیا ۔
سطر 219: سطر 219:
عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی۔ جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں  تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی۔
عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی۔ جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں  تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی۔
== علمی آثار ==
== علمی آثار ==
یوں تو آپ نے شروع سے ہی تحریری کی صورت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ اور دفاع کا کا کام شروع کر دیا تھا لیکن زیارات سے واپسی کے بعد آپکی تالیفات کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہوا۔ آپ کی تحریر خدمات میں درج ذیل کتابوں کے نام مذکور ہیں :
یوں تو آپ نے شروع سے ہی تحریر کی صورت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ اور دفاع کا کا کام شروع کر دیا تھا لیکن زیارات سے واپسی کے بعد آپکی تالیفات کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہوا۔ آپ کی تحریر خدمات میں درج ذیل کتابوں کے نام مذکور ہیں :
{{کالم کی فہرست|3}}
{{کالم کی فہرست|3}}
* مواعظہ حسنیہ:یہ کتاب اخلاقیات پر مشتمل فارسی زبان میں لکھی گئی ہے ۔
* مواعظہ حسنیہ:یہ کتاب اخلاقیات پر مشتمل فارسی زبان میں لکھی گئی ہے ۔
سطر 251: سطر 251:
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{ہندوستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:ہندوستان]]
confirmed
821

ترامیم