"سپاہ صحابہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 16 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{خانہ معلومات پارٹی
| عنوان = سپاہ صحابہ
| تصویر = سپاه صحابه.jpg
| نام = سپاہ صحابہ
| قیام کی تاریخ = 1985 ش
| بانی =  {{افقی باکس کی فہرست |حق نواز جھنگوی|ضیاء الرحمن فاروقی |اعظم طارق}}
| رہنما =
| مقاصد = {{افقی باکس کی فہرست |حکومت کی تشکیل خلافت کی بنیاد اور شعیوں کو کافر قرار دینا}} 
}}
'''سپاہ صحابہ''' [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ [[پاکستان]] کا نام پہلے انجمن صحابہ تھا۔
'''سپاہ صحابہ''' [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ [[پاکستان]] کا نام پہلے انجمن صحابہ تھا۔
سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پاکستانی تکفیری گروہ ہیں جو اپنے مخالفین کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر دو تین دہائیوں سے ان کے جرائم اور بے انتہا ظلم و ستم کو ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ خلیج فارس کی کچھ ریاستوں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد سے ، یہ گروہ خطے میں مغرب کے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ان کی انتہا پسندانہ تکفیری سرگرمیوں کی متعدد خبریں ہمیشہ نیوز میڈیا کی مسلسل زینت بنتی رہتی ہیں۔
سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پاکستانی تکفیری گروہ ہیں جو اپنے مخالفین کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر دو تین دہائیوں سے ان کے جرائم اور بے انتہا ظلم و ستم کو ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ خلیج فارس کی کچھ ریاستوں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد سے ، یہ گروہ خطے میں مغرب کے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ان کی انتہا پسندانہ تکفیری سرگرمیوں کی متعدد خبریں ہمیشہ نیوز میڈیا کی مسلسل زینت بنتی رہتی ہیں۔
== سپاہ صحابہ کی تاریخ ==
== سپاہ صحابہ کی تاریخ ==
دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا نام پہلے انجمن سپاہ صحابہ تھا۔ یہ جماعت 1944ء میں امرتسر میں قائم ہونے والی '''تنظیم اہلسنت''' نامی [[شیعہ]] مخالف جماعت کا تسلسل ہے جو 1984ء میں دیوبندی عالم مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد انجمن سپاہ صحابہ کے نئے نام سے 1985ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں سامنے آئی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے جنوری 2002ء میں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد پر بابندی عائد کی تو اس جماعت کا نام بدل کر '''ملت اسلامیہ پاکستان''' رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد جماعت کانام بدل کر '''اھلسنت والجماعت''' رکھا گیا۔ مولانا حق نواز جھنگوی کو 1990ء میں قتل کر دیا گیا۔ حق نواز جھنگوی کے بعد ایثار الحق قاسمی اس جماعت کے سربراہ بنے، جنہیں 1991ء میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کی قیادت سنبھالی لی۔ ضیاءالرحمان فاروقی 18 جنوری 1997ء کو سپاہ محمد پاکستان کے بم حملے کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد طارق اس جماعت کے سربراہ بنے، جو 2003ء میں اسلام آباد میں قتل کر دیے گئے۔ 90ء کی دہائی میں سپاہ صحابہ نے شیعوں پر کئی خونریز حملے کیے البتہ 1993ء میں سپاہ محمد پاکستان نامی شیعہ تنظیم نے جوابی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ سپاہ صحابہ کے اب تک کم وبیش ایک ہزار کارکن مارے جاچکے ہیں جن میں سے اکثر پاک فوج کےآپریشن یا پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔ 2017ء میں اس جماعت پر بھی پابندی لگا دی گئی پھر 26 جون 2018ء کو شدت پسند عناصر کو قومی دھارے میں جگہ دینے کے فیصلے کے بعداہلسنت والجماعت پاکستان سے پابندی ہٹا لی گئی
وادی سندھ میں شیعہ مخالف سوچ قیام پاکستان سے پہلے ہی موجود تھی- وادئ سندھ میں قیام پاکستان سے پہلے مسلمان عوام کو صرف ایک قسم کی مذہبی ثقافت میں ڈھالنے کی کوشش سب سے پہلے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے کی۔ 1818ء سے 1821ء کے دوران سید احمد بریلوی نے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد کی تبدیلی اور [[عزاداری]] پر حملوں کی مہم چلائی۔ 1826ء میں وہ پختون علاقوں میں سخت گیر مذہبی حکومت بنانے پہنچ گئے۔ ان دو حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش،اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی محرومیوں کو سکھوں کے خلاف استعمال کر نے کے لیے سید احمد بریلوی اورشاہ اسماعیل دہلوی کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں لشکر سازی کی مکمل آزادی دی ۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کی طالبانی  حکومت سے اکتائے ہوئے مسلمانوں اور سکھوں کے اشتراک عمل کے نتیجے میں بالاکوٹ کے مقام پر ان کے قتل کے بعد ان حضرات کی تحریک کا دوبارہ ظہور 30 مئی 1867ء میں دار العلوم دیوبند کے قیام کی شکل میں ہوا۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد  گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ :
"[[محرم]] میں ذکر [[حسین بن علی|شہادت حسین]] کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو یا سبیل لگانا ،شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے"۔
دیوبند مکتب کی اس سوچ کاپہلا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی شیعہ ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اورانکو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس  کے نتیجے میں افغانستان کے شیعوں کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی ۔ امیر عبد الرحمن خان نے اپنی  حکومت کا نظام چلانے کے لیے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنہوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔  یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے کوئٹہ میں آگئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوا۔  کرم ایجنسی کے شیعہ قبائل افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کارروائیوں کے خوف سے ہندوستان کی انگریز حکومت سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کا بندوبست عمل میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قانون کی مساوات اور بہتر انتظامی  اقدامات کی بدولت اس سوچ کو قتل عام کا دائرہ وادی سندھ تک پھیلانے کا موقع نہ مل سکا۔ کرم ایجنسی کے بعد باقی قبائل نے بھی انگریز حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی عمل جس کاآغاز شیعہ دشمنی سے ہوا، نے مستقبل میں بننے والے ملک پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو متعین کیا۔ اس تاریخ کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاض بسرا سے لیکر ملک اسحاق اور داود بادینی تک جیسے تربیت یافتہ جہادیوں کو قندھار کے دیوبندی علاقوں میں پناہ ملتی رہی ہے <ref>ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک" تاریخ پبلیکیشنز لاہور 2012</ref>۔
 
== لکھنو میں شیعہ مخالف مہم ==
1906ء میں لکھنؤ کے عزاداری کے جلوسوں مقابلے میں دیوبندی علما  کی طرف سے مدح صحابہ کے نام سے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان جلوسوں میں [[کربلا]] کے واقعے پر گفتگو اور نعرے بازی ہوا کرتی جس میں بنی امیہ کی وکالت کی جاتی۔ عاشورا کے دن یہ سب کرنے سے شیعوں میں اشتعال پھیل گیا۔ انگریزحکومت نے فرقہ وارانہ فساد  کے خطرے کے پیش نظر ان جلوسوں پر پابندی لگا دی۔ لکھنؤ  کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ شہر اس وقت ہندوستان میں شیعوں کا ثقافتی مرکز تھا۔ لکھنؤ میں اس اشتعال کے بعد فرقہ وارانہ لٹریچر چھپنے لگا، جو لکھنؤ تک محدود نہ رہا بلکہ وادی سندھ میں بھی آیا۔ 1920ء میں دیوبندی عالم مرزا حیرت دہلوی نے "کتاب شہادت" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] و حسنین پرشدید تنقید کی گئی تھی۔ لکھنؤ شہر میں تو انگریز حکومت کے حسن انتظام اور قانون کے مساوی نفاذ نے قتل و غارت تک نوبت نہیں آنے دی، لیکن پنجاب اور پختون خواہ کے بعض علاقوں میں محرم کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1931ء میں دیوبندی عالم مولانا عبد الشکور لکھنؤی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ قائم کیا اور دوبارہ مدح صحابہ کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ اس اشتعال انگیزی کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب 1938ء میں اس جلوس کے رد عمل کے طور پر لکھنؤ کے شیعہ حضرات نے بنی امیہ پر تبرے کے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی آزادی کے تاریخی لمحات قریب آچکے تھے اور یہاں مسلمان آپس میں لڑپڑے تھے۔ اکتوبر 1939ءکومولانا ابو الکلام آزاد کلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے البتہ مولانا عبد الشکور لکھنؤی  پھر بھی فرقہ وارانہ اشتعال سے باز نہیں آ ئے اور نتیجتا حکومت کو اس سلسلے پر پابندی لگانا پڑی۔ مولانا عبد الشکور  1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو  گئے <ref>رشید احمد گنگوہی دیوبندی، فتاوٰی رشیدیہ ص 435</ref>۔
جنگ عظیم دوم  کی وجہ سے کمزور ہونے والے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے اور مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں  ہندوستان کے شمال مغرب  میں ایک مسلمان ریاست کے ممکنہ قیام کی آہٹ پا کر دیوبندی علما میں سے اکثر نے قیام پاکستان کی مخالفت کی البتہ کچھ دیگر سخت گیر علما نے قیام پاکستان کو ناگزیر سمجھتے ہوئے وادی سندھ  کی طرف ہجرت  شروع کی اور دوبارہ سے  سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی  یک ثقافتی  ریاست کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں۔1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں تنظیم اہل سنت  کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دیوبندی علما مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی دیوبندی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا۔ لہٰذا قیام پاکستان سے بعد  ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے۔ 26اکتوبر 1946ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ کے متوازی سیاسی جماعت تھی،کیونکہ دیوبندی علما محمد علی جناح کے جدید نظریات پر مبنی تصورپاکستان کو غلط سمجھتے تھے۔ جب قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ریاست کی نظر میں سب شہریوں کوبلا تفریق مذہب مساوی قرار دیا تو 1 ستمبر 1947ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی اس تقریر کی مخالفت پر مبنی تھا، یوں جدت اور پسماندگی کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علما نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے۔ لہٰذا قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئ تو حکومت نے فرقہ وارانہ ہرج مرج سے بچنے کے لیے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انہوں نے اپنے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا <ref>مرزا حیرت دہلوی، "کتاب شہادت"، کرزن پریس دہلی،1920 </ref>۔
== سپاہ صحابہ کا قیام ==
دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا نام پہلے انجمن سپاہ صحابہ تھا۔ یہ جماعت 1944ء میں امرتسر میں قائم ہونے والی '''تنظیم اہلسنت''' نامی [[شیعہ]] مخالف جماعت کا تسلسل ہے جو 1984ء میں دیوبندی عالم مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد انجمن سپاہ صحابہ کے نئے نام سے 1985ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں سامنے آئی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے جنوری 2002ء میں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد پر بابندی عائد کی تو اس جماعت کا نام بدل کر '''ملت اسلامیہ پاکستان''' رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد جماعت کانام بدل کر '''اھلسنت والجماعت''' رکھا گیا۔ مولانا حق نواز جھنگوی کو 1990ء میں قتل کر دیا گیا۔ حق نواز جھنگوی کے بعد ایثار الحق قاسمی اس جماعت کے سربراہ بنے، جنہیں 1991ء میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کی قیادت سنبھالی لی۔ ضیاءالرحمان فاروقی 18 جنوری 1997ء کو سپاہ محمد پاکستان کے بم حملے کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد طارق اس جماعت کے سربراہ بنے، جو 2003ء میں اسلام آباد میں قتل کر دیے گئے۔ 90ء کی دہائی میں سپاہ صحابہ نے شیعوں پر کئی خونریز حملے کیے البتہ 1993ء میں سپاہ محمد پاکستان نامی شیعہ تنظیم نے جوابی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ سپاہ صحابہ کے اب تک کم وبیش ایک ہزار کارکن مارے جاچکے ہیں جن میں سے اکثر پاک فوج کےآپریشن یا پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔ 2017ء میں اس جماعت پر بھی پابندی لگا دی گئی پھر 26 جون 2018ء کو شدت پسند عناصر کو قومی دھارے میں جگہ دینے کے فیصلے کے بعداہلسنت والجماعت پاکستان سے پابندی ہٹا لی گئی <ref>ابو یزید محمد دین بٹ، "خلافت رشید ابن رشید امیر المومنین سیدنا یزید"، طبع لاہور</ref>
 
== سپاہ صحابہ کی تشکیل ==
== سپاہ صحابہ کی تشکیل ==
6 جولائی 1977 کو [[محمد ضیاء الحق|جنرل ضیاءالحق]]  کے برسر اقتدار آنے کے بعد ، اور 1978 میں '''نظام مصطفیٰ''' کے نفاذ کے منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی جنرل ضیا ، شیعہ مذہبی رہنما خصوصا مفتی جعفر حسین کے نوٹس  میں آگئے۔ پاکستان کو  اسلامی ملک بنانے کے چکر میں ضیاالجق نے بڑے پیمانے پر احکامات جاری کیے، جیسے لوگوں کے بینک اکونٹ سے زبردستی زکات وصول کرنا،دینی تعلیم کو یکجا کرنا اور شیعہ اوقاف کو حکومت کی  سرپرستی میں لانا وغیرہ، جس کی وجہ سے شیعوں کی طرف سے شدید منفی رد عمل سامنے آگیا۔
6 جولائی 1977 کو [[محمد ضیاء الحق|جنرل ضیاءالحق]]  کے برسر اقتدار آنے کے بعد ، اور 1978 میں '''نظام مصطفیٰ''' کے نفاذ کے منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی جنرل ضیا ، شیعہ مذہبی رہنما خصوصا مفتی جعفر حسین کے نوٹس  میں آگئے۔ پاکستان کو  اسلامی ملک بنانے کے چکر میں ضیاالجق نے بڑے پیمانے پر احکامات جاری کیے، جیسے لوگوں کے بینک اکونٹ سے زبردستی زکات وصول کرنا،دینی تعلیم کو یکجا کرنا اور شیعہ اوقاف کو حکومت کی  سرپرستی میں لانا وغیرہ، جس کی وجہ سے شیعوں کی طرف سے شدید منفی رد عمل سامنے آگیا۔
اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ٹھیک 70 دن بعد ، 12 اور 13 اپریل 1979 کو، پورے پاکستان سے قریب ایک لاکھ شیعوں کی آبادی پنجاب کے شہر بھکر میں جمع ہوئی ، جہاں آبادی کی اکثریت شیعہ ہے۔ اس اجتماع میں ، مفتی جعفر حسین  کو قائد منتخب کرنے کے علاوہ ، فقہ جعفریہ کے نفاذ کی تحریک کے لئے بنیادی قدم بھی اٹھائے گئے۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں ، حکومت شیعوں سے  ایک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئی ، اور شیعوں کو زکوٰت ادا کرنے سے مستثنیٰ کردیا گیا اور اسی طرح شیعوں کے دوسرے مطالبات بھی منظور کیے گئے۔
اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ٹھیک 70 دن بعد ، 12 اور 13 اپریل 1979 کو، پورے پاکستان سے قریب ایک لاکھ شیعوں کی آبادی پنجاب کے شہر بھکر میں جمع ہوئی ، جہاں آبادی کی اکثریت شیعہ ہے۔ اس اجتماع میں ، مفتی جعفر حسین  کو قائد منتخب کرنے کے علاوہ ، فقہ جعفریہ کے نفاذ کی تحریک کے لئے بنیادی قدم بھی اٹھائے گئے۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں ، حکومت شیعوں سے  ایک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئی ، اور شیعوں کو زکوٰت ادا کرنے سے مستثنیٰ کردیا گیا اور اسی طرح شیعوں کے دوسرے مطالبات بھی منظور کیے گئے۔
[[فقہ|تحریک فقه جعفریہ]] کے قیام کے بعد [[جماعت اسلامی پاکستان]] اور [[جمعیت علماء اسلام پاکستان|جمعیت علمائے اسلام]] نے دو بڑے اجتماع منعقد کروائے۔ یہ دونوں اجتماع  تحریک جعفریہ کے مقابلے میں منعقد کروائے گئے تھے۔اس سلسلے میں، آئی ایس آئی نے، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے ، دیوبندی تارکین وطن مسلمانوں کے ایک گروہ کو فقہ جعفریہ کی سرگرمیوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی۔ سن  ۱۹۸ میلادی/۱۳۶۴ شمسی میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا حق نواز جھنگوی کی سربراہی میں '''انجمن سپاه صحابه''' بنی جس کانام بعد میں تبدیل کرکے  '''سپاه صحابه پاکستان''' رکھا گیا۔، اور کچھ شیعہ مخالف علما جیسے '''ضیاء الرحمن فاروقی'''  ، '''ایثار الحق قاسمی''' اور "اعظم طارق" (جو بعد میں  سپاہ صحابہ کے رہنما بنے) ، نے بھی  سپاہ صحابہ کی تشکیل میں حق  نواز کا ساتھ دیا۔
[[فقہ|تحریک فقه جعفریہ]] کے قیام کے بعد [[جماعت اسلامی پاکستان]] اور [[جمعیت علماء اسلام پاکستان|جمعیت علمائے اسلام]] نے دو بڑے اجتماع منعقد کروائے۔ یہ دونوں اجتماع  تحریک جعفریہ کے مقابلے میں منعقد کروائے گئے تھے۔اس سلسلے میں، آئی ایس آئی نے، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے ، دیوبندی تارکین وطن مسلمانوں کے ایک گروہ کو فقہ جعفریہ کی سرگرمیوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی۔ سن  ۱۹۸ میلادی/۱۳۶۴ شمسی میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا حق نواز جھنگوی کی سربراہی میں '''انجمن سپاه صحابه''' بنی جس کانام بعد میں تبدیل کرکے  '''سپاه صحابه پاکستان''' رکھا گیا۔، اور کچھ شیعہ مخالف علما جیسے '''ضیاء الرحمن فاروقی'''  ، '''ایثار الحق قاسمی''' اور "اعظم طارق" (جو بعد میں  سپاہ صحابہ کے رہنما بنے) ، نے بھی  سپاہ صحابہ کی تشکیل میں حق  نواز کا ساتھ دیا <ref>محمود احمد عباسی، "تحقیق مزید بسلسلہ خلافت معاویہ و یزید"، الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی
</ref>۔


== پاکستان اور مذہبی فسادات ==
== پاکستان اور مذہبی فسادات ==
سطر 56: سطر 76:
سپاہ صحابہ کے قیام کے بعد سے ہی، کچھ خلیجی ممالک ، جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ، نے اس دہشت گرد گروہ کو مالی مدد فراہم کی۔ یہ مالی مدد نجی ذرائع سے اور پاکستان میں کچھ مالدار لوگوں کے ذریعہ ہوتی تھی، اس کے علاوہ ، ان ممالک نے اپنے ملک میں  سپاہ صحابہ کی مختلف شاخوں کے قیام کی اجازت دی ہے، یہاں تک کہ  ان ممالک میں اور کچھ مغربی ممالک جیسے کینیڈا اور برطانیہ میں اس کی  شاخوں کی  تعداد 17 تک پہنچ چکی ہے۔ سعودی عرب کی کوششوں کا مقصد علاقائی سطح پر اسلامی انقلاب کے اثرات کو  کم کرنا تھا  کیوں کہ سعودی عرب خطے میں اسلامی جمہوریہ کے اقتدار میں عروج کو خطے میں اپنے مفادات کے برخلاف دیکھتا ہے۔
سپاہ صحابہ کے قیام کے بعد سے ہی، کچھ خلیجی ممالک ، جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ، نے اس دہشت گرد گروہ کو مالی مدد فراہم کی۔ یہ مالی مدد نجی ذرائع سے اور پاکستان میں کچھ مالدار لوگوں کے ذریعہ ہوتی تھی، اس کے علاوہ ، ان ممالک نے اپنے ملک میں  سپاہ صحابہ کی مختلف شاخوں کے قیام کی اجازت دی ہے، یہاں تک کہ  ان ممالک میں اور کچھ مغربی ممالک جیسے کینیڈا اور برطانیہ میں اس کی  شاخوں کی  تعداد 17 تک پہنچ چکی ہے۔ سعودی عرب کی کوششوں کا مقصد علاقائی سطح پر اسلامی انقلاب کے اثرات کو  کم کرنا تھا  کیوں کہ سعودی عرب خطے میں اسلامی جمہوریہ کے اقتدار میں عروج کو خطے میں اپنے مفادات کے برخلاف دیکھتا ہے۔
== سپاہ صحابہ کے جرائم ==
== سپاہ صحابہ کے جرائم ==
سپاہ صحابہ  نے شیعوں کے خلاف صرف تکفیری فتووں کو کافی نہیں سمجھا بلکہ ، انہوں نے شیعہ اہم شخصیات جیسے مذہبی اسکالرز، ڈاکٹروں اور وکلاء کے علاوہ عام شیعہ شہریوں کو بھی قتل کیا اور متعدد شیعہ مساجد پر حملہ کیا۔ سپاہ صحابہ کی دہشتگردی کی بدترین اور واضح ترین مثال  5 اگست سن ۱۹۸۸ کوتحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے [[ ع|قائد علامہ شہید عارف حسین الحسینی]] کا قتل تھا۔ شیعوں کی طرف  سےرد عمل کے طور پر  اس کے بھی کئ رہنما مارے گئے۔ جب فروری 1990 میں حق نواز جھنگوی کو مارا جاتا ہے، تب سپاہ صحابہ کے رہنما ایران اور مقامی شیعہ رہنماؤں پر حق نواز جھنگوی کے قتل کا الزام عائد کرتے ہیں۔ حق نواز کے قتل کے بعد ، پاکستان نے اپنے شہروں میں بدترین مذہبی دہشت گردی دیکھی۔ اس کی موت کا بدلہ لینے کے لئے ، سپاہ صحابہ نے 1994 میں ممتاز ایرانی سفارت کار صادق گنجی کا قتل کیا۔
سپاہ صحابہ  نے شیعوں کے خلاف صرف تکفیری فتووں کو کافی نہیں سمجھا بلکہ ، انہوں نے [[شیعہ]] اہم شخصیات جیسے مذہبی اسکالرز، ڈاکٹروں اور وکلاء کے علاوہ عام شیعہ شہریوں کو بھی قتل کیا اور متعدد شیعہ مساجد پر حملہ کیا۔ سپاہ صحابہ کی دہشتگردی کی بدترین اور واضح ترین مثال  5 اگست سن ۱۹۸۸ کوتحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے قائد علامہ شہید [[عارف حسین الحسینی]] کا قتل تھا۔ شیعوں کی طرف  سےرد عمل کے طور پر  اس کے بھی کئ رہنما مارے گئے۔ جب فروری 1990 میں حق نواز جھنگوی کو مارا جاتا ہے، تب سپاہ صحابہ کے رہنما ایران اور مقامی شیعہ رہنماؤں پر حق نواز جھنگوی کے قتل کا الزام عائد کرتے ہیں۔ حق نواز کے قتل کے بعد ، پاکستان نے اپنے شہروں میں بدترین مذہبی دہشت گردی دیکھی۔ اس کی موت کا بدلہ لینے کے لئے ، سپاہ صحابہ نے 1994 میں ممتاز ایرانی سفارت کار صادق گنجی کا قتل کیا۔
اسی طرح ان شدت پسندوں نے ۱۹۹۷  میں  ملتان میں ایران کے خانہ فرہنگ پر حملہ کرکے سات ایرانی سفارت کاروں کا بے گناہ  قتل کیا ۔ ضیاء الرحمٰن فاروقی کی موت کے انتقام میں ، پانچ ایرانی فوجی افسرز کو ستمبر 1997 میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نے پاکستان میں قتل کردیا ۔ سپاہ صحابہ کی دیگر کاروائیوں میں افغانستان کے شہر مزار شریف میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے کے اندر ایرانی سفارت کاروں کا قتل عام بھی شامل ہے جو کہ  بین الاقوامی قانون کے برخلاف ، صرف شیعہ افکار سے دشمنی کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ایرانی سفارتکاروں کی شہادت سپاہ صحابہ کے ہاتھ ہوئی۔
اسی طرح ان شدت پسندوں نے ۱۹۹۷  میں  ملتان میں ایران کے خانہ فرہنگ پر حملہ کرکے سات ایرانی سفارت کاروں کا بے گناہ  قتل کیا ۔ ضیاء الرحمٰن فاروقی کی موت کے انتقام میں ، پانچ ایرانی فوجی افسرز کو ستمبر 1997 میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نے پاکستان میں قتل کردیا ۔ سپاہ صحابہ کی دیگر کاروائیوں میں افغانستان کے شہر مزار شریف میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے کے اندر ایرانی سفارت کاروں کا قتل عام بھی شامل ہے جو کہ  بین الاقوامی قانون کے برخلاف ، صرف شیعہ افکار سے دشمنی کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ایرانی سفارتکاروں کی شہادت سپاہ صحابہ کے ہاتھ ہوئی۔
== انتہا پسند اور تکفیری گروہوں کے ساتھ رابطہ ==
== انتہا پسند اور تکفیری گروہوں کے ساتھ رابطہ ==
افغان طالبان سپاہ صحابہ کے سب سے اہم علاقائی حامی ہیں۔سپاہ صحابہ کا سربراہ اعظم طارق  افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران ،  افغانستان اس کا آنا جانا لگا رہتا  تھا۔ افغانستان میں کیمپ ، جو ماضی میں فوجی تربیت اور غیر افغان مجاہدین کی میزبانی کے لئے استعمال ہوتے تھے ، کو سپاہ صحابہ پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ سن 1998 میں ، سیکڑوں شیعوں کے قتل ہونے کے بعد ، حکومت نے سپاہ صحابہ پاکستان کے خلاف کارروائی کی۔ اس کے ذمہ دار افراد بھاگ کر افغانستان چلے گئے اور طالبان نے ان کی حمایت کی۔ طالبان اور بن لادن کی سربراہی میں ، بہت سے سپاہ صحابہ کے جنگجوؤں نے خوست کے کیمپ میں فوجی تربیت حاصل کی۔
افغان طالبان سپاہ صحابہ کے سب سے اہم علاقائی حامی ہیں۔سپاہ صحابہ کا سربراہ اعظم طارق  افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران ،  افغانستان اس کا آنا جانا لگا رہتا  تھا۔ افغانستان میں کیمپ ، جو ماضی میں فوجی تربیت اور غیر افغان مجاہدین کی میزبانی کے لئے استعمال ہوتے تھے ، کو سپاہ صحابہ پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ سن 1998 میں ، سیکڑوں شیعوں کے قتل ہونے کے بعد ، حکومت نے سپاہ صحابہ پاکستان کے خلاف کارروائی کی۔ اس کے ذمہ دار افراد بھاگ کر افغانستان چلے گئے اور طالبان نے ان کی حمایت کی۔ طالبان اور بن لادن کی سربراہی میں ، بہت سے سپاہ صحابہ کے جنگجوؤں نے خوست کے کیمپ میں فوجی تربیت حاصل کی۔
سطر 68: سطر 89:
اس دوران ، سپاہ صحابہ کے کچھ ممبران ، جیسے ایثار قاسمی اور اعظم طارق نے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور سیاسی اتحاد میں شامل ہوئے ، یہ کام زیادہ تر ممبران کو اچھا نہیں لگا اور یہی امر سبب بنا کہ بہت سارے کارکن  اس دہشتگرد تنظیم کو چھوڑ دیں  اور مسلح گروپوں نے مذید شدت سے اپنی دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھیں۔۔ اس تنظیم کے تین افراد «ریاض بسرا»، «اکرم لاهوری» اور «ملک اسحاق» نے سن ۱۹۹۶ میں سپاہ صحابہ کے مسلح گروہ کا نام لشکر جھنگوی رکھ دیا۔ اس گروہ کے قیام کے بعد ، دہشت گردی کی کاروائیاں شیعہ رہنماؤں اور شیعہ سرکاری اہلکاروں کی ہلاکت کے مقصد سے کی گئیں۔ پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 2001 میں لشکر جھنگوی شیعہ رہنماؤں کے خلاف قتل و غارت گری کے 350 کاروائیوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث تھا۔ اس گروپ کو وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کے دوسرے دور میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس گروپ نے 1998 اور 1999 کے آس پاس اپنے درجنوں کارکنوں کو پولیس مقابلے میں  کھو دیا تھا۔ جنوری 1999 میں ، انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ،لشکر جھنگوی نے اس  راستے میں بمب نصب کیا جہاں  سے نواز شریف کے قافلے نے گزرنا تھا۔ 1998 میں جب پاکستان کی حکومت نے لشکر جھنگوی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کیا ، اس گروپ کے بیشتر کارکن پاکستان چھوڑ کر افغان طالبان کی پناہ میں چلے گئے۔ طالبان نے انہیں تربیت کے لئے ایک فوجی بیرک مہیا کیا اور اس موقع سے القاعدہ نے اس گروپ کے ممبروں کو تربیت دینے کا  بھر پورفائدہ اٹھایا۔ لشکر جھنگوی اسامہ بن لادن کے بین الاقوامی اسلامی محاذ کا رکن ہے۔ چونکہ سیکیورٹی وجوہات اور اپنے ممبروں کی شناخت ظاہر ہونے کے خطرے سے القاعدہ کچھ علاقوں میں براہ راست آپریشن نہیں کرسکتی ہے ،لہذا  لشکر جھنگوی کی مقامی صلاحیتوں اور  اس کے نیٹ ورکس کا استعمال کرتی ہے۔لشکر جھنگوی کا القاعدہ سے رابطہ اس گروپ کے انتہا پسند اور متشدد ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔
اس دوران ، سپاہ صحابہ کے کچھ ممبران ، جیسے ایثار قاسمی اور اعظم طارق نے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور سیاسی اتحاد میں شامل ہوئے ، یہ کام زیادہ تر ممبران کو اچھا نہیں لگا اور یہی امر سبب بنا کہ بہت سارے کارکن  اس دہشتگرد تنظیم کو چھوڑ دیں  اور مسلح گروپوں نے مذید شدت سے اپنی دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھیں۔۔ اس تنظیم کے تین افراد «ریاض بسرا»، «اکرم لاهوری» اور «ملک اسحاق» نے سن ۱۹۹۶ میں سپاہ صحابہ کے مسلح گروہ کا نام لشکر جھنگوی رکھ دیا۔ اس گروہ کے قیام کے بعد ، دہشت گردی کی کاروائیاں شیعہ رہنماؤں اور شیعہ سرکاری اہلکاروں کی ہلاکت کے مقصد سے کی گئیں۔ پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 2001 میں لشکر جھنگوی شیعہ رہنماؤں کے خلاف قتل و غارت گری کے 350 کاروائیوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث تھا۔ اس گروپ کو وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کے دوسرے دور میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس گروپ نے 1998 اور 1999 کے آس پاس اپنے درجنوں کارکنوں کو پولیس مقابلے میں  کھو دیا تھا۔ جنوری 1999 میں ، انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ،لشکر جھنگوی نے اس  راستے میں بمب نصب کیا جہاں  سے نواز شریف کے قافلے نے گزرنا تھا۔ 1998 میں جب پاکستان کی حکومت نے لشکر جھنگوی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کیا ، اس گروپ کے بیشتر کارکن پاکستان چھوڑ کر افغان طالبان کی پناہ میں چلے گئے۔ طالبان نے انہیں تربیت کے لئے ایک فوجی بیرک مہیا کیا اور اس موقع سے القاعدہ نے اس گروپ کے ممبروں کو تربیت دینے کا  بھر پورفائدہ اٹھایا۔ لشکر جھنگوی اسامہ بن لادن کے بین الاقوامی اسلامی محاذ کا رکن ہے۔ چونکہ سیکیورٹی وجوہات اور اپنے ممبروں کی شناخت ظاہر ہونے کے خطرے سے القاعدہ کچھ علاقوں میں براہ راست آپریشن نہیں کرسکتی ہے ،لہذا  لشکر جھنگوی کی مقامی صلاحیتوں اور  اس کے نیٹ ورکس کا استعمال کرتی ہے۔لشکر جھنگوی کا القاعدہ سے رابطہ اس گروپ کے انتہا پسند اور متشدد ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔
لشکر جھنگوی کے دوسرے گروپوں سے تعلقات کے بارے میں اطلاعات  میں  پاکستانی طالبان ، دولت اسلامیہ عراق اور لیونت (داعش) کے ساتھ مضبوط تعلقات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان سب کے بیچ ایک اور  ایران مخالف دہشتگرد گروپ انصار الاسلام بھی ایرانی سیکیورٹی فورسز اور  پاکستانی شیعوں  سے مقابلے پر مامور ہے۔
لشکر جھنگوی کے دوسرے گروپوں سے تعلقات کے بارے میں اطلاعات  میں  پاکستانی طالبان ، دولت اسلامیہ عراق اور لیونت (داعش) کے ساتھ مضبوط تعلقات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان سب کے بیچ ایک اور  ایران مخالف دہشتگرد گروپ انصار الاسلام بھی ایرانی سیکیورٹی فورسز اور  پاکستانی شیعوں  سے مقابلے پر مامور ہے۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:پاکستان]]