"سپاہ صحابہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 90: سطر 90:
اس دوران ، سپاہ صحابہ کے کچھ ممبران ، جیسے ایثار قاسمی اور اعظم طارق نے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور سیاسی اتحاد میں شامل ہوئے ، یہ کام زیادہ تر ممبران کو اچھا نہیں لگا اور یہی امر سبب بنا کہ بہت سارے کارکن  اس دہشتگرد تنظیم کو چھوڑ دیں  اور مسلح گروپوں نے مذید شدت سے اپنی دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھیں۔۔ اس تنظیم کے تین افراد «ریاض بسرا»، «اکرم لاهوری» اور «ملک اسحاق» نے سن ۱۹۹۶ میں سپاہ صحابہ کے مسلح گروہ کا نام لشکر جھنگوی رکھ دیا۔ اس گروہ کے قیام کے بعد ، دہشت گردی کی کاروائیاں شیعہ رہنماؤں اور شیعہ سرکاری اہلکاروں کی ہلاکت کے مقصد سے کی گئیں۔ پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 2001 میں لشکر جھنگوی شیعہ رہنماؤں کے خلاف قتل و غارت گری کے 350 کاروائیوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث تھا۔ اس گروپ کو وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کے دوسرے دور میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس گروپ نے 1998 اور 1999 کے آس پاس اپنے درجنوں کارکنوں کو پولیس مقابلے میں  کھو دیا تھا۔ جنوری 1999 میں ، انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ،لشکر جھنگوی نے اس  راستے میں بمب نصب کیا جہاں  سے نواز شریف کے قافلے نے گزرنا تھا۔ 1998 میں جب پاکستان کی حکومت نے لشکر جھنگوی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کیا ، اس گروپ کے بیشتر کارکن پاکستان چھوڑ کر افغان طالبان کی پناہ میں چلے گئے۔ طالبان نے انہیں تربیت کے لئے ایک فوجی بیرک مہیا کیا اور اس موقع سے القاعدہ نے اس گروپ کے ممبروں کو تربیت دینے کا  بھر پورفائدہ اٹھایا۔ لشکر جھنگوی اسامہ بن لادن کے بین الاقوامی اسلامی محاذ کا رکن ہے۔ چونکہ سیکیورٹی وجوہات اور اپنے ممبروں کی شناخت ظاہر ہونے کے خطرے سے القاعدہ کچھ علاقوں میں براہ راست آپریشن نہیں کرسکتی ہے ،لہذا  لشکر جھنگوی کی مقامی صلاحیتوں اور  اس کے نیٹ ورکس کا استعمال کرتی ہے۔لشکر جھنگوی کا القاعدہ سے رابطہ اس گروپ کے انتہا پسند اور متشدد ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔
اس دوران ، سپاہ صحابہ کے کچھ ممبران ، جیسے ایثار قاسمی اور اعظم طارق نے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور سیاسی اتحاد میں شامل ہوئے ، یہ کام زیادہ تر ممبران کو اچھا نہیں لگا اور یہی امر سبب بنا کہ بہت سارے کارکن  اس دہشتگرد تنظیم کو چھوڑ دیں  اور مسلح گروپوں نے مذید شدت سے اپنی دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھیں۔۔ اس تنظیم کے تین افراد «ریاض بسرا»، «اکرم لاهوری» اور «ملک اسحاق» نے سن ۱۹۹۶ میں سپاہ صحابہ کے مسلح گروہ کا نام لشکر جھنگوی رکھ دیا۔ اس گروہ کے قیام کے بعد ، دہشت گردی کی کاروائیاں شیعہ رہنماؤں اور شیعہ سرکاری اہلکاروں کی ہلاکت کے مقصد سے کی گئیں۔ پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 2001 میں لشکر جھنگوی شیعہ رہنماؤں کے خلاف قتل و غارت گری کے 350 کاروائیوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث تھا۔ اس گروپ کو وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کے دوسرے دور میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس گروپ نے 1998 اور 1999 کے آس پاس اپنے درجنوں کارکنوں کو پولیس مقابلے میں  کھو دیا تھا۔ جنوری 1999 میں ، انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ،لشکر جھنگوی نے اس  راستے میں بمب نصب کیا جہاں  سے نواز شریف کے قافلے نے گزرنا تھا۔ 1998 میں جب پاکستان کی حکومت نے لشکر جھنگوی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کیا ، اس گروپ کے بیشتر کارکن پاکستان چھوڑ کر افغان طالبان کی پناہ میں چلے گئے۔ طالبان نے انہیں تربیت کے لئے ایک فوجی بیرک مہیا کیا اور اس موقع سے القاعدہ نے اس گروپ کے ممبروں کو تربیت دینے کا  بھر پورفائدہ اٹھایا۔ لشکر جھنگوی اسامہ بن لادن کے بین الاقوامی اسلامی محاذ کا رکن ہے۔ چونکہ سیکیورٹی وجوہات اور اپنے ممبروں کی شناخت ظاہر ہونے کے خطرے سے القاعدہ کچھ علاقوں میں براہ راست آپریشن نہیں کرسکتی ہے ،لہذا  لشکر جھنگوی کی مقامی صلاحیتوں اور  اس کے نیٹ ورکس کا استعمال کرتی ہے۔لشکر جھنگوی کا القاعدہ سے رابطہ اس گروپ کے انتہا پسند اور متشدد ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔
لشکر جھنگوی کے دوسرے گروپوں سے تعلقات کے بارے میں اطلاعات  میں  پاکستانی طالبان ، دولت اسلامیہ عراق اور لیونت (داعش) کے ساتھ مضبوط تعلقات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان سب کے بیچ ایک اور  ایران مخالف دہشتگرد گروپ انصار الاسلام بھی ایرانی سیکیورٹی فورسز اور  پاکستانی شیعوں  سے مقابلے پر مامور ہے۔
لشکر جھنگوی کے دوسرے گروپوں سے تعلقات کے بارے میں اطلاعات  میں  پاکستانی طالبان ، دولت اسلامیہ عراق اور لیونت (داعش) کے ساتھ مضبوط تعلقات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان سب کے بیچ ایک اور  ایران مخالف دہشتگرد گروپ انصار الاسلام بھی ایرانی سیکیورٹی فورسز اور  پاکستانی شیعوں  سے مقابلے پر مامور ہے۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:مذاہب اور فرقے]]
confirmed
2,360

ترامیم