"ذوالفقار علی بھٹو" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 116: سطر 116:
وہ چھوٹے کسانوں کو بااختیار بنانے کے زبردست حامی تھے۔ اس نے دلیل دی کہ اگر کسان کمزور اور کمزور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی زرعی طاقت کمزور ہو جائے گی، اور ان کا خیال تھا کہ کسان اس وقت تک نفسیاتی طور پر محفوظ محسوس نہیں کریں گے جب تک کہ ملک خوراک میں خود کفالت حاصل نہیں کر لیتا۔ اس لیے ان کی حکومت نے ملک کو چاول، چینی اور گندم کی صنعتوں میں خود کفالت کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پروگرام شروع کیے تھے۔ زراعت کی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے چھوٹے مالکان کے لیے ٹیکس میں چھوٹ بھی متعارف کرائی گئی۔ ان کی طرف سے سندھ میں قائم صنعتوں کو قومیانے سے غریبوں کو بہت فائدہ ہوا <ref>[https://tribune.com.pk/story/39915/floods-in-pakistan--institutional-failures tribune.com.pk سے لیا گیا]</ref>.
وہ چھوٹے کسانوں کو بااختیار بنانے کے زبردست حامی تھے۔ اس نے دلیل دی کہ اگر کسان کمزور اور کمزور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی زرعی طاقت کمزور ہو جائے گی، اور ان کا خیال تھا کہ کسان اس وقت تک نفسیاتی طور پر محفوظ محسوس نہیں کریں گے جب تک کہ ملک خوراک میں خود کفالت حاصل نہیں کر لیتا۔ اس لیے ان کی حکومت نے ملک کو چاول، چینی اور گندم کی صنعتوں میں خود کفالت کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پروگرام شروع کیے تھے۔ زراعت کی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے چھوٹے مالکان کے لیے ٹیکس میں چھوٹ بھی متعارف کرائی گئی۔ ان کی طرف سے سندھ میں قائم صنعتوں کو قومیانے سے غریبوں کو بہت فائدہ ہوا <ref>[https://tribune.com.pk/story/39915/floods-in-pakistan--institutional-failures tribune.com.pk سے لیا گیا]</ref>.
==== خارجہ پالیسی ====   
==== خارجہ پالیسی ====   
اقتدار سنبھالنے کے بعد، انہوں نے امریکہ سے دور پاکستان کے تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے قریبی عرب تعلقات اور [[چین]] پاکستان تعلقات کو فروغ دیا اور مضبوط کیا۔ وہ آزاد خارجہ پالیسی پر یقین رکھتے تھے۔ وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان اور [[ایران]] کے درمیان خصوصی تعلقات قائم کیے اور انہیں مضبوط کیا۔ کیونکہ ایران نے پاکستان کو فوجی امداد فراہم کی تھی۔ پاکستان اور چین کے تعلقات میں بہت بہتری آئی تھی اور پاکستان نے اپنے دور میں چین کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات استوار کیے تھے جب چین الگ تھلگ تھا۔<br>
اقتدار سنبھالنے کے بعد، انہوں نے امریکہ سے دور پاکستان کے تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے قریبی عرب تعلقات اور [[چین]] پاکستان تعلقات کو فروغ دیا اور مضبوط کیا۔ وہ آزاد خارجہ پالیسی پر یقین رکھتے تھے۔ وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان اور [[ایران]] کے درمیان خصوصی تعلقات قائم کیے اور انہیں مضبوط کیا۔ کیونکہ ایران نے پاکستان کو فوجی امداد فراہم کی تھی۔ پاکستان اور چین کے تعلقات میں بہت بہتری آئی تھی اور پاکستان نے اپنے دور میں چین کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات استوار کیے تھے جب چین الگ تھلگ تھا۔
 
1974 میں انہوں نے دوسری تنظیم اسلامی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں انہوں نے عالم اسلام کے رہنماؤں کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں مدعو کیا۔ وہ افریقی ایشیائی یکجہتی کے شدید حامی تھے اور انہوں نے افریقی ایشیائی اور اسلامی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا اور 1976 تک وہ تیسری دنیا کے رہنما کے طور پر ابھرے۔<br>
1974 میں انہوں نے دوسری تنظیم اسلامی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں انہوں نے عالم اسلام کے رہنماؤں کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں مدعو کیا۔ وہ افریقی ایشیائی یکجہتی کے شدید حامی تھے اور انہوں نے افریقی ایشیائی اور اسلامی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا اور 1976 تک وہ تیسری دنیا کے رہنما کے طور پر ابھرے۔<br>
انہوں نے ایک امن معاہدے کا مطالبہ کیا جس میں شملہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ تھا اور 93,000 جنگی قیدیوں کو پاکستان واپس کر دیا اور بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے [[کشمیر]] کی پوزیشن پر سمجھوتہ کیے بغیر بھارت کے زیر قبضہ 513,000 مربع کلومیٹر کا علاقہ محفوظ کر لیا۔<br>
انہوں نے ایک امن معاہدے کا مطالبہ کیا جس میں شملہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ تھا اور 93,000 جنگی قیدیوں کو پاکستان واپس کر دیا اور بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے [[کشمیر]] کی پوزیشن پر سمجھوتہ کیے بغیر بھارت کے زیر قبضہ 513,000 مربع کلومیٹر کا علاقہ محفوظ کر لیا۔
ان کی وسیع ذہانت اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بارے میں گہری معلومات اور ایٹمی تاریخ نے انہیں ایک ایسی خارجہ پالیسی بنانے کے قابل بنایا جس کی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ان کی پالیسیوں کو یکے بعد دیگرے حکومتوں نے عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے جاری رکھا۔ 1974 میں، وہ اور ان کے وزیر خارجہ، '''عزیز احمد'''، اقوام متحدہ میں ایک قرارداد لے کر آئے جس میں جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں سے پاک زون کی سفارش کی گئی تھی، جب کہ اس نے اور عزیز احمد نے بھارت کے جوہری پروگرام پر سخت حملہ کیا۔ اس نے بھارت کو دفاعی انداز میں کھڑا کیا اور پاکستان کو ایٹمی عدم پھیلاؤ والے ملک کے طور پر فروغ دیا۔<br>
 
انہوں نے عرب [[اسرائیل]] تنازع کے دوران عرب دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جسے عرب دنیا کے برابر رکھا گیا۔ 1973 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران پاکستان کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات نے ایک اہم موڑ دیا۔ پاکستان اور عرب دنیا دونوں میں، پاکستان کی طرف سے عرب ممالک کو فوری، غیر مشروط اور واضح مدد کی پیشکش کو سراہا گیا۔ 1974ء میں دیگر مسلم ممالک کے دباؤ پر بالآخر پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا  
ان کی وسیع ذہانت اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بارے میں گہری معلومات اور ایٹمی تاریخ نے انہیں ایک ایسی خارجہ پالیسی بنانے کے قابل بنایا جس کی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ان کی پالیسیوں کو یکے بعد دیگرے حکومتوں نے عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے جاری رکھا۔ 1974 میں، وہ اور ان کے وزیر خارجہ، '''عزیز احمد'''، اقوام متحدہ میں ایک قرارداد لے کر آئے جس میں جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں سے پاک زون کی سفارش کی گئی تھی، جب کہ اس نے اور عزیز احمد نے بھارت کے جوہری پروگرام پر سخت حملہ کیا۔ اس نے بھارت کو دفاعی انداز میں کھڑا کیا اور پاکستان کو ایٹمی عدم پھیلاؤ والے ملک کے طور پر فروغ دیا۔
 
انہوں نے عرب [[اسرائیل]] تنازع کے دوران عرب دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جسے عرب دنیا کے برابر رکھا گیا۔ 1973 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران پاکستان کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات نے ایک اہم موڑ دیا۔ پاکستان اور عرب دنیا دونوں میں، پاکستان کی طرف سے عرب ممالک کو فوری، غیر مشروط اور واضح مدد کی پیشکش کو سراہا گیا۔ 1974ء میں دیگر مسلم ممالک کے دباؤ پر بالآخر پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا
 
== احتجاج اور بغاوت ==
== احتجاج اور بغاوت ==
انہیں کافی تنقید اور بڑھتی ہوئی غیرمقبولیت کا سامنا کرنا پڑا جوں ہی ان کے دور میں ترقی ہوئی۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ عوام ان کی قیادت میں جمع ہوئے، اس نے اپوزیشن لیڈر '''عبدالولی خان''' اور ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی کی نیشنل عوامی پارٹی کو نشانہ بنا کر منتشر ہونا شروع کر دیا اور اس کے نتیجے میں سیکولر محاذوں سے الگ ہو کر متحد ہو گئے۔ دونوں جماعتوں کی نظریاتی مماثلت کے باوجود ان کے درمیان کشمکش مزید شدت اختیار کر گئی۔ یہ بلوچستان میں مبینہ علیحدگی پسند سرگرمیوں کی وجہ سے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت سے ہٹانے سے شروع ہوا اور صوبائی حکومت کی پابندی پر ختم ہوا۔ پشاور بم دھماکے میں بھٹو کے معتمد حیات شیرپاوی کی ہلاکت کے بعد صوبائی حکومت (NAP) کے کئی سینئر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک اور قابل ذکر شخصیت جج حمود الرحمن ہیں وہ دفتر میں رہتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ 1974 اور 1976 کے درمیان ان کے بہت سے اصل ارکان نے سیاسی اختلافات کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا۔<br>
انہیں کافی تنقید اور بڑھتی ہوئی غیرمقبولیت کا سامنا کرنا پڑا جوں ہی ان کے دور میں ترقی ہوئی۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ عوام ان کی قیادت میں جمع ہوئے، اس نے اپوزیشن لیڈر '''عبدالولی خان''' اور ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی کی نیشنل عوامی پارٹی کو نشانہ بنا کر منتشر ہونا شروع کر دیا اور اس کے نتیجے میں سیکولر محاذوں سے الگ ہو کر متحد ہو گئے۔ دونوں جماعتوں کی نظریاتی مماثلت کے باوجود ان کے درمیان کشمکش مزید شدت اختیار کر گئی۔ یہ بلوچستان میں مبینہ علیحدگی پسند سرگرمیوں کی وجہ سے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت سے ہٹانے سے شروع ہوا اور صوبائی حکومت کی پابندی پر ختم ہوا۔ پشاور بم دھماکے میں بھٹو کے معتمد حیات شیرپاوی کی ہلاکت کے بعد صوبائی حکومت (NAP) کے کئی سینئر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک اور قابل ذکر شخصیت جج حمود الرحمن ہیں وہ دفتر میں رہتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ 1974 اور 1976 کے درمیان ان کے بہت سے اصل ارکان نے سیاسی اختلافات کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا۔<br>