خورشید احمد

ویکی‌وحدت سے

60px|بندانگشتی|راست
نویسنده این صفحه در حال ویرایش عمیق است.

یکی از نویسندگان مداخل ویکی وحدت مشغول ویرایش در این صفحه می باشد. این علامت در اینجا درج گردیده تا نمایانگر لزوم باقی گذاشتن صفحه در حال خود است. لطفا تا زمانی که این علامت را نویسنده کنونی بر نداشته است، از ویرایش این صفحه خودداری نمائید.
آخرین مرتبه این صفحه در تاریخ زیر تغییر یافته است: 07:35، 23 اگست 2022؛


خورشید احمد
نام خورشید احمد
پیدا ہونا 1923، دہلی، ہندوستان
مذہب اسلام، سنی
سرگرمیاں جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب، مصنف

خورشید احمد ایک ماہر معاشیات، مصنف اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب صدر ہیں۔

سوانح عمری

وہ 23 مارچ 1932 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ اس کے پاس قانون اور بنیادی اصولوں میں بیچلر کی ڈگری ہے۔ اس نے معاشیات اور اسلامیات میں ماسٹر ڈگری اور یونیورسٹی سے تعلیم میں اعزازی ڈگری بھی حاصل کی ہے [1].

بچپن اور تعلیم

وہ اپنے بارے میں یہ کہتے ہیں: یہ میرے لیے خدا کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے کہ جس خاندان میں میں نے آنکھ کھولی وہ مذہبی اور فکری لحاظ سے ایک اچھا خاندان تھا۔ میرے والد علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ اپنی سیاسی زندگی میں انہوں نے مسلم خلافت اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میرے والد کا مذہبی، سیاسی اور ادبی شخصیات سے گہرا تعلق تھا اور یوں اہم شخصیات ہم سے ملنے آتی تھیں۔ اس لیے بچپن میں مجھے دہلی کی ادبی اور ثقافتی زندگی سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ دہلی میں بچوں کی ایک انجمن تھی جہاں میں سب سے کم عمر منتخب صدر تھا۔
گھر میں اقبال لاہوری کا کلام سننے کا، حالی، غالب پڑھنے کا موقع ملا۔ مجھے سینکڑوں اشعار حفظ کرنے کا موقع ملا۔ اس نقطہ نظر سے ایک ایسا ماحول تھا جہاں میں بچپن سے ہی سائنسی اور ادبی ذوق کے ساتھ پلا بڑھا ہوں۔ میں نے یونیورسٹی کے دوران باقاعدگی سے کتابیں پڑھنا شروع کیں، لیکن مجھے پرائمری اور سیکنڈری اسکول میں انگریزی اور اردو میں لکھنے اور بولنے کا شوق پیدا ہوا [2].

اہم سیاسی اور مذہبی شخصیات سے متاثر ہونا

وہ سیاسی اور مذہبی شخصیات سے اپنے اثر و رسوخ کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں: سب سے پہلے جن لوگوں نے مجھے متاثر کیا ان میں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، جواہر لال نہرو، مولانا حسرت مہانی، اور ویسے میں نے نہرو کی دو کتابیں پڑھی تھیں۔ گریجویشن کی عمر. تاریخ اور باپ کی طرف سے بیٹی کے نام دوسرے خطوط، یہ دراصل وہ خطوط ہیں جو نہرو نے اندرا گاندھی کو لکھے تھے۔ اس نے تاریخ کی کہانی خوبصورتی سے سنائی۔ جب سے میں نے جواہر لعل نہرو کو پڑھا، میں کمیونزم کی طرف تھوڑا مائل تھا، لیکن ساتھ ہی، چونکہ میرے والد پاکستان تحریک انصاف میں سرگرم تھے، اس لیے میں نے بھی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ ایک بہت ہی دلچسپ موضوع تھا جس کے تحت پاکستانی اسلام مسلمانوں نے آزادی اور قومی شناخت کی طرف مائل کیا۔ چنانچہ جب میں پاکستان آیا تو پہلی بار مولانا مودودی سے ملا اور ان کا لٹریچر پڑھا۔
وہ سید ابوالاعلی مودودی سے متاثر ہونے کے بارے میں کہتے ہیں: میں نے رومی کو بچپن میں دیکھا تھا۔ 1938 یا 1939 کے لگ بھگ میرے والد کی ان کے ساتھ ایک دوستانہ تقریب تھی اور میں نے اس وقت ان کے لیے ایک انقلابی غزل گائی تھی۔ اس کے بعد جب میں نے مولانا مودودی کی تحریریں پڑھی تو مجھ پر ایک اور دنیا کھل گئی۔ جن دو کتابوں نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ رومی کے خطبات اور تجزیے تھے۔ کسی کتاب کا جائزہ لینا قدرے مشکل ہے لیکن معاشرے سے میرے ذہنی تعلق کی وجہ سے یہ کتاب واقعی مجھے چھو گئی۔ خاص طور پر ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب اور ہندوستان میں اسلامی تہذیب کے زوال پر دو مضامین۔
اس دوران علامہ محمد اسد کی تصنیف نو مسلم پڑھی۔ قیام پاکستان کے وقت یعنی 1947ء تک ان کے رسالہ عرفات کے 6 یا 7 شمارے شائع ہو چکے تھے جو مجھے کافی تلاش کے بعد ملے۔ میرے سامنے ایک اور دنیا کھل گئی۔

حوالہ جات