"حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 94: سطر 94:
بعثت  کے گیارہویں سال حج کے موقع پر قبیلہ خزرج کے چھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے ملے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے سامنے اپنا دین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے لوگوں تک آپ کے  دین کا پیغام پہنچانے کا وعدہ  کیا۔ اگلے سال حج کے دوران مدینہ کے بارہ لوگوں نے عقبہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہاتھوں پر  بیعت  کی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے، چوری نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں گے، غیبت نہ کریں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ و سلم کے نیک کاموں میں ان  کی اطاعت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں اور انہیں شہر کی حالت اور لوگوں کے قبول اسلام سے آگاہ کریں۔
بعثت  کے گیارہویں سال حج کے موقع پر قبیلہ خزرج کے چھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے ملے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے سامنے اپنا دین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے لوگوں تک آپ کے  دین کا پیغام پہنچانے کا وعدہ  کیا۔ اگلے سال حج کے دوران مدینہ کے بارہ لوگوں نے عقبہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہاتھوں پر  بیعت  کی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے، چوری نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں گے، غیبت نہ کریں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ و سلم کے نیک کاموں میں ان  کی اطاعت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں اور انہیں شہر کی حالت اور لوگوں کے قبول اسلام سے آگاہ کریں۔


سنہ 13 بعثت میں حج کے موسم میں قبیلہ خزرج کے 73 مرد و خواتین حج  سے فارغ ہو کر عقبہ میں جمع ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عباس پہلے خطیب تھے جنہوں نے کہا: اے خزرج کے لوگو! محمد ہم میں سے ہیں اور ہم نے انہیں لوگوں سے جتنا ممکن تھا رکھا۔
سنہ 13 بعثت میں حج کے موسم میں قبیلہ خزرج کے 73 مرد و خواتین حج  سے فارغ ہو کر عقبہ میں جمع ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے عباس نے تقریر کرتےہوئے کہا: اے خزرج کے لوگو! محمد ہم میں سے ہیں اور ہم نے انہیں لوگوں سے جتنا ممکن تھابچائے  رکھا۔


اب وہ آپ کے پاس آنا چاہتا ہے۔ اگر تم اس کی حمایت اور مخالفین کی برائیوں کو اس سے روکنے کی طاقت دیکھتے ہو تو کیا بہتر ہے، ورنہ اسے ابھی جانے دو۔ عباس کے جواب میں انہوں نے کہا: ہم نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، اب یا رسول اللہ! کہو جو تمہیں اور تمہارے خدا کو پسند ہے!" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور پھر فرمایا: "میں تم سے بیعت کرتا ہوں کہ تم اپنے لوگوں کی طرح میری حمایت کرو۔" اہل مدینہ کے نمائندوں نے آپ کی بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں سے دشمن اور اس کے دوستوں کے ساتھ دوست رہیں گے اور جو بھی آپ کے ساتھ جنگ ​​میں جائے گا اس سے لڑیں گے۔ یوں اس عہد کو جنگ کا عہد کہا گیا۔ اس عہد کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یثرب جانے کی اجازت دی۔
اب یہ  آپ کے پاس آنا چاہتا ہے۔ اگر تم اس کی حمایت اور مخالفین کے شر  کو اس سے روکنے کی طاقت رکھتے ہو تو بہتر ہے، ورنہ اسے ابھی جانے دو۔ عباس کے جواب میں انہوں نے کہا: ہم نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، اب ائے  اللہ کے  رسول! کہئے جو آپ کو  اور آپ کے خدا کو پسند ہے! نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور پھر فرمایا: "میں تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم اپنے لوگوں کی طرح میری حمایت کرو۔" اہل مدینہ کے نمائندوں نے آپ کی بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں کے دشمن اور اس کے دوستوں کے دوست رہیں گے اور جو بھی آپ کے ساتھ جنگ ​​میں جائے گا اس سے لڑیں گے۔ یوں اس معاہدہ  کو جنگ کا معاہدہ کہا گیا۔ اس معاہدہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مسلمانوں کو یثرب جانے کی اجازت دے دی۔
=== دار الندوۃ کی سازش ===
=== دار الندوۃ کی سازش ===
قریش جب یثرب کے لوگوں سے رسول اللہ کے عہد و پیمان سے مطلع ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلوں کے عہد و پیمان کی پرواہ کئے بغیر رسول خدا کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ لیکن آپ ؐ کو قتل کرنا آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ ؐ کے قتل ہو جانے کی صورت میں بنو ہاشم خونخواہی کا مطالبہ کرتے۔ قریش نے اس کے مناسب حل کیلئے دار الندوۃ میں ایک میٹنگ بلائی باہمی صلاح و مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان لیا جائے تمام افراد یک لخت رسول اللہ پر حملہ آور ہوں اور انہیں اکٹھے قتل کر دیں۔ اس صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم کیلئے تمام قبیلوں سے انتقام لینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ تمام قبائل سے جنگ کرنا ان کیلئے ناممکن ہو گا اور وہ مجبور ہو کر خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔
قریش جب یثرب کے لوگوں کے ساتھ  رسول اللہ کے عہد و پیمان سے مطلع ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلوں کے عہد و پیمان کی پرواہ کئے بغیر رسول خدا کے قتل کا منصوبہ بنالیا۔ لیکن آپ ؐ کو قتل کرنا آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ ؐ کے قتل ہو جانے کی صورت میں بنو ہاشم خونخواہی کا مطالبہ کرتے۔ قریش نے اس کے مناسب حل کیلئے دار الندوۃ میں ایک میٹنگ بلائی ۔باہمی صلاح و مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان لیا جائے۔ تمام افراد بیک وقت رسول اللہ پر حملہ آور ہوں اور انہیں اکٹھے قتل کر دیں۔ اس صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم کیلئے تمام قبیلوں سے انتقام لینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ تمام قبائل سے جنگ کرنا ان کیلئے ناممکن ہو گا اور وہ مجبور ہو کر خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔


اس نقشے پر عمل درآمد کی رات خدا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ علی کو اپنی جگہ سلا کر مکہ سے نکل گئے۔(دیکھیں:شب ہجرت)رسول خدا ابو بکر بن ابی قحافہ کے ساتھ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور 3 دن تک مکہ کے نزدیک غار ثور میں ٹھرے رہے تا کہ ان کا پیچھا کرنے والے نا امید ہو جائیں۔ اس کے بعد آپؐ نے غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 60</ref>۔  
اس منصوبے پر عمل درآمد کی رات خدا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ سلا کر مکہ سے نکل گئے۔(دیکھیں:شب ہجرت)رسول خدا ابو بکر بن ابی قحافہ کے ساتھ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور 3 دن تک مکہ کے نزدیک غار ثور میں ٹھہرے رہے تا کہ ان کا پیچھا کرنے والے نا امید ہو جائیں۔ اس کے بعد آپؐ نے غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 60</ref>۔  
== ہجرت مدینہ ==
== ہجرت مدینہ ==
رسول خدا کے [[مکہ]] سے نکلنے اور مدینے پہنچنے کی تاریخ میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ابن ہشام جس نے رسول اللہ کی ہجرت کا مکمل نقشہ بیان کیا وہ لکھتا ہے ہے کہ رسول اللہ ربیع الاول کی 12ویں تاریخ بروز سوموار ظہر کے بعد قبا پہنچے۔ابن کلبی نے رسول اللہ کے مکہ سے باہر نکلنے کی تاریخ 1 ربیع الاول اور قبا پہنچنے کی تاریخ اسی مہینے کی 12 بروز جمعہ ذکر کی ہے۔بعض نے وہاں پہنچنے کی تاریخ 8 ربیع الاول لکھی ۔متاخرین اور یورپین مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ بعثت کے 12ویں سال ربیع الاول کے 9 دن سفر میں رہے اور 12 تاریخ بمطابق 24 ستمبر622سن عیسوی مدینے کے نزدیک قبا کے مقام پر پہنچے۔
رسول خدا کے [[مکہ]] سے نکلنے اور مدینہ پہنچنے کی تاریخ کے متعلق مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ابن ہشام جس نے رسول اللہ کی ہجرت کا مکمل نقشہ بیان کیا، وہ لکھتا ہے کہ رسول اللہ ربیع الاول کی 12ویں تاریخ بروز پیر ظہر کے بعد قبا پہنچے۔ابن کلبی نے رسول اللہ کے مکہ سے باہر نکلنے کی تاریخ 1 ربیع الاول اور قبا پہنچنے کی تاریخ اسی مہینے کی 12 بروز جمعہ ذکر کی ہے۔بعض نے وہاں پہنچنے کی تاریخ 8 ربیع الاول لکھی ۔متاخرین اور یورپین مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ بعثت کے 12ویں سال ربیع الاول کے 9 دن سفر میں رہے اور 12 تاریخ بمطابق 24 ستمبر سن 622 عیسوی مدینے کے نزدیک قبا کے مقام پر پہنچے۔یغمبر کی مکہ سے [[مدینہ]] کی جانب  ہجرت مسلمانوں کیلئے اسلامی تاریخ کا مبدا اور آغاز قرار پائی۔ رسول خدا نے قبا میں توقف کے دوران مسجد تعمیر کی جسے مسجد قبا کہا جاتا تھا.
پیغمبر کی مکہ سے [[مدینہ]] ہجرت مسلمانوں کیلئے اسلامی تاریخ کا مبدا اور آغاز قرار پائی۔ رسول خدا نے قبا میں توقف کے دوران مسجد تعمیر کی اسے مسجد قبا کہا جاتا تھا.


حضرت علی رسول اللہ کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ رہے اور آپ نے رسول خدا کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں۔ پھر حضرت فاطمہ سمیت بنی ہاشم کی خواتین لے کر مدینہ کی طرف گئے اور قبا میں کلثوم بن ہدم کے گھر رسول اللہ سے ملحق ہو گئے۔
حضرت علی رسول اللہ کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ میں  رہے اور آپ نے رسول خدا کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کی۔ پھر حضرت فاطمہ سمیت بنی ہاشم کی خواتین کو  لے کر مدینہ کی طرف گئے اور قبا میں کلثوم بن ہدم کے گھر رسول اللہ سے جا ملے۔


رسول خدا 12 ربیع الاول کو بنی نجار کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئے ۔پہلی نماز جمعہ قبیلۂ بنی سالم میں پرھائی۔آپ کے مدینہ میں داخلے کے موقع پر وہاں ہر قبیلہ کا سربراہ اپنے اہل خانہ سمیت چاہتا تھا کہ وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے تا کہ دوسروں کی نسبت آپکی مہمان نوازی کا شرف اسے حاصل ہو جائے ۔ رسول اللہ دعوت دینے والوں کے جواب میں کہتے میرا اونٹ حکم دے دیا گیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس جگہ جانا ہے ؟ بنی مالک بن نجار کے گھروں کے درمیان دو یتیموں کی زمین پر بیٹھ گیا ۔رسول خدا نے ان یتیموں کے سرپرست معاذ بن عقراء سے زمین خرید لی اور اس میں مسجد بنائی گئی جو مسجد النبی کی بنیاد ہے ۔ابوایوب انصاری رسول اللہ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور آپ کے حجرے کی تعمیر تک انہی کے گھر رہے.
رسول خدا 12 ربیع الاول کو بنی نجار کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئے ۔پہلی نماز جمعہ قبیلۂ بنی سالم میں پرھائی۔آپ کے مدینہ میں داخلے کے موقع پر وہاں ہر قبیلہ کا سربراہ اپنے اہل خانہ سمیت چاہتا تھا کہ وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے تا کہ دوسروں کی نسبت آپ کی مہمان نوازی کا شرف اسے حاصل ہو جائے ۔ رسول اللہ دعوت دینے والوں کے جواب میں کہتے میرا اونٹ مامور  ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس جگہ جانا ہے ؟ گھوڑا بنی مالک بن نجار کے گھروں کے درمیان دو یتیموں کی زمین پر بیٹھ گیا ۔رسول خدا نے ان یتیموں کے سرپرست معاذ بن عقراء سے زمین خرید لی اور اس میں مسجد بنائی گئی جو مسجد نبوی  کی بنیاد ہے ۔ابوایوب انصاری رسول اللہ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور آپ حجرے کی تعمیر تک انہی کے گھر رہے۔


رسول خدا مسجد کی تعمیر میں صحابہ کی مدد فرماتے تھے ۔مسجد کی ایک طرف ایک چبوترہ صفہ بنایا گیا تا کہ وہاں مستمد حضرات رہ سکیں۔ وہاں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہا گیا۔
رسول خدا مسجد کی تعمیر میں صحابہ کی مدد فرماتے تھے ۔مسجد کی ایک طرف ایک چبوترہ ”صفہ“ بنایا گیا تا کہ وہاں ضرورت مند  حضرات رہ سکیں۔ وہاں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہا گیا۔دن بدن مہاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور انصار انہیں اپنا مہمان بناتے رہے ۔رسول اللہ نے ان کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا اور حضرت علی علیہ السلام  کو اپنا بھائی بنایا۔
دن بدن مہاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور انصار انہیں اپنا مہمان بناتے رہے ۔رسول اللہ نے ان کے درمیان صیغۂ اخوت قائم کیا اور رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا


ایک چھوٹی سی جماعت جو دلی طور پر ایمان نہیں لائے تھے ظاہری طور ایمان لائے انہیں منافقان کہتے تھے۔ مدینے میں کچھ دیر قیام کے بعد آپؐ نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تا ایک دوسرے کے معاشرتی حقوق کی رعایت کی جاسکے
ایک چھوٹی سی جماعت جو دلی طور پر ایمان نہیں لائے تھے ظاہری طور ایمان لائے تھے انہیں منافقین کہا جاتا  تھا۔ مدینے میں کچھ دیر قیام کے بعد آپؐ نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تاکہ ایک دوسرے کے معاشرتی حقوق کی رعایت کی جاسکے۔
== منافقین اور یہودی ==
== منافقین اور یہودی ==
اس کے باوجود کہ اکثر یثربی عوام یا تو مسلمان تھے یا پھر رسول اللہؐ کے حامی تھے، ایسا بھی نہیں تھا کہ پورا شہر اور اس کے نواحی علاقے مکمل طور پر مطیع اور پرسکون ہوں۔ عبداللہ بن ابی ـ جس کی بادشاہت کا انتظام مدینہ میں مکمل ہوچکا تھا اور محمدؐ کے مدینہ پہنچنے پر وہ اس منصب سے محروم ہو چکا تھا ـ چین سے نہيں بیٹھا تھا اور اس کے باوجود کہ بظاہر مسلمان کہلواتا تھا، خفیہ طور پر محمد اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا اور یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز میں مصروف تھا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 68-67</ref>۔
گو کہ عوام کی اکثریت  مسلمان تھی یا پھر رسول اللہؐ کی حامی لیکن ایسا نہیں تھا کہ پورا شہر اور اس کے نواحی علاقے مکمل طور پر مطیع اور پرسکون ہوں۔ عبداللہ بن ابی ـ جس کی بادشاہت کا انتظام مدینہ میں مکمل ہوچکا تھا اورحضرت  محمدؐ(ص) کے مدینہ پہنچنے پر وہ اس منصب سے محروم ہو گیا تھا ـ چین سے نہيں بیٹھا تھا اور باوجوداس کے کہ بظاہر مسلمان کہلواتا تھا، خفیہ طور پر نبی کریم (ص) اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا اور یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز میں مصروف تھا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 68-67</ref>۔


اس گروہ نے ـ جنہيں قرآن کی پہلی مدنی آیات میں منافقین کے نام سے پکارا گیا ہے ـ رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ ان لوگوں کا علاج مشرکین اور یہودیوں کے علاج کی نسبت بہت مشکل تھا کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے ہاں مسلمان کہلواتے تھے اور پیغمبر اسلام، خدا کے ظاہری حکم کے تحت، ان کے خلاف جنگ نہيں لڑ سکتے تھے
اس گروہ نے ـ جسے قرآن کی پہلی مدنی آیات میں منافقین کے نام سے پکارا گیا ہے ـ رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی۔ ان لوگوں کا علاج مشرکین اور یہودیوں کے علاج کی نسبت بہت مشکل تھا۔ کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے ہاں مسلمان کہلواتے تھے اور پیغمبر اسلام، خدا کے ظاہری حکم کے تحت، ان کے خلاف جنگ نہيں لڑ سکتے تھے۔خداوند متعال کبھی قرآنی آیات کے ذریعے انہيں ڈراتا اور خبردار کرتا تھا کہ خدا اور اس کا رسول  تمہارے کرتوتوں کی خبر رکھتا ہےاور جانتا ہے کہ تم نے اسلام  کو اپنے تحفظ کے لئے ڈھال بنا رکھا ہے:'''إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَ سُولُ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَ سُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ'''<ref>منافقون 1</ref>
خداوند متعال کبھی قرآنی آیات کے ذریعے انہيں ڈراتا اور خبردار کرتا تھا کہ خدا اور اس کے پیغمبر تمہارے کرتوتوں کی خبر رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تم نے مسلمانی کو اپنے تحفظ کے لئے ڈھال قرار دیا ہے:
'''إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَ سُولُ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَ سُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ'''<ref>منافقون 1</ref>


اسلام کی راہ میں عبداللہ بن ابی کی طرف سے روڑنے اٹکانے اور خلل اندازی کا سلسلہ سنہ 9 ہجری میں اس کی موت کے لمحات تک جاری رہا۔ یہودی بھی ـ جنہیں میثاق مدینہ کے تحت کافی حقوق اور مراعاتوں سے سے نوازا گیا تھا، یہاں تک کہ جنگی غنائم میں بھی حصہ پاتے تھے، وہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے تھے اور کئی یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا لیکن آخر کار ناسازگاری و بےآہنگی کے راستے پر گامزن ہوئے۔ سبب یہ تھا کہ وہ نہ صرف یثرب کی معیشت پر مسلط تھے بلکہ صحرائی عربوں اور مشرکین مکہ کے ساتھ بھی لین دین کرتے تھے؛ انہیں توقع تھی کہ عبداللہ بن ابی مدینے کا حکمران بنے گا اور یوں مدینہ کی معیشت پر ان کے اثر و نفوذ میں مزید اضافہ ہوگا؛ لیکن جب محمدؐ اس شہر میں تشریف لائے اور اسلام کو مدینہ میں فروغ ملا تو یہ امر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر ورسوخ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا
اسلام کی راہ میں عبداللہ بن ابی کی طرف سے روڑنے اٹکانے اور خلل اندازی کا سلسلہ سنہ 9 ہجری میں اس کی موت کے لمحات تک جاری رہا۔ یہودی بھی ـ جنہیں میثاق مدینہ کے تحت کافی حقوق اور مراعاتوں سے سے نوازا گیا تھا، یہاں تک کہ جنگی غنائم میں بھی حصہ پاتے تھے، وہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے تھے اور کئی یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا لیکن آخر کار ناسازگاری اور بےہم آہنگی کے راستے پر گامزن ہوئے۔ سبب یہ تھا کہ وہ نہ صرف یثرب کی معیشت پر مسلط تھے بلکہ صحرائی عربوں اور مشرکین مکہ کے ساتھ بھی لین دین کرتے تھے؛ انہیں توقع تھی کہ عبداللہ بن ابی مدینے کا حکمران بنے گا اور یوں مدینہ کی معیشت پر ان کے اثر و نفوذ میں مزید اضافہ ہوگا؛ لیکن جب حضرت  محمدؐ (ص)اس شہر میں تشریف لائے اور اسلام کو مدینہ میں فروغ ملا تو یہ امر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر ورسوخ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا


علاوہ ازیں یہودی اپنی نسل سے باہر کسی شخص کو ہرگز نبی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ بعد محمدؐ کے ساتھ اپنی مخالفت آشکار کردی۔ بظاہر عبداللہ بن ابی کا کردار بھی ان کو اکسانے اور مشتعل کرنے میں مؤثر تھا۔
علاوہ ازیں یہودی اپنی نسل سے باہر کسی شخص کو ہرگز نبی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ بعد حضرت  محمدؐ(ص) کے ساتھ اپنی مخالفت آشکار کردی۔ بظاہر عبداللہ بن ابی کا کردار بھی ان کو اکسانے اور مشتعل کرنے میں مؤثر تھا۔یہودیوں نے کہا: جس پیغمبر کا ہم انتظار کررہے تھے وہ محمدؐ نہیں ہیں اور وہ قرآنی آیات کے مقابلے میں تورات اور انجیل کے حوالے دیتے اور ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ ہماری کتابوں میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ ایک نہیں ہے۔ اس یہودی سازش کے جواب میں قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور ان آیات کے ضمن میں کہا گیا کہ تورات اور انجیل وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تحریف کا شکار ہوئی ہیں اور یہودی علماء نے اپنے خاص مقاصد اور مفادات کی خاطر ان کی آیات میں تحریف اور تبدیلی کی ہے۔
یہودیوں نے کہا: جس پیغمبر کا ہم انتظار کررہے تھے وہ محمدؐ نہیں ہیں اور وہ قرآنی آیات کے مقابلے میں تورات اور انجیل کے حوالے دیتے اور ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ ہماری کتابوں میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ ایک نہیں ہے۔ اس یہودی سازش کے جواب مین قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور ان آیات کے ضمن میں کہا گیا کہ تورات اور انجیل وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تحریف کا شکار ہوئی ہیں اور یہودی علماء نے اپنے خاص مقاصد اور مفادات کی خاطر ان کی آیات میں تحریف اور تبدیلی کی ہے۔


بالآخر قرآن نے یکبارگی یہود و نصاریٰ کے ساتھ اسلام کا ربط توڑ کر رکھ دیا تا کہ عرب کو سمجھا سکے کہ وہ یہودیوں سے بالکل الگ ایک جداگانہ امت ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
بالآخر قرآن نے یکبارگی یہود و نصاریٰ کے ساتھ اسلام کا تعلق ختم کر دیا تا کہ عرب کو سمجھا سکے کہ وہ یہودیوں سے بالکل الگ ایک جداگانہ امت ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا عرب ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم اسرائیل کے جد اعلیٰ ہیں  يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَ اهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَ اةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَ اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ كِينَ۔
عرب ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم اسرائیل کے جد اعلیٰ ہیں   
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَ اهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَ اةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَ اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ كِينَ۔
== قبلہ کی تبدیلی ==
== قبلہ کی تبدیلی ==
[[علامہ طباطبائی]] کے مطابق اکثر منابع کے مطابق قبلہ کی تبدیلی ہجری کے دوسرے سال رجب کے مہینے میں ہوئی۔
[[علامہ طباطبائی]] کے بقول  اکثر منابع کے مطابق قبلہ کی تبدیلی ہجرت کے دوسرے سال رجب کے مہینے میں ہوئی۔امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس سے پہلے مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تہمت لگاتے تھے اور کہتے تھے:محمد کے پاس اپنا قبلہ بھی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم نے اسے بتایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے مغموم ہوئے یہاں تک کہ ایک دن آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور نماز کے درمیان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا اور آیت قبلہ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 144 نازل ہوئی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنی نماز کی دو رکعتیں یروشلم کی طرف اور دو مزید رکعتیں کعبہ کی طرف ادا کیں جس کے نتیجے میں یہودی اور منافقین غیظ و غضب کا شکار ہو گئے، <ref>تاریخ تحلیلی اسلام، صص 69-71۔</ref>
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس سے پہلے مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے تھے اور کہتے تھے: تم ہماری اطاعت کرو اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز پڑھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈانٹ سے ناراض ہوئے یہاں تک کہ ایک دن آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور نماز کے درمیان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا اور آیت قبلہ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 144 نازل ہوئی۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کی دو رکعتیں یروشلم کی طرف اور دو مزید رکعتیں کعبہ کی طرف ادا کیں جس کے نتیجے میں یہودیوں کا احتجاج اور شور مچ گیا  شہیدی، <ref>تاریخ تحلیلی اسلام، صص 69-71۔</ref>
== مدینہ میں جنگیں اور تنازعات ==
== مدینہ میں جنگیں اور تنازعات ==
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ بہت سی جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ بہت سی جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں۔
=== جنگ بدر ===
=== جنگ بدر ===
جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے ساتھ عقبہ کا دوسرا معاہدہ کیا، اس وقت سے قریش کے ساتھ تصادم کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔
جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے ساتھ عقبہ کا دوسرا معاہدہ کیا، اسی وقت سے قریش کے ساتھ تصادم کی توقع کی جا رہی تھی۔پہلا [[غزوہ]] ہجرت کے دوسرے سال صفر کے مہینے میں ہوا جسے ابواء یا ودان کی مہم کہا جاتا ہے۔اس مہم میں کوئی تصادم نہیں ہوا۔ اس کے بعد [[ربیع الاول]] میں بواط کی مہم  ہوئی۔اس میں بھی کوئی تصادم  نہیں ہوا۔ [[جمادی الاول]] میں یہ خبر پہنچی کہ قریش کا قافلہ [[ابوسفیان]] کی قیادت میں مکہ سے [[شام]] کی طرف روانہ ہو رہا ہے۔پیغمبر نے ذات العشیرة تک اس قافلے کا تعاقب کیا۔ لیکن قافلہ پہلے ہی اس مقام سے گذر چکا تھا۔ یہ غزوات اس لئے بے نتیجہ رہ جاتے تھے کہ مدینہ میں قریش کے جاسوس رسول الله کے فیصلوں سے آگاہ ہوجاتے تھے اور مسلمانوں کے فوجی دستوں کے روانہ ہونے سے قبل ہی قریشی قافلوں تک پہنچ جاتے تھے اور انہیں خطرے سے آگاہ کردیتے تھے چنانچہ ان کے قافلے یا تو راستہ بدل دیتے تھے یا پھر تیزرفتاری کے ساتھ مسلمانوں کی پہنچ سے نکل جاتے تھے <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 73</ref>
پہلی [[غزوہ]] ہجرت کے دوسرے سال صفر کے مہینے میں ہوا جسے ابواء یا ویدان کی مہم کہا جاتا ہے۔
اس مہم میں کوئی تصادم نہیں ہوا۔ اس کے بعد [[ربیع الاول]] میں بوت کی لڑائی ہوئی جس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ [[جمادی الاول]] میں یہ خبر پہنچی کہ قریش کا قافلہ [[ابوسفیان]] کی قیادت میں مکہ سے [[شام]] کی طرف روانہ ہو رہا ہے۔
پیغمبر نے ذات العشیرة تک اس قافلے کا تعاقب کیا۔ لیکن قافلہ پہلے ہی اس مقام سے گذر چکا تھا۔ یہ غزوات اس لئے بے نتیجہ رہ جاتے تھے کہ مدینہ میں قریش کے جاسوس رسول الله کے فیصلوں سے آگاہ ہوجاتے تھے اور مسلمانوں کے فوجی دستوں کے روانہ ہونے سے قبل ہی قریشی قافلوں تک پہنچ جاتے تھے اور انہیں خطرے سے آگاہ کردیتے تھے چنانچہ ان کے قافلے یا تو راستہ بدل دیتے تھے یا پھر تیزرفتاری کے ساتھ مسلمانوں کی پہنچ سے نکل جاتے تھ <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 73</ref>


ہجری کے دوسرے سال مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان سب سے اہم فوجی معرکہ ہوا جو جنگ بدر کے نام سے مشہور ہوا۔ اگرچہ مسلمانوں کی تعداد مکہ والوں سے کم تھی، لیکن وہ فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور بہت سے مشرکین مارے گئے اور پکڑے گئے۔
ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان سب سے اہم فوجی معرکہ ہوا جو جنگ بدر کے نام سے مشہور ہوا۔ اگرچہ مسلمانوں کی تعداد مکہ والوں سے کم تھی، لیکن وہ فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور بہت سے مشرکین مارے گئے اور پکڑے گئے۔


اس جنگ میں [[ابوجہل]] اور کچھ دوسرے قریش مارے گئے اور اتنی ہی تعداد میں پکڑے گئے۔ 14 مسلمان شہید ہوئے۔ اس جنگ میں مکہ کے کئی بہادر جو اپنی بہادری کے لیے مشہور تھے، امام علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
اس جنگ میں [[ابوجہل]] اور کچھ دوسرے قریش مارے گئے اور اتنی ہی تعداد میں پکڑے گئے۔ 14 مسلمان شہید ہوئے۔ اس جنگ میں مکہ کے کئی بہادر جو اپنی بہادری کے لیے مشہور تھے، امام علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
=== یہودیوں کے ساتھ تنازعہ ===
=== یہودیوں کے ساتھ تنازعہ ===
یہودیوں کے ساتھ پہلی لڑائی بدر کی جنگ کے چند ہفتے بعد ہوئی۔ بنی قینوعہ کے یہودیوں کا مدینہ شہر کے باہر ایک قلعے میں گھر تھا اور وہ سنار اور لوہار کا کام کرتے تھے۔ لکھا ہے کہ ایک دن ایک عرب عورت بازار گئی اور بنی قینقاع کے بازار میں اپنا سامان بیچنے لگی اور ایک سنار کی دکان کے دروازے پر بیٹھ گئی۔
یہودیوں کے ساتھ پہلی لڑائی جنگ  بدر کے چند ہفتے بعد ہوئی۔ بنی قینقاع کے یہودی مدینہ شہر کے باہر ایک قلعے میں رہتے تھے اور وہ سنار اور لوہار کا کام کرتے تھے۔ لکھا ہے کہ ایک دن ایک عرب عورت بازار گئی اور بنی قینقاع کے بازار میں اپنا سامان بیچنے لگی اور ایک سنار کی دکان کے دروازے پر بیٹھ گئی۔ایک [[یہودی]] نے اس کے کپڑے اس کی پیٹھ پر باندھ دئے، جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو اس کے کپڑے ایک طرف چلے گئے اور یہودی اس پر ہنسنے لگے۔ عورت نے مسلمانوں کو مدد کے لیے بلایا۔ ایک مسلمان نے اس عورت کی مدد سے ایک یہودی کو قتل کر دیا۔ یہودیوں نے فساد کیا اور اس مسلمان کو قتل کر دیا۔


ایک [[یہودی]] نے اس کے کپڑے اس کی پیٹھ پر باندھے، جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو اس کے کپڑے ایک طرف چلے گئے اور یہودی اس پر ہنسنے لگے۔ عورت نے مسلمانوں کو مدد کے لیے بلایا۔ ایک مسلمان نے اس عورت کی مدد سے ایک یہودی کو قتل کر دیا۔ یہودیوں نے فساد کیا اور اس مسلمان کو قتل کر دیا۔
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ اگر وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ہتھیار ڈال دیں۔ بنی قینقاع نے کہا کہ اہل مکہ کی شکست آپ کو دھوکہ نہ دے، وہ جنگی آدمی نہیں تھے۔ اگر ہم آپ سے لڑیں گے تو ہم آپ کو دکھادیں گے کہ ہم کیا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا۔یہ  محاصرہ 15 دن اور راتوں تک جاری رہا اور جب انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو عبداللہ بن ابی کے اصرارکے باوجود  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قتل کرنے کے بجائے شام کی طرف جلاوطن کردیا۔ یہودیوں کے اس گروہ کا محاصرہ ہجرت کے دوسرے سال شوال کے مہینے میں ہوا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 79-80</ref>.
 
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ اگر وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ہتھیار ڈال دیں۔ بنی قینقاع نے کہا کہ اہل مکہ کی شکست آپ کو دھوکہ نہ دے، وہ جنگی آدمی نہیں تھے۔ اگر ہم آپ سے لڑیں گے تو ہم آپ کو دکھائیں گے کہ ہم کیا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا اور ان کا محاصرہ 15 دن اور راتوں تک جاری رہا اور جب انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو عبداللہ بن ابی نے اصرار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قتل کرتے ہوئے وفات پائی اور انہیں شام کی طرف جلاوطن کردیا۔ یہودیوں کے اس گروہ کا محاصرہ ہجری کے دوسرے سال شوال کے مہینے میں ہوا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 79-80</ref>.


=== جنگ احد ===
=== جنگ احد ===
ہجری کے تیسرے سال قریش نے اپنے اتحادی قبائل سے مسلمانوں کے خلاف مدد طلب کی اور ابو سفیان کی کمان میں مسلح لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف کوچ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مدینہ میں قیام کا ارادہ کیا، لیکن آخر کار آپ نے مشرکین مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
ہجری کے تیسرے سال قریش نے اپنے اتحادی قبائل سے مسلمانوں کے خلاف مدد طلب کی اور ابو سفیان کی کمان میں مسلح لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف کوچ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے مدینہ میں قیام کا ارادہ کیا، لیکن آخر کار آپ نے مشرکین مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔


کوہ احد کے قریب کہیں دو لشکر آمنے سامنے ہوئے اور اگرچہ فتح سب سے پہلے مسلمانوں کی ہوئی لیکن خالد بن ولید کی چال سے اور مسلمانوں کے ایک گروہ کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر مشرکین نے پیچھے سے حملہ کر کے ہلاک کر دیا۔ مسلمانوں.. اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا [[حمزہ بن عبدالمطلب]] شہید ہوئے۔
کوہ احد کے قریب دو لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ اگرچہ شروع میں  مسلمانوں کو فتح ہوئی لیکن خالد بن ولید کی چال سے اور مسلمانوں کے ایک گروہ کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر مشرکین نے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چچا [[حمزہ بن عبدالمطلب]] شہید ہوئے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوئے اور آپ کی موت کی افواہ نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے۔ ابن ہشام کی ابن اسحاق سے روایت ہے کہ غزوہ احد 15 شوال بروز ہفتہ پیش آیا <ref>ابن هشام، السیرة النبویة، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۱۰۶</ref>.  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بھی زخمی ہوئے اور آپ کی موت کی افواہ نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے۔ ابن ہشام کی ابن اسحاق سے روایت ہے کہ غزوہ احد 15 شوال بروز ہفتہ پیش آیا <ref>ابن هشام، السیرة النبویة، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۱۰۶</ref>.  
=== جنگ بنی نضیر اور جنگ دومۃ الجندل ===
=== جنگ بنی نضیر اور جنگ دومۃ الجندل ===
سنہ 4 ہجری میں مدینہ کے نواحی علاقوں کے قبائل سے اکا دکا جھڑپیں ہوئیں یہ وہ قبائل تھے جو نئے دین کو اپنے لئے مفید نہيں سمجھتے تھے اور ممکن تھا کہ وہ آپس میں متحد ہوکر مدینہ پر حملہ کردیں۔ رجیع اور بئر معونہ کے دو واقعات، ـ جن کے دوران متحدہ قبائل کے جنگجؤوں نے مسلم مبلغین کو قتل کیا، اسی قبائلی اتحاد نیز مدینہ میں اسلام کے فروغ کے سلسلے میں رسول اللہؐ کی مسلسل کوششوں کی دلیل، ہیں۔
سنہ 4 ہجری میں مدینہ کے نواحی علاقوں کے قبائل سے اکا دکا جھڑپیں ہوئیں یہ وہ قبائل تھے جو نئے دین کو اپنے لئے مفید نہيں سمجھتے تھے اور ممکن تھا کہ وہ آپس میں متحد ہوکر مدینہ پر حملہ کردیں۔ رجیع اور بئر معونہ کے دو واقعات، ـ جن کے دوران متحدہ قبائل کے جنگجؤوں نے مسلم مبلغین کو قتل کیا، اسی قبائلی اتحاد نیز   مدینہ میں اسلام کے فروغ کے سلسلے میں رسول اللہؐ کی مسلسل کوششوں کی دلیل، ہیں۔اس سال رسول الله کی ایک اہم جنگ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلے بنی نضیر کے ساتھ ہوئی۔ رسول اللہؐ نے یہودیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے لیکن یہودیوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔آخرکار  بنی نضیر کے یہودیوں کو علاقے سے جلاوطن ہوکر کوچ کرنا پڑا۔
اس سال رسول الله کی ایک اہم جنگ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلے بنی نضیر کے ساتھ ہوئی۔ رسول اللہؐ نے یہودیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے لیکن یہودیوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن بنی نضیر کے یہودیوں کو آخر کار علاقے سے جلاوطن ہوکر کوچ کرنا پڑا۔


اگلے سال، رسول الله اور مسلمان شام کی سرحدوں کے قریب دومۃ الجَندَل نامی مقام پر پہنچے۔ جب سپاہ اسلام اس مقام پر پہنچی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوا تھا اور وہ واپس مدینہ پلٹ آئے <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص224</ref>
اگلے سال، رسول الله اور مسلمان شام کی سرحدوں کے قریب دومۃ الجَندَل نامی مقام پر پہنچے۔ جب سپاہ اسلام اس مقام پر پہنچی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوا تھا اور وہ واپس مدینہ پلٹ آئے <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص224</ref>
=== احزاب، بنی قریظہ اور بنی مصطلق کی جنگیں ===
=== احزاب، بنی قریظہ اور بنی مصطلق کی جنگیں ===
پانچویں ہجری میں ابوسفیان نے سات سے دس ہزار آدمیوں کا لشکر فراہم کیا جن میں سے چھ سو گھڑ سوار تھے۔ فوج چونکہ مختلف عرب قبائل پر مشتمل تھی اس لیے اس جنگ کو فریقین کی جنگ کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس جنگ میں خیبر میں رہنے والے بنو نضیر کے یہودیوں کے ایک گروہ نے قریش اور غطفان قبیلے کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اتحاد کیا۔
پانچویں ہجری میں ابوسفیان نے سات سے دس ہزار آدمیوں کا لشکر فراہم کیا جن میں سے چھ سو گھڑ سوار تھے۔ فوج چونکہ مختلف عرب قبائل پر مشتمل تھی اس لیے اس جنگ کو احزاب یعنی مختلف گروہ  کی جنگ کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس جنگ میں خیبر میں رہنے والے بنو نضیر کے یہودیوں کے ایک گروہ نے قریش اور قبیلہ غطفان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے خلاف اتحاد کیا۔


بنی قریظہ کے یہودی جو مدینہ کے آس پاس رہتے تھے اور قریش کی مدد نہ کرنے کا عہد کر چکے تھے، معاہدہ توڑ کر اہل مکہ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی صرف تین ہزار فوج تھی، چند کے علاوہ باقی پیادہ تھے۔
بنی قریظہ کے یہودی جو مدینہ کے آس پاس رہتے تھے اور قریش کی مدد نہ کرنے کا عہد کر چکے تھے، معاہدہ توڑ کر اہل مکہ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے سامنے ان کی صرف تین ہزار فوج تھی جن میں  چند کے سوا  باقی سب  پیادہ تھے۔


چند مسلمانوں نے بنی قریظہ اور غطفان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں ایک دوسرے پر شک میں ڈال دیا۔ آندھی اور سردی بھی آگئی اور مکہ کی فوجوں کے لیے مشکل ہو گئی۔ چنانچہ ابو سفیان نے واپسی کا حکم دیا اور پندرہ دن کے محاصرے کے بعد مدینہ خطرے سے باہر ہو گیا اور جنگ ختم ہو گئی۔ اس جنگ کے بعد کام کا رخ مسلمانوں کے حق میں بدل گیا۔ بعض قدیم عرب اسلام کی طرف مائل ہوئے اور ابو سفیان اور قریش کا مقام متزلزل ہوگیا۔
چند مسلمانوں نے بنی قریظہ اور غطفان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف  شک میں ڈال دیا۔ آندھی اور سردی بھی آگئی اور مکہ کی فوجوں کے لیے مشکل ہو گئی۔ چنانچہ ابو سفیان نے واپسی کا حکم دیا اور پندرہ دن کے محاصرے کے بعد مدینہ خطرے سے باہر ہو گیا اور جنگ ختم ہو گئی۔ اس جنگ کے بعد حالات  کا رخ مسلمانوں کے حق میں بدل گیا۔ بعض قدیم عرب اسلام کی طرف مائل ہوئے اور ابو سفیان اور قریش کی پوزیشن متزلزل ہوگئی۔


فریقین کی لڑائی ختم ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس گئے۔ میثاق مدینہ کے مطابق وہ اس وقت تک محفوظ رہے جب تک کہ وہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت نہیں کرتے، لیکن انہوں نے گروہی جنگ میں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا اور 25 راتوں کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
احزاب  کی لڑائی ختم ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس گئے۔ میثاق مدینہ کے مطابق وہ اس وقت تک محفوظ ہیں  جب تک مسلمانوں کے خلاف بغاوت نہیں کرتے۔ لیکن جنگ احزاب میں انہوں نے اسلام کے دشمنوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کا محاصرہ کیا اور 25 راتوں کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔


قبیلہ اوس نے جس کا بنی قریظہ سے اتحاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: بنی قریظہ ہمارے حلیف ہیں اور وہ اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔ ان کے ساتھ خزرج کے اتحادیوں جیسا سلوک کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قریظہ کے اسیروں کا فیصلہ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو سونپا۔ بنی قریظہ نے بھی اتفاق کیا۔ سعد نے کہا: میرا ووٹ یہ ہے کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو پکڑ لیا جائے۔ سعد کے فیصلے کے مطابق گڑھا کھودا گیا اور بنی قریظہ کے آدمی اس کھائی سے مارے گئے۔
قبیلہ اوس نے جس کا بنی قریظہ سے اتحاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: بنی قریظہ ہمارے حلیف ہیں اور وہ اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔ ان کے ساتھ بھی  خزرج کے اتحادیوں(بنی قینقاع) جیسا سلوک کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بنی قریظہ کے اسیروں کا فیصلہ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو سونپا۔ بنی قریظہ نے بھی اتفاق کیا۔ سعد نے کہا: میرا رائے یہ ہے کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسی کر لیا جائے۔ سعد کے فیصلے کے مطابق گڑھا کھودا گیا اور اس پر  بنی قریظہ کے آدمیوں کو قتل کر دیا گیا۔


بعض مورخین اس کہانی سے اختلاف کرتے ہیں۔ سنہ 6 ہجری میں مسلمانوں نے بنی مصطلق کو شکست دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جمع ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔  <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۳۰۲</ref>.
بعض مورخین اس واقعے سے اختلاف کرتے ہیں۔ سنہ 6 ہجری میں مسلمانوں نے بنی مصطلق کو شکست دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جمع ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔  <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۳۰۲</ref>.


=== جنگ خیبر ===  
=== جنگ خیبر ===  
confirmed
821

ترامیم