"حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 40: سطر 40:
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 25 سال کی عمر میں خدیجہ سے شادی کی۔ خدیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پہلی بیوی تھیں اور وہ تقریباً 25 سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ساتھ رہیں۔ ان کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نبوت کے  دسویں سال میں ہوئی۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 25 سال کی عمر میں خدیجہ سے شادی کی۔ خدیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پہلی بیوی تھیں اور وہ تقریباً 25 سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ساتھ رہیں۔ ان کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نبوت کے  دسویں سال میں ہوئی۔


خدیجہ کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمع بن قیس کی بیٹی سودہ سے شادی کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کی  ازواج میں [[عائشہ]]، ابوبکر کی بیٹی، حفصہ، زینب، خزیمہ بن حارث کی بیٹی، ام حبیبہ، ابو سفیان کی بیٹی، [[ام سلمہ]]، زینب، دختر جحش، جویریہ، بیٹی حارث شامل ہیں۔ صفیہ، حی بن اخطب کی بیٹی، میمونہ، حارث بن حزن کی بیٹی، اور ماریہ۔ شمعون <ref>ایتی، تاریخ پیغمبر اسلام، 1378، صفحہ 56-60</ref>۔
خدیجہ کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمع بن قیس کی بیٹی سودہ سے شادی کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کی  ازواج میں [[عائشہ]] بنت ابوبکر ، حفصہ، زینب بنت خزیمہ بن حارث ، ام حبیبہ بنت ابو سفیان ، [[ام سلمہ]]، زینب بنت  جحش، جویریہ بنت حارث، صفیہ بنت حی بن اخطب ، میمونہ بنت  حارث بن حزن، اور ماریہ قبطیہ  شامل ہیں <ref>ایتی، تاریخ پیغمبر اسلام، 1378، صفحہ 56-60</ref>۔
== بچے ==
== بچے ==
حضرت ابراہیم کے علاوہ پیغمبر کی اولاد کی والدہ خدیجہ تھیں۔ ابراہیم کی والدہ کا نام ماریہ کوپٹیہ تھا۔ رسول خدا(ص) کی اولاد، سوائے [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ(س)]] کے، سب پیغمبر اکرم(ص) کی زندگی میں فوت ہوئے اور پیغمبر(ص) کی نسل صرف فاطمہ(س) کے ذریعہ جاری رہی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔
ابراہیم کے سوا نبی کریم (ص) کی سبھی اولاد جناب  خدیجہ کے بطن سے  تھیں۔ ابراہیم کی والدہ کا نام ماریہ قبطیہ تھا۔ آپ  کی سبھی اولاد، سوائے [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ(س)]] کے، سب پیغمبر اکرم(ص) کی زندگی میں فوت ہوئی اور آپ  کی نسل صرف جناب فاطمہ(س) کے ذریعہ چلی۔ آپ  کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں:
* قاسم، پہلا بیٹا جو مکہ میں بچپن میں فوت ہوا۔
* قاسم، پہلا بیٹا جو مکہ میں بچپن میں فوت ہوا۔
* زینب کی وفات 8 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
* زینب کی وفات 8 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
* رقیہ کی وفات 2 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
* رقیہ کی وفات 2 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
* ام کلثوم کی وفات 9 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
* ام کلثوم کی وفات 9 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
* حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سنہ 11 ہجری میں مدینہ منورہ میں شہید ہوئیں اور ان سے صرف رسول خدا (ص) کی اولاد باقی رہی۔
* حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سنہ 11 ہجری میں مدینہ منورہ میں شہید ہوئیں ۔
* عبداللہ مشن کے بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
* عبداللہ بعثت کے بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
* ابراہیم کی وفات 10 ہجری میں مدینہ میں ہوئی <ref>ابن اسحاق، سیره ابن اسحاق، ۱۳۹۸ق، ص۲۴۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۰-۶۱</ref>.
* ابراہیم کی وفات 10 ہجری میں مدینہ میں ہوئی <ref>ابن اسحاق، سیره ابن اسحاق، ۱۳۹۸ق، ص۲۴۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۰-۶۱</ref>.
== حجر اسود کی تنصیب ==
== حجر اسود کی تنصیب ==
جاہلی دور میں سیلاب [[کعبہ]] میں داخل ہوا اور اس کی دیواریں توڑ دیں۔ قریش نے دیواریں اونچی کر دیں لیکن جب حجر اسود کو نصب کرنا چاہا تو قبائل کے سربراہوں میں جھگڑا ہو گیا۔
زمانہ جاہلیت میں ایک بار سیلاب [[کعبہ]] میں داخل ہوگیا  جس سے کعبے کی دیواریں ٹوٹ گئی۔ قریش نے دیواریں اونچی کر دیں لیکن جب حجر اسود کو نصب کرنا چاہا تو قبیلوں  کے سربراہوں میں جھگڑا ہو گیا۔


ہر قبیلے کا سربراہ یہ اعزاز حاصل کرنا چاہتا تھا۔ قبیلے کے بزرگ خون سے بھرا ہوا ایک پیالہ لائے اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبوئے اور یہ اس قسم کی تھی کہ وہ جیتنے کے لیے لڑیں۔ وہ سب سے پہلے جو شخص بنی شیبہ کے دروازے سے مسجد میں داخل ہوا اسے قاضی تسلیم کرنے اور جو کچھ کہے اسے کرنے پر راضی ہوگئے۔ داخل ہونے والے پہلے شخص محمد تھے۔
ہر قبیلے کا سربراہ یہ اعزاز حاصل کرنا چاہتا تھا۔ قبیلے کے بزرگ خون سے بھرا ہوا ایک پیالہ لائے اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبوئے۔ یہ اس بات کا عہد تھا کہ وہ جیتنے کے لیے لڑیں گے۔ پھر  وہ بنی شیبہ   کے دروازے سے سب سے پہلے  مسجد میں داخل ہونے والے شخص کو  قاضی تسلیم کرنے اور جو کچھ وہ کہے اسے تسلیم کرنے پر راضی ہوگئے۔ داخل ہونے والے پہلے شخص محمد(ص) تھے۔


انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حجر اسود کو کپڑے کے درمیان رکھ دیا اور ہر قبیلے کے سربراہ نے کپڑے کا ایک ایک کونا اٹھا لیا، جب انہوں نے کپڑا اٹھایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو لے کر رکھ دیا۔ یہ اپنی جگہ پر.
انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فیصلے کو قبول کیا اور آپ کے حکم سے حجر اسود کو کپڑے کے درمیان رکھ دیا اور ہر قبیلے کے سربراہ نے کپڑے کا ایک ایک کونا اٹھا لیا، جب انہوں نے کپڑا اٹھایا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کواٹھا  کرا س کی جگہ پر  رکھ دیا۔  
== بعثت ==
== بعثت ==
[[شیعہ |شیعہ امامیہ]] کے مشہور قول کے مطابق رسول اللہؐ 27 رجب المرجب کو نبوت پر مبعوث ہوئے۔
[[شیعہ |شیعہ امامیہ]] کے مشہور قول کے مطابق رسول اللہؐ 27 رجب المرجب کو مبعث بہ رسالت ہوئے۔


بعثت جس قدر قریب تر آرہی تھی آپ لوگوں سے دور اور خدائے یکتا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ ہر سال ایک مہینہ حرا نامی پہاڑی میں غار حراء میں گوشہ نشینی اختیار کرکے عبادت میں مصروف رہتے۔ اس زمانے میں جو غریب افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے آپ انہیں کھانا کھلاتے۔ عبادت کا مہینہ ختم ہونے کے بعد [[مکہ]] تشریف لاکر گھر واپس جانے سے پہلے سات یا کچھ زیادہ مرتبہ خانۂ کعبہ کا طواف فرماتے اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے تھے <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41</ref>۔
بعثت جس قدر قریب تر آرہی تھی آپ لوگوں سے دور خدائے یکتا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ ہر سال ایک مہینہ حرا نامی پہاڑی میں غار حراء میں گوشہ نشینی اختیار کرکے عبادت میں مصروف رہتے۔ اس زمانے میں جو غریب افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے آپ انہیں کھانا کھلاتے۔ عبادت کا مہینہ ختم ہونے کے بعد [[مکہ]] تشریف لاکر گھر واپس جانے سے پہلے سات یا کچھ زیادہ مرتبہ خانۂ کعبہ کا طواف فرماتے اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے تھے <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41</ref>۔


گوشہ نشینی کے ان ہی برسوں کے دوران ایک سال آپ حرا میں نبوت پر مبعوث ہوئے۔ حضرت محمدؐ فرماتے ہیں: جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ جبرائیل نے ایک بار پھر کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ جبرائیل نے کہا: إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(ترجمہ: پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے سہارے سے جس نے پیدا کیا۔ جیسا کہ مشہور ہے بعثت کے وقت رسول اللہؐ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی  <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔</ref>  
گوشہ نشینی کے ان ہی برسوں کے دوران ایک سال آپ حرا میں مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ حضرت محمدؐ فرماتے ہیں: جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا: پڑھو! میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ جبرائیل نے ایک بار پھر کہا: پڑھو! میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ جبرائیل نے کہا: إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(ترجمہ: پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے سہارے سے جس نے پیدا کیا) جیسا کہ مشہور ہے بعثت کے وقت رسول اللہؐ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی  <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔</ref>  


رسول خدا نبوت پر مبعوث ہونے والی سورہ علق کی ابتدائی آیات کریمہ کے نازل ہونے کے بعد اپنی خلوت گاہ سے مکہ اپنے گھر تشریف لائے۔ آپ کے گھر میں تین افراد: آپ کی زوجۂ مکرمہ سیدہ خدیجہ، آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب اور زید بن حارثہتھے۔ پیغمبر نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے وہ آپ کی زوجہ مکرمہ سیدہ خدیجہ اور مردوں میں آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب تھے جو اس وقت رسول اللہؐ کے زیر سرپرستی تھے۔ بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ کہ ابوبکر اور زید بن حارثہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھ <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص264، 266</ref>  
رسول خدا بعثت کے وقت  سورۂ علق کی ابتدائی آیات کریمہ کے نازل ہونے کے بعد اپنی خلوت گاہ سے اپنے گھر مکہ  تشریف لائے۔ آپ کے گھر تین افراد: آپ کی زوجۂ مکرمہ جناب  خدیجہ، آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب اور زید بن حارثہ تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے وہ آپ کی زوجہ مکرمہ سیدہ خدیجہ اور مردوں میں آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب تھے جو اس وقت رسول اللہؐ کے زیر سرپرستی تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ کہ ابوبکر اور زید بن حارثہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھ <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص264، 266</ref>  
== عوامی دعوت ==
== عوامی دعوت ==
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے بعد آپ نے تین سال تک خفیہ طور پر لوگوں کو دعوت دی۔ ابتدا میں پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں کو بت پرستی چھوڑ کر خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ جب نماز پڑھتے اور خدا کی عبادت کرتے تو مسلمان لوگوں سے چھپ جاتے اور ٹریفک سے دور جگہوں پر نماز پڑھتے۔
بعثت کے بعد آپ نے تین سال تک خفیہ طور پر لوگوں کو دعوت دی۔ ابتدا میں پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں کو بت پرستی چھوڑ کر خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ جب نماز پڑھتے اور خدا کی عبادت کرتے تو مسلمان لوگوں سے چھپ جاتے اور مجمع  سے دور جگہوں پر نماز پڑھتے۔


جیسا کہ مشہور ہے کہ جب پیغمبر کے مشن کے تین سال گزر گئے تو آپ کو اپنی دعوت عام کرنے کا کام سونپا گیا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب تنبیہ والی آیت "اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ" نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کی اور عبد المطلب کے چالیس کے قریب بچے موجود تھے، جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ آپ کا کلام شروع ہو جائے، ابولہب نے بلایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جادوگر اور مجلس میں خلل ڈالا۔
جیسا کہ مشہور ہے کہ جب بعثت  کے تین سال گزر گئے تو آپ کو اپنی دعوت عام کرنے کا حکم دیا گیا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب تنبیہ والی آیت "اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ" نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دعوت کی جس میں خاندان  عبد المطلب کے چالیس کے قریب افراد  موجود تھے۔ جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے چاہا کہ   گفتگو شروع کرے، ابولہب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم  کو  جادوگر کہہ کر مجلس میں خلل ڈال دیا۔


اس نے انہیں بلایا اور ان کی طرف دعوت دی۔ طبری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خدا نے حکم دیا ہے کہ تم اس کے لیے پکارو اور مزید کہا: تم میں سے کون میری مدد کرے گا؟ اس کام میں کیا میرا بھائی، ولی اور خلیفہ تم میں سے ہے؟ سب خاموش ہوگئے اور [[علی ابن ابی طالب|علی (ع)]] نے کہا: یا رسول اللہ! میں ہوں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تم میں سے میرا ولی اور خلیفہ ہے، اس کی بات سنو اور اس سے حکم لو۔ اس وقت مہمان کھڑے ہوئے اور ہنستے ہوئے ابو طالب سے کہا، محمد نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے بیٹے سے حکم لیں اور ان کی اطاعت کریں  <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۳، ص۱۱۷۲</ref>.
طبری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خدا نے حکم دیا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور مزید کہا: تم میں سے جو بھی  اس کام میں میری مدد کرے گا وہ  میرا بھائی، ولی اور خلیفہ ہوگا۔ سب خاموش ہوگئے ۔ حضرت  [[علی ابن ابی طالب|علی (ع)]] نے کہا: یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کا وعدہ کرتا  ہوں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: یہ تم میں میرا ولی اور خلیفہ ہے، اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ اس وقت مہمان کھڑے ہوئے اور ہنستے ہوئے ابو طالب سے کہا، محمد نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں  <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۳، ص۱۱۷۲</ref>.
== قریش کی دشمنی اور اس کے نتائج ==
== قریش کی دشمنی اور اس کے نتائج ==
قبائلی معاہدوں کی وجہ سے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ کیونکہ اس صورت میں وہ بنی ہاشم سے لڑائی میں پڑ جائیں گے اور دوسرے قبیلے بھی اس مہم میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت بہتان اور معمولی نقصان کی حد سے نہیں بڑھی بلکہ انہوں نے بے بس نومسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچا سکتے تھے، پہنچایا۔ <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص49</ref>
قبائلی معاہدوں کی وجہ سے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ کیونکہ اس صورت میں وہ بنی ہاشم سے لڑنا پڑے گا  اور دوسرے قبیلے بھی اس مہم میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم  سے ان کی مخالفت بہتان اور معمولی نقصان کی حد سے نہیں بڑھی ۔البتہ  انہوں نے بے بس نئے مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچا سکتے تھے، پہنچایا۔ <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص49</ref>


جب قریش کے بزرگ مسلمانوں کی تعداد میں اضافے سے پریشان ہوئے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس دعوت سے باز رکھیں جو انہوں نے شروع کی تھی۔ ایک دن انہوں نے اس سے کہا کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اسے قتل کر دیں اور اس کے بدلے عمارہ بن ولید کو لے لیں، جو ان کے نزدیک ایک خوبصورت نوجوان اور عقلمند تھا۔ ابو طالب نے قبول نہیں کیا۔
جب قریش کے بزرگ مسلمانوں کی تعداد میں اضافے سے پریشان ہوئے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چچا ابو طالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس دعوت سے باز رکھیں جو انہوں نے شروع کی ہے۔ ایک دن انہوں نے جناب ابو طالب  سے کہا کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اسے قتل کر دیں اور اس کے بدلے عمارہ بن ولید کو لے لیں، جو ان کے نزدیک ایک خوبصورت نوجوان اور عقلمند تھا۔ ابو طالب نے اس پیشکش کو سختی سے مستترد کر یا۔


یہ بھی منقول ہے کہ قریش نے ابو طالب سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس راستے سے روک دے جس پر وہ چل رہا ہے۔ ابو طالب نے ان کی باتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تو میں اس وقت تک اپنی پکار نہیں چھوڑوں گا۔ خدا اسے اس معاملے میں فتح یاب کرے یا اس طرح میری جان گنوا دے۔
یہ بھی منقول ہے کہ قریش نے ابو طالب سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس راستے سے روک دے جس پر وہ چل رہا ہے۔ ابو طالب نے ان کی باتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خدا کی قسم اگر وہ میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند  رکھ دیں تب بھی  میں اس وقت تک اپنی دعوت سے دست بردار نہیں ہوں گا  جب  خدا مجھے  اس معاملے میں کامیاب  نہ کر دے یا اس راہ میں میری جان نہ  چلی جائے۔
== ہجرت حبشہ ==
== ہجرت حبشہ ==
جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا محمدؐ کے ساتھ قریش کی دشمنی اور مخالفت میں اسی انداز سے اضافہ ہو رہا تھا؛ تاہم پیغمبر کو ابو طالبؑ کی حمایت حاصل تھی اور قریش قبائلی معاہدوں کی وجہ سے آپ کو جانی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے لیکن آپ کے نہتے اور کمزور مسلمانوں سمیت آپکے پیروکاروں کو کسی قسم کی اذیت و آزار پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان نو مسلموں کو پہنچنے والی اذیت پیغمبر پر بہت گراں گذرتی تھی۔ چنانچہ آپ نے انہیں بامر مجبوری حکم دیا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کریں <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 51-52</ref>۔  
جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی محمدؐ(ص) کے ساتھ قریش کی دشمنی اور مخالفت میں اسی انداز سے اضافہ ہو رہا تھ۔باہم  پیغمبر کو ابو طالبؑ کی حمایت حاصل تھی اور قریش قبائلی معاہدوں کی وجہ سے آپ کو جانی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ لیکن نہتے اور کمزور مسلمانوں سمیت آپ کے پیروکاروں کو کسی قسم کی اذیت و آزار پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان نو مسلموں کو پہنچنے والی اذیت پیغمبر پر بہت گراں گذرتی تھی۔ چنانچہ آپ نے انہیں مجبوری کی وجہ سے  حکم دیا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 51-52</ref>۔  


آپ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: اس سرزمین میں ایک بادشاہ ہے جس کی طرف سے کسی پر ظلم نہيں کیا جاتا۔ وہیں چلے جاو اور وہیں رہو حتی کہ خداوند متعال تمہیں اس مصیبت سے نجات دلائے۔ قریش کو جب جب معلوم ہوا کہ نومسلم حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں تو انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں وہاں سے لوٹا دیں۔ نجاشی نے قریش کے نمائندوں کا موقف اور مسلمانوں کا جواب سننے کے بعد مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور یوں قریش کے نمائندے خالی ہاتھوں مکہ واپس آگئے
آپ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: اس سرزمین پر  ایک بادشاہ ہے جس کی طرف سے کسی پر ظلم نہيں کیا جاتا۔ وہیں چلے جاؤ اور وہیں رہو یہاں تک کہ خداوند متعال تمہیں اس مصیبت سے نجات دلائے۔ قریش کو جب یہ  معلوم ہوا کہ نومسلم حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں تو انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں وہاں سے لوٹا دیں۔ نجاشی نے قریش کے نمائندوں کا موقف اور مسلمانوں کا جواب سننے کے بعد مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور یوں قریش کے نمائندے خالی ہاتھوں مکہ واپس آگئے۔
 
یہ بھی منقول ہے کہ قریش نے [[ابوطالب]] سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس راستے سے روک دے جس پر وہ چل رہا ہے۔ ابو طالب نے ان کی باتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تو میں اس وقت تک اپنی پکار نہیں چھوڑوں گا۔ خدا اسے اس معاملے میں فتح یاب کرے یا اس طرح میری جان گنوا دے۔


== بنی ہاشم کا محاصرہ ==
== بنی ہاشم کا محاصرہ ==
مکہ میں اسلام کی ترقی اور نجاشی کی طرف سے نو مسلموں کی واپسی کی مخالفت کے بعد، قریش نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بنی ہاشم کو اقتصادی اور سماجی پابندیوں میں ڈال دیا۔ انہوں نے ایک عہد لکھا اور عہد کیا کہ ہاشم اور عبدالمطلب کے بچوں کو بیویاں نہیں دیں گے، نہ ان سے بیویاں مانگیں گے، نہ ان کو کوئی چیز بیچیں گے اور نہ ان سے کوئی چیز خریدیں گے۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں عقد لٹکایا۔ اس کے بعد [[بنی ہاشم]] نے شعب ابی یوسف میں قیام کیا جسے بعد میں شعب ابی طالب کہا گیا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص53</ref>۔
مکہ میں اسلام کی ترقی اور نجاشی کی طرف سے نو مسلموں کی واپسی کی مخالفت کے بعد، قریش نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور بنی ہاشم پر اقتصادی اور سماجی پابندیاں لگا دی۔ انہوں نے ایک معاہد لکھا اور عہد کیا کہ بنی ہاشم اوربنی  عبدالمطلب کو نہ اپنی بیٹیاں دیں گے، نہ ان کی بیٹیاں لیں  گے، نہ انہیں  کوئی چیز فروخت کریں گے اور نہ ان سے کوئی چیز خریدیں گے۔ انہوں نے عہدنامہ کو  خانہ کعبہ میں لٹکادیا۔ اس کے بعد [[بنی ہاشم]] نے شعب ابی یوسف   میں قیام کیا جسے بعد میں شعب ابی طالب کہا گیا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص53</ref>۔


بنی ہاشم کی تنہائی دو تین سال تک رہی۔ اس زمانے میں جب وہ سختی میں تھے تو ان کے کچھ رشتہ دار رات کو ان کے لیے گندم لے جایا کرتے تھے۔ بنی ہاشم سے دشمنی رکھنے والے شبی ابو جہل کو اس واقعہ کا علم ہوا اور اس نے حکیم بن حزام کو خدیجہ کے لیے گندم کا بوجھ اٹھانے سے روک دیا۔ اس کی وجہ سے ایک گروہ نادم ہوا اور بنی ہاشم کی حمایت کے لیے کھڑا ہوگیا۔ وہ کہتے تھے کہ کیوں بنی مخزوم کو برکت دی جائے اور ہاشم اور عبدالمطلب کے بیٹے مشقت میں ہوں۔
بنی ہاشم کا محاصرہ دو تین سال تک رہا۔ اس زمانے میں جب وہ سختی میں تھے تو ان کے کچھ رشتہ دار رات کو ان کے لیے گندم لے جایا کرتے تھے۔ایک شب  بنی ہاشم سے شدید دشمنی رکھنے والے ابو جہل کو اس واقعہ کا علم ہوا اور اس نے حکیم بن حزام کو خدیجہ کے لیے گندم لے جانے  سے روک دیا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اپنے  کئے پر پشیمان  ہوا اور بنی ہاشم کی حمایت کے لیے کھڑا ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ آخر  کیوں بنی مخزوم   خوشحالی  میں رہیں  اور ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد  مشقت میں ؟۔


آخر میں، انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کو منسوخ کیا جانا چاہئے. معاہدے کے شرکاء کے ایک گروپ نے اسے پھاڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ پیغمبر اسلام (ص) کے بارے میں سب سے پہلے سیرت نگار ابن اسحاق کے مطابق جب وہ عقد پر گئے تو دیکھا کہ ایک دیمک اسے کھا گئی ہے اور اس میں سے صرف "بسمک اللہم" کا جملہ باقی رہ گیا ہے۔
آخر میں، انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کو منسوخ کیا جانا چاہئے۔ معاہدے کے شرکاء کے ایک گروپ نے اسے پھاڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ سیرت نگار ابن اسحاق کے مطابق جب وہ لوگ  اس جگہ پہنچے جہاں انہوں نے عہد نامہ لٹکایا تھا تو انہوں نے  دیکھا کہ دیمک اسے کھا گئی ہے اور اس میں سے صرف "بسمک اللہم" کا جملہ باقی رہ گیا ہے۔


دوسری قمری صدی کے محدث اور مؤرخ ابن ہشام کے مطابق ابو طالب قریش کی جماعت کے پاس گئے اور کہا: میرا بھتیجا کہتا ہے کہ دیمک نے آپ کا لکھا ہوا معاہدہ کھایا اور صرف خدا کا نام چھوڑ دیا۔ دیکھو اگر وہ سچ کہہ رہا ہے تو ہمارا محاصرہ توڑ دو اور اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا۔ وہ جلدی سے خط کے پاس گئے تو دیکھا کہ دیمک خدا کے نام کے سوا سب کچھ کھا چکی ہے۔ اس طرح بنی ہاشم کا محاصرہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔
دوسری صدی ہجری کے محدث اور مؤرخ ابن ہشام کے مطابق ابو طالب قریش کی جماعت کے پاس گئے اور کہا: میرا بھتیجا کہتا ہے کہ دیمک نے آپ کا لکھا ہوا معاہدہ کھایا اور صرف خدا کا نام چھوڑ دیا۔ دیکھو اگر وہ سچ کہہ رہا ہے تو ہمارا محاصرہ توڑ دو اور اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا۔ وہ جلدی سے عہد نامہ  کے پاس گئے تو دیکھا کہ دیمک خدا کے نام کے سوا سب کچھ کھا چکی ہے۔ اس طرح بنی ہاشم کا محاصرہ ختم ہو گیا۔


ابی طالب کی شاخوں سے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دو حامیوں، خدیجہ اور ابو طالب کی موت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے طائف کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہاں کا سفر کیا۔ لیکن وہاں کے لوگوں نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی اور نبیﷺ مکہ واپس آگئے۔
شعب ابی طالب سے نکلنے کے کچھ ہی عرصے  بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اپنے دو حامیوں، خدیجہ اور ابو طالب کی موت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ  نے طائف کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہاں کا سفر کیا۔ لیکن وہاں کے لوگوں نے آپ  کے ساتھ بدسلوکی کی اورآپ  مکہ واپس آگئے۔
== مدینہ کی طرف ہجرت ==
== مدینہ کی طرف ہجرت ==
نبوت کے گیارہویں سال حج کے موقع پر قبیلہ خزرج کے چھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اپنا دین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے لوگوں تک محمد کے دین کا پیغام پہنچانے کے لیے پیغمبر سے عہد کیا۔ اگلے سال حج کے دوران مدینہ کے بارہ لوگوں نے عقبہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ ان کی بیعت یہ تھی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں، غیبت نہ کریں، اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیک کاموں میں اس کی اطاعت کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں اور انہیں شہر کی حالت اور لوگوں کے قبول اسلام سے آگاہ کریں۔
بعثت  کے گیارہویں سال حج کے موقع پر قبیلہ خزرج کے چھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے ملے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے سامنے اپنا دین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے لوگوں تک آپ کے دین کا پیغام پہنچانے کا وعدہ  کیا۔ اگلے سال حج کے دوران مدینہ کے بارہ لوگوں نے عقبہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہاتھوں پر  بیعت کی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے، چوری نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں گے، غیبت نہ کریں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ و سلم کے نیک کاموں میں ان  کی اطاعت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں اور انہیں شہر کی حالت اور لوگوں کے قبول اسلام سے آگاہ کریں۔


سنہ 13 بعثت میں حج کے موسم میں قبیلہ خزرج کے 73 مرد و خواتین حج کی تقریب سے فارغ ہو کر عقبہ میں جمع ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عباس پہلے خطیب تھے جنہوں نے کہا: اے خزرج کے لوگو! محمد ہم میں سے ہیں اور ہم نے انہیں لوگوں سے جتنا ممکن تھا رکھا۔
سنہ 13 بعثت میں حج کے موسم میں قبیلہ خزرج کے 73 مرد و خواتین حج سے فارغ ہو کر عقبہ میں جمع ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عباس پہلے خطیب تھے جنہوں نے کہا: اے خزرج کے لوگو! محمد ہم میں سے ہیں اور ہم نے انہیں لوگوں سے جتنا ممکن تھا رکھا۔


اب وہ آپ کے پاس آنا چاہتا ہے۔ اگر تم اس کی حمایت اور مخالفین کی برائیوں کو اس سے روکنے کی طاقت دیکھتے ہو تو کیا بہتر ہے، ورنہ اسے ابھی جانے دو۔ عباس کے جواب میں انہوں نے کہا: ہم نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، اب یا رسول اللہ! کہو جو تمہیں اور تمہارے خدا کو پسند ہے!" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور پھر فرمایا: "میں تم سے بیعت کرتا ہوں کہ تم اپنے لوگوں کی طرح میری حمایت کرو۔" اہل مدینہ کے نمائندوں نے آپ کی بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں سے دشمن اور اس کے دوستوں کے ساتھ دوست رہیں گے اور جو بھی آپ کے ساتھ جنگ ​​میں جائے گا اس سے لڑیں گے۔ یوں اس عہد کو جنگ کا عہد کہا گیا۔ اس عہد کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یثرب جانے کی اجازت دی۔
اب وہ آپ کے پاس آنا چاہتا ہے۔ اگر تم اس کی حمایت اور مخالفین کی برائیوں کو اس سے روکنے کی طاقت دیکھتے ہو تو کیا بہتر ہے، ورنہ اسے ابھی جانے دو۔ عباس کے جواب میں انہوں نے کہا: ہم نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، اب یا رسول اللہ! کہو جو تمہیں اور تمہارے خدا کو پسند ہے!" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور پھر فرمایا: "میں تم سے بیعت کرتا ہوں کہ تم اپنے لوگوں کی طرح میری حمایت کرو۔" اہل مدینہ کے نمائندوں نے آپ کی بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں سے دشمن اور اس کے دوستوں کے ساتھ دوست رہیں گے اور جو بھی آپ کے ساتھ جنگ ​​میں جائے گا اس سے لڑیں گے۔ یوں اس عہد کو جنگ کا عہد کہا گیا۔ اس عہد کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یثرب جانے کی اجازت دی۔
confirmed
821

ترامیم