"حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 211: سطر 211:
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے ایک 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوطے پایا ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ [[علی علیہ السلام|حضرت علی]] ،[[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ]] ، [[حسن بن علی|حضرت امام حسن]] اور [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہم السلام]] کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا  
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے ایک 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوطے پایا ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ [[علی علیہ السلام|حضرت علی]] ،[[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ]] ، [[حسن بن علی|حضرت امام حسن]] اور [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہم السلام]] کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا  
== حجۃ الوداع اور غدیر خم کا واقعہ ==
== حجۃ الوداع اور غدیر خم کا واقعہ ==
رسول اللہؐ ذو القعدہ سنہ 10 ہجری کو اپنے آخری حج کے لئے مکہ روانہ ہوئے۔ اسی سفر کے دوران آپؐ نے لوگوں کو احکام حج کی تعلیم دی۔ قریش نے اسلام سے قبل اپنے لئے بعض مراعاتوں کا تعین کیا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کی کلید داری، پردہ داری، ضیافتیں دینے اور حاجیوں کو پانی دینے (سقایت) جیسے عہدوں کو اپنے لئے مختص کرچکے تھے اور علاوہ ازیں آداب زیارت میں بھی اپنے لئے دوسرے قبائل کی نسبت جدا اور ممتاز حیثیت کے قائل تھے۔
اس سفر کے دوران پیغمبرؐ نے ان تمام چيزوں کا خاتمہ کیا جنہيں قریش زیارت خانۂ خدا میں، اپنے لئے، امتیازی خصوصیت سمجھتے تھے۔ ان مراعاتوں میں سے ایک یہ تھی کہ جاہلیت کے زمانے میں یہ لوگ سمجھتے تھے کہ خانہ کعبہ کا طواف پاکیزہ لباس پہن کر بجا لانا چاہئے تھا اور کپڑا صرف اس وقت پاک ہوتا ہے جب وہ قریش سے خریدا جاتا ہے۔ اگر قریش کسی کو طواف کا کپڑا نہ دیتے تو اس کو برہنہ ہوکر طواف کرنا پڑتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ قریشی دیگر حجاج کی مانند عرفات سے حج کے لئے کوچ نہیں کرتے تھے بلکہ مزدلفہ سے کوچ کیا کرتے تھے اور اس عمل کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے۔ قرآن نے یہ امتیازی خصوصیت قریش سے چھین لی اور فرمایا:
ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۔ اور پھر چل کھڑے ہو جس طرح کہ اور لوگ چل کھڑے ہوتے ہیں۔
اور لوگوں نے دیکھا کہ محمدؐ جو خود قریش میں سے ہیں دوسرے لوگوں کے ہمراہ عرفات سے کوچ کررہے ہیں۔ اسی سفر میں رسول اللہؐ نے فرمایا: اے لوگو! نہ جانے کہ میں اگلے سال کو دیکھ سکوں گا یا نہيں! اے لوگو! میں جاہلیت کے زمانے میں بہایا گیا خون پاؤں تلے روندتا ہوں [اور پرانے بدلے منسوخ کرتا ہوں]؛ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام ہے اس وقت تک کہ اپنے خدا کی ملاقات کرلو
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:حضرت محمد (ص)]]
[[fa:حضرت محمد (ص)]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]