"حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 55: سطر 55:
* حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سنہ 11 ہجری میں مدینہ منورہ میں شہید ہوئیں اور ان سے صرف رسول خدا (ص) کی اولاد باقی رہی۔
* حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سنہ 11 ہجری میں مدینہ منورہ میں شہید ہوئیں اور ان سے صرف رسول خدا (ص) کی اولاد باقی رہی۔
* عبداللہ مشن کے بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
* عبداللہ مشن کے بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
* ابراہیم کی وفات 10 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
* ابراہیم کی وفات 10 ہجری میں مدینہ میں ہوئی <ref>ابن اسحاق، سیره ابن اسحاق، ۱۳۹۸ق، ص۲۴۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۰-۶۱</ref>.
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:حضرت محمد (ص)]]
[[fa:حضرت محمد (ص)]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]

نسخہ بمطابق 07:54، 19 اپريل 2023ء

مسجد النبی.jpg

محمد بن عبد اللہ بن عبد المطّلب بن ہاشم اللہ کے آخری نبی، پیغمبر اسلام اور اولو العزم انبیاء میں سے ہیں۔ آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن ہے۔ آپ یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق کے داعی ہیں۔ آپ عرب کے مشرک معاشرے میں پیدا ہوئے تھے تاہم بتوں کی پرستش اور معاشرے میں رائج اخلاقی برائیوں اور قباحتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپؐ چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔ آپ کا اہم ترین پیغام توحید اور یکتا پرستی تھا۔ مکارم اخلاق اور اچھائیوں کی تکمیل آپ کی بعثت کے اہداف میں سے تھے۔ مکہ کے مشرکین نے اگرچہ کئی سال تک آپ اور آپ کے پیروکاروں کو اذیت اور آزار کا نشانہ بنایا مگر آپ اور آپ کے پیروکار کبھی بھی اسلام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ مکہ میں تیرہ سال تک تبلیغ کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینے کی طرف آپ کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا آغاز قرار دیا گیا۔ مشرکین مکہ کی طرف سے آپ کو مدینے میں متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور مجموعی طور پر ان جنگوں میں فتح نے مسلمانوں کے قدم چومے۔ رسول خدا کی کوششوں سے عربوں کا جاہلیت زدہ معاشرہ مختصر سے عرصے میں ایک توحیدی معاشرے میں بدل گیا اور تقریباً پورے جزیرہ نمائے عرب نے آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اسلام قبول کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی آج تک اسلام کا فروغ جاری ہے اور آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ دنیا سے جا رہے تھے تو مسلمانوں کی ہدایت کیلئے اپنے بعد قرآن اور اہل بیت کا دامن تھامے رکھنے کی وصیت فرمائی۔ واقعہ غدیر سمیت مختلف مواقع پر امام علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا

نسب، کنیت اور القاب

مُـحـمّـد بـن عـبـد الله بن عبد المطّلب بن هاشم بن عبد مَناف بن قُصَىّ (زيد) بن كلاب بن مُرّة بن كَعب بن لُؤىّ بن غالب بن فِهر بن مالك بن نَضر بن كنانة بن خُزَيمة بن مُدركة بن الياس بن مضر بن نِزار بن مَعَدّ بن عدنان عليهم السلام.

بھی آپ 6 سال 3 مہینے یا ایک قول کی بنا پر 4 سال کے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب نے آپ کو آپ کے نھنیال والوں سے ملاقات کے لئے مدینہ لے گئیں تھیں لیکن مکہ واپسی کے وقت ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا اور وہیں سپرد خاک کی گئیں۔ شیعہ امامیہ کے نزدیک ابو طالب، آمنہ بنت وہب، عبداللہ بن عبدالمطلب اور حضرت آدم تک رسول خدا کے اجداد کے مؤمن ہونے پر اجماع قائم ہے [1]۔

کنیت اور القاب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم اور ابو ابراہیم ہے۔ ان کے ناموں میں سے کچھ یہ ہیں: مصطفیٰ، حبیب اللہ، صفی اللہ، نعمت اللہ، خیرہ خلق اللہ، سید المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، نبی امی۔

شیعہ علماء میں مقبول رائے کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت 17 ربیع الاوّل کو ہوئی اور اہل سنت کی مقبول رائے کے مطابق 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ ان دو تاریخوں کے درمیان وقفے کو شیعہ اور سنیوں کے درمیان اتحاد کا ہفتہ کہا جاتا ہے۔

ولادت

شیعہ علماء میں مقبول رائے کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت 17 ربیع الاوّل کو ہوئی اور اہل سنت کی مقبول رائے کے مطابق 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ ان دو تاریخوں کے درمیان وقفے کو شیعہ اور سنیوں کے درمیان اتحاد کا ہفتہ کہا جاتا ہے۔ علامہ مجلسی نے اکثر شیعہ علماء کی رائے کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت 17 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔ البتہ محمد بن یعقوب کلینی نے کتاب الکافی میں اور شیخ صدوق نے کمال الدین کی کتاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا ذکر 12 ربیع الاول کو کیا ہے۔

رسول جعفریان کے مطابق شیخ مفید کے بعد شیعہ علماء 17 ربیع الاول کو پیغمبر اکرم (ص) کا یوم ولادت مانتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تفصیلات کے بارے میں سنی علماء کی مختلف آراء ہیں۔ بعض نے اس کی پیدائش عام الفیل میں اور بعض نے عام الفیل کے دس سال بعد کی ہے۔ چونکہ مورخین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 63 سال کی عمر میں 632 عیسوی میں ہوئی، اس لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور عام الفیل کا اندازہ 569 سے 570 عیسوی کے درمیان لگایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے بارے میں بھی اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے۔ 12 ربیع الاول، دوسری ربیع الاوّل، 8 ربیع الاوّل، 10 ربیع الاوّل اور ماہِ رمضان ان تبصروں میں سے ہیں۔

پیدائش کی جگہ

پیغمبر اسلام (ص) شعب ابی طالب میں پیدا ہوئے اور اس گھر میں جو بعد میں عقیل بن ابی طالب کے تھے۔ عقیل کے بچوں نے یہ گھر حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کو بیچ دیا جس نے اسے محل بنا دیا۔ بنی عباس کے دور حکومت میں ہارون الرشید خلیفہ عباسی کی والدہ خضران نے اس گھر کو خرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا۔

گیارہویں صدی کے محدث علامہ مجلسی بیان کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں مکہ میں اس نام کی ایک جگہ تھی اور لوگ اس کی زیارت کرتے تھے۔ یہ عمارت حجاز میں آل سعود کی حکومت تک قائم رہی۔ انہوں نے اسے وہابی مذہب کے عقائد اور انبیاء کے کاموں میں برکت دینے کی ممانعت کی وجہ سے تباہ کر دیا [2].

دنیا میں پیدائش اور واقعات

تاریخی ذرائع نے پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کی رات کے واقعات نقل کیے ہیں جو ارشادات کے نام سے مشہور ہوئے۔

ان میں سے کچھ واقعات میں شامل ہیں: کسری والٹ کا ہلنا اور اس کی 14 کانگریسوں کا گرنا، فارس کے آتش گیر مندر میں ایک ہزار سال بعد آگ کا بجھ جانا، جھیل سویح کا سوکھ جانا، اور موبدان کی عجیب نیند اور ساسانی بادشاہ [3].

بچپن سے جوانی

ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت نہیں ہوئی تھی یا دوسری روایتوں کے مطابق آپ کی ولادت کو چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ آپ کے والد عبداللہ شام کے تجارتی سفر سے واپس آتے ہوئے مدینہ میں وفات پا گئے[4] ۔

اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی سے یتیم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے چار ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی سعد صحرائی قبیلے کی حلیمہ نامی عورت کو دودھ پلانے کے لیے دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً چار سال تک قبیلہ بنی سعد میں حلیمہ کے ساتھ رہے اور آپ کی پیدائش کے پانچویں سال حلیمہ انہیں ان کی والدہ آمنہ کے پاس لے آئیں۔ آپ کی ولادت کے ساتویں سال، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کے تھے، آپ کی والدہ آپ کو اپنے چچا سے ملنے مدینہ لے گئیں، اور مکہ واپسی کے دوران آپ کا انتقال "ابواء" میں ہوا۔ اس کے بعد اس پیغمبر کی ولایت سب سے پہلے آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے ہاتھ میں تھی اور آپ کے بعد آپ کے چچا ابو طالب کے ہاتھ میں۔ پیغمبر اسلام کے بچپن اور جوانی کے اہم واقعات میں سے درج ذیل کو ذکر کیا جا سکتا ہے:

  • اپنے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ساتھ شام کے تجارتی سفر پر جانا اور بحیرہ نصرانی سے ملاقات کی جو اپنے زمانے کے عیسائی علماء میں سے تھے اور انہوں نے اپنے چچا سے اس نبی کی نبوت کا وعدہ کیا اور انہیں خبر دی ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہودیوں کا خطرہ
  • چرواہے کا کام چننا جو اکثر انبیاء کا کام تھا۔
  • حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے تجارتی قافلے کی نگرانی کو قبول کرنا اور اس سفر کے دوران تجارت کے معاملے میں اپنی خوبیوں کا اظہار کرنا، اس قافلہ سے اچھے منافع کے ساتھ۔
  • امانت داری کی وجہ سے امین کے نام سے جانا جاتا ہے۔

شام کا پہلا سفر اور راہب کی پیش گوئی

محمد بچپن کے زمانے میں اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ ایک کاروباری سفر میں شام چلے گئے اور راستے میں بصریٰ نامی علاقے میں بحیرا نامی ایک مسیحی راہب نے آپؐ کے چہرے پر نبوت کی نشانیاں دیکھیں اور آپ کے چچا ابو طالب سے آپ کے متعلق سفارش کی اور بطور خاص کہا کہ اس بچے کو یہودیوں کی گزند سے محفوظ رکھیں کیوں یہ لوگ آپؐ کے دشمن ہیں۔ مؤرخین کے مطابق جب قافلہ بحیرا کے ہاں سے چلے گئے تو بحیرا نے محمد کو اپنے یہاں روک لیا اور کہا: میں آپ کو لات و عُزی کی قسم دیتا ہوں کہ میں جو پوچھتا ہوں آپ اس کا جواب دیں۔ اس وقت آپ نے جواب دیا: مجھ سے لات و عزی کے نام پر کچھ نہ پوچھو کیونکہ میرے نزدیک کوئی چيز ان دونوں سے زيادہ قابل نفرت نہيں ہے۔ اس کے بعد بحیرا نے آپ کو خدا کی قسم دی [5]۔

حلف الفضول

محمد (ص) کی شادی سے پہلے کے اہم واقعات میں سے حلف الفضول نامی معاہدے میں آپ کی شرکت ہے جس کے تحت بعض اہل مکہ نے قسم اٹھائی کہ وہ ہر مظلوم کی حمایت کریں گے اور اس کو اس کا حق دلا دیں گے۔ رسول الله بعد میں اس معاہدے کی تعریف کرتے اور فرماتے کہ اگر انہیں ایک بار پھر اس طرح کے معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو آپ اس میں شامل ہوجائیں گے [6]۔

شام کا دوسرا سفر

محمد (ص)25 برس کے تھے کہ ابو طالبؑ نے آپ سے کہا: قریش کا تجارتی قافلہ شام جانے کے لئے تیار ہے خدیجہ بنت خویلد نے اپنے بعض اعزاء و اقارب کو سرمایہ دیا کہ وہ ان کے لئے تجارت کریں اور منافع میں شریک ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو وہ آپ کو بھی شریک کے طور پر قبول کریں گی۔ اس کے بعد ابو طالب نے اس سلسلے میں خدیجہ سے بات چیت کی اور خدیجہ مان گئیں۔ ابن اسحٰق سے مروی ہے کہ چونکہ خدیجہ محمدؐ کی امانت داری اور بزرگواری کو پہچان گئی تھیں چنانچہ انھوں نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ "اگر آپ میرے سرمائے پر تجارت کرنے کے لئے تیار ہیں تو میں آپ کو منافع میں سے دوسروں کی نسبت زیادہ حصہ دونگ [7]۔

شادی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 25 سال کی عمر میں خدیجہ سے شادی کی۔ خدیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں اور وہ تقریباً 25 سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں، ان کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سنہ 10 میں ہوئی۔

خدیجہ کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمع بن قیس کی بیٹی سودہ سے شادی کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل ازواج میں عائشہ، ابوبکر کی بیٹی، حفصہ، زینب، خزیمہ بن حارث کی بیٹی، ام حبیبہ، ابو سفیان کی بیٹی، ام سلمہ، زینب، دختر جحش، جویریہ، بیٹی حارث شامل ہیں۔ صفیہ، حی بن اخطب کی بیٹی، میمونہ، حارث بن حزن کی بیٹی، اور ماریہ۔ شمعون [8]۔

بچے

حضرت ابراہیم کے علاوہ پیغمبر کی اولاد کی والدہ خدیجہ تھیں۔ ابراہیم کی والدہ کا نام ماریہ کوپٹیہ تھا۔ رسول خدا(ص) کی اولاد، سوائے حضرت فاطمہ(س) کے، سب پیغمبر اکرم(ص) کی زندگی میں فوت ہوئے اور پیغمبر(ص) کی نسل صرف فاطمہ(س) کے ذریعہ جاری رہی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔

  • قاسم، پہلا بیٹا جو مکہ میں بچپن میں فوت ہوا۔
  • زینب کی وفات 8 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
  • رقیہ کی وفات 2 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
  • ام کلثوم کی وفات 9 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
  • حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سنہ 11 ہجری میں مدینہ منورہ میں شہید ہوئیں اور ان سے صرف رسول خدا (ص) کی اولاد باقی رہی۔
  • عبداللہ مشن کے بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
  • ابراہیم کی وفات 10 ہجری میں مدینہ میں ہوئی [9].
  1. مجلسی، بحار الانوار، ج 15، ص 117
  2. مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۱۷۴
  3. ابونعیم اصفهانی، دلائل النبوة، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۳۹، ح۸۲؛ بیهقی، دلائل النبوة، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۱۲۶و۱۲۷
  4. منتهی الآمال فی تواریخ النبی و الآل، شیخ عباس قمی، ج‏۱، ص۴۷
  5. شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص38
  6. ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص141-142
  7. ابن اسحاق، السيرة النبويہ، جزو 1، ص59
  8. ایتی، تاریخ پیغمبر اسلام، 1378، صفحہ 56-60
  9. ابن اسحاق، سیره ابن اسحاق، ۱۳۹۸ق، ص۲۴۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۰-۶۱