"حسینہ واجد" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 26: سطر 26:
=== عوامی لیگ پارٹی قیادت ===
=== عوامی لیگ پارٹی قیادت ===
1981 میں وہ [[عوامی لیگ پارٹی]] کے سربراہ کے طور پر منتخب ہوئے۔ عوامی لیگ کو بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ 1980 کی دہائی میں وہ ایک بار جیل میں تھے اور ایک بار آزاد۔ فروری اور نومبر 1984 میں انہیں گھر میں نظربند رکھا گیا۔ مارچ 1985 میں وہ تین ماہ تک گھر میں نظر بند رہے۔
1981 میں وہ [[عوامی لیگ پارٹی]] کے سربراہ کے طور پر منتخب ہوئے۔ عوامی لیگ کو بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ 1980 کی دہائی میں وہ ایک بار جیل میں تھے اور ایک بار آزاد۔ فروری اور نومبر 1984 میں انہیں گھر میں نظربند رکھا گیا۔ مارچ 1985 میں وہ تین ماہ تک گھر میں نظر بند رہے۔
== الیکشن ==
=== الیکشن ===
[[فائل:واجد 3.jpg|250px|تصغیر|بائیں|حسینہ واجد بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما خالدہ ضیاء کے ساتھ]]
[[فائل:واجد 3.jpg|250px|تصغیر|بائیں|حسینہ واجد بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما خالدہ ضیاء کے ساتھ]]
ان کی پارٹی، ضیاء الرحمن کی اہلیہ [[خالدہ ضیا]] کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتی رہی، ایک جمہوری حکومت کے انتخاب کے لیے کام کرتی رہی، اور انھوں نے 1991 میں جمہوری انتخابات کر کے یہ مقصد حاصل کیا، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش نیشنلسٹ کی فتح ہوئی۔ پارٹی انہوں نے اور ان کی پارٹی نے ارشاد کی صدارت میں 1986 کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ انتخابات میں حصہ لینے کے ان کے فیصلے پر ان کے مخالفین نے تنقید کی تھی کیونکہ خالدہ ضیا کی قیادت میں دوسرے مخالف گروپ نے ووٹ کا بائیکاٹ کیا تھا۔ تاہم، ان کے حامیوں کا اصرار تھا کہ انھوں نے اس عہدے کو اس وقت کی حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دسمبر 1987 میں انہوں نے پارلیمنٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ اس وقت کیا جب حسینہ واجد اور ان کی پارٹی نے غیر جانبدار حکومت کے تحت آزادانہ انتخابات کرانے کی کوشش میں پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان کی پارٹی، ضیاء الرحمن کی اہلیہ [[خالدہ ضیا]] کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتی رہی، ایک جمہوری حکومت کے انتخاب کے لیے کام کرتی رہی، اور انھوں نے 1991 میں جمہوری انتخابات کر کے یہ مقصد حاصل کیا، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش نیشنلسٹ کی فتح ہوئی۔ پارٹی انہوں نے اور ان کی پارٹی نے ارشاد کی صدارت میں 1986 کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ انتخابات میں حصہ لینے کے ان کے فیصلے پر ان کے مخالفین نے تنقید کی تھی کیونکہ خالدہ ضیا کی قیادت میں دوسرے مخالف گروپ نے ووٹ کا بائیکاٹ کیا تھا۔ تاہم، ان کے حامیوں کا اصرار تھا کہ انھوں نے اس عہدے کو اس وقت کی حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دسمبر 1987 میں انہوں نے پارلیمنٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ اس وقت کیا جب حسینہ واجد اور ان کی پارٹی نے غیر جانبدار حکومت کے تحت آزادانہ انتخابات کرانے کی کوشش میں پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
=== 1991 کے انتخابات ===
==== 1991 کے انتخابات ====
ارشاد کی حکومت کے کئی سالوں کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالوں نے ایسا عدم استحکام پیدا کیا کہ ملکی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ دسمبر 1990 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں نے ارشاد، جنہوں نے اپنے نائب شہاب الدین کے حق میں استعفیٰ دے دیا تھا، کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ شہاب الدین احمد کی سربراہی میں عبوری حکومت نے قومی پارلیمانی انتخابات کرائے تھے۔ خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور ان کی قیادت میں عوامی لیگ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن گئی۔
ارشاد کی حکومت کے کئی سالوں کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالوں نے ایسا عدم استحکام پیدا کیا کہ ملکی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ دسمبر 1990 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں نے ارشاد، جنہوں نے اپنے نائب شہاب الدین کے حق میں استعفیٰ دے دیا تھا، کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ شہاب الدین احمد کی سربراہی میں عبوری حکومت نے قومی پارلیمانی انتخابات کرائے تھے۔ خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور ان کی قیادت میں عوامی لیگ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن گئی۔
وہ تین حلقوں سے لڑے، دو حلقوں سے ہارے اور ایک میں جیت گئے۔ انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیا لیکن قائدین کے کہنے پر برقرار رہے۔
وہ تین حلقوں سے لڑے، دو حلقوں سے ہارے اور ایک میں جیت گئے۔ انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیا لیکن قائدین کے کہنے پر برقرار رہے۔
=== 1994 کے انتخابات ===
==== 1994 کے انتخابات ====
بنگلہ دیش کی سیاست میں 1994 میں وسط مدتی انتخابات کے بعد ایک اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یہ انتخابات عوامی لیگ کے ایک رکن اسمبلی کی موت کے بعد کرائے گئے تھے۔ توقع تھی کہ عوامی لیگ اس نشست پر دوبارہ قبضہ کرے گی، لیکن نیشنلسٹ پارٹی نے اسے لے لیا۔<br>
بنگلہ دیش کی سیاست میں 1994 میں وسط مدتی انتخابات کے بعد ایک اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یہ انتخابات عوامی لیگ کے ایک رکن اسمبلی کی موت کے بعد کرائے گئے تھے۔ توقع تھی کہ عوامی لیگ اس نشست پر دوبارہ قبضہ کرے گی، لیکن نیشنلسٹ پارٹی نے اسے لے لیا۔<br>
انہوں نے اور ان کی جماعت نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر مطالبہ کیا کہ اگلے عام انتخابات ایک غیر جانبدار حکومت کی نگرانی میں کرائے جائیں اور اس مطالبے کو آئین میں شامل کیا جائے۔ حکمران جماعت نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بے مثال جدوجہد شروع کی اور کئی ہفتوں تک ہڑتال کی کال دی۔ حکومت نے ان پر معیشت کو تباہ کرنے کا الزام لگایا، جب کہ اپوزیشن کا اصرار ہے کہ حکمران جماعت ان کے مطالبات کو پورا کرکے مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ 1995 کے آخر میں عوامی لیگ اور دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی اور قومی انتخابات 15 فروری 1996 کو ہوئے۔<br>
انہوں نے اور ان کی جماعت نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر مطالبہ کیا کہ اگلے عام انتخابات ایک غیر جانبدار حکومت کی نگرانی میں کرائے جائیں اور اس مطالبے کو آئین میں شامل کیا جائے۔ حکمران جماعت نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بے مثال جدوجہد شروع کی اور کئی ہفتوں تک ہڑتال کی کال دی۔ حکومت نے ان پر معیشت کو تباہ کرنے کا الزام لگایا، جب کہ اپوزیشن کا اصرار ہے کہ حکمران جماعت ان کے مطالبات کو پورا کرکے مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ 1995 کے آخر میں عوامی لیگ اور دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی اور قومی انتخابات 15 فروری 1996 کو ہوئے۔<br>