"حسینہ واجد" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 46: سطر 46:
ارشاد کی حکومت کے کئی سالوں کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالوں نے ایسا عدم استحکام پیدا کیا کہ ملکی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ دسمبر 1990 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں نے ارشاد، جنہوں نے اپنے نائب شہاب الدین کے حق میں استعفیٰ دے دیا تھا، کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ شہاب الدین احمد کی سربراہی میں عبوری حکومت نے قومی پارلیمانی انتخابات کرائے تھے۔ خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور ان کی قیادت میں عوامی لیگ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن گئی۔
ارشاد کی حکومت کے کئی سالوں کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالوں نے ایسا عدم استحکام پیدا کیا کہ ملکی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ دسمبر 1990 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں نے ارشاد، جنہوں نے اپنے نائب شہاب الدین کے حق میں استعفیٰ دے دیا تھا، کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ شہاب الدین احمد کی سربراہی میں عبوری حکومت نے قومی پارلیمانی انتخابات کرائے تھے۔ خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور ان کی قیادت میں عوامی لیگ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن گئی۔
وہ تین حلقوں سے لڑے، دو حلقوں سے ہارے اور ایک میں جیت گئے۔ انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیا لیکن قائدین کے کہنے پر برقرار رہے۔
وہ تین حلقوں سے لڑے، دو حلقوں سے ہارے اور ایک میں جیت گئے۔ انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیا لیکن قائدین کے کہنے پر برقرار رہے۔
=== 1994 کے انتخابات ===
بنگلہ دیش کی سیاست میں 1994 میں وسط مدتی انتخابات کے بعد ایک اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یہ انتخابات عوامی لیگ کے ایک رکن اسمبلی کی موت کے بعد کرائے گئے تھے۔ توقع تھی کہ عوامی لیگ اس نشست پر دوبارہ قبضہ کرے گی، لیکن نیشنلسٹ پارٹی نے اسے لے لیا۔<br>
انہوں نے اور ان کی جماعت نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر مطالبہ کیا کہ اگلے عام انتخابات ایک غیر جانبدار حکومت کی نگرانی میں کرائے جائیں اور اس مطالبے کو آئین میں شامل کیا جائے۔ حکمران جماعت نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بے مثال جدوجہد شروع کی اور کئی ہفتوں تک ہڑتال کی کال دی۔ حکومت نے ان پر معیشت کو تباہ کرنے کا الزام لگایا، جب کہ اپوزیشن کا اصرار ہے کہ حکمران جماعت ان کے مطالبات کو پورا کرکے مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ 1995 کے آخر میں عوامی لیگ اور دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی اور قومی انتخابات 15 فروری 1996 کو ہوئے۔<br>
حکمران قوم پرست حز کے علاوہ تمام اہم جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ نئی پارلیمنٹ، جس میں زیادہ تر حکمراں جماعت کے ارکان شامل ہیں، نے آئین میں ترمیم کرکے انتخابات پر نگراں حکومت کے قیام کی شرط کو شامل کیا۔ اگلے پارلیمانی انتخابات 30 جون 1996 کو غیر جانبدار حکومت کی سرپرستی میں ہوئے۔





نسخہ بمطابق 07:52، 3 اکتوبر 2022ء

60px|بندانگشتی|راست
نویسنده این صفحه در حال ویرایش عمیق است.

یکی از نویسندگان مداخل ویکی وحدت مشغول ویرایش در این صفحه می باشد. این علامت در اینجا درج گردیده تا نمایانگر لزوم باقی گذاشتن صفحه در حال خود است. لطفا تا زمانی که این علامت را نویسنده کنونی بر نداشته است، از ویرایش این صفحه خودداری نمائید.
آخرین مرتبه این صفحه در تاریخ زیر تغییر یافته است: 07:52، 3 اکتوبر 2022؛



حسینہ واجد
نام حسینہ واجد
پیدا ہونا 28 ستمبر 1947، مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے علاقے تنگی پارہ میں۔
مذہب اسلام، سنی
سرگرمیاں عوامی لیگ پارٹی کے موجودہ رہنما، 1996 سے 2001: وزیر اعظم (پہلی مدت)، 2001 سے 2006: پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف، 2009 سے 2013: وزیر اعظم (دوسری مدت)، جنوری 2014 بنگلہ دیش کے وزیر اعظم (تیسری مدت) )، 2018 کے انتخابات اور بنگلہ دیش کے موجودہ وزیر اعظم

شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی 10ویں وزیر اعظم ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں۔ وہ 1996 سے 2001 تک بنگلہ دیش کے وزیر اعظم رہے اور 2009 سے 2014 تک۔ وہ 1981 سے بنگلہ دیش عوامی لیگ کے رہنما ہیں۔ وہ 2014 کے عام انتخابات میں تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ وہ دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔ فوربس میگزین نے 2017 کی طاقتور ترین خواتین کی فہرست میں انہیں 30 ویں نمبر پر رکھا [1].

سوانح عمری

حسینہ واجد 28 ستمبر 1947 کو مشرقی پاکستان کے ضلع تنگی پارہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ بنگلہ دیش کے بانی اور اس ملک کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمٰن کے بڑے بیٹے ہیں۔ اپنے کئی انٹرویوز میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے خوف کے مارے پلے بڑھے ہیں۔ پاکستان میں 1970 کے انتخابات کے دوران تشدد کے عروج پر، جس وقت ان کے والد کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ اپنے دادا کے ساتھ ایک مہاجر کیمپ میں رہتے تھے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں: مجھے سکول جانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ مجھے لکڑی کے پل سے نہر عبور کرنا تھی اور مجھے دریا میں گرنے کا ڈر تھا۔

سیاسی سرگرمیاں

انہوں نے نوعمری سے ہی سیاسی سرگرمیاں شروع کی تھیں۔ اس نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1973 میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اگست 1975 میں، جب وہ اپنی بہن ریحانہ کے ساتھ مغربی جرمنی کا دورہ کر رہی تھیں، ان کے خاندان کے تمام افراد کو ایک وحشیانہ قتل میں ہلاک کر دیا گیا، اور اس طرح یہ دونوں بہنیں، اس میں سے واحد زندہ بچ گئیں۔ اس واقعے کو چھ سال جلاوطنی میں گزارنے پڑے۔ وہ ہندوستان میں تھے۔

عوامی لیگ پارٹی قیادت

1981 میں وہ عوامی لیگ پارٹی کے سربراہ کے طور پر منتخب ہوئے۔ عوامی لیگ کو بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ 1980 کی دہائی میں وہ ایک بار جیل میں تھے اور ایک بار آزاد۔ فروری اور نومبر 1984 میں انہیں گھر میں نظربند رکھا گیا۔ مارچ 1985 میں وہ تین ماہ تک گھر میں نظر بند رہے۔

الیکشن

ان کی پارٹی، ضیاء الرحمن کی اہلیہ خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتی رہی، ایک جمہوری حکومت کے انتخاب کے لیے کام کرتی رہی، اور انھوں نے 1991 میں جمہوری انتخابات کر کے یہ مقصد حاصل کیا، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش نیشنلسٹ کی فتح ہوئی۔ پارٹی انہوں نے اور ان کی پارٹی نے ارشاد کی صدارت میں 1986 کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ انتخابات میں حصہ لینے کے ان کے فیصلے پر ان کے مخالفین نے تنقید کی تھی کیونکہ خالدہ ضیا کی قیادت میں دوسرے مخالف گروپ نے ووٹ کا بائیکاٹ کیا تھا۔ تاہم، ان کے حامیوں کا اصرار تھا کہ انھوں نے اس عہدے کو اس وقت کی حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دسمبر 1987 میں انہوں نے پارلیمنٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ اس وقت کیا جب حسینہ واجد اور ان کی پارٹی نے غیر جانبدار حکومت کے تحت آزادانہ انتخابات کرانے کی کوشش میں پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

1991 کے انتخابات

ارشاد کی حکومت کے کئی سالوں کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالوں نے ایسا عدم استحکام پیدا کیا کہ ملکی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ دسمبر 1990 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں نے ارشاد، جنہوں نے اپنے نائب شہاب الدین کے حق میں استعفیٰ دے دیا تھا، کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ شہاب الدین احمد کی سربراہی میں عبوری حکومت نے قومی پارلیمانی انتخابات کرائے تھے۔ خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور ان کی قیادت میں عوامی لیگ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن گئی۔ وہ تین حلقوں سے لڑے، دو حلقوں سے ہارے اور ایک میں جیت گئے۔ انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیا لیکن قائدین کے کہنے پر برقرار رہے۔

1994 کے انتخابات

بنگلہ دیش کی سیاست میں 1994 میں وسط مدتی انتخابات کے بعد ایک اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یہ انتخابات عوامی لیگ کے ایک رکن اسمبلی کی موت کے بعد کرائے گئے تھے۔ توقع تھی کہ عوامی لیگ اس نشست پر دوبارہ قبضہ کرے گی، لیکن نیشنلسٹ پارٹی نے اسے لے لیا۔
انہوں نے اور ان کی جماعت نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر مطالبہ کیا کہ اگلے عام انتخابات ایک غیر جانبدار حکومت کی نگرانی میں کرائے جائیں اور اس مطالبے کو آئین میں شامل کیا جائے۔ حکمران جماعت نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بے مثال جدوجہد شروع کی اور کئی ہفتوں تک ہڑتال کی کال دی۔ حکومت نے ان پر معیشت کو تباہ کرنے کا الزام لگایا، جب کہ اپوزیشن کا اصرار ہے کہ حکمران جماعت ان کے مطالبات کو پورا کرکے مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ 1995 کے آخر میں عوامی لیگ اور دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی اور قومی انتخابات 15 فروری 1996 کو ہوئے۔
حکمران قوم پرست حز کے علاوہ تمام اہم جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ نئی پارلیمنٹ، جس میں زیادہ تر حکمراں جماعت کے ارکان شامل ہیں، نے آئین میں ترمیم کرکے انتخابات پر نگراں حکومت کے قیام کی شرط کو شامل کیا۔ اگلے پارلیمانی انتخابات 30 جون 1996 کو غیر جانبدار حکومت کی سرپرستی میں ہوئے۔


حوالہ جات