حدیث

ویکی‌وحدت سے

اسلامی شریعت کا پورا علم ہم کو بڑے ذرائع قرآن اور حدیث سے حاصل ہوتا ہے۔

حدیث کے لغوی معنی

بات چیت، نئی چیز،بیان، ذکر، قصہ، کہانی، تاریخ یا سند ہے۔

حدیث کا لغوی مفہوم

(۱) حدیث کا لفظ قدیم کی ضد ہے اور اس کا مصدر "حدث" ہے جس کا اطلاق نئے عوارض پر ہوتا ہے " رجل حدث" کے معنی جوان آدمی ہے نئی چیز اور نئی بات کو حدیث کہتے ہیں حادثہ کو اسی لئے یہ نام دیا گیا ہے کہ وہ وقوع کے اعتبار سے نیا ہوتا ہے۔

(۲) حدیث کا لفظ بات چیت اور گفتگو کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس کی جمع صحیح مذہب کے مطابق احادیث ہے۔

(۳) دنیا کے عجائبات اور خلاف امید واقعات، حکایات اور قصوں کو بھی احادیث فرمایا گیا ہے۔

حدیث کی تعریف

حدیث کا لفظ تحدیث سے اسم ہے تحدیث کے معنی خبر دینا ہے۔ ظہور اسلام سے پہلے عرب حدیث کے لفظ کو اخبار کے معنی میں استعمال کرتے تھے مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث کے نام سے موسوم کرتے تھے ۔ اس لئے شیعہ نے اس روایت کو قائم کیا ہوا ہے اور اپنی حدیث کی کتابوں کو اخبار کہتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں حضرت محمد ﷺ کے قول و فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے اس کی جمع احادیث ہے۔ اصطلاحی معنی میں حضور کے وہ اقوال ہیں جو راویوں کے ذریعہ نسلاً بعد نسل تواتر کے ساتھ وہ عمل میں پہنچے ہیں۔ حدیث کے معنی اسلامی اصطلاح میں حضور کی وہ باتیں ہیں جن کو حضور نے قرآن کو سمجھانے کے لئے ہائی ہیں۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ نماز پڑھ مگر قرآن میں وقت کے متعلق نہیں لکھا کہ کسی وقت سے کسی وقت تک اور کس وقت کتنی رکعت پڑھنی چاہیے رکوع کے ہیے رکوع کیسے کرنا چاہیے اور سجدہ کیسے کرنا چاہیے۔ اور اس نماز میں کیا پڑھنا چاہیے یہ سب قرآن میں بیان نہیں ہوا ہے یہ سب باتیں حضور نے بتائی ہیں اور یہ سب باتیں حدیث سے ملتی ہیں۔

حدیث کی قسمیں

حدیث کی دو قسمیں ہیں ایک الہی جسے قدسی کہتے ہیں اور دوسری نبوی ، قدسی حدیث میں حضور اپنے پروردگار سے روایت کرتے ہیں۔ حدیث قدسی اور دیگر احادیث میں نمایاں فرق یہ ہے کہ اس میں ( قال اللہ تعالی ) " اللہ تعالیٰ نے فرمایا" کے الفاظ ہوتے ہیں ویسے دیگر الہامات ربانی کی طرح یہ بھی ایک الہام ہوتا ہے ۔ حضور بسا اوقات کچھ چیزیں اللہ کی طرف منسوب کر کے فرمایا کرتے تھے مگر قرآن میں وہ موجود نہیں اس طرح کی احادیث کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے۔

قولی

جو حضور نے اپنی زبان سے فرمایا ہو اُس کو حدیث قولی کہتے ہیں۔ صحاح ستہ کی اکثر احادیث حضور کے اقوال ہیں مثلاً حضور کا یہ فرمان " جیسے مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو اس طرح نماز پڑھو قولی حدیث کو اثبات احکام کے لحاظ سے اولین مقام حاصل ہے۔

فعلی

جو حضور نے اپنے ہاتھ سے یا کسی اور طریقے سے کسی کام کو کیا ہو اُس کو حدیث فعلی کہتے ہیں مثلاً حضور نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی کھائیوں میں تر کر کے پھنسا ئیں اور کھائیاں تڑکیں آواز آئی یہ حدیث فعلی ہے۔ نماز، وضو، اعتکاف اور دیگر افعال یہ سنت اور حجت ہیں۔

تقریری

کوئی کام یا بات جو حضور کے سامنے واقعہ ہوا ہو اور حضور نے اُس کام کو دیکھا اور حضور نہ بولےنہ انہوں نے اُس کام کو غلط کہا اور نہ صحیح کہا اس پر اعتراض نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جائز اور درست ہے ورنہ حضور خاموش نہ رہتے۔ صحابی کے کسی فعل پر حضور کا خاموش رہنا محدثین کی اصطلاح میں " تقریر کہلاتا ہے یہ حدیث کی تیسری قسم ہے جسے حدیث تقریری کہتے ہیں۔

سنت

سنت کے لغوی معنی ہیں طریقہ یا قاعدہ یا کسی کا ڈھب یا زندگی کا اسلوب ہے۔ اسلام میں سنت سے مراد حضور کی فعلی روش ہے پس وہ عملی نمونہ جو حضور نے پیش کیا اس کا نام سنت ہے ۔ سُنت . کے لفظی معنی راستہ اور طریقہ کے ہیں اسلامی اصطلاح کے مطابق سنت کے ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے سنت ادانہ کرنے میں عذاب نہیں ملتاسنت اُس کام کو کہتے ہیں جس کو رسول اللہ یا صحابہ کرام نے کیا ہو یا حکم فرمایا ہو ۔ جب بھی لفظ سنت آئے گا تو اُس کا تعلق حضور سے ہوگا ۔ اصول حدیث وفقہ کے علماء کے نزدیک حدیث و سنت" کے الفاظ ہم معنی ہیں یہ کہنا کہ سنت سے مراد حضور کا عملی طریق اور حدیث سے مراد حضور کے اقوال میں بالکل غلط اور فن سے نا واقف ہونے کی دلیل ہے ۔ سنت اور حدیث مترادف ہیں اور شرعاً یہ دونوں حجت ہیں سنت کا اطلاق زیادہ تر حضور کے اقوال وافعال اور تقریر پر کیا جاتا ہے لہٰذا یہ لفظ علمائے اصول کے نزدیک حدیث کا مترادف ہے حدیث و سنت“ کے الفاظ ہم صرف چند ایک سنتیں جو حضرت ابراہیم کی ہیں جن کو مسلمان مانتے ہیں مثلا حج کی چند رسومات اور قربانی کی عید اس کو سنت ابراہیمی بھی کہتے ہیں سنت کی قسمیں ہیں۔ سنت موکده 2۔ سنت غیر موکدہ سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ کا زیادہ ذکر نماز روں میں آئے گا۔

سنت موکدہ

وہ عمل ہے جس کو حضور نے کبھی نہ چھوڑا ہو اُس کو سنت موکدہ کہتے ہیں۔

سنت غیر موکدہ

اس عمل کو کہتے ہیں جس کام کو کبھی حضور نے چھوڑ دیا ہو اس کو سنت غیر موکدہ کہتے ہیں ۔ اسلامی اصطلاح میں اگر کوئی شخص سُنت و حدیث کو نہیں مانتا تو حقیقت میں وہ قرآن کے کلام الہی ہونے کا انکار کرتا ہے۔ سنتوں اور حدیثوں کی بہت کی اسلامی کتب مشہور ہیں مگر آٹھ کتابیں زیادہ مشہور ہیں:

  • بخاری شریف
  • مسلم شریف
  • سنن ترندی شریف
  • سنن ابوداؤد شریف
  • سنن نسائی شریف
  • موطا امام مالک
  • مسند امام احمد بن حنبل
  • ابن ماجہ ان کے علاوہ بھی بہت کی حدیث کی کتابیں ہیں۔

صحاح ستہ

محدثین کی اصطلاح میں صحاح ستہ حدیث کی درج ذیل چھ کتابوں کو کہتے ہیں:

  • مسلم
  • ترمدی
  • ابوداؤد
  • نسائی
  • ابن ماجہ

پہلا طبقہ

جو حدیث کی کتب طبقہ اول میں اعلیٰ درجہ کی ہے وہ تواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہے طلبقہ اول کی تین احادیث کی کتب میں موطا امام مالک، صحیح بخاری ہی مسلمان میں متواتر صحیح اور حسن ہر قسم کی حدیثیں پائی جاتی ہیں۔

دوسرا طبقہ

ان حدیث کی کتب میں جو کتاب طبقہ اولی کے درجے تک نہیں پہنچتی لیکن طبقہ اولی کے قریب قریب ہیں اس طبقہ میں سنن ابوداؤد، جامع ترندی اور نسائی میں مسند احمد بن حنبل بھی تقریبا اس طبقے کی ہیں۔ متاخرین نے ان کو قبول عام کی سند دے دی ہے اور ضعیف کے باوجود ان سے کثیر علوم واحکام اخذ کئے ہیں ان میں عقائد و شریعت کے اصول و استنباط کرتے ہیں ۔

تیسرا طبقہ

وہ تصانیف جو بخاری سے قبل یا ان کے زمانہ میں یا ان کے بعد تصنیف ہوئیں ان کی تمام قسمیں ضعیف، معروف، غریب، شاذ ، منکر ، خطا ، ثواب اس میں ہر قسم کی حدیث شامل ہے ان کے اکثر راوی مستور الحال ہیں۔

چوتھا طبقہ

اس طبقہ میں وہ نا قابل اعتماد کتب شامل ہیں جو پچھلے ادوار میں افسانہ کو واعظوں، صوفیوں، مورخین اور غیر عادل اصحاب بدعت سے حدیثیں سن کر تصنیف حدیث شامل ہے ان کے اکثر راوی مستور الحال ہیں ۔ کی گئی ہیں۔ حدیث کی دو اقسام بہت مشہور ہیں: ۱- متواتر ۲- آحاد

متواتر حدیث

یہ وہ حدیث ہے جس کو ہر زمانہ میں راویوں نے کثرت سے روایت کیا ہو سب راویوں کا کسی جھوٹی بات پر متفق ہو جانا عقل کے نزدیک محال ہو۔ اس کی مثال نماز کی رکعتوں والی روایت یا زکوۃ کی مقداروں والی روایت ہو متواتر وہ حدیث ہے جسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے پر امت کا اجماع ہوا ہو۔ اور جس کو مذکورہ جماعت سند کے اول اوسط اور آخر میں ایک ہی قسم کے الفاظ کے ساتھ روایت کرتی ہو مثلا۔ (1) متواتر حدیث جس میں چاند کے دوٹکڑے ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔

(۲) واقعہ معراج

(۳) متواتر حدیث میں حضور کی شفاعت کا ذکر کیا گیا ہو۔

(۴) متواتر حدیث جس میں آپ کی انگلیوں سے پانی پھوٹنے لگا اور سب لشکر سیراب ہو گیا ہو۔

(۵) وہ حدیث جس میں کھجور کے اس تنے کے رونے کا ذکر کیا گیا ہے جس کے ساتھ سہارا لگا کر آپ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔

متواتر حدیث کی حجیت پر سب عقل مند متفق ہیں متواتر کے سوا باقی سب آحاد حدیثیں ہیں۔

آحاد

آحاد حدیث اُس کو کہتے ہیں جن کی روایت میں اتنی کثرت نہ ہو جو کئی طریقوں سے حاصل ہوئی ہو اور ان کے ثبوت میں کوئی شبہ بھی نہ رہا ہو۔ آگے آحاد کی تین قسمیں ہیں۔

(1) مشہور: جس حدیث کے راوی ہر زمانے میں دو سے زائد رہے ہوں اس کو مشہور حدیث کہتے ہیں۔

(۲) عزیز: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں کم سے کم دور ہے ہوں اس کو عزیز کہتے ہیں۔

(۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) ضعیف۔

صحیح حدیث

(صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔ (1) حضرت عیسی ابن مریم کا دوبارہ دنیا میں آنا۔ (۲) حضور پر ذاتی حیثیت سے جادو کے چند اثرات کا ہو جانا۔