"جیش العدل" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 15: سطر 15:


لیویز اہلکار نے مزید بتایا کہ میزائل حملوں کے سبب علاقے میں شدید خوف و حراس پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مکین اپنے گھروں میں خوف کے مارے محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو رات گئے اپنے گھروں سے نکل مکانی کرچکے ہیں <ref>غالب نہاد، فضائی حدود کی ایرانی خلاف ورزی اور جیش العدل، ماجرا کیا ہے؟،[https://wenews.pk/news/122031/ wenews.pk]</ref>۔
لیویز اہلکار نے مزید بتایا کہ میزائل حملوں کے سبب علاقے میں شدید خوف و حراس پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مکین اپنے گھروں میں خوف کے مارے محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو رات گئے اپنے گھروں سے نکل مکانی کرچکے ہیں <ref>غالب نہاد، فضائی حدود کی ایرانی خلاف ورزی اور جیش العدل، ماجرا کیا ہے؟،[https://wenews.pk/news/122031/ wenews.pk]</ref>۔
== پاک ایران کشیدگی، نقصان امریکہ و بھارت کا ==
اردو میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ بعض مبصرین کے خیال میں موجودہ حالات میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ اگر پاکستانی افق پر حالیہ دنوں پر غور و فکر کیا جائے تو اس بات میں کوئی شک موجود نہیں ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کافی سنجیدہ ہیں۔ خاص طور پر جب سے جنرل سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی ہے، دہشت گردی کو ختم کرنے کا ارادہ قوی طور پر پایا گیا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی اسی کی ہی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح آرمی چیف نے تمام علماء کو دعوت دے کر نہایت کھل کر افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں گفتگو کی اور کہا کہ پاکستان تحریک طالبان خوارج ہیں اور علماء کو باقاعدہ تنبیہ کی گئ کہ علماء ان کی پشت پناہی سے بعض آجائیں۔ اسی طرح [[الر|مولانا فضل الرحمن]] کا حالیہ دورہ افغانستان کو بھی نہایت اہمیت حاصل ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان فوج نے مولانا فضل الرحمن کے زریعے افغانستان کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب سے طالبان کی دہشت گردوں کی پشت پناہی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی مسلک دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا کا تعلق بھی مسلک دیو بند سے ہے، اس لیے ان میں آپس میں قرابت پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے جید علماء نے بھی پاکستانی ریاست کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کے جہاد کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ سب وہ اقدامات ہیں جنہیں نہایت ہی واضح طریقے سے پاکستان کے افق پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایسے میں ایک طرف اگر پاکستان تحریک طالبان کیخلاف اقدامات ہو رہے ہیں اور بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے متعلق کچھ نہ سوچا جائے تو پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ فقط ایک خواب ہے۔ کیونکہ BLA اور BLF باقاعدہ معصوم پاکستانی شہریوں اور افواج پاکستان کے قتل میں باقاعدہ ملوث ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک طرف پاکستانی ریاست افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کو نظر میں رکھے لیکن بلوچستان سے ہونے والی دہشت گردی کو نظر انداز کر دے، جبکہ ان دہشت گرد تنطیموں کو غیر ملکی امداد حاصل ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔
ایک طرف بلوچستان مسنگ پرسن کے حوالے سے اسلام آباد میں حالات گرم ہیں، جہاں پر بلوچستان سے لوگ آکر باقاعدہ دھرنہ دے رہے ہیں اور انہیں عوام کی پذیرائی و ہمدردی بھی حاصل ہے۔ لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے بھی رشتہ دار ہوتے ہیں، کل کو وہ آکر دھرنے دیں تو کیا انہیں چھوڑ دیا جائے، البتہ اس حوالے سے حکومت کی طرف سے کمیشن بنانے کی پیشکش بھی کی گئ ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ ہمیشہ جب کسی گروہ کیخلاف کاروائی کی جاتی ہیں ان میں معصوم افراد بھی بعض اوقات نشانہ بن جاتے ہیں۔ لیکن حکام نے میڈیا پر برملا بتایا ہے کہ ان دھرنہ دینے والوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس بھارت سے چلائے جا رہے ہیں اور بھارت ان کا ٹرنڈ بنانے میں پیش پیش ہے۔ یہ صورتحال پاکستانی ریاستی اداروں کیلئے نہایت ہی پیچیدہ اور پریشان کن ہے۔
کیونکہ اس بات کے واضح ثبوت دیے جا سکتے ہیں کہ بھارت BLF اور BLA کے پیچھے ہے، کلبوشن یادو جو کہ RAW کا ایجنٹ تھا، اس کا بلوچستان سے پکڑے جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔بھارتی حاضر سروس نیول افسر، کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مارچ 2016 میں اس وقت گرفتار کیا جب وہ پاکستان کے بلوچستان میں واقع سراوان علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
بھارت کی مداخلت نے پاکستان کی قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی پر سنگین مضمرات پیدا کیے ہیں۔
مزید برآں، یہ بالآخر خطے میں مستقل عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کو حکومت پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں باغی گروپوں کو بھارتی سرپرستی کے ڈوزیئر بھی فراہم کیے گئے تھے جن میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مالی اعانت شامل تھی۔ایسے میں پاکستان میں بھارتی مداخلت عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے اور پاکستان حالیہ واقعات جو اسلام آباد میں ہو رہے ہیں، اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔
عین اسی طرح جیش العدل جن کا تعلق ایرانی صوبہ بلوچستان و سستان سے ہے، یہ گروہ ایرانی حکومت کی نظر میں ایک دہشت گرد گروہ ہے، اس دہشت گرد گروہ کی لمبی تاریخ ہے اور اس کے معصوم ایرانی شہریوں اور ایرانی افواج کو قتل کرنے کی لمبی داستان ہے۔ ایرانی اینٹیلجنس ایجنسی کے مطابق اس گروہ کے باقاعدہ امریکہ و عرب ممالک سے تعلقات ہیں اور جو ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ایران کے مطابق خاص طور پر اس گروہ کے پاکستان اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی CIA کے عہدیداروں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ایران میں حملوں کے بعد وائس آف امریکہ اکثر اس گروہ کی وکالت کرتے ہوئے نظر آیا ہے۔ اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایران جو امریکہ کا
‌‌فرمان علی سعیدی, [۱۸.۰۱.۲۴ ۱۹:۵۰]
دشمن ہے، اگر امریکہ کو کوئی ایسے گروہ مل جائے جو اس کی نیابت میں ایران کے اندر جڑیں کاٹے تو اس سے بہتر اور امریکہ کیلئے کیا ہو سکتا ہے ؟ جس طرح BLA اور BLF  پاکستان میں بلوچستان کے حوالے سے علیحدگی پسند تحریک چلاتے ہیں اور عسکری حملے کرتے ہیں، عین اسی طرح جیش العدل بھی ایران میں بلوچستان و سیستان کے حوالے سے علیحدگی پسند تحریک چلانے اور ایران میں عسکری کاروائیاں کرتے ہیں اور ان کے پیچھے بھارت و امریکہ کی سپورٹ و اشیر باد شامل حال ہے۔ کیونکہ پاکستان اور ایران میں ان کے علاقے آپس میں ملحق ہیں، اس لیے ایک قوم ہونے کے ناطے جیش العدل اور BLA BLF میں آپس میں بھی رابطے موجود ہیں۔ ایسے میں یہ گروہ پاکستان و ایران دونوں کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں !
یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی پر قابو پانے اور بارڈر سکیورٹی پر زور دیتے آئے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں اس حوالے سے زیادہ پختہ ارادہ نظر آتا ہے۔ جس دن ایران نے پاکستان کی سرزمین پر حملہ کیا اس سے ایک دن پہلے افغانستان کیلئے ایرانی سفیر کی پاکستان کی دعوت پر موجودگی پر مبصرین نہایت غور و فکر کر رہے ہیں۔ اس دورے کی دعوت خود پاکستان نے دی تھی۔ جس میں کئ معاملات پر بات چیت کی گئ، موجودہ حالات میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے آمادہ ہے، ایسے میں افغانستان و ایران میں دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے بھارت و غیر ملکی طاقتوں کی شمولیت اور اس کے سدباب کا معاملہ ضرور زیر بحث آیا ہوگا
موجودہ حالات میں جہاں ایران دنیا بھر میں امریکہ و اسرائیل کیخلاف سرگرم ہے، ایسے میں پاکستان کو بتائے بغیر پاکستان کے ساتھ ایک نیا محاز کھڑا کر دے اور اپنے لیے نقصان کو دعوت دے، مبصرین کے خیال میں یہ نا ممکن ہے، بلکہ ان کا خیال ہے کہ ان حملوں سے پہلے پاکستان و ایران دونوں کو معلوم تھا اور انہوں نے آپس میں باہمی ہم آہنگی کے بعد یہ اقدامات کیے ہیں۔ لیکن چونکہ پاکستان کی سیاسی و معاشی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں اور دوسری طرف امریکہ و یورپ کے نور نظر ٹھہرنے کیلئے یہ اعلان کیا کہ ہم اس کا علم نہیں تھا اور ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئ ہے۔ ایسے میں پوری دنیا میں اسے ایران پاکستان جنگ کہا جا رہا ہے اور پوری دنیا کی نگاہیں اس طرف لگ گئ ہیں، گویا امریکی و اسرائیلی خوش ہو رہے ہیں کہ ایران اور پاکستان آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے ملکی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر نشانہ لگایا ہے اور عالمی میڈیا اور عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے کہ گویا ایران و پاکستان کے حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان نے عربوں اور یورپ کی ہمدردی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے راہ ہموار کرلی ہے، یہی عوام جو کل پاکستانی اداروں پر انگلیاں اٹھا رہی تھی اور بلوچ دہشت گردوں پر کاروائیوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، آج وہ ریاستی اداروں کو گن گا رہے ہیں۔ اس طرح ریاستی اداروں نے کمال مہارت سے اپنے لیے حمایت بھی حاصل کر لی، اب یہ معاملہ شاید کچھ عرصہ چلے گا، ایران اور پاکستان دونوں نے بلوچستان سرحد کے قریب فوجوں کو بڑھا دیا ہے اور بارڈر کی کڑی نگرانی اور دہشت گردوں کے حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن دنیا کی نظر میں یہ سب پاک ایران کشیدگی کی وجہ سے ہو رہا، جبکہ حقیقتا" یہ امریکہ و بھارت کے حمایت یافتہ گروہوں کو کچلنے کیلئے ہو رہا، جو کہ شاید پاکستان میں شاید حقوق انسانی کی تنظیموں کے ہوتے ہوئے اور بلوچ نسل کشی پر سیاست کرنے والوں کے ہوتے ہوئے بہت مشکل ہوتا، لیکن اس طرح پاکستان بھارت کی چالوں پر کاری ضرب لگانے کیلئے آمادہ ہو گیا ہے۔ گویا سانپ بھی مرے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔
اس طرح پاکستان ایران کشیدگی سے بالآخر نقصان امریکہ و بھارت کا ہو گا <ref>بعثت خبر، 18 جنوری ،2024م</ref>۔
2024

نسخہ بمطابق 11:01، 19 جنوری 2024ء

جیش العدل ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ایک سنی عسکریت پسند گروپ ہے جو ایران کی حکومت کے ساتھ مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہ تنظیم 2012 میں وجود میں آئی جس کی بنیاد جند اللہ کے اراکین نے رکھی۔ 2010 میں جندل اللہ کے سربراہ عبدالمالک کی پھانسی کے بعد ان کے بھائی عبد الرؤف نے جیش النصر کی بنیاد رکھی جو بعد میں جیش العدل ہو گئی جبکہ صلاح الدین فاروقی جیش العدل کے موجودہ کمانڈر ہیں۔ اس تنظیم کی تین عسکری شاخیں ہیں۔ عبدالملک ملا زادہ ملٹری گروپ، شیخ ضیائی ملٹری گروپ اور مولوی نعمت اللہ توحیدی ملٹری گروپ شامل ہیں۔

ان تینوں گروہوں کے ساتھ ’زبیر سمائل زاہی‘ کی انٹیلی جنس برانچ بھی سرگرم ہے۔ زبیر سمائل زاہی ’نعمت اللہ توحیدی‘ گروپ کا کمانڈر تھا، جو ایک فوجی آپریشن کے دوران مارا گیا۔

یہ گروہ خود کو ایران کی بلوچستان سنی اقلیت کے حقوق کا محافظ اور شامی حکومت کا حامی قرار دیتا ہے۔

جیش العدل نے 2012 میں پاسداران انقلاب کے 2 اہلکاروں کو مار کر اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا تاہم ایرانی فوجی اور سویلین لوگوں کے خلاف کئی حملوں اور اغوا کی ذمہ دار بھی یہی تنظیم رہی ہے۔

ایرانی کا فضائی حملہ

گزشتہ شام ایران نے بلوچستان کی سرحد سے منسلک علاقے پنجگور میں جیش العدل کے ٹھکانوں کو میزائل سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 2 بچے جانبحق ہوگئے۔ اس حوالے سے وی نیوز نے پنجگور میں مامور لیویز اہلکار سے گفتگو کی ہے اور واقعے کی تفصیلات حاصل کی ہیں۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پنجگور میں لیویز اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ روز مغرب کے وقت پنجگور کی تحصیل کلگ کے گاؤں کوہ سبزہ میں ایرانی طیاروں کی جانب سے مقامی آبادی پر 4 میزائلوں سے حملہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کی خاتون سمیت 4 افراد زخمی ہوئے، جن کی شناخت مریم، رقیہ، عاصمہ اور عائشہ کے ناموں سے ہوئی ہے۔ ’واقع کے فوراً بعد زخمیوں کو پنجگور سول اسپتال منتقل کیا گیا جہاں 2 بچیاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں، میزائل حملے سے قریبی مسجد شہید جبکہ اطراف کے گھر شدید متاثر ہوئے، تاہم سیکیورٹی فورسز نے تاحال علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے جبکہ شواہد اکٹھے کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔‘

لیویز اہلکار نے مزید بتایا کہ میزائل حملوں کے سبب علاقے میں شدید خوف و حراس پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مکین اپنے گھروں میں خوف کے مارے محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو رات گئے اپنے گھروں سے نکل مکانی کرچکے ہیں [1]۔

پاک ایران کشیدگی، نقصان امریکہ و بھارت کا

اردو میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ بعض مبصرین کے خیال میں موجودہ حالات میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ اگر پاکستانی افق پر حالیہ دنوں پر غور و فکر کیا جائے تو اس بات میں کوئی شک موجود نہیں ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کافی سنجیدہ ہیں۔ خاص طور پر جب سے جنرل سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی ہے، دہشت گردی کو ختم کرنے کا ارادہ قوی طور پر پایا گیا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی اسی کی ہی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح آرمی چیف نے تمام علماء کو دعوت دے کر نہایت کھل کر افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں گفتگو کی اور کہا کہ پاکستان تحریک طالبان خوارج ہیں اور علماء کو باقاعدہ تنبیہ کی گئ کہ علماء ان کی پشت پناہی سے بعض آجائیں۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کا حالیہ دورہ افغانستان کو بھی نہایت اہمیت حاصل ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان فوج نے مولانا فضل الرحمن کے زریعے افغانستان کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب سے طالبان کی دہشت گردوں کی پشت پناہی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی مسلک دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا کا تعلق بھی مسلک دیو بند سے ہے، اس لیے ان میں آپس میں قرابت پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے جید علماء نے بھی پاکستانی ریاست کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کے جہاد کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ سب وہ اقدامات ہیں جنہیں نہایت ہی واضح طریقے سے پاکستان کے افق پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایسے میں ایک طرف اگر پاکستان تحریک طالبان کیخلاف اقدامات ہو رہے ہیں اور بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے متعلق کچھ نہ سوچا جائے تو پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ فقط ایک خواب ہے۔ کیونکہ BLA اور BLF باقاعدہ معصوم پاکستانی شہریوں اور افواج پاکستان کے قتل میں باقاعدہ ملوث ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک طرف پاکستانی ریاست افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کو نظر میں رکھے لیکن بلوچستان سے ہونے والی دہشت گردی کو نظر انداز کر دے، جبکہ ان دہشت گرد تنطیموں کو غیر ملکی امداد حاصل ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ ایک طرف بلوچستان مسنگ پرسن کے حوالے سے اسلام آباد میں حالات گرم ہیں، جہاں پر بلوچستان سے لوگ آکر باقاعدہ دھرنہ دے رہے ہیں اور انہیں عوام کی پذیرائی و ہمدردی بھی حاصل ہے۔ لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے بھی رشتہ دار ہوتے ہیں، کل کو وہ آکر دھرنے دیں تو کیا انہیں چھوڑ دیا جائے، البتہ اس حوالے سے حکومت کی طرف سے کمیشن بنانے کی پیشکش بھی کی گئ ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ ہمیشہ جب کسی گروہ کیخلاف کاروائی کی جاتی ہیں ان میں معصوم افراد بھی بعض اوقات نشانہ بن جاتے ہیں۔ لیکن حکام نے میڈیا پر برملا بتایا ہے کہ ان دھرنہ دینے والوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس بھارت سے چلائے جا رہے ہیں اور بھارت ان کا ٹرنڈ بنانے میں پیش پیش ہے۔ یہ صورتحال پاکستانی ریاستی اداروں کیلئے نہایت ہی پیچیدہ اور پریشان کن ہے۔

کیونکہ اس بات کے واضح ثبوت دیے جا سکتے ہیں کہ بھارت BLF اور BLA کے پیچھے ہے، کلبوشن یادو جو کہ RAW کا ایجنٹ تھا، اس کا بلوچستان سے پکڑے جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔بھارتی حاضر سروس نیول افسر، کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مارچ 2016 میں اس وقت گرفتار کیا جب وہ پاکستان کے بلوچستان میں واقع سراوان علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھارت کی مداخلت نے پاکستان کی قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی پر سنگین مضمرات پیدا کیے ہیں۔ مزید برآں، یہ بالآخر خطے میں مستقل عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو حکومت پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں باغی گروپوں کو بھارتی سرپرستی کے ڈوزیئر بھی فراہم کیے گئے تھے جن میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مالی اعانت شامل تھی۔ایسے میں پاکستان میں بھارتی مداخلت عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے اور پاکستان حالیہ واقعات جو اسلام آباد میں ہو رہے ہیں، اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔

عین اسی طرح جیش العدل جن کا تعلق ایرانی صوبہ بلوچستان و سستان سے ہے، یہ گروہ ایرانی حکومت کی نظر میں ایک دہشت گرد گروہ ہے، اس دہشت گرد گروہ کی لمبی تاریخ ہے اور اس کے معصوم ایرانی شہریوں اور ایرانی افواج کو قتل کرنے کی لمبی داستان ہے۔ ایرانی اینٹیلجنس ایجنسی کے مطابق اس گروہ کے باقاعدہ امریکہ و عرب ممالک سے تعلقات ہیں اور جو ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ایران کے مطابق خاص طور پر اس گروہ کے پاکستان اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی CIA کے عہدیداروں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ایران میں حملوں کے بعد وائس آف امریکہ اکثر اس گروہ کی وکالت کرتے ہوئے نظر آیا ہے۔ اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایران جو امریکہ کا

‌‌فرمان علی سعیدی, [۱۸.۰۱.۲۴ ۱۹:۵۰] دشمن ہے، اگر امریکہ کو کوئی ایسے گروہ مل جائے جو اس کی نیابت میں ایران کے اندر جڑیں کاٹے تو اس سے بہتر اور امریکہ کیلئے کیا ہو سکتا ہے ؟ جس طرح BLA اور BLF پاکستان میں بلوچستان کے حوالے سے علیحدگی پسند تحریک چلاتے ہیں اور عسکری حملے کرتے ہیں، عین اسی طرح جیش العدل بھی ایران میں بلوچستان و سیستان کے حوالے سے علیحدگی پسند تحریک چلانے اور ایران میں عسکری کاروائیاں کرتے ہیں اور ان کے پیچھے بھارت و امریکہ کی سپورٹ و اشیر باد شامل حال ہے۔ کیونکہ پاکستان اور ایران میں ان کے علاقے آپس میں ملحق ہیں، اس لیے ایک قوم ہونے کے ناطے جیش العدل اور BLA BLF میں آپس میں بھی رابطے موجود ہیں۔ ایسے میں یہ گروہ پاکستان و ایران دونوں کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں !

یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی پر قابو پانے اور بارڈر سکیورٹی پر زور دیتے آئے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں اس حوالے سے زیادہ پختہ ارادہ نظر آتا ہے۔ جس دن ایران نے پاکستان کی سرزمین پر حملہ کیا اس سے ایک دن پہلے افغانستان کیلئے ایرانی سفیر کی پاکستان کی دعوت پر موجودگی پر مبصرین نہایت غور و فکر کر رہے ہیں۔ اس دورے کی دعوت خود پاکستان نے دی تھی۔ جس میں کئ معاملات پر بات چیت کی گئ، موجودہ حالات میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے آمادہ ہے، ایسے میں افغانستان و ایران میں دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے بھارت و غیر ملکی طاقتوں کی شمولیت اور اس کے سدباب کا معاملہ ضرور زیر بحث آیا ہوگا

موجودہ حالات میں جہاں ایران دنیا بھر میں امریکہ و اسرائیل کیخلاف سرگرم ہے، ایسے میں پاکستان کو بتائے بغیر پاکستان کے ساتھ ایک نیا محاز کھڑا کر دے اور اپنے لیے نقصان کو دعوت دے، مبصرین کے خیال میں یہ نا ممکن ہے، بلکہ ان کا خیال ہے کہ ان حملوں سے پہلے پاکستان و ایران دونوں کو معلوم تھا اور انہوں نے آپس میں باہمی ہم آہنگی کے بعد یہ اقدامات کیے ہیں۔ لیکن چونکہ پاکستان کی سیاسی و معاشی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں اور دوسری طرف امریکہ و یورپ کے نور نظر ٹھہرنے کیلئے یہ اعلان کیا کہ ہم اس کا علم نہیں تھا اور ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئ ہے۔ ایسے میں پوری دنیا میں اسے ایران پاکستان جنگ کہا جا رہا ہے اور پوری دنیا کی نگاہیں اس طرف لگ گئ ہیں، گویا امریکی و اسرائیلی خوش ہو رہے ہیں کہ ایران اور پاکستان آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے ملکی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر نشانہ لگایا ہے اور عالمی میڈیا اور عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے کہ گویا ایران و پاکستان کے حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان نے عربوں اور یورپ کی ہمدردی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے راہ ہموار کرلی ہے، یہی عوام جو کل پاکستانی اداروں پر انگلیاں اٹھا رہی تھی اور بلوچ دہشت گردوں پر کاروائیوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، آج وہ ریاستی اداروں کو گن گا رہے ہیں۔ اس طرح ریاستی اداروں نے کمال مہارت سے اپنے لیے حمایت بھی حاصل کر لی، اب یہ معاملہ شاید کچھ عرصہ چلے گا، ایران اور پاکستان دونوں نے بلوچستان سرحد کے قریب فوجوں کو بڑھا دیا ہے اور بارڈر کی کڑی نگرانی اور دہشت گردوں کے حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن دنیا کی نظر میں یہ سب پاک ایران کشیدگی کی وجہ سے ہو رہا، جبکہ حقیقتا" یہ امریکہ و بھارت کے حمایت یافتہ گروہوں کو کچلنے کیلئے ہو رہا، جو کہ شاید پاکستان میں شاید حقوق انسانی کی تنظیموں کے ہوتے ہوئے اور بلوچ نسل کشی پر سیاست کرنے والوں کے ہوتے ہوئے بہت مشکل ہوتا، لیکن اس طرح پاکستان بھارت کی چالوں پر کاری ضرب لگانے کیلئے آمادہ ہو گیا ہے۔ گویا سانپ بھی مرے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اس طرح پاکستان ایران کشیدگی سے بالآخر نقصان امریکہ و بھارت کا ہو گا [2]۔


2024

  1. غالب نہاد، فضائی حدود کی ایرانی خلاف ورزی اور جیش العدل، ماجرا کیا ہے؟،wenews.pk
  2. بعثت خبر، 18 جنوری ،2024م