"جماعت اسلامی پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 35: سطر 35:


"جماعت اسلامی" پر مودودی کی فکری اور سیاسی شخصیت کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ جماعت اسلامی کا مودودی سے الگ کر کے مطالعہ کرنا ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی کی مقبولیت دراصل مودودی کی سائنسی شخصیت کی وجہ سے ہے۔ ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے جماعت اسلامی نے اپنے قیام کے بعد سے تین بڑے مراحل کا تجربہ کیا ہے: قیام پاکستان سے پہلے، قیام پاکستان کے بعد 1951ء تک اور 1951ء سے اب تک۔
"جماعت اسلامی" پر مودودی کی فکری اور سیاسی شخصیت کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ جماعت اسلامی کا مودودی سے الگ کر کے مطالعہ کرنا ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی کی مقبولیت دراصل مودودی کی سائنسی شخصیت کی وجہ سے ہے۔ ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے جماعت اسلامی نے اپنے قیام کے بعد سے تین بڑے مراحل کا تجربہ کیا ہے: قیام پاکستان سے پہلے، قیام پاکستان کے بعد 1951ء تک اور 1951ء سے اب تک۔
== پہلا مرحلہ ==
'''جماعت اسلامی''' کی طویل تاریخ کے پہلے مرحلے میں جماعت نے اپنا بنیادی ہدف دین کی تبلیغ، صالح اور پرہیزگار انسانی قوتوں کی تربیت، بدعتوں اور توہمات کے خلاف جنگ، لوگوں کی تنظیم سازی پر مبنی تھا۔ واحد تنظیم، اور فکری اور سماجی مرکزیت کی تخلیق۔ اس مقام پر "جماعت" کی مروجہ فکر "اسلامی دنیا" کی فکر ہے۔ اپنی اپریل 1945 کی تقریر میں مودودی نے کہا: ہم تمام خدا کے بندوں کو بالعموم اور ان لوگوں کو جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے خاص طور پر خدا کی خدمت کی دعوت دیتے ہیں۔ مودودی نے جماعت کے "امیر" کے منصب کو کہنے کے بعد پہلے خطبہ میں کہا: ہمارا مقصد کسی خاص قوم یا ملک کے محدود روزمرہ اور وقتی مسائل سے نمٹنا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق تمام بنی نوع انسان اور پورے کرۂ ارض سے ہے۔ تمام لوگوں کی زندگیوں کے مسائل ہماری زندگی کے مسائل ہیں۔ جماعت اسلامی نے اسلام کی عالمی فکر سے متاثر ہوکر اپنے دائرہ کار کو پوری دنیا اور بنی نوع انسان تصور کیا۔ <br>
اس قسم کی سوچ اس لیے کی جاتی ہے کہ قومی اور مقامی مسائل کو مدنظر نہ رکھا جائے۔ جب ہندوستان میں پاکستان کی آزادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی تو مودودی اس کے خلاف خاموش رہے، کیونکہ اسلامی قومیت پر مبنی اور ایک مخصوص سرزمین تک محدود حکومت بنانے کی مسلم قوم پرست کوشش مودودی کی عالمی فکر سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ مودوی نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی تحریک کی حمایت نہیں کی بلکہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سیاسی سرگرمیاں اور انتخابات میں حصہ لینا، جسے ایک قومی اور عارضی مسئلہ سمجھا جاتا تھا، مودودی کی جماعت اسلامی کے خیال میں مذہبی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔