"جماعت اسلامی پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 46: سطر 46:


== بصیرت اور فکر ==
== بصیرت اور فکر ==
'''جماعت اسلامی''' کا شمار ان اہم بنیاد پرست گروہوں میں ہوتا ہے جس نے اجتہاد کی روشنی میں قرآن و سنت کی طرف واپسی پر اپنی فکری اور سیاسی خطوط کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ اس جماعت کے آئین کے تیسرے آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ: جماعت اسلامی پاکستان کے عقیدہ کی بنیاد "لا الہ الا اللہ" اور "محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں" ہے، یعنی کہ وہاں صرف ایک خدا ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ اللہ کے رسول ہیں۔<br>
'''جماعت اسلامی''' کا شمار ان اہم بنیاد پرست گروہوں میں ہوتا ہے جس نے اجتہاد کی روشنی میں قرآن و سنت کی طرف واپسی پر اپنی فکری اور سیاسی خطوط کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ اس جماعت کے آئین کے تیسرے آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ: جماعت اسلامی پاکستان کے عقیدہ کی بنیاد "لا الہ الا اللہ" اور "محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں" ہے، یعنی کہ وہاں صرف ایک خدا ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ اللہ کے رسول ہیں۔
تیسرے مضمون کی تشریح میں، اس نے تمام شعبوں میں خدا کی مطلق حاکمیت کی طرف اشارہ کیا اور خدا کی مرکزیت کو مکمل طور پر مجسم کیا۔ اسی آئین کے چوتھے آرٹیکل میں ’’جماعت‘‘ کا بنیادی ہدف کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: جماعت اسلامی پاکستان کا بنیادی ہدف اور اس کی تمام کوششوں کا مقصد دراصل دین کا قیام ہے۔ حکومت الٰہی یا اسلامی نظام زندگی) اور حقیقت میں خدا کی رضا اور آخرت میں نجات حاصل کرنا۔ پھر "قیام دین" کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ "دین کے قیام کا مقصد مذہب کے کسی مخصوص حصے کا قیام نہیں ہے، بلکہ پورے دین کا قیام ہے، خواہ اس کا تعلق فرد سے ہو۔ زندگی ہو یا سماجی زندگی، جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ خواہ وہ معیشت ہو، معاشرت، سیاست اور تہذیب۔جماعت اسلامی کے بانی مودودی جو کہ 30 سال تک جماعت کے سربراہ رہے، نے رہنمائی کو اپنا ہدف قرار دیا۔ تمام افراد اور تمام بنی نوع انسان کی سطح پر مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔مودودی کے نقطہ نظر کے مطابق اسلام میں انسانوں کا اصل امتیاز "افکار، اخلاق اور انسانی زندگی کے مقصد کی تفریق میں ظاہر ہوتا ہے" اور انسان سب ایک قوم ہیں۔ مختلف نسلی گروہوں میں بٹا ہوا ہے اور اسلام ان نسلی اور ثقافتی گروہوں کو اکٹھا کرنے کے لیے آیا اور معاشرہ عقیدہ، اخلاقیات اور یونٹ کے مقصد پر مبنی اکائی کی تشکیل کے لیے آیا۔ مذہب کے بارے میں سخت اور منظم انداز۔ وہ مذہب کو انسانی زندگی اور تہذیب کے تمام پہلوؤں کا مکمل مجموعہ سمجھتے تھے، جن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ مذہب کی حقیقی تحقیق اسی صورت میں ممکن ہے جب مذہب کے سیاسی اور معاشی نظام کو اچھی طرح نافذ کیا جائے۔ مودودی اسلام کی تاریخی، مذہبی اور فقہی معلومات پر تنقیدی نظریہ رکھتے تھے۔<br>
 
تیسرے مضمون کی تشریح میں، اس نے تمام شعبوں میں خدا کی مطلق حاکمیت کی طرف اشارہ کیا اور خدا کی مرکزیت کو مکمل طور پر مجسم کیا۔ اسی آئین کے چوتھے آرٹیکل میں ’’جماعت‘‘ کا بنیادی ہدف کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: جماعت اسلامی پاکستان کا بنیادی ہدف اور اس کی تمام کوششوں کا مقصد دراصل دین کا قیام ہے۔ حکومت الٰہی یا اسلامی نظام زندگی) اور حقیقت میں خدا کی رضا اور آخرت میں نجات حاصل کرنا۔ پھر "قیام دین" کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ "دین کے قیام کا مقصد مذہب کے کسی مخصوص حصے کا قیام نہیں ہے، بلکہ پورے دین کا قیام ہے، خواہ اس کا تعلق فرد سے ہو۔ زندگی ہو یا سماجی زندگی، جیسے [[نماز]]، [[روزہ]]، حج اور زکوٰۃ خواہ وہ معیشت ہو، معاشرت، سیاست اور تہذیب۔جماعت اسلامی کے بانی مودودی جو کہ 30 سال تک جماعت کے سربراہ رہے، نے رہنمائی کو اپنا ہدف قرار دیا۔ تمام افراد اور تمام بنی نوع انسان کی سطح پر مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔مودودی کے نقطہ نظر کے مطابق اسلام میں انسانوں کا اصل امتیاز "افکار، اخلاق اور انسانی زندگی کے مقصد کی تفریق میں ظاہر ہوتا ہے" اور انسان سب ایک قوم ہیں۔ مختلف نسلی گروہوں میں بٹا ہوا ہے اور اسلام ان نسلی اور ثقافتی گروہوں کو اکٹھا کرنے کے لیے آیا اور معاشرہ عقیدہ، اخلاقیات اور یونٹ کے مقصد پر مبنی اکائی کی تشکیل کے لیے آیا۔ مذہب کے بارے میں سخت اور منظم انداز۔ وہ مذہب کو انسانی زندگی اور تہذیب کے تمام پہلوؤں کا مکمل مجموعہ سمجھتے تھے، جن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ مذہب کی حقیقی تحقیق اسی صورت میں ممکن ہے جب مذہب کے سیاسی اور معاشی نظام کو اچھی طرح نافذ کیا جائے۔ مودودی اسلام کی تاریخی، مذہبی اور فقہی معلومات پر تنقیدی نظریہ رکھتے تھے۔
 
مودودی اسلام کی تاریخی، مذہبی اور فقہی معلومات پر تنقیدی نظریہ رکھتے تھے۔ سنی مکتب میں ایک ترک شدہ عنصر کے طور پر "اجتہاد" پر ان کا زور اور جدید دنیا اور زمان و مکان کے حالات سے ان کی ایک خاص تصویر کھینچی گئی تھی اور یہی چیز ان کے اور دیوبندی کے روایت پسندوں کے درمیان فکری تناؤ کا سبب بن گئی۔ اور حدیث ان کے نقطہ نظر سے آج دنیا میں موجود اسلام کی تعریف، تحریف شدہ اور غیر حقیقی تھی جس کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی۔ وہ شخصی اجتہاد کی روشنی میں اسلام کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی بالکل نئی تعریف پیش کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان موضوعات پر بہت سے کام چھوڑ گئے۔ مودودی کا مطلوبہ سیاسی نظام ایک ایسا نظام تھا جسے وہ "تھیوکریسی" یا الہی حکومت کہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں اسلامی نظام حکومت روایتی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔  اسکول میں ان کے نقطہ نظر سے آج دنیا میں موجود اسلام کی تعریف، تحریف شدہ اور غیر حقیقی تھی جس کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی۔ وہ شخصی اجتہاد کی روشنی میں اسلام کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی بالکل نئی تعریف پیش کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان موضوعات پر بہت سے کام چھوڑ گئے۔ مودودی کا مطلوبہ سیاسی نظام ایک ایسا نظام تھا جسے وہ "تھیوکریسی" یا الہی حکومت کہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: اسلامی نظام حکومت روایتی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسکول میں ان کے نقطہ نظر سے آج دنیا میں موجود اسلام کی تعریف، تحریف شدہ اور غیر حقیقی تھی جس کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی۔ وہ شخصی اجتہاد کی روشنی میں اسلام کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی بالکل نئی تعریف پیش کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان موضوعات پر بہت سے کام چھوڑ گئے۔ مودودی کا مطلوبہ سیاسی نظام ایک ایسا نظام تھا جسے وہ "تھیوکریسی" یا الہی حکومت کہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: اسلامی نظام حکومت روایتی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسکول میںاس جمہوریہ میں اسلام کا کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے جمہوریہ کو (عام فہم میں) اسلامی حکومت کی حکومت کے طور پر بیان کرنا درست نہیں ہے، بلکہ صحیح تعبیر "الٰہی حکومت" یا تھیوکریسی (تھیوکریسی) کا جملہ ہے، لیکن یورپی تھیوکریسی اسلامی تھیوکریسی سے بہت مختلف ہے۔ بہت سے دوسرے اسلام پسندوں کے برعکس جنہوں نے "اسلامی خلافت" یا "ابھرنے والی خلافت" کی طرز کی حکومت بنانے کا نعرہ لگایا، مودودی نے کبھی بھی خلافت کے نظام کا اس کے تاریخی معنوں میں دفاع نہیں کیا، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ موجودہ وقت میں خلافت کا نظام بہت زیادہ ہے۔ کھو سے اپنی تاثیر کھو دیتا ہے۔ اس نے ایک ایسے نظام کا دفاع کیا جو مقبول اور جمہوری نوعیت کا تھا اور اسے تین الگ الگ اختیارات حاصل تھے، لیکن پارٹی کا نظام ان کے لیے سازگار نہیں تھا۔ اسلامی ریاست کی تعمیر کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی کہ ’’اسلامی ریاست کا جمہوری ڈھانچہ ہے لیکن یہ جمہوریت"یہ قانون سازی میں نہیں ہے، لیکن جمہوریت قوانین کے نفاذ میں ہے." جماعت اسلامی کی سوچ کی ایک اہم خصوصیت بند اور غیر لچکدار فرقہ وارانہ (مذہبی) فریم ورک میں پڑنے سے بچنا ہے۔ یہ جماعت اسلام کے احیاء، اسلامی حکومت کے قیام اور مجموعی طور پر ایک کمیونٹی کی بنیاد سمجھتی تھی اور "سنت" کی تشریح میں یہ کبھی بھی [[دیوبندی]] روایت پرستوں اور اہل حدیث سے متاثر نہیں ہوئی ۔<br>
مودودی اسلام کی تاریخی، مذہبی اور فقہی معلومات پر تنقیدی نظریہ رکھتے تھے۔ سنی مکتب میں ایک ترک شدہ عنصر کے طور پر "اجتہاد" پر ان کا زور اور جدید دنیا اور زمان و مکان کے حالات سے ان کی ایک خاص تصویر کھینچی گئی تھی اور یہی چیز ان کے اور دیوبندی کے روایت پسندوں کے درمیان فکری تناؤ کا سبب بن گئی۔ اور حدیث ان کے نقطہ نظر سے آج دنیا میں موجود اسلام کی تعریف، تحریف شدہ اور غیر حقیقی تھی جس کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی۔ وہ شخصی اجتہاد کی روشنی میں اسلام کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی بالکل نئی تعریف پیش کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان موضوعات پر بہت سے کام چھوڑ گئے۔ مودودی کا مطلوبہ سیاسی نظام ایک ایسا نظام تھا جسے وہ "تھیوکریسی" یا الہی حکومت کہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں اسلامی نظام حکومت روایتی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔  اسکول میں ان کے نقطہ نظر سے آج دنیا میں موجود اسلام کی تعریف، تحریف شدہ اور غیر حقیقی تھی جس کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی۔ وہ شخصی اجتہاد کی روشنی میں اسلام کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی بالکل نئی تعریف پیش کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان موضوعات پر بہت سے کام چھوڑ گئے۔ مودودی کا مطلوبہ سیاسی نظام ایک ایسا نظام تھا جسے وہ "تھیوکریسی" یا الہی حکومت کہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: اسلامی نظام حکومت روایتی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسکول میں ان کے نقطہ نظر سے آج دنیا میں موجود اسلام کی تعریف، تحریف شدہ اور غیر حقیقی تھی جس کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی۔ وہ شخصی اجتہاد کی روشنی میں اسلام کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی بالکل نئی تعریف پیش کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان موضوعات پر بہت سے کام چھوڑ گئے۔ مودودی کا مطلوبہ سیاسی نظام ایک ایسا نظام تھا جسے وہ "تھیوکریسی" یا الہی حکومت کہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: اسلامی نظام حکومت روایتی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسکول میںاس جمہوریہ میں اسلام کا کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے جمہوریہ کو (عام فہم میں) اسلامی حکومت کی حکومت کے طور پر بیان کرنا درست نہیں ہے، بلکہ صحیح تعبیر "الٰہی حکومت" یا تھیوکریسی (تھیوکریسی) کا جملہ ہے، لیکن یورپی تھیوکریسی اسلامی تھیوکریسی سے بہت مختلف ہے۔ بہت سے دوسرے اسلام پسندوں کے برعکس جنہوں نے "اسلامی خلافت" یا "ابھرنے والی خلافت" کی طرز کی حکومت بنانے کا نعرہ لگایا، مودودی نے کبھی بھی خلافت کے نظام کا اس کے تاریخی معنوں میں دفاع نہیں کیا، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ موجودہ وقت میں خلافت کا نظام بہت زیادہ ہے۔ کھو سے اپنی تاثیر کھو دیتا ہے۔ اس نے ایک ایسے نظام کا دفاع کیا جو مقبول اور جمہوری نوعیت کا تھا اور اسے تین الگ الگ اختیارات حاصل تھے، لیکن پارٹی کا نظام ان کے لیے سازگار نہیں تھا۔ اسلامی ریاست کی تعمیر کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی کہ ’’اسلامی ریاست کا جمہوری ڈھانچہ ہے لیکن یہ جمہوریت"یہ قانون سازی میں نہیں ہے، لیکن جمہوریت قوانین کے نفاذ میں ہے." جماعت اسلامی کی سوچ کی ایک اہم خصوصیت بند اور غیر لچکدار فرقہ وارانہ (مذہبی) فریم ورک میں پڑنے سے بچنا ہے۔ یہ جماعت اسلام کے احیاء، اسلامی حکومت کے قیام اور مجموعی طور پر ایک کمیونٹی کی بنیاد سمجھتی تھی اور "سنت" کی تشریح میں یہ کبھی بھی [[دیوبندی]] روایت پرستوں اور اہل حدیث سے متاثر نہیں ہوئی ۔<br>
جماعت کے آئین (ہدایات) کے آرٹیکل تین کے پانچ نوٹ میں یہ کہا گیا ہے: اپنے دل سے تمام گھبراہٹ کو دور کر دو۔ ذاتی، خاندانی، قبائلی، نسلی، قومی اور حب الوطنی یا مذہبی اور گروہی غصہ۔ دوستی یا عقیدہ میں کسی ایسی چیز میں نہ پھنسیں جو پیغمبر اسلام کی دوستی کے حق سے تجاوز کرے یا اس کی مخالفت کرے۔ اسی مضمون کے نوٹ سات میں ایک اور بنیادی نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو دراصل روح کو وسعت دیتا ہے۔ مذہبی بھائی چارے اور مذہبی کشیدگی کو جنم دینے سے روکتا ہے اور اسلامی برادری کے اندر ایک فرقہ موجود ہے۔ وہاں فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام کے بعد آپ نے کسی شخص کو ایسا مقام و مرتبہ نہیں دیا کہ اس کا اقرار یا انکار کسی کے کفر یا ایمان کا تعین کرنے والا ہے۔<br>
جماعت کے آئین (ہدایات) کے آرٹیکل تین کے پانچ نوٹ میں یہ کہا گیا ہے: اپنے دل سے تمام گھبراہٹ کو دور کر دو۔ ذاتی، خاندانی، قبائلی، نسلی، قومی اور حب الوطنی یا مذہبی اور گروہی غصہ۔ دوستی یا عقیدہ میں کسی ایسی چیز میں نہ پھنسیں جو پیغمبر اسلام کی دوستی کے حق سے تجاوز کرے یا اس کی مخالفت کرے۔ اسی مضمون کے نوٹ سات میں ایک اور بنیادی نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو دراصل روح کو وسعت دیتا ہے۔ مذہبی بھائی چارے اور مذہبی کشیدگی کو جنم دینے سے روکتا ہے اور اسلامی برادری کے اندر ایک فرقہ موجود ہے۔ وہاں فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام کے بعد آپ نے کسی شخص کو ایسا مقام و مرتبہ نہیں دیا کہ اس کا اقرار یا انکار کسی کے کفر یا ایمان کا تعین کرنے والا ہے۔<br>