"جماعت اسلامی پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 46: سطر 46:
4) حکومت پاکستان اپنے اختیارات کو شریعت کی مقرر کردہ حدود میں استعمال کرے۔ مودودی کی وسیع مہمات اور عوام اور اسلامی جماعتوں کی جامع حمایت کے بعد بالآخر 12 مارچ 1949 کو قانون ساز اسمبلی میں "مجاسد معاہدہ" کی منظوری دی گئی۔<br>
4) حکومت پاکستان اپنے اختیارات کو شریعت کی مقرر کردہ حدود میں استعمال کرے۔ مودودی کی وسیع مہمات اور عوام اور اسلامی جماعتوں کی جامع حمایت کے بعد بالآخر 12 مارچ 1949 کو قانون ساز اسمبلی میں "مجاسد معاہدہ" کی منظوری دی گئی۔<br>
ملک کو اسلامی بنانے کی سمت میں مودودی کی دوسری کاوش، ایک طرف ایک کتاب اور اسلامی آئین کے اصول لکھنا، تو دوسری طرف 21-24 جنوری 1951 کو کراچی میں دیگر اسلامیات کے ساتھ ایک منفرد اجتماع کا انعقاد۔ جماعتیں اور علما، اور "اسلامی آرڈر" بھی مرتب کرتے تھے۔ اس آرڈر میں 22 نکات شامل تھے، جسے "22 نکات" پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم از کم دو طریقوں سے ایک نادر اقدام سمجھا جاتا ہے: پہلا، کیونکہ پہلے وقت، پاکستان کے تمام مذاہب اور اسلامی فکری گروہوں نے اپنی دیرینہ دشمنیوں کے باوجود (پاکستان کی تاریخ میں) کئی عمومی اور جامع اصولوں پر اتفاق کیا، دوسرا یہ کہ مذکورہ بالا ترتیب کی جامعیت اور اس کی مخصوصیت۔ وقتی حالات "سیکولر" نظام کو "مذہبی" نظام میں تبدیل کرنے اور ملک کے قانونی نظام سے سیکولرز کو ہٹانے کا ایک اہم موڑ تھا۔
ملک کو اسلامی بنانے کی سمت میں مودودی کی دوسری کاوش، ایک طرف ایک کتاب اور اسلامی آئین کے اصول لکھنا، تو دوسری طرف 21-24 جنوری 1951 کو کراچی میں دیگر اسلامیات کے ساتھ ایک منفرد اجتماع کا انعقاد۔ جماعتیں اور علما، اور "اسلامی آرڈر" بھی مرتب کرتے تھے۔ اس آرڈر میں 22 نکات شامل تھے، جسے "22 نکات" پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم از کم دو طریقوں سے ایک نادر اقدام سمجھا جاتا ہے: پہلا، کیونکہ پہلے وقت، پاکستان کے تمام مذاہب اور اسلامی فکری گروہوں نے اپنی دیرینہ دشمنیوں کے باوجود (پاکستان کی تاریخ میں) کئی عمومی اور جامع اصولوں پر اتفاق کیا، دوسرا یہ کہ مذکورہ بالا ترتیب کی جامعیت اور اس کی مخصوصیت۔ وقتی حالات "سیکولر" نظام کو "مذہبی" نظام میں تبدیل کرنے اور ملک کے قانونی نظام سے سیکولرز کو ہٹانے کا ایک اہم موڑ تھا۔
== تیسری سطح ==
کی سرگرمی کا تیسرا مرحلہ 1951 سے شروع ہوتا ہے۔ 1951 کا سال جماعت کی سرگرمیوں میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے کیونکہ جماعت نے کراچی (نومبر 1951) میں اپنے اراکین کے اجلاس میں چار اہم اصولوں کی منظوری دی تھی، جن میں سے چوتھا بالکل نیا تھا۔ بلکہ ظہور کے لحاظ سے سابقہ ​​بیانات اور موقف سے اور عمومی طور پر مودودی کی فکر سے متصادم تھا۔ یہ چار اصول ہیں: <br>
1) خیالات کی تزکیہ اور مرمت؛ <br>
2) قابل لوگوں کی تلاش، تربیت اور ان کو منظم کرنا؛ <br>
3) سماجی اصلاح کے لیے کوششیں؛ <br>
4) سیاسی نظام کی اصلاح۔ <br>
ان منظوریوں میں نیا اور اہم نکتہ چوتھا اصول ہے جس نے انتخابات میں شرکت کے ذریعے ’’جماعت‘‘ کے سیاسی نظام میں داخل ہونے کا راستہ کھولا۔ اس وقت تک جماعت اقتدار میں کسی بھی قسم کی شرکت کو گمراہ کن تصور کرتی تھی لیکن اس فیصلے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ حکومت میں متقی اور صالح نمائندوں کے ذریعے سیاسی نظام کی اصلاح کی جدوجہد کو آگے بڑھائے گی۔ مولانا مودودی نے نئی پالیسی کو اپنانے کے جواز میں تین وجوہات پیش کیں: پہلی یہ کہ ہمارے معاشرے کے موجودہ حالات قیام پاکستان سے پہلے کے حالات کے ساتھ بالکل بدل چکے ہیں، کیونکہ اب اقتدار میں شرکت کی راہ میں شرعی رکاوٹیں حائل ہو چکی ہیں۔ ہٹا دیا گیا. دوسرا، افکار کو پاک کرنے، لوگوں کو ترتیب دینے، معاشرے کی اصلاح اور حکومت کی اصلاح کے لیے جماعت کی چار حکمت عملی ایک ہی نیٹ ورک کی تشکیل کرتی ہے، جس میں سے ہر ایک کی کمی گروہ کو بے اثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ تیسرا، اقتدار سے مستقل دستبرداری نے "جماعت" کے اراکین اور حامیوں میں غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں اور اس سے عوامی بنیادوں اور ہمیں طویل مدت میں نقصان پہنچے گا۔ دوسرا، افکار کو پاک کرنے، لوگوں کو ترتیب دینے، معاشرے کی اصلاح اور حکومت کی اصلاح کے لیے جماعت کی چار حکمت عملی ایک ہی نیٹ ورک کی تشکیل کرتی ہے، جس میں سے ہر ایک کی کمی گروہ کو بے اثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ تیسرا، اقتدار سے مستقل دستبرداری نے "جماعت" کے اراکین اور حامیوں میں غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں اور اس سے عوامی بنیادوں اور ہمیں طویل مدت میں نقصان پہنچے گا۔ دوسرا، افکار کو پاک کرنے، لوگوں کو ترتیب دینے، معاشرے کی اصلاح اور حکومت کی اصلاح کے لیے جماعت کی چار حکمت عملی ایک ہی نیٹ ورک کی تشکیل کرتی ہے، جس میں سے ہر ایک کی کمی گروہ کو بے اثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ تیسرا، اقتدار سے مستقل دستبرداری نے "جماعت" کے اراکین اور حامیوں میں غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں اور اس سے عوامی بنیادوں اور ہمیں طویل مدت میں نقصان پہنچے گا۔