"جماعت اسلامی پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 39: سطر 39:
'''جماعت اسلامی''' کی طویل تاریخ کے پہلے مرحلے میں جماعت نے اپنا بنیادی ہدف دین کی تبلیغ، صالح اور پرہیزگار انسانی قوتوں کی تربیت، بدعتوں اور توہمات کے خلاف جنگ، لوگوں کی تنظیم سازی پر مبنی تھا۔ واحد تنظیم، اور فکری اور سماجی مرکزیت کی تخلیق۔ اس مقام پر "جماعت" کی مروجہ فکر "اسلامی دنیا" کی فکر ہے۔ اپنی اپریل 1945 کی تقریر میں مودودی نے کہا: ہم تمام خدا کے بندوں کو بالعموم اور ان لوگوں کو جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے خاص طور پر خدا کی خدمت کی دعوت دیتے ہیں۔ مودودی نے جماعت کے "امیر" کے منصب کو کہنے کے بعد پہلے خطبہ میں کہا: ہمارا مقصد کسی خاص قوم یا ملک کے محدود روزمرہ اور وقتی مسائل سے نمٹنا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق تمام بنی نوع انسان اور پورے کرۂ ارض سے ہے۔ تمام لوگوں کی زندگیوں کے مسائل ہماری زندگی کے مسائل ہیں۔ جماعت اسلامی نے اسلام کی عالمی فکر سے متاثر ہوکر اپنے دائرہ کار کو پوری دنیا اور بنی نوع انسان تصور کیا۔ <br>
'''جماعت اسلامی''' کی طویل تاریخ کے پہلے مرحلے میں جماعت نے اپنا بنیادی ہدف دین کی تبلیغ، صالح اور پرہیزگار انسانی قوتوں کی تربیت، بدعتوں اور توہمات کے خلاف جنگ، لوگوں کی تنظیم سازی پر مبنی تھا۔ واحد تنظیم، اور فکری اور سماجی مرکزیت کی تخلیق۔ اس مقام پر "جماعت" کی مروجہ فکر "اسلامی دنیا" کی فکر ہے۔ اپنی اپریل 1945 کی تقریر میں مودودی نے کہا: ہم تمام خدا کے بندوں کو بالعموم اور ان لوگوں کو جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے خاص طور پر خدا کی خدمت کی دعوت دیتے ہیں۔ مودودی نے جماعت کے "امیر" کے منصب کو کہنے کے بعد پہلے خطبہ میں کہا: ہمارا مقصد کسی خاص قوم یا ملک کے محدود روزمرہ اور وقتی مسائل سے نمٹنا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق تمام بنی نوع انسان اور پورے کرۂ ارض سے ہے۔ تمام لوگوں کی زندگیوں کے مسائل ہماری زندگی کے مسائل ہیں۔ جماعت اسلامی نے اسلام کی عالمی فکر سے متاثر ہوکر اپنے دائرہ کار کو پوری دنیا اور بنی نوع انسان تصور کیا۔ <br>
اس قسم کی سوچ اس لیے کی جاتی ہے کہ قومی اور مقامی مسائل کو مدنظر نہ رکھا جائے۔ جب ہندوستان میں پاکستان کی آزادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی تو مودودی اس کے خلاف خاموش رہے، کیونکہ اسلامی قومیت پر مبنی اور ایک مخصوص سرزمین تک محدود حکومت بنانے کی مسلم قوم پرست کوشش مودودی کی عالمی فکر سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ مودوی نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی تحریک کی حمایت نہیں کی بلکہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سیاسی سرگرمیاں اور انتخابات میں حصہ لینا، جسے ایک قومی اور عارضی مسئلہ سمجھا جاتا تھا، مودودی کی جماعت اسلامی کے خیال میں مذہبی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
اس قسم کی سوچ اس لیے کی جاتی ہے کہ قومی اور مقامی مسائل کو مدنظر نہ رکھا جائے۔ جب ہندوستان میں پاکستان کی آزادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی تو مودودی اس کے خلاف خاموش رہے، کیونکہ اسلامی قومیت پر مبنی اور ایک مخصوص سرزمین تک محدود حکومت بنانے کی مسلم قوم پرست کوشش مودودی کی عالمی فکر سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ مودوی نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی تحریک کی حمایت نہیں کی بلکہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سیاسی سرگرمیاں اور انتخابات میں حصہ لینا، جسے ایک قومی اور عارضی مسئلہ سمجھا جاتا تھا، مودودی کی جماعت اسلامی کے خیال میں مذہبی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
== دوسرا مرحلہ ==
جماعت اسلامی کی سرگرمی کا دوسرا مرحلہ پاکستان کی آزادی (14 اگست 1947) کے بعد شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی مولانا مودودی نے ہندوستان میں رہنے کے بجائے پاکستان ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ اس مرحلے پر وہ غیر جانبداری سے باہر آئے اور پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کے زمانے میں جماعت اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں کا محور سیاسی نظام کو اسلامی بنانے پر تھا۔ "جماعت اسلامی" کی سیاست میں یہ اہم موڑ جماعت کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کو توڑ کر پوری سنجیدگی کے ساتھ سیاسی سرگرمی میں داخل ہونے کے طور پر سمجھا گیا۔ لیکن یہ سرگرمیاں صرف فکری اصلاحات، قانونی نظام کے ضابطے اور سیاسی تبدیلیاں لانے کے لیے سیاستدانوں پر بیرونی دباؤ تک محدود ہیں۔ "جماعت" نے پھر بھی سیاسی منظر نامے میں براہ راست انٹری اور اقتدار میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی۔ جماعت کی اصل فکر مسلم لیگ کے سیکولرز تھے جو پاکستانی نظام کی بنیاد مغربی حکومت بالخصوص انگریزوں پر استوار کرنے کی پوری تندہی سے کوشش کر رہے تھے۔ ملک کو اسلامی بنانے کے لیے جماعت کی پہلی سنجیدہ کوشش مودودی کی ملک کے قانونی نظام کو اسلامی بنانے کے حوالے سے چار گنا تجویز تھی۔ یہ چار نکات، جو "مجاسد معاہدہ" کے نام سے مشہور ہوئے، درج ذیل ہیں: <br>
1) بادشاہت صرف خدا کی ہے، اور پاکستانی حکومت کا وجودی فلسفہ اس ملک میں خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ <br>
2) پاکستان کا آئین اسلامی شریعت ہے۔ <br>
3) شریعت کی خلاف ورزی کرنے والے تمام قوانین کو ختم کر دیا جائے اور آئندہ جو قوانین شریعت کے خلاف ہوں ان کو نافذ نہ کیا جائے۔ <br>
4) حکومت پاکستان اپنے اختیارات کو شریعت کی مقرر کردہ حدود میں استعمال کرے۔ مودودی کی وسیع مہمات اور عوام اور اسلامی جماعتوں کی جامع حمایت کے بعد بالآخر 12 مارچ 1949 کو قانون ساز اسمبلی میں "مجاسد معاہدہ" کی منظوری دی گئی۔<br>
ملک کو اسلامی بنانے کی سمت میں مودودی کی دوسری کاوش، ایک طرف ایک کتاب اور اسلامی آئین کے اصول لکھنا، تو دوسری طرف 21-24 جنوری 1951 کو کراچی میں دیگر اسلامیات کے ساتھ ایک منفرد اجتماع کا انعقاد۔ جماعتیں اور علما، اور "اسلامی آرڈر" بھی مرتب کرتے تھے۔ اس آرڈر میں 22 نکات شامل تھے، جسے "22 نکات" پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم از کم دو طریقوں سے ایک نادر اقدام سمجھا جاتا ہے: پہلا، کیونکہ پہلے وقت، پاکستان کے تمام مذاہب اور اسلامی فکری گروہوں نے اپنی دیرینہ دشمنیوں کے باوجود (پاکستان کی تاریخ میں) کئی عمومی اور جامع اصولوں پر اتفاق کیا، دوسرا یہ کہ مذکورہ بالا ترتیب کی جامعیت اور اس کی مخصوصیت۔ وقتی حالات "سیکولر" نظام کو "مذہبی" نظام میں تبدیل کرنے اور ملک کے قانونی نظام سے سیکولرز کو ہٹانے کا ایک اہم موڑ تھا۔