"جماعت اسلامی پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 28: سطر 28:
اس قسم کی سوچ اس لیے کی جاتی ہے کہ قومی اور مقامی مسائل کو مدنظر نہ رکھا جائے۔ جب ہندوستان میں پاکستان کی آزادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی تو مودودی اس کے خلاف خاموش رہے، کیونکہ اسلامی قومیت پر مبنی اور ایک مخصوص سرزمین تک محدود حکومت بنانے کی مسلم قوم پرست کوشش مودودی کی عالمی فکر سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ مودوی نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی تحریک کی حمایت نہیں کی بلکہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سیاسی سرگرمیاں اور انتخابات میں حصہ لینا، جسے ایک قومی اور عارضی مسئلہ سمجھا جاتا تھا، مودودی کی جماعت اسلامی کے خیال میں مذہبی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
اس قسم کی سوچ اس لیے کی جاتی ہے کہ قومی اور مقامی مسائل کو مدنظر نہ رکھا جائے۔ جب ہندوستان میں پاکستان کی آزادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی تو مودودی اس کے خلاف خاموش رہے، کیونکہ اسلامی قومیت پر مبنی اور ایک مخصوص سرزمین تک محدود حکومت بنانے کی مسلم قوم پرست کوشش مودودی کی عالمی فکر سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ مودوی نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی تحریک کی حمایت نہیں کی بلکہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سیاسی سرگرمیاں اور انتخابات میں حصہ لینا، جسے ایک قومی اور عارضی مسئلہ سمجھا جاتا تھا، مودودی کی جماعت اسلامی کے خیال میں مذہبی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
=== دوسرا مرحلہ ===
=== دوسرا مرحلہ ===
جماعت اسلامی کی سرگرمی کا دوسرا مرحلہ پاکستان کی آزادی (14 اگست 1947) کے بعد شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی مولانا مودودی نے ہندوستان میں رہنے کے بجائے پاکستان ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ اس مرحلے پر وہ غیر جانبداری سے باہر آئے اور پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کے زمانے میں جماعت اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں کا محور سیاسی نظام کو اسلامی بنانے پر تھا۔ "جماعت اسلامی" کی سیاست میں یہ اہم موڑ جماعت کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کو توڑ کر پوری سنجیدگی کے ساتھ سیاسی سرگرمی میں داخل ہونے کے طور پر سمجھا گیا۔ لیکن یہ سرگرمیاں صرف فکری اصلاحات، قانونی نظام کے ضابطے اور سیاسی تبدیلیاں لانے کے لیے سیاستدانوں پر بیرونی دباؤ تک محدود ہیں۔ "جماعت" نے پھر بھی سیاسی منظر نامے میں براہ راست انٹری اور اقتدار میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی۔ جماعت کی اصل فکر مسلم لیگ کے سیکولرز تھے جو پاکستانی نظام کی بنیاد مغربی حکومت بالخصوص انگریزوں پر استوار کرنے کی پوری تندہی سے کوشش کر رہے تھے۔ ملک کو اسلامی بنانے کے لیے جماعت کی پہلی سنجیدہ کوشش مودودی کی ملک کے قانونی نظام کو اسلامی بنانے کے حوالے سے چار گنا تجویز تھی۔ یہ چار نکات، جو "مجاسد معاہدہ" کے نام سے مشہور ہوئے، درج ذیل ہیں: <br>
جماعت اسلامی کی سرگرمی کا دوسرا مرحلہ پاکستان کی آزادی (14 اگست 1947) کے بعد شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی مولانا مودودی نے ہندوستان میں رہنے کے بجائے پاکستان ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ اس مرحلے پر وہ غیر جانبداری سے باہر آئے اور پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کے زمانے میں جماعت اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں کا محور سیاسی نظام کو اسلامی بنانے پر تھا۔ "جماعت اسلامی" کی سیاست میں یہ اہم موڑ جماعت کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کو توڑ کر پوری سنجیدگی کے ساتھ سیاسی سرگرمی میں داخل ہونے کے طور پر سمجھا گیا۔ لیکن یہ سرگرمیاں صرف فکری اصلاحات، قانونی نظام کے ضابطے اور سیاسی تبدیلیاں لانے کے لیے سیاستدانوں پر بیرونی دباؤ تک محدود ہیں۔ "جماعت" نے پھر بھی سیاسی منظر نامے میں براہ راست انٹری اور اقتدار میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی۔ جماعت کی اصل فکر مسلم لیگ کے سیکولرز تھے جو پاکستانی نظام کی بنیاد مغربی حکومت بالخصوص انگریزوں پر استوار کرنے کی پوری تندہی سے کوشش کر رہے تھے۔ ملک کو اسلامی بنانے کے لیے جماعت کی پہلی سنجیدہ کوشش مودودی کی ملک کے قانونی نظام کو اسلامی بنانے کے حوالے سے چار گنا تجویز تھی۔ یہ چار نکات، جو "مجاسد معاہدہ" کے نام سے مشہور ہوئے، درج ذیل ہیں:  
1) بادشاہت صرف خدا کی ہے، اور پاکستانی حکومت کا وجودی فلسفہ اس ملک میں خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ <br>
# بادشاہت صرف خدا کی ہے، اور پاکستانی حکومت کا وجودی فلسفہ اس ملک میں خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔  
2) پاکستان کا آئین اسلامی شریعت ہے۔ <br>
# پاکستان کا آئین اسلامی شریعت ہے۔  
3) شریعت کی خلاف ورزی کرنے والے تمام قوانین کو ختم کر دیا جائے اور آئندہ جو قوانین شریعت کے خلاف ہوں ان کو نافذ نہ کیا جائے۔ <br>
# شریعت کی خلاف ورزی کرنے والے تمام قوانین کو ختم کر دیا جائے اور آئندہ جو قوانین شریعت کے خلاف ہوں ان کو نافذ نہ کیا جائے۔  
4) حکومت پاکستان اپنے اختیارات کو شریعت کی مقرر کردہ حدود میں استعمال کرے۔ مودودی کی وسیع مہمات اور عوام اور اسلامی جماعتوں کی جامع حمایت کے بعد بالآخر 12 مارچ 1949 کو قانون ساز اسمبلی میں "مجاسد معاہدہ" کی منظوری دی گئی۔<br>
# حکومت پاکستان اپنے اختیارات کو شریعت کی مقرر کردہ حدود میں استعمال کرے۔ مودودی کی وسیع مہمات اور عوام اور اسلامی جماعتوں کی جامع حمایت کے بعد بالآخر 12 مارچ 1949 کو قانون ساز اسمبلی میں "مجاسد معاہدہ" کی منظوری دی گئی۔
ملک کو اسلامی بنانے کی سمت میں مودودی کی دوسری کاوش، ایک طرف ایک کتاب اور اسلامی آئین کے اصول لکھنا، تو دوسری طرف 21-24 جنوری 1951 کو کراچی میں دیگر اسلامیات کے ساتھ ایک منفرد اجتماع کا انعقاد۔ جماعتیں اور علما، اور "اسلامی آرڈر" بھی مرتب کرتے تھے۔ اس آرڈر میں 22 نکات شامل تھے، جسے "22 نکات" پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم از کم دو طریقوں سے ایک نادر اقدام سمجھا جاتا ہے: پہلا، کیونکہ پہلے وقت، پاکستان کے تمام مذاہب اور اسلامی فکری گروہوں نے اپنی دیرینہ دشمنیوں کے باوجود (پاکستان کی تاریخ میں) کئی عمومی اور جامع اصولوں پر اتفاق کیا، دوسرا یہ کہ مذکورہ بالا ترتیب کی جامعیت اور اس کی مخصوصیت۔ وقتی حالات "سیکولر" نظام کو "مذہبی" نظام میں تبدیل کرنے اور ملک کے قانونی نظام سے سیکولرز کو ہٹانے کا ایک اہم موڑ تھا۔
ملک کو اسلامی بنانے کی سمت میں مودودی کی دوسری کاوش، ایک طرف ایک کتاب اور اسلامی آئین کے اصول لکھنا، تو دوسری طرف 21-24 جنوری 1951 کو کراچی میں دیگر اسلامیات کے ساتھ ایک منفرد اجتماع کا انعقاد۔ جماعتیں اور علما، اور "اسلامی آرڈر" بھی مرتب کرتے تھے۔ اس آرڈر میں 22 نکات شامل تھے، جسے "22 نکات" پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم از کم دو طریقوں سے ایک نادر اقدام سمجھا جاتا ہے: پہلا، کیونکہ پہلے وقت، پاکستان کے تمام مذاہب اور اسلامی فکری گروہوں نے اپنی دیرینہ دشمنیوں کے باوجود (پاکستان کی تاریخ میں) کئی عمومی اور جامع اصولوں پر اتفاق کیا، دوسرا یہ کہ مذکورہ بالا ترتیب کی جامعیت اور اس کی مخصوصیت۔ وقتی حالات "سیکولر" نظام کو "مذہبی" نظام میں تبدیل کرنے اور ملک کے قانونی نظام سے سیکولرز کو ہٹانے کا ایک اہم موڑ تھا۔
=== تیسری سطح ===
=== تیسری سطح ===
کی سرگرمی کا تیسرا مرحلہ 1951 سے شروع ہوتا ہے۔ 1951 کا سال جماعت کی سرگرمیوں میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے کیونکہ جماعت نے کراچی (نومبر 1951) میں اپنے اراکین کے اجلاس میں چار اہم اصولوں کی منظوری دی تھی، جن میں سے چوتھا بالکل نیا تھا۔ بلکہ ظہور کے لحاظ سے سابقہ ​​بیانات اور موقف سے اور عمومی طور پر مودودی کی فکر سے متصادم تھا۔ یہ چار اصول ہیں: <br>
کی سرگرمی کا تیسرا مرحلہ 1951 سے شروع ہوتا ہے۔ 1951 کا سال جماعت کی سرگرمیوں میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے کیونکہ جماعت نے کراچی (نومبر 1951) میں اپنے اراکین کے اجلاس میں چار اہم اصولوں کی منظوری دی تھی، جن میں سے چوتھا بالکل نیا تھا۔ بلکہ ظہور کے لحاظ سے سابقہ ​​بیانات اور موقف سے اور عمومی طور پر مودودی کی فکر سے متصادم تھا۔ یہ چار اصول ہیں: <br>