"تحریک جعفریہ پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(2 صارفین 13 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{خانہ معلومات پارٹی
| عنوان = تحریک جعفریہ پاکستان
| تصویر = تحریک جعفریه 2.jpg
| نام = تحریک جعفریہ پاکستان
| قیام کی تاریخ =  1979 ء
| بانی = [[ جعفر حسین|مفتی جعفر حسین]]
| رہنما = [[سید ساجد علی نقوی]]
| مقاصد = {{hlist |تشکیل نظام اسلامی|عادلانہ نظام کا قیام|عزاداری کا تحفظ | استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد، اتحاد بین المسلمین|}}
}}
'''تحریک جعفریہ پاکستان''' ایک سیاسی اور مذہبی تنظیم ہے جس کی بنیاد 12 اپریل سنہ 1979ء کو [[پاکستان]] کے شہر بھکر میں رکھی گئی۔ تحریک جعفریہ نے اتحاد بین المسلمین کے لیے پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔ تحریک جعفریہ نے مختلف سماجی کام انجام دیے ہیں جن میں مرکز مطالعات اسلامی پاکستان، جعفریہ ٹرسٹ اور جعفریہ ویلفئیر فنڈ کا قیام ہے۔ اس تنظم کا پہلا نام «تحریک نفاذ فقہ جعفریہ» تھا تنظیم کا کئی مرتبہ نام تبدیل کیا گیا۔ 1978ء کو [[شیعہ|شیعوں]] کے حقوق کی تحفظ کے غرض سے اس جماعت کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا سربراہ [[جعفر حسین|مفتی جعفر حسین]] تھے۔ مفتی کی وفات کے بعد [[سید حامد علی شاہ موسوی|سید حامد موسوی]] کی سربراہی میں ایک گروہ اس جماعت سے الگ ہوا۔ [[سید عارف حسین الحسینی|سید عارف حسین حسینی]] مفتی کے جانشین منتخب ہوئے. [[سید ساجد علی نقوی]] کی قیادت میں تحریک جعفریہ کا کئی بار نام تبدیل ہو گیا۔
'''تحریک جعفریہ پاکستان''' ایک سیاسی اور مذہبی تنظیم ہے جس کی بنیاد 12 اپریل سنہ 1979ء کو [[پاکستان]] کے شہر بھکر میں رکھی گئی۔ تحریک جعفریہ نے اتحاد بین المسلمین کے لیے پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔ تحریک جعفریہ نے مختلف سماجی کام انجام دیے ہیں جن میں مرکز مطالعات اسلامی پاکستان، جعفریہ ٹرسٹ اور جعفریہ ویلفئیر فنڈ کا قیام ہے۔ اس تنظم کا پہلا نام «تحریک نفاذ فقہ جعفریہ» تھا تنظیم کا کئی مرتبہ نام تبدیل کیا گیا۔ 1978ء کو [[شیعہ|شیعوں]] کے حقوق کی تحفظ کے غرض سے اس جماعت کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا سربراہ [[جعفر حسین|مفتی جعفر حسین]] تھے۔ مفتی کی وفات کے بعد [[سید حامد علی شاہ موسوی|سید حامد موسوی]] کی سربراہی میں ایک گروہ اس جماعت سے الگ ہوا۔ [[سید عارف حسین الحسینی|سید عارف حسین حسینی]] مفتی کے جانشین منتخب ہوئے. [[سید ساجد علی نقوی]] کی قیادت میں تحریک جعفریہ کا کئی بار نام تبدیل ہو گیا۔
== تاریخی پس منظر ==
== تاریخی پس منظر ==
قیام [[حسین بن علی|امام حسین علیہ السلام]] سے لے  کر عصر حاضر تک ظالم جابر حکومتوں کےخلاف جتنی بھی تحریکیں  وجود میں آئیں ان میں سے اکثر نے امام حسین علیہ السلام  ؑکی تحریک اور قیام سے الہام لیا ہے۔اور جہاں تک ہم نے مشاہدہ کیا کہ تحریک جعفریہ پاکستان علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں ۱۲  اپریل  ۱۹۷۹ء کو وجود میں آئی  ہے۔تحقیق اور باریک بینی  سے پتا چلتا ہے کہ اس جماعت  نے بھی امام عالی مقام  کے قیام سے الہام لیا ہے۔تحریک جعفریہ  شیعیان پاکستان کی ایک بہت بڑی جماعت ہےاس جماعت نے یوم تاسیس سے لے کر اب تک  شیعیان پاکستان کے حقوق کےدفاع  کے لئے بہت ساری خدمات انجام دی ہیں ۔ سیاسی ،اجتماعی،ثقافتی ،فلاحی ،علمی اور مکتبی میدانوں میں فعالیت کی ہے۔
قیام [[حسین بن علی|امام حسین علیہ السلام]] سے لے  کر عصر حاضر تک ظالم جابر حکومتوں کےخلاف جتنی بھی تحریکیں  وجود میں آئیں ان میں سے اکثر نے امام حسین علیہ السلام  ؑکی تحریک اور قیام سے الہام لیا ہے۔اور جہاں تک ہم نے مشاہدہ کیا کہ تحریک جعفریہ پاکستان علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں ۱۲  اپریل  ۱۹۷۹ء کو وجود میں آئی  ہے۔تحقیق اور باریک بینی  سے پتا چلتا ہے کہ اس جماعت  نے بھی امام عالی مقام  کے قیام سے الہام لیا ہے۔تحریک جعفریہ  شیعیان پاکستان کی ایک بہت بڑی جماعت ہےاس جماعت نے یوم تاسیس سے لے کر اب تک  شیعیان پاکستان کے حقوق کےدفاع  کے لئے بہت ساری خدمات انجام دی ہیں ۔ سیاسی ،اجتماعی،ثقافتی ،فلاحی ،علمی اور مکتبی میدانوں میں فعالیت کی ہے۔
سیاسی امور تو بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں پر ہم نے زیادہ فوکس انتخابات کو کیا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک جعفریہ بین ہونے کے بعد سے اسلامی تحریک ،شیعہ علماء کونسل اور دفترقائد ملت جعفریہ پاکستان  کے عناوین سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔
سیاسی امور تو بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں پر ہم نے زیادہ فوکس انتخابات کو کیا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک جعفریہ بین ہونے کے بعد سے اسلامی تحریک ،شیعہ علماء کونسل اور دفترقائد ملت جعفریہ پاکستان  کے عناوین سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔
== تاسیس ==
تحریک جعفریہ پاکستان کی تاسیس سے پہلے پاکستانی شیعوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہوئیں اس سلسلے میں پہلی بار قیام پاکستان کے بعد سنہ 1948ء میں ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان وجود میں آیا جس کے سربراہ مفتی جعفر حسین منتخب ہوئے <ref>سید سعید رضوی، خورشید خاور، ص 115۔</ref>۔ اس کے بعد جنوری 1965ء کو کراچی میں شیعہ مطالبات کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی <ref>سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔</ref>۔ اور [[سید محمد دہلوی]] کو اس کمیٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا <ref>سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔</ref>۔ لیکن رسمی شکل میں ایک تنظیم کی حیثیت سے شناخت 12 اور 13 اپریل سنہ 1978ء کو بھکر میں ایک ملک گیر کنونشن میں دی گئی  جہاں قوم کے لیے ایک نظریاتی پلیٹ فارم، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی شکل میں وجود میں آیا <ref>تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص71</ref>۔13 اپریل سنہ 1979ء کو بھکر کی اسی آل پاکستان شیعہ کنونشن کے دوران مفتی جعفر حسین کو قائد ملت جعفریہ پاکستان منتخب کیا گیا
== مارشل لاء دور ==  
== مارشل لاء دور ==  
مارشل لاء دور سے "ایم آر ڈی" کی تحریک میں شمولیت ہی تحریک جعفریہ کی سیاسی زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔ قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے محسوس کیا کہ جب تک جمہوریت کی بحالی نہیں ہو گی تب تک مذہبی حقوق کا تحفظ بھی ممکن نہیں۔ پھر انہوں نے اپنے آخری انٹرویو میں بحالیِ جمہوریت کی  تحریک ایم ۔آر۔ ڈی  کی حمایت  کااعلان کیا۔ بستر علالت پر  "روزنامہ جنگ "لاہور کو قائد  مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے ایک انٹرویو دیا۔ یہ انٹرویو مرحوم قائد کی دور رس سیاسی بصیرت کا ثبوت بھی ہے اور تحریک کے آئندہ اقدامات کیلئے ایک لائحہ عمل بھی تھا۔
مارشل لاء دور سے "ایم آر ڈی" کی تحریک میں شمولیت ہی تحریک جعفریہ کی سیاسی زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔ قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے محسوس کیا کہ جب تک جمہوریت کی بحالی نہیں ہو گی تب تک مذہبی حقوق کا تحفظ بھی ممکن نہیں۔ پھر انہوں نے اپنے آخری انٹرویو میں بحالیِ جمہوریت کی  تحریک ایم ۔آر۔ ڈی  کی حمایت  کااعلان کیا۔ بستر علالت پر  "روزنامہ جنگ "لاہور کو قائد  مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے ایک انٹرویو دیا۔ یہ انٹرویو مرحوم قائد کی دور رس سیاسی بصیرت کا ثبوت بھی ہے اور تحریک کے آئندہ اقدامات کیلئے ایک لائحہ عمل بھی تھا۔
سطر 111: سطر 123:
٢٠٠٢ ء کے انتخابات میں دینی ومذہبی جماعتوں سے (اسلامی تحریک کے عنوان سے) اتحاد کے نتیجہ میں "متحدہ مجلس عمل" کوبھاری اکثریت سے ووٹ ملے جس کے نتیجہ میں مکمل طورپرسرحدصوبے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی تو تحریک کے تین صوبائی امیدوار کامیاب ہوئے اور ایک خاتون کو  قومی اسمبلی میں نشست ملی علامہ رمضان توقیرصاحب سرحدحکومت میں مشیروزیراعلیٰ کی ذمہ داری انجام دیتے رہے صوبہ سرحد کے علاوہ بقیہ صوبائی حکومتوں میں بھی متحدہ مجلس عمل کی بڑی حیثیت تھی اوراس طرح سے متحدہ کی کامیابی میں اسلامی تحریک کابہت بڑاعمل دخل تھا<ref>علامہ سید ساجد علی نقوی ، شیعیان و چالش ھای پیش رو در پاکستان ،فصل نامہ شیعہ شناسی،سال سوم شمارہ ۱۰ ،تابستان ۱۳۸۴ ص۲۱۸۔۲۱۹</ref>۔
٢٠٠٢ ء کے انتخابات میں دینی ومذہبی جماعتوں سے (اسلامی تحریک کے عنوان سے) اتحاد کے نتیجہ میں "متحدہ مجلس عمل" کوبھاری اکثریت سے ووٹ ملے جس کے نتیجہ میں مکمل طورپرسرحدصوبے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی تو تحریک کے تین صوبائی امیدوار کامیاب ہوئے اور ایک خاتون کو  قومی اسمبلی میں نشست ملی علامہ رمضان توقیرصاحب سرحدحکومت میں مشیروزیراعلیٰ کی ذمہ داری انجام دیتے رہے صوبہ سرحد کے علاوہ بقیہ صوبائی حکومتوں میں بھی متحدہ مجلس عمل کی بڑی حیثیت تھی اوراس طرح سے متحدہ کی کامیابی میں اسلامی تحریک کابہت بڑاعمل دخل تھا<ref>علامہ سید ساجد علی نقوی ، شیعیان و چالش ھای پیش رو در پاکستان ،فصل نامہ شیعہ شناسی،سال سوم شمارہ ۱۰ ،تابستان ۱۳۸۴ ص۲۱۸۔۲۱۹</ref>۔
== سیاسی مسلسل جد و جہد ==
== سیاسی مسلسل جد و جہد ==
۲۰۰۷ ء میں متحدہ  مجلس عمل میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام﴿ ف﴾ کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ۔اور اسی سال محترمہ بینظیر بھٹو کا بھی قتل ہوا چند ماہ بعد الیکشن کا اعلان ہوا تو جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جبکہ ایم ایم اے میں شریک باقی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا ۔ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے امیدواروں کو دستخطوں کی ضرورت پڑی تو قائد ملت جعفریہ نے قائم مقام صدر ہونے کی حیثیت سے ان کے الیکشن  فارمز پر دستخط کئے۔ اس الیکشن میں ایم ایم اے  پہلے کی طرح تو کامیاب نہ ہوسکی لیکن پھر بھی کسی حد کامیاب ہوئی اور سرحد صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے ایک  نشست تحریک کے حصے میں بھی آئی <ref>انٹر ویوز  علامہ سید عبدالجلیل نقوی، علامہ سید سجاد حسین کاظمی</ref>۔     
۲۰۰۷ ء میں متحدہ  مجلس عمل میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ۔اور اسی سال محترمہ بینظیر بھٹو کا بھی قتل ہوا چند ماہ بعد الیکشن کا اعلان ہوا تو جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جبکہ ایم ایم اے میں شریک باقی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا ۔ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے امیدواروں کو دستخطوں کی ضرورت پڑی تو قائد ملت جعفریہ نے قائم مقام صدر ہونے کی حیثیت سے ان کے الیکشن  فارمز پر دستخط کئے۔ اس الیکشن میں ایم ایم اے  پہلے کی طرح تو کامیاب نہ ہوسکی لیکن پھر بھی کسی حد کامیاب ہوئی اور سرحد صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے ایک  نشست تحریک کے حصے میں بھی آئی <ref>انٹر ویوز  علامہ سید عبدالجلیل نقوی، علامہ سید سجاد حسین کاظمی</ref>۔     


پی پی پی حکومت نے شمالی علاقہ جات کو گلگت و بلتستان کے نام سے صوبہ نما بنانے کے بعد ۱۲ نومبر ۲۰۰۹ ء کو وہاں پر انتخابات کرانے کا علان کر دیا  ۔اس موقع پر تحریک پر پابندی تھی جس کے نتیجے میں تحریک ایک جماعت کے طور پر الیکشن میں حصہ نہ لے سکی لیکن تحریک کے تین رہنماؤں  نے آزاد امید وار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا ۔الیکشن سے چند روز قبل علامہ شیخ غلام حیدر  کہ جن کی کامیابی حتمی تھی  کا دار فانی سے دار بقا کی طرف انتقال ہو گیا۔ اور باقی دو امیدوار  سید رضی الدین رضوی اور جناب دیدار علی صاحب  کامیاب  ہوئے۔
پی پی پی حکومت نے شمالی علاقہ جات کو گلگت و بلتستان کے نام سے صوبہ نما بنانے کے بعد ۱۲ نومبر ۲۰۰۹ ء کو وہاں پر انتخابات کرانے کا علان کر دیا  ۔اس موقع پر تحریک پر پابندی تھی جس کے نتیجے میں تحریک ایک جماعت کے طور پر الیکشن میں حصہ نہ لے سکی لیکن تحریک کے تین رہنماؤں  نے آزاد امید وار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا ۔الیکشن سے چند روز قبل علامہ شیخ غلام حیدر  کہ جن کی کامیابی حتمی تھی  کا دار فانی سے دار بقا کی طرف انتقال ہو گیا۔ اور باقی دو امیدوار  سید رضی الدین رضوی اور جناب دیدار علی صاحب  کامیاب  ہوئے۔
سطر 121: سطر 133:
اس وقت پابندی کے باوجودپاکستان کی تمام مقتدرسیاسی مذہبی قوتوں سے قائدملت جعفریہ کے تعلقات اورروابط موجودہیں اور قائدملت جعفریہ پاکستان حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی کی ملک وملت کے مفادمیں مثبت ،صاف وشفاف سیاست کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں شیعہ علماء کونسل کو پاک وپاکیزہ جماعت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اس طرح سے برابری کی سطح پرمذاکرات اورقومی وبین الاقوامی مسائل پر گفت وشنید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اس وقت پابندی کے باوجودپاکستان کی تمام مقتدرسیاسی مذہبی قوتوں سے قائدملت جعفریہ کے تعلقات اورروابط موجودہیں اور قائدملت جعفریہ پاکستان حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی کی ملک وملت کے مفادمیں مثبت ،صاف وشفاف سیاست کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں شیعہ علماء کونسل کو پاک وپاکیزہ جماعت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اس طرح سے برابری کی سطح پرمذاکرات اورقومی وبین الاقوامی مسائل پر گفت وشنید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔


شیعہ علماء کونسل پاکستان قومی و ملی پلیٹ فارم ہے اس کی مضبوطی خود ہماری اپنی مضبوطی ہے ۔اس پلیٹ فارم کو کمزور کرنا خود اپنے آپ کو کمزور کرنا ہے ۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ولی امر مسلمین ،ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہٰ ای مدظلہ اور پاکستان میں ان کے نمائندہ قائد ملت جعفریہ،شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ  علامہ سید ساجد علی نقوی سے اپنے آپ کو مربوط رکھتے ہوئے مکمل ہم آہنگی،اخوت و وحدت،محبت ،حوصلے اور اسلامی جذبے کے تحت اس پلیٹ فارم پر ملت کے مسائل کے حل،مکتب تشیع اور عزاداری سیدالشہداؑ کے تحفظ اور پاکستان میں ملت جعفریہ کے حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھیں ۔ یقیناً خداوند تعالیٰ ہمارے ساتھ اور امام زمانہ ؑہمارے حامی و ناصر ہوں گے۔
شیعہ علماء کونسل پاکستان قومی و ملی پلیٹ فارم ہے اس کی مضبوطی خود ہماری اپنی مضبوطی ہے ۔اس پلیٹ فارم کو کمزور کرنا خود اپنے آپ کو کمزور کرنا ہے ۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ولی امر مسلمین ،ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہٰ ای مدظلہ اور پاکستان میں ان کے نمائندہ قائد ملت جعفریہ،شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ  علامہ سید ساجد علی نقوی سے اپنے آپ کو مربوط رکھتے ہوئے مکمل ہم آہنگی،اخوت و وحدت،محبت ،حوصلے اور اسلامی جذبے کے تحت اس پلیٹ فارم پر ملت کے مسائل کے حل،مکتب تشیع اور عزاداری سیدالشہداؑ کے تحفظ اور پاکستان میں ملت جعفریہ کے حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھیں ۔ یقیناً خداوند تعالیٰ ہمارے ساتھ اور امام زمانہ ؑہمارے حامی و ناصر ہوں گے <ref>امداد علی گھلو، شیعہ قومی پلیٹ فارم کی سیاسی فعالیت پر اجمالی نظر،2008ء،ص233۔</ref>۔
 
== پاکستان ایجوکیشنل کونسل ==
اسی چیز کے پیش نظرتحریک نے محسوس کیا تھا کہ قوم کا تعلیمی معیار حوصلہ افزاء نہیں ہے کیونکہ مقابلے کے امتحانات اور غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کے امیدوار بہت کم منظر عام پر آتے تھے۔ تحریک اس نتیجہ پر پہنچی کہ قوم کے بچوں کی بنیادی تعلیمی سطح کمزور ہے۔ چنانچہ  تحریک نے  اس اساس کو مستحکم کرنے کیلئے "اسلامک ایجوکیشنل کونسل" کے تحت  اکثریتی شیعہ آبادی والے علاقوں میں مقامی افراد سے رہنمائی لے کر ملت جعفریہ کو باعزت بنانے کیلئے ،قوم کو جہالت سے نکالنے کیلئے اور تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے۱۹۹۰ ء میں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کی ہدایت پر اسکولز قائم  کئے <ref>تحریک جعفریہ پاکستان، ۱۹۹۲ تا ۱۹۹۴ کارکردگی رپورٹ ص ۳</ref>۔
 
اسی ایجوکیشنل ادارے کا نام پہلے "اسلامک ایجوکیشنل کونسل" تھا جسے بعد میں قائد محترم کی ہدایت پر ایک آزاد اور غیر سیاسی ادارہ  "پاکستان ایجوکیشنل کونسل "کا نام دے دیا گیا <ref>انور علی آخونزادہ، تحریک جعفریہ پاکستان۔  تعارف ، کارکردگی  اور وضاحت  ص۱۰۔۱۱</ref>۔
 
یہی کونسل ملک کے دیگر شہروں کے علاوہ شمالی علاقہ جات میں بھی محروم اور پسماندہ عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصرو ف عمل ہے اس کونسل کے زیر انتظام مختلف تعلیمی اداروں کا قیام ،تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وظائف کا اجراء قومی زندگی کیلئے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
 
اسکولز کے قیام کے وقت تحریک کا بنیادی نظریہ تھا کہ اپنا پیغام پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ قوم تعلیم یافتہ ہو تاکہ وہ عہد حاضر کے تقاضوں کا صحیح ادراک کر سکے۔ اس کونسل کے جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں ان سب میں قرآن اور اسلامی کتب کی بھی تعلیم دی جاتی ہے  یہی وجہ ہے کہ جب یہاں کا اسٹوڈنٹ میٹرک پاس کرتا ہے  اور معاشرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ احکام شرعی سے بھی کافی حد تک  آگاہ ہو چکا ہوتا ہے۔ تحریک چاہتی تھی کہ تعلیم دینی ہو یا دنیوی  ملت کو ہر صورت میں اس طرح تعلیم یافتہ ہونا چاہیے کہ اس کی پہچان علم کے ساتھ ہو کیونکہ ملت جعفریہ  "باب العلم"کی پیرو ہے۔       
 
پاکستان ایجوکیشنل  کونسل کے زیر انتطام چلنے والے چندا سکولز کے نام درج ذیل ہیں:
{{کالم کی فہرست|3}}
* انڈس ماڈل سکول، میانوالی
*
* جناح پبلک سکول،  اٹک
*
* المصطفی ماڈل سکول، فیصل آباد
*
* المصطفی ماڈل سکول، چنیوٹ
*
* المصطفی ماڈل سکول شیعہ میانی ملتان
*
* المصطفی گرلز سکول  گون بلتستان
*
* المصطفی ہائر سیکنڈری سکول، سکردو
*
* الزہرا ماڈل سکول، غواری بلتستان
*
* الزہرا ماڈل سکول، کندس کرمنی بلتستان
*
* الزہرا ماڈل سکول، کوینس  بلتستان
*
* المصطفی پبلک سکول کندس بلتستان
*
* المصطفی پبلک سکول،  بغاردو بلتستان
*
* المصطفی پبلک سکول،  قمراہ بلتستان
*
* المصطفی پبلک سکول،  مہدی آباد بلتستان
*
* الزہرا ماڈل سکول، بغاردو بلتستان
*
* المصطفی پبلک سکول، سینو بلتستان
*
* المصطفی پبلک سکول،  کورو بلتستان
*
* المصطفی پبلک سکول، طورمک بلتستان
*
* المصطفی پبلک سکول، شوت  بلتستان
*
* العصر پبلک سکول،  قاسم آباد گلگت
*
* ٹیکنیکل سکول بھکر۔ <ref>پاکستان ایجوکیشنل کونسل ایک نظر میں  ص ۲۔۳</ref> 
*
* المصطفی کالج لاہور <ref>تحریک جعفریہ پاکستان ، ۱۹۹۲ تا ۱۹۹۴ کارکردگی رپورٹ  ص ۳</ref>۔
{{اختتام}}
 
یہ تمام ادارے تا حال موجود ہیں اور قائد ملت جعفریہ  کی رہنمائی میں  خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اس وقت  "پاکستان ایجوکیشنل کونسل" کی مسؤلیت جعفری صاحب کے پاس ہے۔ قائد ملت جعفریہ کی سرپرستی میں قائم انڈس ماڈل سکول ماڑی انڈس میں ضلع میانوالی کیلئے30 کنال اراضی خرید ی جا چکی ہے۔
واضح رہے کہ میں نے یہاں پہ 22 اسکولز کے نام دئےہیں لیکن قائد ملت جعفریہ پاکستان  علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب کا ایک انٹرویو میرے پاس ہے اس میں انہوں نے ٹوٹل تعداد 30 بتائی ہے  لیکن میں مذکورہ اسکولز تک ہی اطلاعات حاصل کر سکا <ref>امداد علی گھلو، پاکستان ایجوکیشنل کونسل،2015ء،ص230۔</ref>۔
 
== شبیر حسن میثمی سے صدر تحریک منہاج القرآن کی وفد کے ہمراہ ملاقات ==
علامہ شبیر حسن میثمی سے [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|زہرا (س) اکیڈمی]] کراچی میں صدر [[تحریک منہاج القرآن]] نے میں وفد کے ہمراہ ملاقات کی ہے۔‎
 
چیئرمین زہرا (س) اکیڈمی پاکستان و مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان شبیر حسن میثمی سے زہرا (س) اکیڈمی کراچی میں صدر [[تحریک منہاج القرآن]] مسعود احمد عثمانی نے میں وفد کے ہمراہ ملاقات کی۔‎
 
خصوصی رپورٹ کے مطابق چیئرمین زہرا(س) اکیڈمی پاکستان کے ساتھ ملاقات میں صدر تحریک منہاج القرآن مسعود احمد عثمانی، ڈپٹی سیکرٹری تحریک منہاج القرآن زاہد علی راجپوت اور عبدالصمد قاری شامل تھے۔
قابل ذکر ہے کہ اس ملاقات میں دونوں فریقوں کے درمیان مختلف اہم امور پر مفصل گفتگو ہوئی <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/396678/علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی سے صدر تحریک منہاج القرآن کی وفد کے ہمراہ ملاقات]hawzahnews.com،شائع شدہ از:16 فروری 2024ء-اخذ شده به تاریخ:28 فروری 2024ء۔</ref> ۔


۲۰۰۷ ء میں متحدہ  مجلس عمل میں جم
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{پاکستان}}
[[زمرہ:پاکستان]]
confirmed
2,364

ترامیم